شیخ حسینہ کا جذبہ انتقام تعلیمی اداروں کی دہلیز پھلاند چکا

سو سے زائد طلبا کی موت اور یونیورسٹیوں میں فائرنگ تانا شاہی کی انتہا

دعوت انٹرنیشنل نیوز بیورو

کوٹہ سسٹم سے اشرافیہ کا سرکاری ملازمتوں پر قبضہ، معاشی عدم مساوات کا اہم ذریعہ
بھارت کے لیے کسی بھی ملک کی سرپرستی کے بجائے ملکی مفادات کے تحفظ پر توجہ ضروری
متنازع اور غیر مسابقتی انتخابات کے ذریعہ چوتھی مرتبہ اقتدار سنبھالنے کے چھ مہینے بعد ہی شیخ حسینہ کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں جس آسانی اور ریکنگ کے ذریعہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اسی قدر انہیں مشکلات کا سامنا بھی ہے۔ بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کو ختم کرنے کے مطالبات پر طلبا کی قیادت میں ملک بھر میں احتجاج ہو رہے ہیں۔ڈھاکہ یونیورسٹی سے لے کر رقیہ بیگم یونیورسٹی اور ملک کے کئی پرائیوٹ تعلیمی ادارے مکمل طور پر میدان جنگ میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔تعلیمی اداروں کے کیمپس میں گولیاں چلنے کی آوازیں آرہی ہیں۔اقتدار اور طاقت کے نشے میں چور شیخ حسینہ کی سیاسی جماعت عوامی لیگ کے غنڈے پولیس کے ساتھ مل کر احتجاج کرنے والے طلبا پر حملے کر رہے ہیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق اب تک سو سے زائد طلبا کی موت ہوچکی ہے اور ہزاروں طلبا زخمی ہیں۔
بتادیں کہ ان مظاہروں کی جڑیں اپریل 2018 سے جڑتی ہیں۔بنگلہ دیش کے انتخابات سے قبل جب طلبا سرکاری ملازمتوں میں تحفظات کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تو اس وقت وزیر اعظم حسینہ نے طلبا کے احتجاج اور ناراضگی کے دیکھتے ہوئے اس پورے نظام کو ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔جب کہ احتجاج کرنے والے طلبا مکمل طور پر کوٹہ سسٹم ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ صرف اس میں اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سال جون میں بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ نے کوٹہ سسٹم کو بحال کردیا اور اس کے بعد سے ہی طلبا نے ایک بار پھر مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ حسینہ کا رخ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ پہلے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی رائے طلب کی گئی ہے اور کہا کہ اس وقت تک وہ کچھ نہیں کرسکتیں جب تک سپریم کورٹ اپنی کوئی رائے نہیں دیتی۔ دوسرے وہ کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا اور ان کے حامیوں کو اپوزیشن جماعتوں کا ایجنٹ اور بنگلہ دیش مخالف قرار دیتے ہوئے انہیں کچلنے کی کوشش کررہی ہیں۔ 14 جولائی کو حسینہ کا یہ تبصرہ کہ مظاہرین کا تعلق رضاکاروں کے خاندان سے ہے، مظاہرین آزادی پسندوں سے اتنی ناراضگی کیوں رکھتے ہیں؟ اگر آزادی پسندوں کے پوتوں کو کوٹہ کا فائدہ نہیں ملے گا تو کیا رضاکاروں کے پوتوں کو ملے گا؟ اس کے بعد سے ہی بنگلہ دیش بھر میں احتجاج میں شدت آگئی ہے اور اب تک سو سے زائد طلبا کی موت ہوچکی ہے۔ ان میں کئی ایسے طلبا کو گولی ماری گئی جن کا تعلق ان مظاہروں سے نہیں تھا۔ 1971 کی جنگ میں پاکستان کی تقسیم کی مخالفت کرنے والوں کو رضاکار اور اس کی حمایت کرنے والوں کو آزادی پسند کہا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمن نے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ آج سے سب ایک ہیں چاہے انہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کی حمایت کی ہے یا مخالفت، اور انہوں نے عام معافی کا اعلان کردیا تھا۔ مگر حسینہ کا 16 سالہ دور اقتدار انتقام اور مخالفین کو کچلنے سے عبارت ہے۔ انہوں نے عدالتی نظام کو ہائی جیک کر کے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے بزرگ اراکین سے جیلیں بھر دیں ۔کئی رہنماؤں کو پھانسی کے پھندے تک پہنچادیا اور کئی رہنما جیل میں ہی جام شہادت نوش کر گئے۔ گزشتہ چار انتخابات بنگلہ دیش کے انتہائی متنازع انتخابات رہے ہیں بلکہ ان کو انتخابات کا نام دینا بھی توہین ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش کی عدالت، میڈیا، سیول سوسائٹی اور ایگزیکٹیوز مکمل طور پر حسینہ کے دباؤ میں ہیں۔کسی کو بھی اپنی مرضی سے جنبش تک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمت میں 56 فیصد سیٹیں محفوظ ہیں جن میں 30 فیصد 1971 کی تحریک آزادی میں لینے والے مجاہدین کی اولاد اور پوتے پوتیوں کے لیے مخصوص ہیں۔اس کے علاوہ خواتین، اقلیت ’’پسماندہ اضلاع‘‘ کے باشندے اور معذور افراد کے لیے سیٹیں محفوظ ہیں۔بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مجاہدین آزادی کے خاندان کو ملازمت میں ریزرویشن دینے کی پورے ملک میں حمایت کی گئی تھی مگر پچاس سال بعد مجاہدین آزادی کے پوتے، پوتیوں کے لیے ریزیرویشن نے بنگلہ دیش میں اشرافیہ کا ایک ایسا طبقہ پیدا کر دیا ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں میں احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔ ولسن سنٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین بتاتے ہیں کہ یہ صرف غریبوں کی قیادت میں نچلی سطح کے مظاہروں کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ یونیورسٹی کے طلبا ہیں جن میں سے اکثر کام کرنے والے طبقے سے اوپر ہیں.
حقیقت یہ ہے کہ آپ کے پاس بہت سارے طلبا ہیں جو بہت غصے میں ہیں اور نوکریوں کی تلاش میں مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ انتہائی غریب نہ ہوں، لیکن پھر بھی انہیں اچھی اور مستحکم ملازمتوں کی ضرورت ہے۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق، بنگلہ دیش کے 170 ملین افراد میں سے تقریباً 67 فیصد کی عمریں 15-64 سال ہیں اور ایک چوتھائی سے زیادہ کی عمریں 15 اور 29 سال ہیں۔اس لحاظ سے کام کرنے والوں کی عمر کی ایک قابل ذکر آبادی ہے۔ کینیڈا کی ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن میں تحقیق اور حکمت عملی کی نائب صدر نادی حبیب اللہ کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیائی ملک کو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل افراد کے لیے ملازمت کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ 30 فیصد کوٹہ اس گروپ کو متاثر کرتا ہے۔ اگرچہ اس میں کسی حدتک سچائی ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بنگلہ دیش کی معیشت میں اوسطاً 6.25 فیصد سالانہ ترقی ہوئی ہے۔ غربت 2010 میں 11.8 فیصد سے کم ہو کر 2022 میں 5 فیصد رہ گئی ہے۔ فی کس مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے لحاظ سے اپنے بہت بڑے پڑوسی ہندوستان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔بنگلہ دیش نے اپنے انسانی ترقی کے نتائج میں بھی نمایاں بہتری دیکھی ہے اور اس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی سب سے کم ترقی یافتہ اقوام کی فہرست سے 2026 میں گریجویٹ ہونے کے راستے پر ہے۔ تاہم ناد ی جیب اللہ کہتے ہیں کہ ان کامیابیوں کے باوجود ابھی بھی بہت زیادہ عدم مساوات اور غربت ہے جس میں کم از کم 37.7 ملین افراد کو مبینہ طور پر گزشتہ سال خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ COVID-19 وبائی مرض کے پیچیدہ اثرات، روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازع اور عالمی اقتصادی چیلنجوں نے بنگلہ دیش کی معیشت کے توازن کو بگاڑ دیا ہے۔بنگلہ دیش کے غیر ملکی ذخائر جو 2019 سے قبل تقریباً 42 بلین ڈالر تھے، اس میں کمی دیکھی گئی ہے، جو اس وقت تقریباً 26.5 بلین ڈالر کے قریب ہیں۔ جون تک افراط زر کی شرح 9 .7 فیصد کے قریب تھی۔ مزید یہ کہ 2024 میں اب تک تقریباً ہر ماہ بد عنوان سرکاری اہلکاروں کی کارستانی میڈیا میں بے نقاب ہو رہی ہے ہے، ان کے ملین ڈالر کے اثاثوں کے ثبوت ہیں۔ اس کا آغاز ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل آف پولیس بے نظیر احمد کے کالے دھن اور وسیع اثاثوں کے انکشافات سے ہوا۔ خود حسینہ نے چند روز قبل ایک پریس بریفنگ کے دوران اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ان کے ایک معاون نے غیر قانونی طور پر 4 بلین بنگلہ دیشی ٹکا ($ 34 ملین) جمع کیے ہیں۔ بعد میں اسے ملازمت سے برخاست کر دیا گیا تھا۔
قرضوں میں اضافے کی وجہ سے بنگلہ دیش میں معاشی چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے۔ حسینہ نے بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں کی مالی اعانت کے لیے خاطر خواہ قرض لیا ہے، جس کا ایک اہم حصہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ذریعے چین کی طرف سے فراہم کیا گیا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد اقتصادی ترقی کو تیز کرنا ہے مگر اس کے ساتھ ہی سود کی ادئیگی کا بوجھ بہت حد تک بڑھ گیا ہے۔ 2024 تک بنگلہ دیش کا قرض جی ڈی پی کا 36.4 تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔اس مالیاتی دباؤ کے اثرات عام لوگوں کی زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں۔نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح اپنی سب سے بلند سطح پر ہے، اس کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔ بڑے پیمانے پر سرکاری دفاتر میں آسامیاں خالی ہیں اور جان بوجھ کر انہیں پُر نہیں کیا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کو چین اور بھارت کے درمیان تعلقات میں توازن قائم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔گزشتہ ہفتے حسینہ نے چین کا دورہ کیا اور اس سے قبل وہ جون میں بھارت کا یکے بعد دیگرے دو دورے کر چکی ہیں۔حسینہ کے حالیہ دورہ چین سے متوقع مالی مدد حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ حسینہ کو امید تھی کہ معیشت کو تقویت دینے کے لیے $5 بلین کا قرض حاصل کیا جائے گا۔ اس کے بجائے چین نے ایک بلین یوآن کی مالی امداد فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی جو کہ تقریباً 137 ملین ڈالر بنتی ہے۔ یہ رقم دورے سے پہلے رکھی گئی توقعات سے کم ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بنگلہ دیش کو متعدد محاذوں پر دباؤ کا سامنا ہے۔ مغربی اقوام بالخصوص امریکہ نے حالیہ انتخابات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جمہوری عمل کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کی وجہ سے ممکنہ پابندیوں سے متعلق خبریں عام ہو رہی ہیں جو ملک کو اقتصادی اور سفارتی طور پر مزید تنہا کر سکتی ہے۔ پانی کی تقسیم اور بارڈر مینجمنٹ کے مسائل پر بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ روہنگیا بحران بھی بنگلہ دیش کے لیے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔جیسے جیسے مہنگائی بڑھ رہی ہے اور معاشی حالات خراب ہو رہے ہیں، عوامی عدم اطمینان بھی بڑھ رہا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ مسلسل بدعنوانی، معاشی کساد بازاری اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے نوجوانوں میں پیدا ہونے والے غم و غصہ پر حسینہ کس طرح قابو پائیں گی۔ فوج کے ذریعہ کریک ڈاؤن کرواکے وہ مخالفت کی آواز کو دباکر مزید کتنے سالوں تک اقتدار میں رہ سکیں گی۔گزشتہ ایک دہائی سے اپوزیشن جماعتوں اور اختلافی آوازوں کے خلاف کریک ڈاون جاری ہے اور ایک بار پھر اس میں تیزی آگئی ہے۔ مرکزی اپوزیشن جماعت، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کے متعدد رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے یا انہیں قانونی چیلنجز کا سامنا ہے، جس سے ان کی متحرک ہونے اور مہم چلانے کی صلاحیت محدود ہو گئی ہے۔حکومت کا دباؤ صحافیوں اور سیول سوسائٹی کے عام کارکنان تک بھی پھیلا ہوا ہے۔ سنسرشپ اور ہراساں کیے جانے کی اطلاعات بھی آرہی ہیں۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بنگلہ دیش میں طلبا تحریک کی تاریخ رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں طلبا کے احتجاج نے تاریخی طور پر 1952 کی زبان کی تحریک سے لے کر بعد کی دہائیوں کی جمہوریت نواز تحریکوں اور 1971 میں ملک کی آزادی تک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان مظاہروں نے ہی رائے عامہ کو متحرک کیا، حکومتوں پر دباؤ ڈالا اور اصلاحات کو متحرک کیا۔ اگر کوٹہ سسٹم اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف طلبا کی قیادت میں تحریک جاری رہتی ہے تو مستقبل قریب میں تبدیلی کی ہوا چل سکتی ہے۔
بنگلہ دیش کے موجودہ حالات بھارت کے لیے ایک اہم سبق ہیں۔ زیادہ دنوں تک حسینہ کی سرپرستی بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اشرافیہ کے طبقے کو چھوڑ کر بنگلہ دیش کے عام لوگوں میں یہ تاثر قائم ہوگیا ہے کہ حسینہ کا طویل اقتدار بھارت کی سرپرستی کا نتیجہ ہے۔ امریکہ نے بھارت کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حسینہ کو یک طرفہ انتخابات کرانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ چنانچہ حسینہ کی ہر ایک سیاسی و معاشی غلطی کے لیے بھارت کو ہی ذمہ دار ٹھیرایا جا رہا ہے۔ جنوری میں بھارت کی اشیاء کے بائیکاٹ کی تحریک نے بھارتی تاجروں کو متاثر کیا ہے۔ چین اور پاکستان کے بعد بھارت بنگلہ دیش کے عوام کی دشمنی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے حسینہ کی سرپرستی کے بجائے بھارت کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جولائی تا 03 اگست 2024