شرک اور مشرک
محمد عزیز الدین خالد، حیدرآباد
کیا بات ہے کہ انسان شرک کی طرف بہت جلدی مائل ہو جاتا ہے، کیا واقعی شرک میں انسان سکون پا سکتا ہے اور کیا واقعی شرک انسان کی فلاح و نجات کا باعث بن سکتا ہے؟ یا یہ حقیقت سے فرار اور برائیوں کی آماجگاہ ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو برادران وطن کو شرک میں غرق دیکھ کر ایک عام ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جب سے انسان نے شعور کی آنکھ کھولی ہے تب سے وہ شرک کا دامن گرفتہ رہا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام جن کو آدمِ ثانی کہا جاتا ہے ان کی قوم شرک میں ڈوبی ہوئی تھی۔ انہوں نے یغوث و نسر وغیرہ نام کے چند بت گھڑ رکھے تھے جن کی سیوا میں وہ لگے رہتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم بھی بتوں کی دلدادہ تھی۔ ان کے باپ کا تو بتوں کا بہت بڑا کاروبار تھا۔ اسی طرح دیگر پیغمبروں کی قومیں بھی شرک و بت پرستی میں ڈوبی ہوئی تھیں، یہاں تک کہ آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی قوم بھی بتوں کی محبت میں گرفتار تھی، حتیٰ کہ انہوں نے توحید کے مرکز کعبے میں تک بتوں کو رکھ چھوڑا تھا۔ یہ ان بستیوں کا حال ہے جہاں پیغمبروں کو بھیجا گیا تھا۔ جن بستیوں کے بارے میں نہیں معلوم کہ وہاں پیغمبر آئے تھے یا نہیں وہاں بھی شرک ہی کا بول بالا رہا۔ انہی میں سے ایک ہمارا ملک ہندوستان بھی ہے۔ معلوم تاریخ کے مطابق یہاں پانچ ہزار سال سے بت پرستی ہو رہی ہے۔ یہاں کا نظام انسانوں کے درمیان تفریق پر مبنی ہے یعنی کوئی پیدائشی طور پر اعلیٰ ہے تو کوئی ادنیٰ، کوئی اونچا ہے تو کوئی نیچا۔ لیکن اس کے باوجود بت پرستی پوری شان کے ساتھ جاری ہے۔ نچلی ذات والوں کو شکایت رہتی ہے کہ انہیں مندروں میں آنے نہیں دیا جاتا لیکن انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ جن بتوں کے آگے سجدہ ریز ہونا چاہتے ہیں وہ خود کتنے بے بس ہیں کہ نہ ان کو سن سکتے ہیں نہ ان کی کسی بات کا جواب دے سکتے ہیں! ان کی کوشش یہ تو ہوتی ہے کہ انہیں اعلیٰ ذات والوں کی طرح مندروں میں جا کر بتوں کی پوجا کرنے کی اجازت دی جائے لیکن جب ان کو اجازت نہیں ملتی تو وہ اس سے بہتر راستہ تلاش کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ اور تو اور خود توحید کا دم بھرنے والی قوم، مسلمانوں میں تک شرک راہ پا گیا ہے اور دھڑلّے سے مشرکانہ رسومات انجام دی جا رہی ہیں۔ اگرچہ کہ وہ بھی شرک سے نفرت ہی کرتے ہیں اور بت پرستی نہیں کرتے لیکن فوت شدہ انسانوں کی قبروں پر جا کر وہی کچھ کرتے ہیں جو مشرکین اپنے معبودوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ لوگ آخر ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کیوں وہ اپنے خالق و مالک کے آگے جھکنے کے بجائے بتوں کے آگے جھکنا پسند کرتے ہیں؟ کیوں انہیں اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی بجا لانے میں عار محسوس ہوتا ہے؟ حضرت نوح علیہ السلام نے قوم کے اسی رویے کو دیکھ کر کہا تھا:
مَا لَـكُمۡ لَا تَرۡجُوۡنَ لِلہ وَقَارًا (نوح:13)
ترجمہ: تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے لیے کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟
پھر انہوں نے اللہ سے عرض کیا:
قَالَ رَبِّ اِنِّىۡ دَعَوۡتُ قَوۡمِىۡ لَيۡلًا وَّنَهَارًا ۞ فَلَمۡ يَزِدۡهُمۡ دُعَآءِىۡۤ اِلَّا فِرَارًا ۞ (نوح:5-6)
ترجمہ: انہوں نے عرض کیا ”اے میرے رب، میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میری پکار نے ان کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔
لوگوں کے حق کی آواز پر کان نہ دھرنے اور اس سے منہ موڑنے کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں معلوم ہوتی کہ برے کاموں سے انہیں جو فوائد حاصل ہوتے ہیں، حق کو قبول کرنے کے نتیجے میں ان سے محروم ہونا پڑے گا۔ اس لیے وہ حق کو حق جاننے کے باوجود اس سے دور بھاگتے ہیں۔ چنانچہ شعیب علیہ السلام نے جب اپنی قوم سے کہا کہ:
وَيٰقَوۡمِ اَوۡفُوا الۡمِكۡيَالَ وَالۡمِيۡزَانَ بِالۡقِسۡطِ وَلَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡيَآءَهُمۡ وَلَا تَعۡثَوۡا فِى الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِيۡنَ ۞ بَقِيَّتُ اللّٰهِ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ ۚوَمَاۤ اَنَا عَلَيۡكُمۡ بِحَفِيۡظٍ ۞ (ھود:85-86)
اے برادران قوم، ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو۔ اور بہر حال میں تمہارے اوپر کوئی نگرانِ کار نہیں ہوں۔“
تو ان کی قوم نے پلٹ کر جواب دیا:
قَالُوۡا يٰشُعَيۡبُ اَصَلٰوتُكَ تَاۡمُرُكَ اَنۡ نَّتۡرُكَ مَا يَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوۡ اَنۡ نَّـفۡعَلَ فِىۡۤ اَمۡوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا ؕ اِنَّكَ لَاَنۡتَ الۡحَـلِيۡمُ الرَّشِيۡدُ ۞ (ھود:87)
ترجمہ: انہوں نے جواب دیا ”اے شعیب، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصّرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟ بس تُو ہی تو ایک عالی ظرف اور راستباز آدمی رہ گیا ہے!“
اس کے علاوہ لوگوں کے شرک کرنے کی ایک اور وجہ قرآن مجيد میں یہ بیان کی گئی کہ وہ کہتے ہیں کہ:
اَلَا لِلہ الدِّيۡنُ الۡخَالِصُ ؕ وَالَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءَ مَا نَعۡبُدُهُمۡ اِلَّا لِيُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَى اللٰهِ زُلۡفٰى ؕ اِنَّ اللٰهَ يَحۡكُمُ بَيۡنَهُمۡ فِىۡ مَا هُمۡ فِيۡهِ يَخۡتَلِفُوۡنَ ۗ اِنَّ اللٰهَ لَا يَهۡدِىۡ مَنۡ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ ۞ (الزمر:3)
ترجمہ:خبردار! دینِ خالص اللہ کا حق ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں (اور اپنے اِس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ) ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں۔ اللہ یقیناً ان کے درمیان ان تمام باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکرِ حق ہو۔
لوگوں کے درمیان ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو حق پرستوں کا ساتھ دینے کے بجائے ان کو شارٹ کٹ طریقے سے خدا تک رسائی کرانے کے طریقے سکھاتا ہے کہ تم بس یہ اور یہ کر لو تو تمہیں دنیا کا بھی نقصان نہیں ہوگا اور جس آخرت کا یہ لوگ بار بار تذکرہ کر رہے ہیں اگر وہ کبھی پیش آ بھی جائے تب بھی یہ معبود اور ہمارے بتائے ہوئے اعمال وہاں تمہیں بچا لیں گے۔ لوگوں کو یہ باتیں آسان معلوم ہوتی ہیں اور وہ آنکھیں بند کر کے ان کے بتائے ہوئے راستے پر قدم رکھ دیتے ہیں جو شرک کا راستہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے دل شرک کی طرف بہت جلد مائل ہوتے ہیں اور شرکیہ اعمال میں رغبت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اس میں سکون و آسودگی محسوس کرتے ہیں کیوں کہ اس میں انہیں فلاح و نجات کا راستہ دکھایا جاتا ہے دراں حالیکہ وہ سراسر گھاٹے و خُسران کا راستہ ہوتا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ شرک در حقیقت سب سے بڑا جھوٹ، سب سے بڑا دھوکا، سچائی سے فرار اور برائیوں کی سب سے بڑی آماجگاہ ہے۔ یہ چالاک انسانوں کا ایسا حربہ ہے جس کے ذریعہ سے ہر قسم کے دنیاوی فائدے سمیٹے جا سکتے ہیں۔ یہ شیطان کا ایسا جال ہے جس میں ہر وہ شخص آسانی سے پھنس جاتا ہے جو برائیوں کا خوگر ہو اور کسی بھی صورت میں انہیں چھوڑنا نہیں چاہتا۔ اسی لیے قرآن نے ابتداء ہی میں اعلان کر دیا کہ یہ ہے تو کتابِ ہدایت لیکن اس سے فائدہ صرف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو برائیوں سے دور رہنے والے اور متقی و پرہیز گار ہوں۔ رہے وہ لوگ جو دنیا کے فائدوں کو دانتوں سے پکڑے رکھتے ہیں اور کسی حال میں انہیں چھوڑنا نہیں چاہتے وہ شرک میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے چاہے وہ بت پرستی ہو یا خود پرستی:
اَرَءَيۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰٮهُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَكُوۡنُ عَلَيۡهِ وَكِيۡلًا (الفرقان:43)
ترجمہ: کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمّہ لے سکتے ہو؟
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 4 فروری تا 10 فروری 2024