شریعت اسلامیہ کی آفاقیت و جامعیت ہر زمانے کے لیے ہے
ایک اہم بحث کا مطالعہ علامہ یوسف القرضاویؒ کے افکار کی روشنی میں
انعام الحق قاسمی
ریسرچ اسکالر:ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ
عالم اسلام کی معروف علمی شخصیت علامہ ابو محمد یوسف عبداللہ القرضاویؒ کی تصانیف، خطبات و محاضرات اور فتاویٰ وغیرہ پر مشتمل ۱۰۵ جلدوں کا ’’موسوعۃ‘‘ اہل علم و فن اور مسلمانان عالم کے لیے ایک گراں قدرعلمی و دینی سرمایہ ہے۔موسوعہ کی تیسری جلد میں ایک اہم بحث ’’شریعۃ الاسلام صالحۃ للتطبیق فی کل زمان و مکان ‘‘شریعت اسلامیہ کی آفاقیت اور جامعیت سے متعلق ہے۔ذیل میں اسی کا مطالعہ پیش خدمت ہے۔
یہ مقالہ۱۹۲ صفحات پر مشتمل ہے، جسے موصوف نے ربیع الاول۱۳۹۲ ھ مطابق مئی ۱۹۷۲ءکو لیبیا کے شہر البیضاء میں ’’ندوۃ التشریع الاسلامی‘‘ کے اندر پیش کیا تھا ۔
علامہ موصوف مقالہ کے آغاز میں فرماتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں جدید استعماریت نے مسلمانوں کی زندگی پر خاصا اثر ڈالا ہے۔جس کی سب سے خطرناک شکل فکری اور ثقافتی یلغار ہے۔اس کا راست اثر نسل نو کے ذہن و دماغ پر پڑا ہے، بالخصوص ان پر جنہیں اسلامی ثقافت سے آشنا ہونے کا موقع نہیں ملا۔ اس فکری یلغار کے نتیجہ میں بہت سے اسلامی تصورات کی جگہ مغربی تصورات نے لے لی۔ جن اقدار اور نظریات کو تبدیل نہ کر سکے وہ شکوک و شبہات اور ابہام کا شکار ہوگئے، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کامذہب پر سے اعتماد ختم ہو گیا اور وہ اپنے دشمنوں کے لیےنرم چارہ بن گئے۔
جدید استعماریت نے اپنے مشنریز،اپنے فلسفے اور پرفریب تہذیب کے ذریعے جو خیالات پروان چڑھائے، ان میں سے ایک یہ ہےکہ اسلامی قانون ایک پرانا قانون ہے، جو اس دور کے لیے موزوں نہیں ہےاور وہ نئے طرزِ زندگی کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی اہلیت نہیں رکھتاہے۔اسلامی قوانین چودہ صدی پرانے ہیں اور ہوائی جہاز کے دور کے لیے اونٹ کے دور کا قانون غیر معقول ہے۔
اس مقالے کے تین اجزا ء ہیں:
پہلے جزو میں اس بات کے دلائل پیش کیے گئے ہیں کہ اسلامی قوانین کا اطلاق زمان و مکان کی قید سے ماورا ہر ایک پر ہو سکتا ہے۔ دوسرے جزو میں نئے مسائل کو حل کرنے کے لیے اجتہاد کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے اجتہاد کا مفہوم بھی واضح کیا گیاہے۔ اسی طرح فقہی ورثہ، نصوص کی تفہیم اور نئے مسائل پر شیخ نے اپنا موقف بیان کیا ہے۔تیسرا جزو عملی شرائط کے بارے میں ہے،شریعت کومختلف قانونی پہلوؤں میں لاگو کرتے وقت جن کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔
شیخ قرضاوی شہادت الوحی کے تحت لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون اپنے علم و مرضی سے اپنے نبی ﷺ پر نازل فرمایا؛ تاکہ اس کے ذریعے سے زمین پر عدل و انصاف قائم کیا جا سکے اور بندے دنیا و آخرت کے مفادات کو حاصل کرسکیں۔ خداتعالیٰ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ محمد ﷺ سے قبل کے رسولوں کے قوانین محدود ہوں، وہ مخصوص لوگوں کے لیے ایک خاص وقت تک کےلیے ہوں اور یہ حکمت کے عین مطابق تھا۔بعثت نبوی سے قبل انسانیت اس حالت میں نہیں تھی جو اسے لافانی قانون کو قبول کرنے کی اجازت دیتی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے ان مقدس مآخذ کو نقصان اور تحریف سے محفوظ رکھنے کی ضمانت نہیں دی اور نہ ہی اس بات کی ضمانت دی کہ وہ ہر نسل میں اس کی کتاب کو محفوظ رکھنے، اس کے پیغمبر کی وراثت کو بچانے اور اس کے دین کی تجدید کے لیے کسی کو مبعوث کرے گا؛ بلکہ یہ ضمانت صرف قرآن کو ملی۔
جب انسانیت اپنے آخری مرحلے کو پہنچ گئی اور اس پر آخری پیغام بھیجنے کا وقت آگیا تو اس نے سرورکائنات ﷺ کو سارے جہان کے لیے رحمت اور تمام انسانوں کے لیے اپنا رسول بنا کرمبعوث کیا۔جیسا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا:’’وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ اِلَّا رَحۡمَةً لِّـلۡعٰلَمِيۡن‘‘[الانبیاء:۱۰۷]اور’’تبٰـرَكَ الَّذِىۡ نَزَّلَ الۡـفُرۡقَانَ عَلٰى عَبۡدِهٖ لِيَكُوۡنَ لِلۡعٰلَمِيۡنَ نَذِيۡرَا‘‘[الفرقان:۱] اسی طرح آپ نے اپنے پیغام کی خصوصیات اور اللہ تعالیٰ کے انعام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں ۔ اس میں کہا گیا ہے:تمام انبیاء کو خاص طور پر اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا تھا اور مجھے ساری انسانیت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس عمومیت کا تقاضا ہے کہ یہ پیغام یا قانون ہر انسان، ہر ماحول اور ہر جگہ کے لیے درست ہو۔
شریعت کی راہ میں درپیش دو تاریخی رکاوٹیں
اس موضوع سے متعلق صاحب موسوعہ نے واضح کیا ہے کہ نو آبادیاتی نظام کے تسلط سے قبل مسلمانوں کی پوری تاریخ میں قانون سازی اور فیصلے کا واحد ذریعہ شریعت ہی تھی، مگر دو غیر اسلامی تصور نے اسلامی معاشرے میں اس کے مطلوبہ ثمرات کو حاصل کرنے سے مکمل طور پر روک دیا:
(۱) سیاسی انحراف یعنی امراء کے مظالم، حکومت اور دولت کی لالچ اور احکام خداوندی سے انحراف۔
(۲) فقہی جمود یعنی یہ تصور کہ اب اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا ہے، کسی خاص نظریے کی تقلید اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے، قاضی، مفتی یا فقیہ کو اس سے آگے بڑھنے کا اختیار نہیں ہے۔
بلاشبہ قانونی یا سماجی نظام کے ساتھ سب سے زیادہ خراب چیز یہ ہے کہ اس سے وابستہ افراد خیانت یا غلط فہمی کا شکار ہو جائیں، تو پھر اگر لوگ دونوں ہی (سیاسی انحراف اور فقہی جمود) میں مبتلا ہو ں تو کیا ہوگا؟
اجتہاد کی ضرورت
حالات معاشی، سماجی، سیاسی، تہذیبی اور ادبی ہر پہلو سے بدل چکے ہیں؟ ہم اپنے قدیم فقہی ورثہ سے اس بدلتے ہوئے حالات کا کیسے ساتھ دے سکتے ہیں؟ اور یہ شریعت جو آج سے ساڑھے چودہ سو برس قبل کے لوگوں کے لیے آئی ہے، ہمارے اس ترقی یافتہ دور کے لیے کس طرح موزوں ہے؟
ان جیسے اعتراضات پر گفتگو کرتے ہوئے موصوف اس جانب توجہ مبذول کراتے ہیں کہ ہماری ابدی شریعت ترقی کا مقابلہ کرنے، اپنے زمانے کے مسائل کو حل کرنے اور خدا کی ہدایت وبصیرت کے ساتھ راہ نمائی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اس صلاحیت کا جوہر دیکھنے کے لیے سب سے پہلے ان شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے۔ جو ہم پر لاگو کیے گئے ہیں:
ان شرائط میں سے پہلی اور اہم ترین شرط یہ ہے کہ بطور خاص قانون سازی کے حوالہ سے دوبارہ اجتہاد کا دروازہ ان لوگوں کے لیے کھولا جائے جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں اور قوم کو پیش روؤں کی اندھی اتباع اور فرقہ وارانہ جنون سے آزاد کیا جائے۔ ہمارے پاس قرآن و سنت کی کوئی ایسی عبارت نہیں ہے جو ہمیں کسی خاص فقہی مکتب فکر پر عمل کرنے کا پابند کرتی ہو، بلکہ خود ائمہ کے اقوال اس جامد تقلید سے روکتے ہیں۔
امام قرضاوی نے امام مالکؒ کے کچھ اقوال جیسے:’’ كل أحد يؤخذ من قوله ويترك إلا النبي‘‘ اورط’’لا يصلح آخر هذه الأمة إلابماصلح به أولها‘‘ وغیرہ نقل فرماکر کہتے ہیں کہ ہم یقین سے جانتے ہیں کہ اس قوم کے پہلے لوگ تقلید نہیں کرتے تھے؛ بلکہ ان کے علماء قرآن و سنت سے براہ راست رابطہ رکھتے تھے اور اجتہاد سے کام لیا کرتے تھے اور عام لوگ علماء میں سے جس سے چاہتے تھے، رجوع کرتے تھے۔
اجتہاد کا مفہوم
علامہ قرضاوی نے اجتہاد کے معنی و مطلب کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ مبالغہ آرائی کرنے والے لوگ تقریباً ہر زمانے میں مکمل فقہی سرمایے کے خاتمے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور از سر نو شریعت کی طرف واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ امام قرضاوی اجتہاد سے یہ مراد لیتے ہیں:
۱۔ مختلف فقہی سرمایوں، آثار و اقوال صحابہ و تابعین میں نظر ثانی کی جائے اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ان رایوں کو ترجیح دی جائے جو مقاصد شریعت سے ہم آہنگ ہوں۔
۲۔ مقاصد شریعت کی روشنی میں قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ کیا جائے۔
۳۔ ان پیش آمدہ مسائل میں شرعی دلائل کی روشنی میں حل تلاش کرنا جو مسائل قدیم فقہا کے یہاں زیر بحث نہیں آئے اور جو صرف ہمارے اس ترقی یافتہ دور کی ایجاد ہیں۔
اگلی بحث میں علامہ موصوف نے اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے کہ کسی ایک امام کی تقلید کے بجائے ہمیں فقہی سرمایوں سے راجح اور مقاصد شریعت سے قریب تر مسائل اخذ کرنا چاہیے، صرف نظر اس سے کہ وہ کس امام کا قول یا فتویٰ ہے۔ چنانچہ وہ امام قرافی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ تمام اجتہادی احکام پر عمل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی مستند علما کے جاری کردہ تمام فتاویٰ کی تقلید جائز ہے؛ کیوں کہ ہر مسلک و مذہب میں کچھ ایسے بھی مسائل پائے جاتے ہیں جو تحقیق کے بعد ناقابل عمل ثابت ہوجاتے ہیں۔
فقہی سرمایے پر نظرثانی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں: ہمارے زمانے کے فقہا کو اجتہادی احکام کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے اور انہیں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔ یہ بات یقینی ہے کہ فقہی سرمایہ میں بہت سے ایسے اجتہادی احکام ہیں، جن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ فقہی احکام سے متعلق اس بات پر اجماع ہے کہ ضعیف احادیث کو احکام میں استعمال نہ کیا جائے، اس لیے سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ حکم جس متن پر مبنی ہے وہ ثابت ہو۔ اگر ہم پر یہ واضح ہو جائے کہ وہ حدیث جس پر فقہی حکم ہے وہ اپنی سند کے اعتبار سے ثابت نہیں ہے تو ہم اس حکم پر عمل کرنے سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور ہمیں اس مسئلہ پر اصول، دیگر نصوص اور عمومی احکام کی روشنی میں غور کرنا چاہیے۔
شرعی نصوص کے بارے میں امام قرضاویؒ کا نقطۂ نظر
صحیح اجتہاد کے لیے قرآن و سنت سے رجوع ہمارے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے ۔ہمارے زمانے میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو محض نصوص کی طرف لوٹنے کی دعوت سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مقدس نصوص کی طرف لوٹنے کے نتیجہ میں انسان کی مفلوج فکر و اجتہاد سے خالی ہو جاتی ہے۔ اس میں کوئی تخلیقی صلاحیت نہیں رہ پاتی، یہ تصور اسلامی قانون اور اس کے نصوص کی نوعیت نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
اولاً: شرعی نصوص میں کلی امور شامل ہیں، ہاں بعض معاملات جیسے عبادات اور عائلی امور کے بارے میں ساری تفصیلات نصوص ہی میں درج ہیں، اس لیے اس میں مزید اجتہاد کی گنجائش نہیں رہ پاتی۔
ثانیاً: ان میں سے اکثر نصوص کے معانی ظنی ہیں، ان کی ایک سے زیادہ تفسیریں ممکن ہیں اور ایک سے زیادہ آراء کو قبول کیا جاتا ہے۔
نئے معاملات میں اجتہاد
اس عنوان کے تحت علامہ موصوف نے نئے مسائل میں اجتہاد کی ضرورت پر ابھارا ہے، وہ کہتے ہیں کہ عصر حاضر میں پیدا ہونے والے نئے مسائل میں اجتہاد، حالات و واقعات کا گہرائی سے جائزہ، شرعی دلائل کی روشنی میں ان مسائل کے لیے مناسب حکم نکالنا، ملت اسلامیہ کے عام افراد پر بالخصوص علماء پر فرض کفایہ ہے۔
حالات بہت بدل چکے ہیں اس وقت ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو گئے ہیں جسے ’’دوسرا صنعتی دور‘‘ کہا جاتا ہے۔ پہلے صنعتی دور کی نوعیت مشینوں کے لیے تھی، جب کہ دوسرے دور کا مشن الیکٹرانک ذہنوں کے ذریعے نوجوانوں کو دماغی امور کی ذمہ داری فراہم کرنا ہے۔ اس مسلسل ترقی کے نتیجے میں لوگوں کی زندگیوں میں نئے حقائق ظہور پذیر ہوتے ہیں جن کے لیے شرعی حکم درکار ہے اور یہی وہ موقع ہے جب ایک مجتہد کو اپنی اجتہادی قوت سے قرآن و سنت کی روشنی میں رہ نمائی فراہم کرتا ہے۔
مکمل طور پر اسلام کی طرف واپسی
ہمارے زمانے میں شرعی قانون کے نفاذ کے لیے اجتہاد پہلی شرط ہے۔ ترقی کا مقابلہ کرنے کے لیے نظریاتی صلاحیت کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر اجتہاد کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ شرعی قانون کو عملاً کامیاب بنانے کے لیے دیگر عملی شرائط کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔
اسلام کو مجموعی طور پر اختیار کرنے کا مطلب ہے کہ اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی کریں اور معاشرے کے تمام اداروں کی رہنمائی کریں۔ شرعی قانون کی رو سے خود مختار حکومت جائز نہیں، اسلام کو مکمل اپنا نے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم، ثقافت اور میڈیا اسلامی نظریات اور اقدار کے مطابق چلیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات ایک ناقابل تقسیم کلی ہیں، جو ایک دوسرے کی معاونت کرتی ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں، ان کے صرف بعض اجزاء کو اختیار کرنے اور دوسرے اجزاء کو یکسر نظر انداز کر دینے سے اس کے مکمل ثمرات سامنے نہیں آ سکتے، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ سامنے آئے گا کہ لوگوں کی زندگی ان کے امور و معاملات میں تنگی پیدا ہوگی اور اسلام جس متوازن نظام زندگی کا نفاذ چاہتا ہے، اس کے عملی مظاہر سامنے نہیں آ سکیں گے۔
مغرب پر انحصار سے آزادی
یہ اس کتاب کی اہم بحث ہے، جس میں موصوف نے مسلمانوں میں یہ فکر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ مغرب کا اپنا مذہب ہے اور ہمارا اپنا مذہب ہے، ہم اپنے مذہب کو کبھی بھی مغرب کے مذہب پر نہیں چھوڑ سکتے۔ مغرب کی اپنی تہذیب، ورثہ، فکر اور اقدار ہیں اور ہماری اپنی تہذیب، ورثہ، فکر اور اقدار ہیں اس لیے ہم کسی بھی پہلو سے مغرب کی پیروی کے پابند نہیں ہیں۔
ایسی قیادت جس میں لوگ اسلام کے انصاف، اسلام کی سچائی، اسلام کی عظمت اور اسلام کے مثبت پہلوؤں کا عملی نمونہ دیکھیں، ایسی صالح قیادت کی موجودگی شرعی قانون کی کامیابی کے لیے اور ہر زمانے اور ہر جگہ پر اس کے جواز کو ثابت کرنے کے لیے ایک لازمی ضرورت ہے۔
لہٰذا قیادت کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اولین فکر اس مسلم نسل کی پرورش کے لیے کرے جو شعوری طور پر اسلام پر یقین رکھتی ہے اور اسلامی ہدایات کو اپنی زندگی میں نافذ کرتی ہے۔
***
***
حالیہ دنوں میں جدید استعماریت نے مسلمانوں کی زندگی پر خاصا اثر ڈالا ہے۔جس کی سب سے خطرناک شکل فکری اور ثقافتی یلغار ہے۔اس کا راست اثر نسل نو کے ذہن و دماغ پر پڑا ہے، بالخصوص ان پر جنہیں اسلامی ثقافت سے آشنا ہونے کا موقع نہیں ملا۔ اس فکری یلغار کے نتیجہ میں بہت سے اسلامی تصورات کی جگہ مغربی تصورات نے لے لی۔ جن اقدار اور نظریات کو تبدیل نہ کر سکے وہ شکوک و شبہات اور ابہام کا شکار ہوگئے، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کامذہب پر سے اعتماد ختم ہو گیا اور وہ اپنے دشمنوں کے لیےنرم چارہ بن گئے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 دسمبر2023 تا 06 جنوری 2024