شہر دہلی :تاریخی، معاشرتی اور سیاسی تناظر میں

مسلمانوں کے تعلیمی، معاشی اور سماجی شعور میں اضافہ لیکن سیاسی وزن میں کمی

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

دارالحکومت دہلی تاریخی اعتبار سے ہندوستان کا ایک قدیم سیاسی مرکز رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ویدک دور میں دہلی کوسنسکرت زبان میں اندرا پرستھ کہا جاتا تھا، جس کا مطلب "بھگوان اندر کا شہر” ہے۔یہ افسانوی قدیم شہر پانچ ہزار سال پہلے قائم ہوا تھا جو کھنڈوا جنگل میں ایک ہند آریائی شہر کورو بادشاہی کے طور پر دارالحکومت رہا۔ دہلی کی تاریخ 8ویں صدی میں تومر کی بادشاہت کے آغاز سے ہوتاہے ۔اس کے بعد دہلی طاقتور سلطنتوں اور ان کی جانشینی کا مرکز رہا ہے جس نے اس شہر کو سب سے طویل عرصے تک چلنے والے دارالحکومتوں میں سے ایک اور دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں سے ایک بنا دیا۔ اس شہر کو کئی دفعہ تعمیر، تباہ اور دوبارہ تعمیر کیا جانے والا شہر جاناجاتا ہے۔736 ہجری بمطابق 1366عیسویں،ابن بطوطہ شہر دہلی کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ قصبہ پالم جو ایک بہت بڑے معزز اور مقرب و مشیر سلطان رئیس سید شریف ناصر الدین مطہری کی جاگیر میں تھا، وہاں سے روانہ ہو کے دوسرے روز خاص دارالخلافہ دہلی میں داخل ہوا۔ یہ ایک بڑا عظیم الشان شہر ہے۔ آبادی بہت زیادہ ہے، مضبوطی اور خوبصورتی دونوں اعتبار سے بے مثل اور لاجواب ہے۔ جیسی مضبوط شہرِ پناہ دہلی کے گرد بنی ہوئی ہے ویسی عمدہ اور مستحکم شہرِ پناہ دنیا کے کسی شہر میں نہیں ہے۔ تمام بلاد ہندوستان ہی پر نہیں بلکہ ساری مشرقی دنیائے اسلام کے شہروں پر دہلی کو ترجیح ہے۔ فی الحال دہلی چار مختلف شہروں پر تقسیم ہے جو قریب قریب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ وہ حصہ جو خاص دہلی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، وہ تو وہ ٹکڑا ہے جو قدیم شہر ہے اور ہندوؤں کا آباد کیا ہوا ہے جس کو 584 ہجری بمطابق 1188عیسوی میں مسلمانوں نے فتح کیا تھا۔دوسرا حصہ شہر جسے سیری کہتے ہیں، وہی دارالخلافہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے جو پیشتر سلطان علاء الدین اور اس کے بیٹے قطب الدین کا مستقر خلافت تھا۔تیسرا شہر تغلق آباد کہلاتا ہے جس کو سلطان محمد تغلق جس کے عہد میں مجھے ہندوستان کی زیارت نصیب ہوئی اس کے والد مرحوم سلطان غیاث الدین تغلق نے آباد کیا تھا۔اور چوتھا شہر جہاں پناہ کے نام سے نامزد ہے اور سلطان عصر سلطان محمد تغلق اس شہر میں رہتا ہے۔
1206 سے 1526 تک ہندوستان پر حکومت کرنے والی کئی حکومتوں کو مشترکہ طور پر دہلی سلطنت کہا جاتا ہے۔ ترک اور پشتون نسل کی ان حکومتوں میں خاندان غلاماں (1206تا 1290) خلجی خاندان (1290تا 1320) تغلق خاندان (1320تا 1413) سید خاندان (1414تا 1451) اور لودھی خاندان (1451تا 1526) کی حکومتیں شامل ہیں۔ 1526 میں دہلی کی آخری سلطنت مغلیہ سلطنت میں ضم ہو گئی۔مغلوں نے اس علاقے پر تین صدیوں تک حکومت کی۔ 16ویں صدی کے دوران یہ شہر زوال پذیر ہوا کیونکہ مغل دارالحکومت کو منتقل کیا گیا۔ پانچویں مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے دہلی کے اندر چار دیواری والا شہر شاہجہان آباد تعمیر کیا اور اس کے نشانات لال قلعہ اور جامع مسجد ہیں۔اس کے جانشین اورنگ زیب کی موت کے بعد، مغلیہ سلطنت کئی بغاوتوں سے دوچار ہوئی۔ انہوں نے مراٹھوں، سکھوں اور سابقہ مغل صوبوں جیسے بنگال، اودھ اور حیدرآباد کے بہت سے گورنروں سے بڑے حصے کھوئے۔ دلی کو نادر شاہ نے برطرف کر کے لوٹا تھا۔ جاٹوں نے دہلی کے جنوب میں مغلوں کے مرکز کے بہت سے اہم شہروں پر قبضہ کر لیا۔ مرہٹوں نے 1757 میں دہلی کی لڑائی میں دہلی پر قبضہ کیا اور 1803 تک اس پر قابض رہے۔ دوسری اینگلو مراٹھا جنگ کے دوران جب شکست تو 1803 میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی پر قبضہ کر لیا۔ہندوستان میں کمپنی کی حکم رانی کے دوران مغل شہنشاہ بہادر شاہ دوم کو محض ایک شخصیت کے طور پر کم کر دیا گیا۔ 1857 کے ہندوستانی بغاوت نے کمپنی کی حکم رانی کو ختم کرنے کی کوشش کی اور بہادر شاہ دوم کو ہندوستان کا شہنشاہ قرار دیا۔ تاہم، انگریزوں نے جلد ہی دہلی اور اس کے دیگر علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور یہیں سے ہندوستان میں براہ راست برطانوی راج کا آغاز ہوا۔ 1911 میں برطانوی ہندوستان کے دار الحکومت کو کلکتہ سے نئی دہلی منتقل کر دیا گیا جو دہلی کا آخری اندرونی شہر ہے جسے ایڈون لیوٹینز نے ڈیزائن کیا تھا۔انگریزوں سے آزادی کے بعد نئی دہلی نو تشکیل شدہ جمہوریہ ہند کا دارالحکومت بن گیا جس سے دنیا آج ہندوستان کے دارالحکومت کی حیثیت سے متعارف ہے۔
آزاد بھارت کا شہر دہلی:
نئی دہلی جو موجودہ ہندوستان کا دارالحکومت ہے درحقیقت اس کا آغاز 1947 میں ہوا۔ ایک تکلیف دہ یاد کے ساتھ جس میں بے شمار مسلمان دہلی سے پاکستان منتقل ہوگئے اور ادھر پاکستان سے آنے والے مہاجرین میں ہندوؤں اور سکھوں یا پنجابی برادری پر مشتمل آبادی دہلی میں منتقل ہوگئی۔ موجودہ دہلی کے بڑا حصہ پناہ گزین کیمپوں سے پروان چڑھا ۔سنہ 1956 تک دہلی کی شمالی حدود میں توسیع ہوئی۔ ہندوستانی حکومت نے 1951 کی دہلی مردم شماری کے مطابق پناہ گزینوں کو مستقل طور پر آباد کرنے کے لیے وزرات ریلیف اور بحالی کو دو ہزار ایکڑ زمین الاٹ کی ۔1950 کی دہائی کے وسط تک مہاجرین لودھی کالونی کے خالی فلیٹوں میں چلے گئے اور نظام الدین اور جنگ پورہ کے دیہات کے آس پاس گھر بنانے شروع کیے۔لوٹینز کی دہلی میں بھی تبدیلی نظر آئی اور1951 میں خان مارکیٹ کا آغاز ہوا جہاں گراؤنڈ فلور پر موجود دکانیں اور اوپر کے فلیٹ سب مہاجرین کی ملکیت تھے۔ 1956 تک جنوبی دہلی میں لاجپت نگر اور ڈیفنس کالونی جیسی آبادیاں قائم ہوئیں لیکن باقی حصہ جو آج جنوبی دہلی کی شکل میں ہے وہ نقشے پر ابھی تک نہیں تھا۔ دور جنوب میں مالویہ نگر کو چھوڑ کر، جہاں صنعتوں کے لیے زمین مختص کی گئی تھی، 1956 کی جنوبی دہلی اب بھی زیادہ تر دیہاتوں، خالی پڑے کھیتوں، وقف کی زمینوں اور مقبروں پر مشتمل تھی۔ مغربی دہلی میں زمین 1947 کے بعد پناہ گزینوں کو الاٹ کی گئی تھی۔ یہ پناہ گزین کالونیاں جو درمیان میں ایک پارک کے ساتھ یو کی شکل (U-shaped with a park in the middle) اختیار کی تھیں، بعد کے محلوں کے لیے نمونہ بن گئیں، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ انہی شہری منصوبہ سازوں نے تعمیر کی تھیں جنہوں نے 50 اور 60 کی دہائیوں میں دہلی کو تشکیل دیا تھا۔ یہ راجندر نگر، ویسٹ پٹیل نگر، موتی نگر، راجوری گارڈنز کی ابتدا تھی جو پنجابی محلوں پر منحصر تھیں۔آزادی کے ایک دہائی بعد دہلی ایک مختلف شہر تھا۔ جنگلات اور زرعی کھیتوں نے رہائشی مضافاتی علاقوں، تجارتی منڈیوں اور صنعتی علاقوں کو راستہ دینا شروع کر دیا۔ آبادی دوگنی ہو گئی: مردم شماری کے مطابق، ایک ایسا اضافہ جو اس کے بعد سے نہیں دیکھا گیا۔ لیکن آبادی میں مسلمانوں کا حصہ 33 فیصد سے گھٹ کر 6 فیصد سے بھی کم ہو گیا۔وہ شہر جو کبھی مغلوں کا شہر تھا، بعد میں برطانوی شہر بنا لیکن 1950 کی دہائی تک یہ شہر پنجابی شہر بن گیا تھا۔ مؤرخ وی این دتا کہتے ہیں کہ دہلی کی صفتیں بدل گئیں، جو کبھی باوقار ادبی شان اور دلکش و پر کشش شہر تھا وہ اب کاروباری شہر بن گیا، دہلی کا نقشہ ہی بدل گیا۔
دہلی میں بڑھتی آبادی کے اعداد و شمار:
سنہ 1950 میں دہلی کی آبادی 13 لاکھ 69 ہزار تھی، 1960میں 22 لاکھ 83 ہزار، 1970میں 35 لاکھ 31 ہزار، 1980میں 55 لاکھ 87 ہزار، 1990میں 93 لاکھ 84 ہزار، سنہ2000میں ایک کروڑ 56 لاکھ، 2010 میں دو کروڑ 98 لاکھ، 2020 میں تین کروڑ دو لاکھ اور آج سنہ 2024 میں دہلی کی آبادی تین کروڑ 38 لاکھ ہوگئی ہے۔ آج دہلی ایک بڑے رقبے پر محیط ہے جس کا کل رقبہ 1,484 مربع کلومیٹر ہے۔ شہر کی آبادی کی کثافت 29,259.12 افراد فی مربع میل ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ شہر میں 80.21 فیصد ہندو مذہب کے پیروکار ہیں، 12.78 فیصد مسلمان، 0.96 عیسائی، 1.39 فیصد جین، 4.43 فیصد سکھ، 0.12 فیصد بدھسٹ، تقریباً 0.02 فیصد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں اور 0.08 ایسے ہیں جو کوئی خاص مذہب نہیں رکھتے یعنی وہ مذہب کے قائل نہیں ہیں۔ شہر کی شرح خواندگی 86 فیصد ہے ۔ہندی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے جو 81 فیصد ہے۔ اس کے بعد پنجابی سات فیصد اور اردو چھ فیصد ہے۔
دہلی کے فسادات:
آزادی سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ہندوستان میں فسادات کی ایک افسوسناک داستان ہے جس سے بے شمار بے گناہوں کی تکلیف دہ داستانیں وابستہ ہیں۔وہیں دارالحکومت دلی میں بھی یہ فسادات وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں۔پرانی دلی میں 9؍ مارچ 1966 کے فسادات، 31؍ اکتوبر 1984کے فسادات، 19 تا 22مئی 1987 کے فسادات، 10؍ دسمبر 1992 فسادات، 25؍ اگست2017 کے فسادات اور 23؍ فروری تا یکم مارچ 2020 تک ہونے والے شمالی دہلی کے فسادات۔ اور یہ فسادات کا سلسلہ پورے ملک میں مستقل طور پر جاری رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کبھی اس قدر خوفناک اور بڑے فسادات ہوجاتے ہیں کہ میڈیا کو انہیں رپورٹ کرنا ضروری ہوجاتا ہے ۔برخلاف اس کے چھوٹے اور نہ رپورٹ کیے جانے والے فسادات مستقل جاری ہیں۔ جن میں بے شمار جانیں ہلاک ہوتی ہیں۔مالی نقصانات ہوتے ہیں۔ گھر، خاندان اور فرد سبھی متاثر ہوتے ہیں ۔اس کے باوجود یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ شمال مشرقی دہلی فسادات کے موقع پر اقلیتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سنہ 1931 کے کانپور کے فسادات سے سنہ 2020 کے دہلی فسادات تک 89 برسوں میں کچھ بھی نہیں بدلا۔یعنی یہ فسادات جاری ہیں اور حکومتیں و لا اینڈ آرڈر سے وابستہ ادارے خاموش ہیں۔یاد کیجیے جب کانگریس رہنما بھگوان داس ٹنڈن نے سنہ 1931 میں لکھا تھا کہ ’کانپور فسادات تو اس ناسور کا شدید ترین مظاہرہ تھا جو گزشتہ دس بارہ برسوں سے بہت تیزی سے پنپ رہا تھا، جس کے جراثیم ہندوستان کی سیاست نے کم سے کم چند نسل پہلے چھوڑے تھے۔‘وہیں دہلی فسادات پر تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے دیباچے میں لکھا گیا ہے کہ ’دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں 23؍ فروری 2020 کو جو پرتشدد واقعات ہوئے اور کئی دنوں تک بلا روک ٹوک جاری رہے وہ بظاہر مسلمانوں کو، جنہوں نے سی اے اے کی مخالفت کی تھی، باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سبق سکھانے کے لیے کیے گئے تھے‘۔
شہر دلی کے اہم مسائل:
دلی میں چونکہ رقبہ کے لحاظ سے آبادی کا تناسب کافی زیادہ ہوچکا ہے۔ اس لحاظ سے یہاں کے مسائل بھی پہلے کے مقابلے اب کچھ مختلف ہیں۔ ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ i) زیادہ آبادی کی کثافت ہے۔ ii)انفراسٹرکچر پر دباؤبھی اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ iii) ہوا کے آلودہ ہونے کی شرح اور اس کے نتیجہ میں صحت کے مسائل ۔iv)جرائم اور عدم برداشت کا مسئلہ۔v) خواتین کی حفاظت vi) بڑھتی ہوئی پانی کی قلت vii) اور سڑکوں اور عمارتوں کی ناقص منصوبہ بندی جیسے مسائل حکومتوں اور عوام کے سامنے موجود ہیں۔ان مسائل کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے جو اگرچہ شہر میں بسی ہوئی آبادی کے علاوہ معاش کی تلاش میں اطراف دہلی اور ملک کی دیگر ریاستوں سے منتقل ہونے والے افراد پر منحصر ہے۔ان میں خصوصیت کے ساتھ اتر پردیش، بہار، بنگال، پنجاب، ہریانہ اور دیگر شمالی و جنوبی ہند کی ریاستیں ہیں ۔دوسری جانب پچھلے دس سالوں سے فضائی آلودگی میں اضافہ دلی کا ایک سلگتا ہوا اہم ترین مسئلہ بن چکا ہے۔ سی پی سی بی (مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈCPCB) کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 2023 میں دیوالی کے موقع پر AQI انڈیکس بڑھ کے 312 سے لے کر 488 تک ہوگیا تھا ۔وہیں دیوالی کے ہی موقع پر 2019 یہ AQI انڈیکس 999 تک پہنچ گیا تھا۔نتیجہ میں سانس کی خرابی، آنکھوں میں جلن، سانس لینے میں دشواری اور بڑی عمر کے لوگوں اور پھیپڑوں کی بیماریوں میں ملوث افراد کے لیے یہ حالات سنگین بنتے جارہے ہیں۔
دلی کی سیاسی زمین:
دلی کا وزیر اعلیٰ دلی کی حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ ہندوستان کے آئین کے مطابق، لیفٹننٹ گورنر دلی کا، جو قومی دارالحکومت علاقہ ہے، لیکن ڈی فیکٹو ایگزیکٹو اتھارٹی چیف منسٹر کے پاس ہے۔ دہلی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے بعد، لیفٹیننٹ گورنر عام طور پر اکثریت والی پارٹی کو حکومت بنانے کے لیے مدعو کرتا ہے اور صدر ہند، لیفٹننٹ گورنر کے مشورے پر وزیر اعلیٰ کا تقرر کرتا ہے۔ چودھری برہم پرکاش17؍ مارچ 1952 سے 12؍ فروری 1955 تک دلی کے پہلے چیف منسٹر رہے۔ ان کا تعلق انڈین نیشنل کانگریس پارٹی تھا۔اس کے بعد کانگریس کے گرمکھ نہال سنگھ 1955 سے 1956 تک دلی کے چیف منسٹر رہے۔ اس کے بعد 1956 سے 1993 تک تقریباً 38طسال دلی میں صدارتی راج رہا۔ 1993 سے 1996 تک بی جے پی کے مدن لال کھرانا دلی کے چیف منسٹر رہے۔1996سے 1998تک بی جے پی کے ہی صاحب سنگھ ورم دلی کے چیف منسٹر رہے۔12؍ اکتوبر 1998 سے 3؍ دسمبر 1998 تک بی جے پی کی سشما سوراج دلی کی چیف منسٹر رہیں اور اس کے بعد سب سے طویل عرصے تک رہنے والی کانگریس کی وزیر اعلیٰ شیلا دکشت 13؍ دسمبر 1998 سے 28؍ دسمبر 2013 تک رہیں۔ 28 دسمبر 2013 کو، عام آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال نے دلی کے وزیر اعلی کے طور پر حلف لیا اور آج تک موجود ہیں، اس درمیان میں 14؍ فروری 2014 تا 14؍ فروری 2015بتک صدارتی راج بھی نافذ رہا۔
فی الوقت دلی کی ساتوں لوک سبھا سیٹیں بی جے پی کے قبضے میں ہیں۔لیکن اسے 1998 کے بعد سے اب تک دہلی کی ریاستی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ یعنی گزشتہ 26 سال سے وہ دلی کی ریاستی حکومت سے محروم ہے، جبکہ 2014 سے بی جے پی کی مرکز میں حکومت ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی دیگر ریاستوں میں راست یا بلاواسطہ اس کی حکومتیں موجود رہی ہیں۔ اس کے باوجود 26 سال سے دلی کی ریاستی اسمبلی میں ناکامی اس کی انا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برسر اقتدار عام آدمی پارٹی کے چیف منسٹر اروند کیجریوال کو جیل بھیج دیا گیا۔ لیکن اب 4؍ مئی 2024 کو ایک طویل عدالتی بحث و مباحثہ کے بعد ایک بار پھر اروند کیجریوال جیل سے باہر آچکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے جیل سے باہر آنے کے بعد لوک سبھا انتخابات 2024 کے باقی مرحلوں میں اس کے اثرات دیکھنے میں آئیں گے۔ ساتھ ہی دہلی کی سات لوک سبھا سیٹوں پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن مسلمان جو اس ملک میں مثبت کردار ادا کرنے والا گروہ اور ایک بلند پایہ ہستی کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے والی امت بھی ہے، اسے دیکھنا چاہیے کہ یہی وہ ملک تھا اور یہی وہ شہر تھا جہاں ایک زمانے میں اس کی ساکھ اور دبدبہ تھا وہ آج کیوں ختم ہوتا جا رہا ہے؟ حالانکہ تعلیمی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی شعور میں مسلمان پہلے کے مقابلے میں زیادہ پختہ ہوا ہے لیکن کیا بات ہے کہ وہی مسلمان اب ہندوستان میں اپنی حیثیت کھوتا جا رہا ہے!!
[email protected]

 

***

 فی الوقت دلی کی ساتوں لوک سبھا سیٹیں بی جے پی کے قبضے میں ہیں۔لیکن اسے 1998 کے بعد سے اب تک دہلی کی ریاستی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ یعنی گزشتہ 26 سال سے وہ دلی کی ریاستی حکومت سے محروم ہے، جبکہ 2014 سے بی جے پی کی مرکز میں حکومت ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی دیگر ریاستوں میں راست یا بلاواسطہ اس کی حکومتیں موجود رہی ہیں۔ اس کے باوجود 26 سال سے دلی کی ریاستی اسمبلی میں ناکامی اس کی انا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برسر اقتدار عام آدمی پارٹی کے چیف منسٹر اروند کیجریوال کو جیل بھیج دیا گیا۔ لیکن اب 4؍ مئی 2024 کو ایک طویل عدالتی بحث و مباحثہ کے بعد ایک بار پھر اروند کیجریوال جیل سے باہر آچکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے جیل سے باہر آنے کے بعد لوک سبھا انتخابات 2024 کے باقی مرحلوں میں اس کے اثرات دیکھنے میں آئیں گے۔ ساتھ ہی دہلی کی سات لوک سبھا سیٹوں پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 مئی تا 25 مئی 2024