
ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
موجودہ وزیر اعظم اور سابق وزیر اعظم میں واضح فرق
ڈاکٹر منموہن سنگھ بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے کیونکہ یہاں ہر کوئی جانے کے لیے آتا ہے۔ اس کار گاہ ہستی میں کون کیسے آتا ہے یہ اہم نہیں ہوتا بلکہ وہ کیسے جاتا ہے اس کی اہمیت ہوتی ہے۔ سابق وزیر اعظم کی رحلت پر پی ایم مودی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ’ڈاکٹر منموہن سنگھ جی اور میں اس وقت باقاعدگی سے بات کرتے تھے جب وہ وزیر اعظم تھے اور میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا۔ ہم انتظامی امور سے متعلق مختلف موضوعات پر گہری بات چیت کرتے تھے‘۔ یہ تو خیر ایک روایتی جملہ ہے جس میں آنجہانی کے بجائے مودی جی نے خود کی تعریف کی لیکن اس کے بعد انہوں نے لکھا ’ان میں ذہانت اور عاجزی ہمیشہ نظر آتی تھی‘۔ یہ دو ایسی صفات ہیں جو ڈاکٹر منموہن سنگھ کو وزرائے اعظم کی طویل فہرست میں ممتاز مرتبہ پر فائز کرتی ہیں۔ عام طور پر ذہانت انسان کو رعونت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ شیطان کے لیے کسی ذہین انسان کو شاطر، مکار اور متکبر بنا دینا بہت آسان ہوتا ہے لیکن اگر کوئی منموہن سنگھ کی طرح اقتدار پر فائز ہونے کے بعد بھی اس فتنے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ کر عجز و انکسار کا پیکر بنا رہے تو وہ یقیناً قابل تعریف ہے۔
سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی معیشت کے میدان میں مہارت کسی ثبوت کی محتاج نہیں ہے مگر ان کی سیاسی ذہانت کی گواہی پریس کانفرنسوں کی تعداد میں چھپی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے دس سالوں میں جملہ 117 مرتبہ پریس کانفرنسوں میں اخبار نویسوں کو مخاطب کیا اور ان کے سوالات کے جوابات دیے۔ ان اخباری کانفرنسوں میں صرف 12 کا تعلق الیکشن یا سیاسی منشور وغیرہ سے تھا۔ سب سے زیادہ 72 پریس کانفرنسیں غیر ملکی دوروں پر کی گئی۔ یہ نہایت مشکل کام ہے اور مودی جی تو ایک میں ہی پانی پی کر کانپنے لگے تھے۔ اس کے علاوہ سالانہ پریس کانفرنسوں کی تعداد 10 تھی اور گھریلو وریاستی دوروں پر 23 بار انہوں نے اخباری نمائندوں سے خطاب کیا تھا ۔ ان کی سرکار پر جب الزامات کی بوچھار ہو رہی تھی اس وقت بھی اپنے پسندیدہ صحافیوں کے درمیان بیٹھ کر طے شدہ سوالات کی نوٹنکی کرنے کے بجائے وہ کھلی پریس کانفرنس کرتے تھے۔ یہ ایک عالم و فاضل سربراہ اور جاہل حکم راں کا فرق ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی غیر دانش مندانہ حرکتوں نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی ذہانت اور انکسار کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔
2004 میں جب سونیا گاندھی نے اٹل بہاری واجپائی کو شکست فاش دی تو ان کی غیر ملکی پیدائش وزارتِ عظمیٰ کی راہوں کا روڑا بن گئی۔ اس وقت راہل گاندھی بہت ہی نو عمر تھے اس لیے ان کو وزیر اعظم بنانا بھی ممکن نہیں تھا۔ ایسے میں سونیا چاہتی تھیں کہ ایک ایسے شخص کو وزیر اعظم بنایا جائے جس کے اندر عہدے کی آرزو مندی نہ ہو اور جو بلا چوں و چرا ان کی تابع داری کرے اور بوقتِ ضرورت راہل گاندھی کے لیے اپنی کرسی خالی بھی کردے۔ ایسے میں ان کے سامنے وزیر اعظم کے لیے پرنب مکرجی اور منموہن سنگھ کے نام تھے۔ سونیا گاندھی نے منموہن سنگھ کا انتخاب کرکے پرنب مکرجی کو صدر مملکت بنا یا۔ اس طرح وہ خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل گیا جو ان کے سر پر منڈلا رہا تھا۔ ہندوستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی بہترین کارکردگی نے انہیں 2009 میں دوسری بار اس عہدے پر فائز کر دیا اور انہوں نے اپنی دونوں مدت کار میں کئی اصلاحات کیں جو ان کی معاشی اصلاحات کے پردے میں چھپ گئیں۔
سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی سب سے اہم اصلاحات میں سے ایک قومی دیہی روزگار گارنٹی کا قانون تھا۔ اسے 2005 میں متعارف کرایا گیا اور اس کے تحت ہر دیہی گھرانے کو سال میں کم از کم 100 دن کی اجرت کے روزگار کی ضمانت دی گئی۔ یہ عوام کو مفت میں اناج تقسیم کرکے ان پر احسان جتانے کی حکمت عملی سے مختلف طریقہ کار تھا۔ اس کے تحت کروڑوں لوگوں کو عزت نفس کے ساتھ روزی روٹی کمانے کا موقع ملتا تھا اور دیہی انفراسٹرکچر میں بہتری بھی آتی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی اس کو گڑھے کھودنے اور بھرنے کی اسکیم کہہ کر مذاق اڑاتے تھے مگر اقتدار سنبھالنے کے بعد اسے بند کرنے کی جرأت نہیں کرسکے کیونکہ وہ ملک کی بہت بنیادی ضرورت تھی۔ معیشت کی دنیا سے نکل کر 2005 میں ہی منموہن سرکار نے آر ٹی آئی قانون کے ذریعہ ملک کے عام باشندوں کو سرکاری حکام سے معلومات حاصل کرنے کا اختیار دیا۔ اس طرح حکم رانی میں شفافیت اور جواب دہی کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔ یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا مگر یہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ حکومت نے اس قانون کو مختلف تکنیکی بہانوں سے تقریباً معطل کر دیا ہے۔
منموہن سنگھ نے عوام کو شناختی کارڈ مہیا کرنے کی خاطر آدھار پروجیکٹ کا آغاز کیا۔ اس کے تحت تمام باشندوں کو منفرد شناخت مہیا کرکے مختلف سرکاری خدمات تک رسائی کی سہولت فراہم کی گئی۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت نے ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر سسٹم کو لاگو کیا جس کے ذریعہ سرکاری فلاحی اسکیموں کی ترسیل کو براہِ راست مستحقین تک پہنچانے کا بندوبست کیا گیا۔ اس سے بچولیوں اور دلالوں کے استحصال سے عوام کو نجات ملی اور بد عنوانی پر روک لگی۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے زمانے میں تعلیم اور غذا کے حق کا قانون وضع کیا گیا اور اس بات کی ذمہ داری سرکار پر ڈالی گئی کہ ملک کا کوئی شہری بھوکا نہ سوئے اور نہ کوئی بچہ بنیادی تعلیم سے محروم رہے۔ یہ ان کی غریب پروری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے سچر کمیٹی کی رپورٹ تیار کروا کر ان تمام فرقہ پرستوں کو آئینہ دکھایا جو اپنے مخالفین پر مسلمانوں کی خوشامد کا الزام لگا کر اپنی سیاسی دکان چمکاتے تھے۔ اس رپورٹ نے مسلمانوں کو بھی خواب خرگوش سے بیدار کر دیا۔ اس کے بعد ملت کے اندر تعلیم و معیشت کے حوالے سے بیداری کی ایک لہر آئی۔
منموہن سنگھ کو اتفاقی، کم زور اور کٹھ پتلی وزیر اعظم کہا جاتا تھا۔ ان کی خاموش طبعی کے سبب انہیں مونی بابا بھی کہا جاتا تھا مگر 2008 میں انہوں نے امریکہ کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے ارادوں پر کس قدر ثابت قدم تھے۔ اس وقت یو پی اے سرکار دائیں بازو کی جماعتوں پر ٹکی ہوئی تھی اور وہ سب امریکہ کے ساتھ جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے معاہدے کی مخالفت کر رہی تھیں۔ اتفاق سے ہاوڈی مودی اور نمستے ٹرمپ کا نعرہ لگانے والی بی جے پی بھی اس کےخلاف تھی۔ ان میں دائیں بازو کی مخالفت نظریاتی تو بائیں بازو کی خالص سیاسی مفادات کے تحت تھی۔ 2012 میں ان کی کانگریس حکومت اپنے سب سے بڑے اتحادی کے الگ ہوجانے کی وجہ سے اقلیت میں آ گئی مگر گری نہیں تھی۔ اس وقت یہ خطرہ لاحق ہو گیا تھا کہ اشتراکیوں کے حمایت واپس لے لینے کے سبب یو پی اے سرکار گر جائے گی اس لیے سونیا گاندھی بھی حمایت کرنے سے ڈر رہی تھیں لیکن منموہن سنگھ نے 38 ماہ تک اس کے لیے محنت کرتے رہے اور کامیاب ہوئے۔
سماجوادی پارٹی کے رہنما امر سنگھ کی مدد سے ملائم سنگھ یادو کو اپنے ساتھ لے کر منموہن سنگھ نے نہ صرف امریکہ سے معاہدہ کیا بلکہ سرکار کو گرنے سے بھی بچالیا۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ خاموش طبع رہنما کوئی نرم چارہ نہیں بلکہ لوہے کا چنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اندرونِ ملک اس تاثر کے باوجود کہ سونیا گاندھی حکومت میں اصل طاقت ہیں عالمی سطح پر رہنماؤں نے انہیں وسیع پیمانے پر عزت و احترام سے نوازا۔ اس حقیقت کا مظاہرہ ان کی موت کے بعد دنیا بھر سے آنے والے تعزیتی پیغامات سے بھی ہوا۔ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ایک صاف و شفاف کردار رکھنے والے وزیر اعظم کے خلاف بدعنوانی کی تحریک چلائی گئی۔ مودی نے انہیں رین کوٹ پہن کر بدعنوانی کے پانی سے نہانے والا وزیر اعظم کہا اور ان کے خلاف بے شمار بہتان طرازیاں کی گئیں۔ بالآخر رام دیو بابا اور کیجریوال کی تحریکات کے سبب 2014 میں کانگریس پارٹی کو بی جے پی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور نریندر مودی اقتدار کی کرسی پر فائز ہوگئے۔
بی جے پی نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے منموہن سنگھ کو نشانے پر لیا۔ اس لیے کہ اسے ان کی تنقید سے ڈر لگتا تھا۔ نوٹ بندی سے متعلق ان کی پیشن گوئی صد فیصد درست نکلی کہ جی ڈی پی دو فیصد گھٹ جائے گی اور اگر کبھی غیر جانب دارانہ تفتیش ہو تو سازش والا الزام بھی ثابت ہوجائے گا۔ منموہن سنگھ کے گھر پر چھاپہ مارنے والی ای ڈی کی ٹیم کو بے نیل و مرام واپس لوٹنا پڑا کیونکہ ان کے پاس چھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ بی جے پی نے بدعنوانی کا شور مچا کر انتخاب تو جیت لیا مگر عدالت میں شواہد پیش کرنے کی بات آئی تو وہ چاروں خانے چت ہوگئی اور منموہن سنگھ سمیت ان کے کسی وزیر پر کوئی بد عنوانی کا الزام ثابت نہیں ہوسکا۔ ایسے میں ان تمام لوگوں کو آنجہانی وزیر اعظم سے معافی مانگنی چاہیے تھی مگر موجودہ سیاست میں اس کا رواج نہیں ہے۔ عدالتی فیصلوں سے قطع نظر منموہن سنگھ کی سادہ طرزِ زندگی اور ایمان داری کے سبب انہیں ذاتی طور پر بد عنوان کہنے کی ہمت کوئی نہیں کرسکا تو ان پر اپنے حکومتی اراکین کے خلاف سخت کارروائی کرنے میں ناکامی کے سبب تنقید ہوتی رہی حالانکہ اس زمانے میں کم ازکم جن پر الزام لگا تھا ان کا استعفیٰ تو لیا گیا اب تو وہ بھی نہیں ہوتا۔
آج کل نہ تو اجئے کمار سینی اور نہ برج بھوشن سنگھ، کسی پر کارروائی نہیں ہوتی بلکہ الٹا انہیں بچانے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ برج بھوشن کو دوبارہ ٹکٹ دینا مشکل ہو جائے تو اس کے بیٹے کو نواز کر ایک پارلیمانی نشست کو بچانے کے لیے نامور خواتین کھلاڑیوں پر ظلم کرنے والے کی خوشامد ہوتی ہے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی موت کے بعد ذرائع ابلاغ میں ان کا نریندر مودی سے موازنہ کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ لوگ ایوان پارلیمنٹ میں ان کے تنقید سننے اور پھر اسے نوٹ کر کے خندہ پیشانی سے اس کے جواب دینے کو یاد کرتے ہیں۔ اس کے لیے انسان کو پڑھا لکھا ہونا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ دوسروں کی، خاص طور پر مخالفین کی بات کو سننے کا مادہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اس شئے کا فقدان ہو تو مودی جیسا وزیر اعظم اول پارلیمانی اجلاس میں شرکت کے لیے وقت ہی بہت نکالتا ہے۔ وہ جب لوگوں کی بات خود نہیں سنتا تو اسے جواب دینے کے لیے اپنے حواریوں یعنی تقریر لکھ کر دینے والوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے ۔
ایوان پارلیمنٹ میں بھی اسی وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی ایسا بولتے ہیں جیسے کسی جلسہ عام سے خطاب کر رہے ہوں۔ ان کی طول طویل تقاریر میں ان سوالات کا جواب شاذو نادر ہی پایا جاتا ہے جو ارکانِ پارلیمان کی جانب سے اٹھائے گئے ہوں۔ آج کل یہ حالت ہوگئی ہے وزیر اعظم نریندر مودی کی ایوان پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران خود بی جے پی کے ارکان بھی پانی پیتے اور اونگھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ منموہن سنگھ کی بابت امریکہ کے صدر براک اوباما نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ جب وہ بولتے ہیں تو پوری دنیا توجہ سے سنتی ہے۔ایک ایسے دور میں جبکہ ایوانِ پارلیمان میں حزب اختلاف کے ارکان کا مائک بند کر دیا جاتا ہو، ایک ساتھ ڈیڑھ سو سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ کو کارروائی سے معطل کرکے اہم قوانین منظور کر لیے جاتے ہوں لوگ منموہن سنگھ کے زمانے کو یاد کر رہے ہیں تو یہ ان کی بہترین کارکردگی کا ثبوت ہے۔ سشما سوراج کی ان پر شاعرانہ تنقید اور اس کے ترکی بہ ترکی جواب کا ویڈیو وائرل ہو رہا ہے۔ منموہن سنگھ نے جس طرح اپنی مخالفت کو برداشت کیا تھا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ بہترین اردو جانتے تھے کیوں کہ انہوں نے اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ علامہ اقبال کی شاعری سے بھی خاص شغف رکھتے تھے۔
منموہن سنگھ کے زمانے میں بد عنوانی کے خلاف تحریک جس زور و شور سے چلائی گئی تھی مودی یُگ میں اس کا تصور بھی محال ہے۔ خاتون پہلوانوں کے ساتھ پولیس نے زیادتی دوسروں کو سبق سکھانے کے لیے کی تھی تاکہ کوئی احتجاج کرنے کی ہمت نہ کرے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے منموہن سنگھ نے جے این یو کا دورہ کیا تو انہیں سیاہ جھنڈے دکھائے گئے اور ان کے خلاف نعرے بازی بھی ہوئی تھی۔ اس کے بعد انتظامیہ نے مظاہرین کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کردی۔ منموہن سنگھ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس پر روک لگا دی اور ڈانٹ پلا کر کہا کہ آئندہ ایسی کوئی حرکت نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ طالب علم ہیں انہیں احتجاج کا حق ہے۔ اس کے برعکس این آر سی کے خلاف چلنے والی طلباء کی تحریک کو مودی اور شاہ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں جس بے دردی کے ساتھ کچلنے کی کوشش کی وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔
منموہن سنگھ اور مودی کے کردار میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک کا کردار صاف ستھرا تھا اور دوسرے کا داغ دار ہے۔ ایک کے اندر اقتدار کی ہوس نہیں تھی اور دوسرے کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ایک کو اقتدار سے ہٹنے کے بعد کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا تو دوسرے کو جیل جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ منموہن سنگھ نے ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط تو کیا مگر اس کے ذریعہ عام لوگوں کی شراکت داری کو بھی بڑھایا۔ انہوں نے کسی سرمایہ دار کی اس طرح پشت پناہی نہیں جس طرح موجودہ حکومت ’ہم دو ہمارے دو‘ کی طرح کھلے عام کر رہی ہے۔ تاریخ 1991 کی اصلاحات میں ان کے اہم کردار کا ہمیشہ احترام کرتی رہے گی جس نے ہندوستان کو نئی شکل دی اور دنیا کے لیے اس کے دروازے کھولے۔ ایک بزرگ رہنما جس نے نرمی سے بات چیت کی اور اپنے عمل سے یادگار پیش رفت کی۔ ڈاکٹر سنگھ کی زندگی قیادت، عاجزی اور قوم کی خدمت میں ایک ماسٹر کلاس رہی ہے اور آنے والی نسلوں کو متاثر کرے گی‘۔ منموہن سنگھ سے وزیر اعظم مودی کا جب بھی موازنہ کیا جاتا ہے ایک کا قد اور بھی اونچا اور دوسرے کا مزید گھٹ جاتا ہے۔ اقتدار کے حریص اور حکومت سے بے نیاز رہنماؤں میں یہ بنیادی فرق ہے۔ منموہن سنگھ کی رحلت پر پورا ملک جس طرح سوگوار ہوگیا اس پر طارق نعیم کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
عجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روئے
شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
منموہن سنگھ اور مودی کے کردار میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک کا کردار صاف ستھرا تھا اور دوسرے کا داغ دار ہے۔ ایک کے اندر اقتدار کی ہوس نہیں تھی اور دوسرے کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ایک کو اقتدار سے ہٹنے کے بعد کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا تو دوسرے کو جیل جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ منموہن سنگھ نے ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط تو کیا مگر اس کے ذریعہ عام لوگوں کی شراکت داری کو بھی بڑھایا۔ انہوں نے کسی سرمایہ دار کی اس طرح پشت پناہی نہیں جس طرح موجودہ حکومت ’ہم دو ہمارے دو‘ کی طرح کھلے عام کر رہی ہے۔ تاریخ 1991 کی اصلاحات میں ان کے اہم کردار کا ہمیشہ احترام کرتی رہے گی جس نے ہندوستان کو نئی شکل دی اور دنیا کے لیے اس کے دروازے کھولے۔ ایک بزرگ رہنما جس نے نرمی سے بات چیت کی اور اپنے عمل سے یادگار پیش رفت کی۔ ڈاکٹر سنگھ کی زندگی قیادت، عاجزی اور قوم کی خدمت میں ایک ماسٹر کلاس رہی ہے اور آنے والی نسلوں کو متاثر کرے گی‘۔ منموہن سنگھ سے وزیر اعظم مودی کا جب بھی موازنہ کیا جاتا ہے ایک کا قد اور بھی اونچا اور دوسرے کا مزید گھٹ جاتا ہے۔ اقتدار کے حریص اور حکومت سے بے نیاز رہنماؤں میں یہ بنیادی فرق ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 جنوری تا 11 جنوری 2024