شرح افراط زر میں کمی مگر اشیا کی قیمتیں بلندی پر
مانسون کے حالات بہتر نہ ہوئے تو خوردنی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا امکان
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
گزشتہ دنوں حکومت کی طرف سے خوردہ مہنگائی کے اعداد و شمار کے اعلان کے بعد ملک نے کچھ راحت کی سانس لی۔ کیونکہ ایک لمبے عرصے کے بعد ملک میں مہنگائی کم ہونی شروع ہوئی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مئی 2023میں خوردہ مہنگائی 4.25 فیصد درج کی گئی ہے جو گزشتہ سال 2022 میں 7.04 فیصد تھی۔ یہ صحیح ہے کہ جنوری 2023کے بعد سے ہی مہنگائی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ اس لیے حکومت نے مالی سال 2023-24 کے لیے شرح مہنگائی بالترتیب 5.1 فیصد اور 4.8 فیصد کا ہدف رکھا ہے۔ دراصل صارفین کو مہنگائی کی کمی کے اعداد و شمار سے کسی طرح کی دل چسپی نہیں ہوتی ہے مگر مہنگائی میں اضافے کے اعداد و شمار سے معیشت کے تئیں منفی نقطہ نظر پیدا ہوتا ہے کیونکہ معیشت پر پیش کردہ اعداد و شمار حساب و کتاب کی جادوگری رہ گئی ہے۔ ہمارے ملک کے ماہرین کو اعداد و شمار کے ہیر پھیر میں مہارت حاصل ہے۔ 2023 میں خوردہ مہنگائی جو 4.25 فیصد درج کی گئی ہے وہ اسی کا حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مئی میں محض سبزیاں اور خوردنی تیل کی قیمتیں ہی کم ہوئی ہیں جو بالترتیب 8.18 فیصد اور 16.0 تھی جبکہ گوشت اور مچھلی کی قیمتوں میں محض 1.29 فیصد کی کمی رہی۔ اب تو جون میں سبزیوں کی قیمتیں آسمان پر ہیں۔ اس کے علاوہ تمام اشیا کی قیمتیں زیادہ مہنگی ہوئی ہیں۔ گھریلو اشیا اور دوائیاں 6.25 مہنگائی ہوئی ہیں۔ کپڑا 6.64 فیصد، مٹھائیاں 6.36 فیصد، دودھ 8.9 فیصد اور دالیں 6.56 فیصد مہنگی ہوئی ہیں۔
ہمارے یہاں مہنگائی میں تنزلی کا سہرا آر بی آئی کی مانیٹری پالیسی کے سر بندھتا ہے۔ گزشتہ سال کورونا وبا اور روس۔یوکرین جنگ کی وجہ سے مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی تھی اور ڈالر کی مضبوطی سے روپے کی قیمت تنزلی کا شکار ہونے لگی تھی۔ نتیجتاً درآمدات مہنگے ہوتے گئے۔ اس لیے گزشتہ مالی سال میں چار دفعہ ریپوریٹ میں تبدیلی کرنی پڑی جس سے مالی رقیقیت میں کمی آئی اور انفرادی قوت عمل بھی کم ہوگئی۔ جس کا منفی اثر 2022-23 کی جی ڈی پی کے ڈیٹا میں مینوفیکچرنگ کی شرح نمو میں دیکھنے کو ملا جو محض 1.3 فیصد ہی رہا 2022-23 کی جی ڈی پی کے اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس دوران فی کس قوت عمل میں محض 2.8 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا۔ آر بی آئی کی سخت سود پالیسی کی وجہ سے رقیقیت میں کافی کمی ہوئی تھی۔ اس لیے موجودہ حالات میں خوردہ شرح مہنگائی بھی فی کس قوت عمل میں جزوی اضافہ سے منسلک معلوم ہوتی ہے۔ یہ ایک معمہ ہی ہے کہ 2012 سے صارفین کی خریداری کے مختلف بنیادوں کو اسٹینڈرڈ مان کر چلا جا رہا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں صارف کی ذہنی کیفیت میں کسی طرح کی تبدیلی آئی یا نہیں؟ قومی شماریات (این ایس او) کے ذریعے صارف کا قوت عمل کو مختلف بنیادوں کے پیمانوں کا تعین 2017-18 میں کیا جانا تھا جو اب تک نہیں ہو پایا ہے اور اسی وجہ سے آج ہم ایک دہائی قبل کے بنیادی پیمانوں کے ساتھ شرح مہنگائی کو ماپ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ مودی حکومت نے 2016 میں بھارتی معیشت میں شرح مہنگائی کے قبل از وقت تخمینہ اور اسے کنٹرول کرنے کے لیے آر بی آئی ایکٹ میں تبدیلی کرکے مانیٹری پالیسی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا تھا اور اسی ضابطہ کے تحت مرکزی بینک کو شرح مہنگائی کو چار فیصد تک محدود رکھنا تھا مگر مختلف گھریلو اور عالمی معاشی حالت کی وجہ سے اس کی شرح نمو میں دو فیصد کی کمی و بیشی کی گنجائش رکھی گئی ہے۔
شرح مہنگائی میں تیزی سے لوگوں نے کھپت پر توجہ کم کردی ہے جس سے نجی کھپت پر بڑا برا اثر پڑا ہے جس کا خمیازہ کارپوریٹ کے سیس کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نجی سرمایہ کاری میں کمی نظر آرہی ہے۔ آر بی آئی کی طرف سے جاری کردہ بلیٹن میں یہ باتیں درج کی گئی ہیں۔ آر بی جے پی کے ڈپٹی گورنر مائیکل دیب برت پاترا کی رہنمائی والی ٹیم نے آر بی آئی کے ایک بلیٹن کے مضمون میں اسکا ذکر کیا ہے۔ اس مضمون میں کہا گیا ہے کہ مہنگائی کو کم کیا جانا ضروری ہے جس سے صارفین کے ذریعے کیے گئے اخراجات کو بڑھانے میں مدد ملے گی اور کارپوریٹر ریونیو کے ساتھ ان کے منافع کو بڑھایا جاسکے گا۔ آر بی آئی کے اس بلیٹن میں کہا گیا ہے کہ حالیہ جاری کردہ معاشی اعداد و شمار اور کمپنیوں کے نتائج گو ایک ساتھ جمع کرکے دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ نجی صرف میں کیے جانے والے خرچ میں تنزلی آئی ہے جس سے کمپنیوں کے سیلس کم ہو رہے ہیں اور کیپسیٹی کریئشین میں بھی سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے۔ بلیٹن کے مضمون کے مطابق عالمی پیمانہ پر جہاں بھارت جیسی معیشتیں پھر سے زور پکڑ رہی ہیں، وہیں چند ممالک میں سستی یا گراوٹ کی حالت بنی ہوئی ہے۔ بہرحال راحت کی بات ہے کہ اپریل۔مئی میں مہنگائی کے تعلق سے اچھی خبر ضرور سامنے آئی ہے۔ مئی میں غذائی مہنگائی میں تخفیف کی وجہ سے خوردہ مہنگائی کم ہوکر4.25 فیصد پر آگئی ہے۔ اس کے بعد مانیٹری پالیسی کی میٹنگ میں شرح سود کے تعلق سے اچھی خبر کی توقع کی جارہی ہے۔
مئی میں شائع شدہ مہنگائی کے اعداد و شمار کی اشاعت کے بعد اسی ماہ میں مہنگائی پانچ فیصد کم رہنے کی توقع ہے۔ مگر ماہرین معاشایات کا ماننا ہے کہ اگلے مہینے میں شرح مہنگائی پھر بڑھے گی۔ دراصل خوردنی اشیا کی مہنگائی امسال کے نصف میں خراب مانسون کے حالات پر منحصر کرے گی۔ مانسون کے حالات جس کے اثرات خریف فصلوں کی پیداوار اور ربیع کی بوائی کے اثرات سے اناج کی پیداوار اور خوردنی اشیا کی مہنگائی پر ہونا لازمی ہے، اس لیے سی پی آئی انفلیشن میں 4تا 5.7کا اضافہ اگلے ماہ ممکن ہے۔ ICRA کی چیف اکانومسٹ ادیتی نائر نے یہ بات کہی۔ اس کے علاوہ کوریا، ایم ڈی اور ای ایم ہیڈ (ایکس چائنا) اکونومکس بارکلیز نے کہا کہ دالیں اور اناج کی قیمتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور خوردنی تیل کی قیمتیں درآمداتی قیمت میں کمی کی وجہ سے کچھ کم ہوئی ہے۔ چینی کی قیمتیں عالمی حالات کی وجہ سے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ خوردنی اشیا کی قیمتیں موسمی حالات پر انحصار کرتی ہیں لیکن سال در سال کی بنیاد پر مالی سال کی بنیاد پر مالی سال 2024 کے دوسرے نصف میں قیمتیں مزید بڑھیں گی۔
***
***
ماہرین معاشایات کا ماننا ہے کہ اگلے مہینے میں شرح مہنگائی پھر بڑھے گی۔ دراصل خوردنی اشیا کی مہنگائی امسال کے نصف میں خراب مانسون کے حالات پر منحصر کرے گی۔ مانسون کے حالات جس کے اثرات خریف فصلوں کی پیداوار اور ربیع کی بوائی کے اثرات سے اناج کی پیداوار اور خوردنی اشیا کی مہنگائی پر ہونا لازمی ہے، اس لیے سی پی آئی انفلیشن میں 4تا 5.7کا اضافہ اگلے ماہ ممکن ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023