شعبہ خواتین، جماعت اسلامی ہند کی ملک گیر مہم ’’اخلاقی محاسن حقیقی آزادی کے ضامن‘‘

اخلاقیات سے عاری بے لگام آزادی دنیا میں بگاڑ اور فساد کا سبب

محمد مجیب الاعلیٰ

بڑھتی ہوئی جنسی بے راہ روی، مغربی تہذیب کی نقالی اور بگڑتے ہوئے خاندانی نظام پر روک لگانے کی ضرورت
اسلامی اخلاقیات کو اجاگر کیا جائے گا۔ ملک گیر مہم کی کنوینر آسیہ تسنیم سے انٹرویو
شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند کی جانب سے یکم تا 30؍ ستمبر 2024 ’’اخلاقی محاسن آزادی کے ضامن‘‘ کے زیر عنوان ایک ملک گیر مہم منائی جارہی ہے، جس کا مقصد موجودہ دور میں اخلاقی اقدار کی بحالی اور حقیقی آزادی کے تصور کو فروغ دینا ہے۔ مہم کے دوران معاشرے میں بڑھتی ہوئی جنسی بے راہ روی، مغربی تہذیب کی نقالی اور خاندانی نظام کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ ہم نے اس مہم کے تعارف،اغراض و مقاصد، طریقہ کار اور متوقع نتائج کے بارے میں نیشنل اسسٹنٹ سکریٹری، جماعت اسلامی ہند، شعبہ خواتین محترمہ آسیہ تسنیم سے بات چیت کی ہے جس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
مہم کے عنوان کی وضاحت کرتے ہوئے محترمہ آسیہ تسنیم نے بتایا کہ ’’اخلاقی محاسن آزادی کے ضامن‘‘ ایک جامع عنوان ہے، جس پر ایک ملک گیر مہم ماہ ستمبر میں جماعت اسلامی ہند، شعبہ خواتین کی جانب سے منظم کی جا رہی ہے۔ موجودہ دور میں انسان خود مختار اور آزاد رہنا چاہتا ہے، اور ان ہی تصورات نے فیمینزم (نسائیت) کو وجود بخشا ہے۔ آزادی انسان کا بنیادی حق ہے۔ انسان ایک سماجی حیوان ہے لیکن اس کی بے قید آزادی سے دوسرے لوگوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔ خالق کائنات نے انسان کو وجود بخشا تو اسے ارادہ و اختیار کی آزادی کے ساتھ کچھ حدود بھی مقرر فرمائے اور اسے اخلاقی حدود کا پابند بنایا ہے۔ آج آزادی کے حصول کی چاہ میں ان حدود کو توڑنے کی وجہ سے دنیا میں اخلاقی بگاڑ اور فساد پیدا ہوا ہے۔
اس مہم کے ذریعے بنیادی طور پر اسلامی اخلاقیات کو اجاگر کیا جائے گا جن میں حیا، صداقت، عدل، صبر اور امانت شامل ہیں۔ یہ وہ اخلاقی قدریں ہیں جو فرد کی ذاتی اور اجتماعی زندگی کو پاکیزہ بناتی ہیں۔
اس مہم کا مقصد فرد کو اس آزادی کی طرف راغب کرنا ہے جو اللہ کی بندگی کے تابع فرمان ہے۔ آج کل جو آزادی کا تصور پیش کیا جاتا ہے وہ بے لگام آزادی ہے جو انسان کو اپنے نفس کا غلام اور شتربے مہار بناتی ہے۔ حقیقی آزادی وہی ہے جو انسان کو ہر قسم کی ذہنی، فکری اور سماجی غلامی سے آزاد کرے، اور وہ صرف اللہ کی بندگی میں ہی ممکن ہے۔
مہم کا بنیادی مقصد کیا ہے اور اس کی نوعیت و طریقہ کار کیا ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا ’’اس مہم کے تین اہم مقاصد ہیں:
1) ہندوستانی سماج کو مخاطب کرنا اور ان کو مغربی کلچر کی تباہ کاریوں اور اباحیت پسندی کے نقصانات سے آگاہ کرنا
2) ملت کے اندر شعور بیدار کرنا کہ مغربی تقلید کی وجہ سے ہم اپنے دینی اقدار اور اخلاقی روایات کو کھو رہے ہیں اور
3) اپنے کیڈر کو اخلاقی طور پر اس بلند معیار پر لانا تاکہ ایک صالح معاشرہ تشکیل پائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مختلف ماہرین اور مذہبی شخصیتوں کے ساتھ انٹرویوز، ویبینارز، انٹرفیتھ ڈائیلاگ، پینل ڈسکشنز، پوسٹرز، ریلز، ڈاکیومنٹریز اور دیگر سرگرمیاں انجام دی جائیں گی۔اس طرح عوامی رابطہ کے ذریعے ہم یہ پیغام دیں گے کہ معاشرتی ترقی کا دارومدار اخلاقی قدروں پر ہے۔
اس سوال پر کہ اگر فرد بہترین اخلاق سے آراستہ ہو جائے لیکن ذہنی و فکری غلامی میں مبتلا ہو تو کیا یہ وہ آزادی ہوگی جس کی بات کی جا رہی ہے؟ محترمہ آسیہ تسنیم نے کہا ’’یہی وہ اہم نکتہ ہے جسے ہم اس مہم کے ذریعے واضح کرنا چاہتے ہیں۔ انسان کی حقیقی آزادی اسی میں ہے کہ وہ ہر قسم کی ذہنی غلامی سے آزاد ہو۔ مغربی تہذیب نے انسان کو نفس کا غلام بنا دیا ہے اور مادہ پرستی نے تعیشات کا غلام بنا دیا۔ اگر ہمارے اذہان ان غلامیوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں تو اخلاق چاہے کتنے ہی بہتر ہوں، وہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتے۔ اس مہم کا مقصد ایمان کی پختگی اور اخلاقی اصولوں کی پیروی کے ذریعے حقیقی آزادی کی طرف بلانا ہے۔یہ مہم اسی بات پر زور دیتی ہے کہ انسان کو ہر قسم کی غلامی سے، چاہے وہ فکری ہو یا سماجی، آزاد ہونا چاہیے۔ بہترین اخلاقیات تب ہی حقیقی اثرات پیدا کر سکتے ہیں جب انسان ذہنی اور فکری طور پر آزاد ہو۔ مغربی تہذیب نے ہمیں مختلف طریقوں سے غلام بنا دیا ہے، اور اسی غلامی سے نجات حاصل کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ حقیقی آزادی وہی ہے جو انسان کو اللہ کی بندگی کے دائرے میں رکھتے ہوئے ہر قسم کی ذہنی غلامی سے آزاد کرے۔
موجودہ دور میں اخلاقی اصولوں کی پامالی کے کیا اثرات ہیں، خاص طور پر نوجوان نسل پر اس کے کیا اثرات پڑرہے ہیں؟ اس بارے میں جماعت اسلامی ہند کی نیشنل سکریٹری نے بتایا ’’موجودہ دور میں نوجوانوں میں جنسی بے راہ روی کا مشاہدہ ہر روز ہوتا ہے۔ اسلام نے حیا، حجاب، نگاہوں کی حفاظت اور دیگر اخلاقی اقدار کے ذریعے ایک بہترین معاشرتی نظام کے قیام کی بنیادیں فراہم کیں ہیں، لیکن اسے نظر انداز کر کے جدید تہذیب کی نقالی میں اخلاقیات کو پامال کیا جا رہا ہے۔ اور اسی کے نتیجے میں لڑکیوں کے بے حجاب اور بے باک ہوجانے، آزادانہ اختلاط اور جنسی ہراسانیوں کے واقعات عام ہو گئے ہیں۔ نوجوانوں کی اخلاقی گراوٹ معاشرے کے لیے ایک خطرناک علامت ہے جس کا فوری طور پر تدارک کرنا ضروری ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا آپ کے خیال میں حکومتیں آزادی کے نام پر کچھ غیر اخلاقی کاموں کی قانونی حمایت کر رہی ہیں؟ اگر ہاں، تو ان کے اثرات کیا مرتب ہوں گے؟ انہوں نے کہا ’’جی ہاں، موجودہ دور کی حکومتیں آزادی کے نام پر بعض غیر اخلاقی کاموں کی قانونی حمایت کر رہی ہیں، جیسے ہم جنس پرستی، آزادانہ تعلقات اور مذہبی آزادی کی آڑ میں مذہب بے زاری۔ یہ اقدامات معاشرتی اور اخلاقی نظام کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس غیر اخلاقی حمایت سے خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے اور معاشرتی بگاڑ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ قوانین دراصل انسانی فطرت اور مذہبی تعلیمات کے خلاف ہیں، جو سماجی تانے بانے کو کمزور کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا ’’اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور اس کے عائلی قوانین بہترین اصولوں پر مبنی ہیں۔ غیر اخلاقی طریقوں کی قانونی حمایت نے اخلاق باختگی اور خاندانی نظام کی بنیادوں کو کمزور کیا ہے۔ لیو ان ریلیشن شپ، ہم جنس پرستی، اور بین المذاہب شادیوں نے مذہب کے تصور اور اخلاقی قدروں کو بے معنی کر دیا ہے‘‘
اس سوال پر کہ اسلامی اقدار اور عصری آزادی کے تصورات میں کیا فرق ہے، اور کیا ان دونوں کے درمیان ہم آہنگی ممکن ہے؟ انہوں نے کہا ’’ اسلامی اقدار کی بنیاد مذہب اور عقیدہ پر ہے، جبکہ عصری آزادی کی بنیاد مذہب بے زاری اور الحاد پر ہے۔ اسلامی اخلاقی نظام میں ہر عمل اللہ کی بندگی کے عہد اور آخرت پر ایمان کے تحت ہوتا ہے۔ جبکہ عصری آزادی میں انسان اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے اور زندگی کے ہر لمحے کو لذتوں میں غرق کرنے کو ہی اپنی معراج سمجھتا ہے۔ ان دونوں میں کسی طرح کی ہم آہنگی ممکن نہیں ہے‘‘۔
اخلاقی اقدار کی تعلیم و ترویج کے لیے، خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیا عملی اقدام کیے جاسکتے ہیں؟ اس سے سوال پر محترم آسیہ تسنیم نے کہا ’’تعلیمی اداروں میں اخلاقی اقدار کی تعلیم و ترویج کے لیے نصاب میں اسلامی اخلاقیات کو شامل کیا جانا چاہیے۔ اساتذہ کو اخلاقی تربیت دی جائے تاکہ وہ طلباء کو صرف علمی تعلیم ہی نہ دیں بلکہ اخلاقی تربیت بھی فراہم کریں۔ والدین اور اساتذہ کے درمیان مسلسل رابطہ ہو تاکہ بچوں کی اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دی جا سکے۔ قرآن کی تعلیمات کو بچوں کے نصاب کا حصہ بنانا چاہیے اور اساتذہ کو بھی ایسی تربیت دی جائے کہ وہ بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کریں۔ مساجد میں خطبات کا ایسا اہتمام ہو جس میں نوجوانوں سے اپیل ہو۔ نیز، ان کے لیے تربیتی پروگرام منعقد کیے جائیں جو ان کے دلوں میں ایمان کی گرمی پیدا کریں اور انہیں اسلامی اخلاقیات پر عمل پیرا ہونے پر آمادہ کریں۔‘‘
کیا آپ کے خیال میں سوشل میڈیا اور جدید ٹکنالوجی اخلاقی اقدار کی پامالی میں رول ادا کر رہے ہیں؟ اس سوال پر انہوں نے کہا ’’سوشل میڈیا اور جدید ٹکنالوجی نے اخلاقی اقدار کی پامالی میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ آج کل فحش مواد اور غیر اخلاقی مواد کی آسانی سے دستیابی نے نوجوان نسل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے ذریعہ پھیلنے والا مواد اکثر نوجوانوں کو غلط راستے پر ڈال دیتا ہے، اور ان کے دل و دماغ پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ہمیں نوجوانوں کو سوشل میڈیا کا مثبت استعمال سکھانا چاہیے اور اس بات کی ترغیب دینی چاہیے کہ ہم ان پلیٹ فارموں کو تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ اس مہم کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل کو سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچایا جائے اور انہیں اخلاقی تعلیمات کے راستے پر گامزن کیا جائے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی میں ہر قسم کا مواد دستیاب ہے، جس سے اخلاقی اقدار کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارا کردار اس حد تک پست ہو گیا ہے کہ ہم نے ان وسائل سے خود اپنے اخلاق پامال کر لیے ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ جو مواد ہم دیکھتے اور فارورڈ کرتے ہیں، وہ ہماری شخصیت اور اخلاق پر کیسے اثر انداز ہو رہا ہے‘‘
مہم کے متوقع نتائج اور کامیابی کی صورت میں آپ کس طرح کی تبدیلیاں دیکھنے کی امید رکھتی ہیں؟ اس سوال پر محترمہ آسیہ تسنیم نے کہا ’’اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ یہ مہم کامیابی سے ہم کنار ہو گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ہماری سرگرمیاں رائے عامہ میں مثبت تبدیلی کا باعث بنیں، ہندوستانی سماج میں حقیقی آزادی کا تصور واضح ہو اور ملت اسلامی اقدار سے آراستہ ہو کر نئی بلندیوں کو چھوئے۔ شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند کا خواب وہ تبدیلی دیکھنا ہے کہ لوگ ہر طرح کی غلامی سے آزاد ہو کر اپنے خالق و مالک اللہ رب العالمین کی غلامی میں آ جائیں کیوں کہ اسی میں ان کی بھلائی ہے اسی میں ان کی نجات ہے۔
***

 

***

 ’’اس مہم کے تین اہم مقاصد ہیں:
1) ہندوستانی سماج کو مخاطب کرنا اور ان کو مغربی کلچر کی تباہ کاریوں اور اباحیت پسندی کے نقصانات سے آگاہ کرنا
2) ملت کے اندر شعور بیدار کرنا کہ مغربی تقلید کی وجہ سے ہم اپنے دینی اقدار اور اخلاقی روایات کو کھو رہے ہیں اور
3) اپنے کیڈر کو اخلاقی طور پر اس بلند معیار پر لانا تاکہ ایک صالح معاشرہ تشکیل پائے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024