شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا
قدیم ایمرجنسی سے جدید ایمرجنسی تک سفر اور دروس واسباق
ڈاکٹر سلیم خان
2024 کے انتخابات میں فسطائی طاقتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ممکن مگر حکمت عملی ضروری
وطن عزیز کی موجودہ سیاسی صورتحال پر گفتگو سے قبل اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ فی الحال ملک میں ایک غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے۔ اس منظر نامہ کی قریب ترین مشابہت اندرا گاندھی کے ذریعہ نافذ کردہ ایمرجنسی سے ہونی چاہیے۔25 اور 26 جون 1975کی درمیانی شب میں اس وقت کے صدر فخرالدین علی احمد نے ایمرجنسی کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے اور اگلی صبح وزیر اعظم اندرا گاندھی نے آل انڈیا ریڈیو پر ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کردیا تھا۔ اس کے ساتھ بیشتر انسانی حقوق سلب کرلیے گئے۔ اس دھاندلی کو انتظامیہ کی کسل مندی کو دور کرنے اور بدعنوانی کے خاتمہ جیسے لنگڑے لولے جواز سے ڈھانپنے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ بچہ بچہ جانتا تھا کہ اگر الہ باد ہائی کورٹ کا فیصلہ اندرا گاندھی کے خلاف نہیں آتا تو اس طرح کی حماقت کا ارتکاب کبھی نہ کرتیں جس سے آگے چل کر انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ تمام گمراہ کن دعوؤں کے باوجود یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے اقتدارکو بچانے کے لیے وہ ایمرجنسی لگائی تھی اور موجودہ وزیر اعظم نے بھی اپنی جو غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کررکھی ہے اس کا مقصد بھی صرف اور صرف اپنی کرسی کو محفوظ رکھنا ہے۔ اس لیے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے ان کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
موجودہ ایمرجنسی سے مایوس ہونے والوں کو سابقہ ایمرجنسی کی تاریخ سے سبق لینا چاہیے۔ دو سال کی ایمرجنسی کے بعد اندرا گاندھی نے 18 جنوری 1977کو اچانک دو ماہ بعد ایوانِ پارلیمان کے انتخابات کا اعلان کرکے سب کو چونکا دیا تھا۔ بظاہر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیل سے نکلنے والے پریشان حال سیاسی رہنما اور منتشر حزب اختلاف وسائل سے لیس اندراگاندھی کے سامنے بہ آسانی پسپا ہوجائے گا لیکن موقع کی نزاکت کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے تمام ہی نظریات کے حاملین اپنے سارے اختلافات کو مٹاکر حکومتِ وقت کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔ یہ حسنِ اتفاق تھا جنتا پارٹی کے ساتھ اشتراکی بھی تھے سنگھ پریوار بھی تھا ۔ جماعتِ اسلامی ہند کی بھی اسے حمایت حاصل تھی اور شاہی امام بھی اس تحریک میں پیش پیش تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایک نہایت ہی کمزور نظر آنے والی نوزائیدہ جماعت نے وزیر اعظم مودی سے کہیں زیادہ طاقتور اندراگاندھی کے اقتدار کو اکھاڑ کر پھینک دیا تھا۔ 16 مارچ 1977 کو منعقد ہونےوالے انتخاب میں خود اندرا گاندھی اپنے ولی عہد بیٹے سنجے کے ساتھ الیکشن ہار گئیں ۔اس کے بعد 21 مارچ کو ایمرجنسی ختم ہوگئی۔
1977کے یہ چونکادینے والےانتخابی نتائج دراصل ایمرجنسی سے’ناراضگی‘سے پیدا ہونے والی’ جنتا لہر‘ کا نتیجہ تھا۔ اس نے نہ صرف کانگریس کا صفایا کر دیا بلکہ تین دہائی سے ملک پر حکومت کر نے والی پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا ۔25 جون 1975 سے 21 مارچ 1977 کے درمیان ایمرجنسی کے دوران شہری حقوق کو ختم کیے جانے کے خلاف لوک نائک جے پرکاش نارائن کی قیادت میں اٹھے طوفان میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بھی جڑ سے اکھاڑ دیا اور کانگریس کو عام انتخابات میں پہلی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سچ تو یہ ہے جنتا لہر پہلے چلی اور جنتا پارٹی انتخابات کے بعدعالمِ وجود میں آئی۔ تکنیکی طور سے بھارتیہ لوک دل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا گیا تھا ۔اندرا گاندھی کو عدالت میں شکست فاش سے دوچار کرنے والے راج نارائن نے اندرا گاندھی کی پشتینی سیٹ رائے بریلی میں انہیں پہلی بار شکست دے دی ۔ لوک دل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے راج نارائن ایک لاکھ 77 ہزار 719 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے جبکہ مسز گاندھی 1لاکھ 22 ہزار512 ووٹ لاکر الیکشن ہار گئیں ۔ یہی حال اندرا گاندھی کے چشم و چراغ سنجے گاندھی کاہوا جو امیٹھی میں شکست کھا گئے اور آگے چل کر وزیر اعظم بننے کا ان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔
ایمرجنسی کے خلاف کشمکش نے ایک ایسی نئی قیادت کو جنم دیا جس نے نہ صرف قومی سیاست کو متاثر کیا بلکہ وہ لوگ اقتدار کی چوٹی پر بھی پہنچے ۔ان میں چودھری چرن سنگھ اور چندرشیکھر تو وزیر اعظم بھی بنے ۔ اس کے علاوہ مرکزی وزراء کی تو بہت لمبی قطار تھی مثلاً لالو پرساد، چندر ، رام ولاس پاسوان، مدھولیمیے ، جارج فرنانڈیز ، کرپوری ٹھاکر، مرلی منوہر جوشی، رام مورتی، جنیشور مسر وغیرہ ۔ چونکانے والی بات یہ رہی کہ مستقبل کی سیاست کی شناخت میں ماہر مانے جانے والے جگ جیون رام اور ہیم وتی نندن بہوگنا نے لوک دل کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا تھا اور کامیاب ہوگئے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نئی اور دلیر قیادت سکون کی حالت میں نہیں بلکہ اضطراب کی کیفیت میں جنم لیتی ہے۔ انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں بھی یہی ہوا تھا اور دوسری بار ملک کے لوگ جبر واستبداد کے خلاف میدان میں اترے تو اسی کا اعادہ ہوا۔ اس وقت پورے ملک میں نعرہ گونج رہا تھا ’سنگھاسن کو خالی کرو اب جنتا آئی ہے‘ اور اندرا گاندھی کو اس کے آگے جھکنا پڑا تھا۔
چھٹے لوک سبھا الیکشن کےجملہ 542 سیٹوں میں سے کانگریس نے 492 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا جبکہ کانگریس (او) 19، سی پی آئی 91، سی پی ایم 53 اور لوک دل نے 405 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے ۔اس الیکشن میں لوک دل کو کل 41.32 فیصد ووٹ ملے تھے اور اس کے سب سے زیادہ 295 امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ کانگریس کو 34.52 فیصد ووٹ ملے اور اس کے 154 امیدوار انتخابات جیتے تھے ۔ سی پی آئی کا پہلے کے مقابلے میں ووٹ فیصد کم ہوا تھا اور اس کے سات امیدوار الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے . سی پی ایم کی پوزیشن ووٹ فیصد کے حساب سے پہلے مستحکم ہوئی تھی اور اسے 4.29 فیصد ووٹ ملے اور اس کے 22 امیدوار لوک سبھا پہنچنے میں کامیاب رہے تھے ۔ کانگریس (او) کو 1.72 فیصد ووٹ ملے اور اسے تین سیٹوں پر کامیابی ملی۔ ریاستی سطح کی پارٹیوں کو 8.80 فیصد ووٹ ملے اور وہ 49 مقامات پر منتخب ہوئے جبکہ آزاد امیدوار نے 5.50 فیصد ووٹ لاکر نو سیٹوں پر قبضہ کیا تھا۔یہ ملک کا ایک تاریخی انتخاب تھا اور اب اسے دوہرانے کا وقت آگیا ہے۔مذکورہ بالا اعدادو شمار گواہی دیتے ہیں کہ جب تبدیلی کی آندھی آتی ہے تو کس طرح بظاہر مضبوط نظر آنے والے خیمے کی طنابیں اکھڑ جاتی ہیں۔
مودی سرکار نے بھی اپنے مخالفین کو قوم دشمن قرار دے کر ان کی گرفتاری کو ملک کے مفاد میں ضروری قرار دےدیا ہے۔ ای ڈی، سی بی آئی اور دیگر سرکاری اداروں کی مدد سے حزب اختلاف کو بلیک میل کیا جارہا ہے۔ قومی ترقی کی آڑ میں سرکاری مشنری کا بے دریغ استعمال ہونے لگا۔ سرکاری دربار کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماوں پر بغاوت اور تشدد پھیلانے کا بے بنیاد الزام لگاکر گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس طرح مختلف دینی جماعتوں اور متضاد نظریات کے حامل سیاسی لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے یکجا ہوگئے۔ جدید ایمرجنسی اس معنیٰ میں پہلے والی سے زیادہ خطرناک ہےکہ وہ تو کم ازکم کچھ حدود و قیود کی پابند تھی یہاں تو حکومت بالکل شتر بے مہار کی مانند اپنی من مانی کررہی ہے۔سرکاری دہشت گردی سے عوام و خواص کے علاوہ عدلیہ تک کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جارہی ہےاور اس میں کامیابی بھی مل رہی ہے۔ بابری مسجد کے قضیہ میں کس طرح چیف جسٹس کو بلیک میل کرکے ایک غلط فیصلہ کروایا گیا اس سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔ بلقیس بانو کے خاندان کو قتل کرنے والے درندوں کوچھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان کی کھلے عام پذیرائی کی جاتی ہے اور مظلوموں کے حقوق کی خاطر لڑنے والی تیستا سیتلواد کو طرح طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ دہلی فساد کے مجرم کپل مشرا کو بچانے کی خاطر راتوں رات جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ کردیا جاتا ہے۔ چہار جانب لاقانونیت کا بول بالا ہے۔
گجرات کے بعد منی پور میں بھیانک فسادات ہوئے مگر ڈبل انجن سرکار بے حس بنی رہی۔ انتظامیہ تو بندۂ بے دام کی مانند کمال جانبداری کا مظاہرہ کررہا ہے ۔ای ڈی، سی بی آئی اور الیکشن کمیشن تک سب کے سب حکم راں جماعت کے پیادے بنا لیے گئے ہیں اور میڈیا سرکار سے سوال پوچھنے کے بجائے اس کے تلوے چاٹنے میں مصروف ہے۔ موجودہ حکومت چونکہ فسطائیت میں یقین رکھتی ہے ۔اس نظریہ کے حاملین کو ایک ایسے ویلن کی ضرورت ہوتی ہے جس کے خلاف نفرت پھیلاکر وہ اپنے پیروکاروں کا اپنا غلام بنائے رکھ سکیں۔ وہ اپنے ماننے والوں میں ایک خیالی دشمن کا خوف پیدا کرکے ان میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہے اور خود کو ان کا نام نہاد مسیحا بناکر پیش کرتی ہے۔ اس طرح وہ اپنی ہر نااہلی و ناکامی اور وعدہ خلافیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔اس حکومت کے شیدائی اس کے ذریعہ فراہم کردہ تحفظ پر ممنون و مشکور رہتے ہیں اور جس کے خلاف ان کے دل میں نفرت بھری جاتی ہے اس کو مارتے کاٹتے ہیں یا ان کی ایذارسانی پر خوش ہوتے ہیں ۔ سنگھی ذہنیت کے ماننے والوں کے ساتھ یہی ہورہا ہے۔
مودی سرکار نے اس ویلن کےطور پر چونکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو پیش کیا ہے اس لیے ان کو طرح طرح کی مشکلات میں مبتلا کرکے ہندو انتہاپسندوں کو خوش کیا جاتا ہے اور وہ اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے سرکار سے کوئی احتساب نہیں لیتے۔ اس طرح مہنگائی اوربیروزگاری جیسے محاذ پرہونے والی ناکامی پس پشت چلی جاتی ہے۔ یہ حکومت دراصل ایک طرف مسلمانوں اور عیسائیوں کا جسمانی اور معاشی استحصال کرتی ہے اور ہندوؤں کا جذباتی و معاشی استحصال کرکے اپنا اقتدارمضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے مظالم کا شکار ملک کے سارے لوگ ہیں فرق صرف کیفیت کا ہے یعنی کسی پر زیادہ تو کسی پر کم ظلم ہوتا ہے۔ بالواسطہ ہونے والا ظلم نظر آتا ہے اور بلاواسطہ ہونے والے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ حکومت سے اختلاف کرنے یا مخالفت و احتجاج کرنے کی سزا سبھی کوبلا تفریق مذہب و ملت ملتی ہے۔
اس کی ایک مثال بھیما کورے گاؤں کے بعدبرپا کیا جانے والا فسادہے۔ اس کا ارتکاب کرنے والے ملند ایکبوٹے اور بھیڈے گروجی کا بال بیکا نہیں ہوتا۔ اس کی ذمہ داری بے قصور اسٹین سوامی جیسے عدل و انصاف کی خاطر لڑنے والے سماجی کارکنان اور دانشوروں پر ڈال دی جاتی ہے۔ ان کو وزیر اعظم کے قتل کی سازش میں ملوث کردیا جاتا ہے جبکہ جسٹس لویا کے قاتلوں کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ اسی طرح دہلی فساد کی آڑ میں سی اے اے کی تحریک چلانے والوں پر نزلہ اتارا جاتا ہے اور ان پر این ایس اے جیسے قوانین کے تحت مقدمہ درج کرکے احتجاج و مظاہرہ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ کسان تحریک کا بھی تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ اس حربے میں ناکامی کے بعد بزور قوت دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اور سازش کرکے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سارے ہتھکنڈوں کی ناکامی کے بعد کالے قوانین واپس تو لیے جاتے ہیں مگراس وقت کیے جانے والے وعدوں میں کسی کو پورا نہیں کیا جاتا اور عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے رام مندر کا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اڈانی اور امبانی جیسے سرمایہ داروں کے مفاد میں کام کرنے والی اس عوام دشمن حکومت سے ملک کے عوام کو نجات دلانا وقت کی اہم ترین ضرورت انصاف پسند عوام کا اہم ترین فریضہ ہے۔ عام لوگوں کے مسلمانوں کا فرض منصبی بھی برائیوں کو روک کر بھلائی پھیلانا اور عدل و قسط کے علم بردار بن کر کھڑا ہونا ہے۔ اس لیے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ ساری انصاف پسند قوتیں متحد ہوکر ان سفاک حکم رانوں کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں ۔ملک میں فی الحال پھر ایک پارلیمانی انتخاب کی بساط بچھ چکی ہے۔ اس میں ایک جانب این ڈی اے ہے جو اسی صورتحال کو قائم رکھنے کا حامی ہے۔ اس کے مقابلے انڈیا نامی محاذ ہے جو تبدیلی کا علم بردار ہے ۔ ملک کے سارے انصاف پسندلوگ بلا تفریق مذہب و ملت اور عقیدہ و نظریہ ظلم و جبر کی نمائندہ حکومت کےخلاف متحد ہورہے ہیں ۔ یہ حکومت آئندہ انتخاب رام مندر کے کمنڈل کی مدد سے جیتنا چاہتی ہے مگر حزب اختلاف اس کے مقابلے میں منڈل کی کمان لے کر میدان میں اترا ہے۔ زعفرانی ٹولہ پوری قوم کو صرف ہندو مسلمان میں تقسیم کرنا چاہتا ہے مگر اس کے مخالفین ہر ذات اور فرقہ کے منفردتشخص کی حمایت کرتے ہیں۔ الگ الگ طبقات پر صدیوں سےجاری و ساری ناانصافی کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ اقتدار و وسائل میں مساویانہ شرکت کے خواہاں ہیں ۔ اسی لیے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری پر زور دیا جارہاہے تاکہ اس ملک میں رہنے والے پسماندہ طبقات کے عدم مساوات کو طشت ازبام کیا جاسکے اور ریزرویشن میں اضافہ کرکے ناہمواری کو دور کیا جاسکے۔
ملک میں ہندتو کے نام پر ایک مصنوعی اتحاد قائم کرکے منو سمرتی کو چور دروازے سے نافذ کرنے والوں کا نظریاتی توڑ ذات پات کی بنیاد پر کی جانے والی مردم شماری ہے۔ ایک زمانے تک کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتوں میں اس مسئلہ پر فکری اختلاف تھا جو اب ختم ہوچکا ہے ۔ انڈیا نامی محاذ اب کمنڈل کے مقابلے منڈل کے سہارے این ڈی اے کا متبادل بن کر ابھرا ہے۔اس کشمکش میں اگر ملک کے سارے لوگ دبے کچلے سماج کو انصاف دلانے کے لیے کمر بستہ ہوکر متحد ہوجائیں تو فسطائی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جاسکتا ہے۔ ملک کے سیاسی منظرنامہ کو بدلنے کا یہ موقع عنقریب آنے والا ہے ۔ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاکر منظر نامہ کو بدلنے کی انتھک جدوجہد کرنا سبھی کی ذمہ داری ہے اور اس معاملے میں کوتاہی سنگین نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تعاون علی البر کے تحت اس کارِ خیر میں اپنا فرض منصبی ادا کریں تاکہ قیامت کی باز پرس سے محفوظ رہیں اور ایک نئی صبح کی کشمکش میں اپنا شایانِ شان کردار ادا کریں ۔ ان کا معاملہ علامہ اقبال کے اس شعر کے مصداق ہونا چاہیے؎
میں ظُلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
ملک میں ہندتو کے نام پر ایک مصنوعی اتحاد قائم کرکے منو سمرتی کو چور دروازے سے نافذ کرنے والوں کا نظریاتی توڑ ذات پات کی بنیاد پر کی جانے والی مردم شماری ہے۔ ایک زمانے تک کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتوں میں اس مسئلہ پر فکری اختلاف تھا جو اب ختم ہوچکا ہے ۔ انڈیا نامی محاذ اب کمنڈل کے مقابلے منڈل کے سہارے این ڈی اے کا متبادل بن کر ابھرا ہے۔اس کشمکش میں اگر ملک کے سارے لوگ دبے کچلے سماج کو انصاف دلانے کے لیے کمر بستہ ہوکر متحد ہوجائیں تو فسطائی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جاسکتا ہے۔ ملک کے سیاسی منظرنامہ کو بدلنے کا یہ موقع عنقریب آنے والا ہے ۔ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاکر منظر نامہ کو بدلنے کی انتھک جدوجہد کرنا سبھی کی ذمہ داری ہے اور اس معاملے میں کوتاہی سنگین نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تعاون علی البر کے تحت اس کارِ خیر میں اپنا فرض منصبی ادا کریں تاکہ قیامت کی باز پرس سے محفوظ رہیں اور ایک نئی صبح کی کشمکش میں اپنا شایانِ شان کردار ادا کریں ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 دسمبر2023 تا 06 جنوری 2024