شخصیت سازی اور تعمیر جہاں تعلیم کا بنیادی مقصد

اسلام تعلیم کے ساتھ ساتھ فرد کی اصلاح وتربیت پر زور دیتا ہے

ڈاکٹر حسن رشید

تعلیم کو مقصدیت سے ہم آہنگ کرنے اور اساتذہ کو معاشرے میں مستحقہ مقام دینے کی ضرورت
اردو میں تعلیم کا لفظ، دو خاص معنوں میں مستعمل ہے ایک اصطلاحی دوسر ے غیر اصطلاحی، غیر اصطلاحی مفہوم میں تعلیم کا لفظ واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے اور آدرش، پیغام، درسِ حیات، ارشادات، ہدایات اور نصائح کے معنی دیتا ہے۔ جیسے آنحضرت کی تعلیم یا تعلیمات کے فقروں میں، لیکن اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا ایجوکیشن سے وہ شعبہ مراد لیا جاتا ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما، تخیلی و تخلیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب، سماجی عوامل و محرکات، نظم و نسق مدرسہ، اساتذہ، طریقہ تدریس، نصاب، معیار تعلیم، تاریخ تعلیم، اساتذہ کی تربیت اور اس طرح کے دوسرے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔
تعلیم کا مقصد انسان کو بتانا نہیں بلکہ انسان کو بنانا ہے‘‘یہ قولِ زریں اِس عظیم خادمِ علم کا ہے جو شہنشاہِ علم کا مرید تھا۔ اس خادمِ علم کو دنیا علامہ سید سلیما ن ندویؒ کے نام سے جانتی ہے جو علامہ شبلی نعمانیؒ کے علمی خلفِ رشید تھے۔ اِس قول میں کئی راز پوشیدہ ہیں جنھیں آج ہم جاننے سے قاصر ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد تعلیم کے مقصد کو بخوبی سمجھتے تھے اور اِسی وجہ سے قدرت نے اُنہیں وہ عروج عطا فرمایا جو آج بھی ہمارے لیے فخر و مسرت کا باعث ہے۔ اسلاف نے تعلیم کو ہمیشہ تربیت سے جوڑے رکھا اور اِس رشتے کی مضبوطی نے انہیں اندرونی اور بیرونی طور پر استحکام عطا کیا لیکن اِس کلیدی رشتے کو آج ہم نے مجروح کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ہے۔
جب ہم انسانی نشو و نما کے اساسی پہلوؤں کی بات کرتے ہیں تو اکثر ہمارا میلان مادی اور ظاہری ترقی کی جانب ہوتا ہے، جبکہ اس کی روحانی اور باطنی تربیت یکسر نظر انداز کر دی جاتی ہے جس کے انتہائی منفی نتائج ہم اپنے معاشرے میں روزانہ دیکھتے ہیں اور اُن پر ہمارادل کڑھتا رہتاہے۔
حالانکہ یہی روحانی تربیت علوم کی آبیاری کیلئے اسقدرضروری تھی کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنے انعام کے طورپران الفاظ میں ذکر فرمایا ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللَهُ عَلَي الْمُؤْمِنينَ إِذْ بَعَثَ فيهِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِهِ وَ يُزَکِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ إِنْ کانُوا مِنْ قَبْلُ لَفي‏ ضَلالٍ مُبينٍ ۔۔ بے شک مؤمین پراللہ تبارک وتعالی کا یہ احسان عظیم ہے کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول ﷺ بھیجا، جو انہیں اس (اللہ) کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں (روحانی تزکیہ جس سے مراد عقائد، اعمال واخلاق کے بیج بونے کے لیے قلب کو) پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم سکھاتا ہے، یقیناً یہ سب (انسان) اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ (آل عمران: 164)
عصرِ حاضر میں تعلیم کا بلند پایہ مفہوم ہماری تنگ نظری اور جمودی سوچ کے سبب کلیتاً مسخ ہو چکا ہے۔ تعلیم پہلے دنیاوی اور دینوی علوم کے حصول کا نام تھا اور اِن کے درمیان میں کسی تفریق کی گنجائش نہیں تھی۔ اس ضمن میں تاریخِ اسلام ثبوت کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہر خطے میں درس گاہیں تعمیر کروائیں جہاں ہر طرح کے علوم بغیر کسی تفریق اور فوقیت کے پڑھائے جاتے تھے۔ علمِ نجوم، علمِ ہیئت، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ، کیمیا، طب، تاریخ، حدیث وفقہ، قرآن وعلومِ تفسیر اور منطق وفلسفہ وغیرہ سب علوم کی مشترکہ تعلیم دی جاتی تھی۔ دنیاوی اور دینوی علوم کے اِس امتزاج نے طلبہ کو اخلاقی اورمادی دونوں لحاظ سے پختہ بنا دیا تھا اور اس دورکی مجموعی حالت اسی لیے ہماری موجودہ حالت سے لاکھ درجے بہتر تھی ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم آج کثرتِ اساتذہ کے باوجود مجموعی طور پر جمود کا شکار کیوں ہیں؟ سبب یہ تھا کہ ماضی میں اساتذہ اخلاق کا بہترین نمونہ ہوتے تھے جن سے طلبہ گہرا اثر لیتے تھے جبکہ عصرِ حاضر کے اساتذہ اخلاقی قدروں کی خود پاسداری نہیں کرتے جس سے طلبہ پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اُس عہد میں کتاب سے زیادہ استاد سے علم حاصل کیا جاتا تھا، جبکہ آج استاد محض ایک علامتی کردار بن کے رہ گیا ہے۔ اچھے دنوں میں اساتذہ اپنی خوشی سے اور دولت کی خواہش کے بغیر طلبہ کو تعلیم دیتے تھے اورنوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا احساس اُن میں ہر لمحہ ایک ایسا جذبہ بیدار کیے رکھتا تھا جس کا دیا کبھی نہیں بجھتا تھا۔ وہ علم کو ﷲ سے قربت کا ذریعہ جان کر اس کی بھرپور ترویج کرتے تھے۔ اُن کے نزدیک تعلیمی درس گاہیں محض ایک ٹیکسال کے بجائے اس گلستان کا درجہ رکھتی تھیں جہاں نونہال کلیوں کی دیکھ بھال ایک مقدس فریضے کے طور پر کی جاتی تھی، اور طلبہ کو معاشرہ کی ایک امانت اورمستقبل کے معمار سمجھ کر ان کی کردار سازی کی جاتی تھی، لیکن بد قسمتی سے آج علم پیشہ ورانہ اساتذہ کے ہتھے چڑھ گیاہے جو تعلیم کو محض ایک کاروبار سمجھتے اور اسے اپنی مادی خواہشات پورا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مسلم حکومتوں میں اساتذہ اور معلمین کو خاطر خواہ مشاہرے ملا کرتے تھے جو انہیں مالی تنگی کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے۔ اِس کے نتیجے میں وہ اپنے فرائضِ منصبی پوری دیانت داری اور دلجمعی سے سر انجام دیتے تھے۔ جبکہ عصرِ حاضر کے اکثر معلمین مالی تنگ دستی کی وجہ سے بے سکونی کا شکار دکھائی دیتے ہیں بلکہ مخلص اور قابل اساتذہ موجودہ معاشرہ میں مظلومیت کی تصویر بنے جعلی ڈگری یافتہ وزیر تعلیم کے رحم وکرم پر پڑے ہیں اور ان کی مراعات سے کوئی اور طبقہ فوائد حاصل کر رہا ہے۔
بحیثیتِ مجموعی یہ معاشرہ استاد کی قدر کھو چکا ہے اور علم کے داعی کی جو تذلیل و تحقیر تعلیمی اداروں میں ہوتی ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ ہماری زندگی سے اعلیٰ مقاصد کا نظریہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور صرف دولت کی ریل پیل ہماری نظروں کو بھاتی ہے۔ ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں کے بارے ہی میں کچھ پتا ہے نہ ہم چاہتے ہیں کہ آنے والے لوگ ہمارے کارناموں کے حوالے سے ہمیں یاد رکھیں۔ ہم عام طور پر مغرب کی تقلید کرتے ہیں مگر وہ ممالک اپنی تاریخ پر فخر محسوس کرتے ہیں جو عظمت سے خالی ہیں۔ ہماری تاریخ جو انسانی تہذیب کی تشکیل اور ارتقا کی عظیم داستانوں سے معمور ہے اُس پر ہمیں فخر کرنا اور مستقبل کی تعمیر کا چیلنج قبول کرنا چاہیے۔
مغرب کی غلط باتوں کی تقلید تو ہم بڑے ذوق وشوق سے کرتے ہیں لیکن اصل قابل تقلید باتوں کو ہم نظر انداز کر جاتے ہیں جناب اشفاق احمد مرحوم نے زاویہ میں ’’استاد عدالت کے کٹہرے میں ہے‘‘ کا عنوان باندھا ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے جو جواں عمری میں ان کے ساتھ اٹلی میں پیش آیا تھا۔ گاڑی غلط راہ پہ ڈالنےکے سبب اشفاق صاحب کا چالان ہوا۔ صبح اٹلی کی جامعہ روم میں تدریس فرماتے، سہہ پہر ایک ریڈیو میں نشریاتی سرگرمیاں انجام دیتے۔ وقت کی تنگی تھی چالان ادا نہ ہوا۔ عدالت سے دو بارنوٹس بھی موصول ہوا مگر بات نہ بنی۔ مزید تاخیر پر عدالت نے طلب کر لیا۔ اشفاق صاحب پیلس آف دی جسٹس پہنچ گئے۔ جج نے نام پکارا، قدرے تلخی سے کٹہرے میں کھڑا ہونے کو کہا۔ جج نے سوال کیا، آپ کا چالان ہوا، ڈاک خانے میں جمع کروانے کو کہا گیا تھا، نوٹس بھیج کر مہلت بھی دی گئی، مگر چالان نہیں بھرا، آخر کیوں؟ اشفاق صاحب نے کہا، جی مجھے کروانا چاہیے تھا، مگر کوتاہی ہو گئی۔ اشفاق صاحب عذر پیش کرنا چاہتے ہی تھے کہ جج نے سرزنش شروع کردی، کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کی اس کوتاہی کے نتیجے میں کتنا وقت عملے کا ضائع ہوا؟ کتنا وقت پولیس کا اور اب کتنا وقت عدالت کا ضائع ہو رہا ہے؟ آپ کو اس غفلت کی کڑی سزا بھگتنی ہو گی۔
اشفاق صاحب نے کہا، دیکھیے میں ایک پردیسی ہوں، مقامی قانون اور ادب و آداب زیادہ نہیں جانتا، سزا میں رعایت دیں گے تو شکر گزار ہوں گا۔ جج نے کہا، زبان تو آپ ٹھیک بول رہے ہیں، قانون کا آپ کو نہیں پتہ، کرتے کیا ہیں آپ؟ جواب دیا، میں ایک استاد ہوں، یونیورسٹی میں پروفیسر ہوں، کچھ ایسی ہی مصروفیت کے سبب چالان کی ادائیگی ممکن نہ ہوئی۔ اشفاق صاحب کا جملہ ابھی پورا بھی نہ ہوپایا تھا کہ جج کھڑا ہوا اور کہا ’’استاد عدالت کے کٹہرے میں ہے‘‘، یہ سنتے ہی باقی کا عملہ بھی کھڑا ہو گیا۔ جج دراصل اپنے سخت لہجے کے لیے معذرت کا اظہار کر رہا تھا۔ احتراماً کرسی فراہم کرنے کو کہا۔ اشفاق صاحب نے کرسی سنبھالی تو جج نے بھی نشست پکڑ لی۔ جج نے اب گفتگو شروع کی تو آواز دھیمی اور لہجہ بہت نرم تھا۔ جج نے کہا:
’’قابلِ عزت استاد محترم، یہ ہم نے آپ ہی سے سیکھا ہے کہ قانون کی پاسداری ہونی چاہیے، وقت کی پابندی کرنی چاہیے، قانون کے آگے سب کو برابر ہونا چاہیے۔ آپ اساتذہ کی بدولت ہم یہاں موجود ہیں، آپ کے بتائے ہوئے ضابطوں کو آپ ہی کے فرمان کے مطابق لاگو کرنے کے پابند ہیں۔ آپ کے احترام کو برقرار رکھتے ہوئے عدالت فیصلہ سناتی ہے کہ مسلسل تاخیر کے سبب آپ کو چالان دگنا ادا کرنا ہو گا‘‘۔
ہم مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے سے جدا کر کے بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ مذہب انسان کے اندر پاکیزہ جذبہ اور ایک احساسِ ذمہ داری پیدا کرتا ہے جو طالب علم کو حصولِ علم ایک مذہبی فریضہ کی حیثیت سے ادا کرنے کی طرف مائل کرتا ہے، جبکہ بیشتر طلبہ کا نظریہ، یہ ہے کہ علوم دولت کمانے کے لیے حاصل کیے جائیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ تعلیم کا مقصد حصولِ روزگار کے سوا اور کچھ نہیں اور وہ بچارے مشین کی طرح کام میں جُٹے رہتے ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے تعلیمی ادارے طلبہ کو چار دیواری کے اندر انسان کے بجائے مشین بنا رہے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ اپنی قوم کو مشین بنانا ہے یا تعلیم یافتہ عمدہ انسان۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل کے اندر قومی خدمت کا جذبہ مفقود ہے اور ہمارے بہترین اذہان غیروں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ قربانی کا جذبہ اور میلان بھی کم ہوتا جا رہا ہے اور حب الوطنی توقریب المرگ بلکہ قریب الدفن ہے۔ بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری حکومت تعلیمی نصاب کی بہتری میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہی اور ہمارا اسلامی تشخص بری طرح مجروح ہو رہا ہے۔ دراصل ہمارے اندر سے اعتدال پسندی کا عنصر ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ مذہبی اور دنیاوی تعلیم کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے سے ہم گھبراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یا تو آپ کو اِس ملک میں قدامت پسند طبقہ مدرسوں میں ملے گا جو جدید تعلیمی تقاضوں سے ناآشنا ہے یا پھر مغرب پرست جدید تعلیم کا علمبردار طبقہ جو دینی تعلیم کی اہمیت سمجھنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ تو دور کی بات بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت متنفر نظر آتا ہے۔
جس دن ہم تربیت اور کردار سازی کو اپنے تعلیمی نظریے میں شامل کر لیں گے اُسی روز سے اِن شاء ﷲ ہمارا مقدر تبدیل ہونا شروع ہو جائے گا اور تعلیم کاحقیقی تصور شرمندہ تعبیر ہونا شروع ہو جائے گا۔
***

 

***

 ہم مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے سے جدا کر کے بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ مذہب انسان کے اندر پاکیزہ جذبہ اور ایک احساسِ ذمہ داری پیدا کرتا ہے جو طالب علم کو حصولِ علم ایک مذہبی فریضہ کی حیثیت سے ادا کرنے کی طرف مائل کرتا ہے، جبکہ بیشتر طلبہ کا نظریہ، یہ ہے کہ علوم دولت کمانے کے لیے حاصل کیے جائیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ تعلیم کا مقصد حصولِ روزگار کے سوا اور کچھ نہیں اور وہ بچارے مشین کی طرح کام میں جُٹے رہتے ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے تعلیمی ادارے طلبہ کو چار دیواری کے اندر انسان کے بجائے مشین بنا رہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 نومبر تا 03 نومبر 2022