شہادت حضرت امام حسینؓ کا پیغامِ

امّت کو باہمی اختلاف سے بالاتر ہوکر نظامِ حق کے لیے کام کرنے کی ضرورت

جلیل الرحمن ندوی، غازی آباد

ماہِ محرم اسلامی ہجری سال کا پہلا مہینہ ہے۔ دنیا کی دیگر اقوام اپنے نئے سال کا آغاز خوشیاں مناتے ہوئے کرتی ہیں جبکہ اسلامی کیلنڈر مسلمانوں کو تاریخ اسلام کے ایک اہم ترین باب ہجرت کی یاد دلاتا ہے۔ اسی طرح محرم کی دسویں تاریخ کو یومِ عاشورہ کہا جاتا ہے کیونکہ گزشتہ انبیائے کرام کی تاریخ میں اسی دن اللہ کی نصرت کے کچھ واقعات رونما ہوئے تھے۔ اس دن کے روزے کی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ بلکہ ایک روایت میں یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے دو روزوں، یعنی نویں اور دسویں کے روزوں کی ترغیب دی گئی ہے۔ اب اس کو بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی کہا جا سکتا ہے کہ اسی خاص تاریخ یعنی دسویں محرم کو حضرت امام حسینؓ اور ان کے پورے خانوادے کی شہادت کا اسلامی تاریخ کا نہایت اندوہناک واقعہ بھی پیش آیا جس کی وجہ سے ملتِ اسلامیہ کا ایک گروہ ہر سال یکم محرم سے دس محرم تک سیاہ لباس پہن کر اور دس محرم کو اجتماعی طریقے سے ماتم اور سینہ کوبی کرکے اپنے قلبی کرب اور غم کا اظہار کرتا ہے۔ اس سوگ اور ماتم کے عمل کو دیکھنے والوں کو جب معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کوئی پیشوا اب سے تقریباً چودہ سو سال قبل نہایت بے رحمی کے ساتھ اپنے پورے خانوادے کے ساتھ نام نہاد مسلمانوں ہی کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا تھا، جس کی یاد میں یہ لوگ ماتم کر رہے ہیں، تو سننے والوں کو حیرت واستعجاب ہوتا ہے کہ چودہ سو سال سے ابھی تک یہ لوگ اپنا غم نہیں بھولے، اور اب چودہ سو سال کے بعد اس طرح سوگ منانے اور ماتم کرنے سے شہید ہونے والوں کو کیا حاصل ہوگا؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر عاقل انسان کے ذہن میں خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، ابھرنا لازمی ہے۔ لہٰذا اگر ہم اس شہادت کو صرف ایک خاندانی یا نسلی مسئلہ بناکر پیش کریں گے تو اس سوال کا کوئی معقول جواب ہمارے پاس نہیں ہوگا کیونکہ اس دنیا میں بڑے بڑے خاندانی، قبیلوی، قومی اور وطنی تنازعات اور معرکہ آرائیاں ہوتی رہی ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب طاقِ نسیاں کے حوالے ہو جاتی ہیں۔ اس سوال کا کوئی صحیح جواب ہم صرف اسی وقت دے سکتے ہیں جب خود بھی تسلیم کریں کہ میدانِ کربلا کا یہ دردناک واقعہ کسی خاندانی، نسلی، قومی یا سیاسی کشمکش کے حدود سے بہت بالاتر تھا۔ یہ معرکہ یکسر حق اور باطل کے درمیان ایک مسلسل اور لامتناہی جنگ کا حصہ تھا جو واقعۂ کربلا کے بعد سے آج تک جاری ہے اور آگے بھی جاری رہے گا۔
جن لوگوں کے نزدیک دینِ اسلام دیگر مذاہب کی طرح یہ بھی ایک مذہب یا دھرم ہے ان کی سمجھ میں کبھی بھی حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا مقصد نہیں آسکتا۔ دینِ اسلام اللہ تعالیٰ کا تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا ہوا ایک مکمل اور آخری دین ہے جو دنیا کے تمام انسانوں کی دنیوی واخروی فلاح وکامرانی اور نجات کا ضامن ہے۔ وہ فرد کی انفرادی اصلاح وتقویٰ اور عبادات کے ساتھ انسانی معاشرے کے تمام معاشرتی، معاشی، سیاسی واجتماعی معاملات میں فلاح وترقی کے لیے مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ وہ انسانوں کے درمیان انسانوں ہی کے ایجاد کردہ تمام طبقاتی، نسلی، لونی، قومی اور وطنی امتیازات اور اونچ نیچ کی تمام بنیادوں کو منہدم کرکے انسانی مساوات اور عدل وانصاف کا علم بردار ہے، جس کے نتیجے میں اس کو ماننے والے اور اس کو اپنی ذات، معاشرے اور ملک پر نافذ کرنے والے اپنی دنیوی زندگی میں تو کامیاب اور امن وسلامتی سے ہم کنار ہوں گے ہی، اسی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد آنے والی ابدی اور اخروی زندگی میں بھی ان کا رب ان سے راضی ہوکر ان کو دوزخ سے نجات عطا فرمائے گا اور ان کے لیے اپنی تیار کردہ جنت میں ان کو ایسے انعامات واکرامات سے نوازے گا جن کا صحیح تصور ہم اس دنیا میں نہیں کر سکتے۔ اور یہ صرف کوئی کوئی نری فکر وفلسفہ نہیں ہے بلکہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ نے اپنے تیئیس سالہ دورِ نبوت میں اپنی رہنمائی کے ذریعے اس کو عملاً نافذ کرکے دکھایا۔ اور ان کے بعد آپ کے تربیت یافتہ خلفائے راشدین نے خلافتِ راشدہ علی منہاج النبوۃ یعنی نبی کے مکمل طریقے کے مطابق نظامِ حکومت قائم کرکے دنیا کے سامنے ایک مثالی حکومت کا عملی نمونہ پیش کیا جس کو تمام انصاف پسند غیر مسلم بھی ایک حقیقی عدل وانصاف پر مبنی حکومت تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ تحریکِ آزادی کے دوران ایک مرتبہ جب گاندھی جی سے سوال کیا گیا کہ آزادی کے بعد آپ ملک میں کیسی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے برملا جواب دیا تھا کہ ہندوستان کی تاریخ میں میرے سامنے کوئی ایسی حقیقی اور مثالی حکومت نہیں ہے کہ جس کے حوالے سے میں بات کر سکوں، لیکن عرب میں ابوبکرؓ اور عمرؓ کی ایک ایسی تاریخی اور واقعاتی حکومت تھی جس کو مثال کے طور پر میں پیش کرسکتا ہوں کہ ہم ایسی ہی عدل وانصاف والی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
مختصر یہ کہ دنیا کی تاریخ میں ایک ایسی مثالی اور اخلاقی اقدار پر مبنی حکومت کو پانچویں خلیفۂ راشد (جن کی خلافتِ راشدہ پر پوری امتِ مسلمہ کا اتفاق ہے) حضرت امام حسنؓ سے ایک جبریہ معاہدے اور صلح نامے کے ذریعے ان کی خلافت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ چونکہ یہ صلح نامہ اور معاہدہ بھی ایک صحابیِ رسول حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیانؓ کے ذریعے کیا گیا تھا، اس لیے امت کو باہمی خانہ جنگی سے بچانے کی خاطر حضرت امام حسنؓ نے ان پر اعتماد کیا کہ وہ اس صلح نامے کی پاسداری کریں گے اور اس صلح نامے کی دیگر شرائط کے ساتھ ایک اہم شرط یہ تھی کہ وہ اپنے بعد اپنا کوئی جانشین نامزد کرنے کے بجائے خلافتِ اسلامیہ کو دوبارہ امتِ مسلمہ کے حوالے کر دیں گے۔ لیکن افسوس کہ واقعتاً ایسا نہیں ہوا بلکہ انہوں نے اپنے بیس سالہ دورِ حکومت کے آخری ایام میں اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین بنانے کا اعلان کر دیا۔ اس دوران حضرت امام حسنؓ کی وفات ہوچکی تھی۔ چونکہ یہ صلح نامہ بڑے بھائی حضرت حسنؓ کے ذریعے کیا گیا تھا، اس لیے ان کے چھوٹے بھائی حضرت امام حسینؓ نے ناگواریِ خاطر کے ساتھ ہی ان کی زندگی میں مکمل خاموشی اور سکوت اختیار کیا۔ لیکن حضرت امیر معاویہ کے انتقال کے بعد جب صلح نامہ کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کا بیٹا یزید جبراً شہر دمشق (شام) میں منصبِ خلافت پر متمکن ہوگیا اور حضرت امام حسینؓ سے بھی اپنی بیعت لینے کے لیے دباو ڈالا گیا تو یہ منظر حضرت امام حسینؓ کے لیے بھی ناقابلِ برداشت تھا۔ تاریخی روایت یہ بھی ہے کہ خود حضرت معاویہ نے یزید کو مشورہ دیا تھا کہ اپنی حکومت کے استحکام کے لیے کسی بھی طریقے سے حضرت حسینؓ سے بیعت ضرور لے لینا لیکن حضرت امام حسینؓ نے دیکھا کہ اسلام میں جبریہ اور موروثی حکومت کی بنیاد رکھی جا رہی ہے اور بقول مولانا ابوالحسن علیؒ ندوی، حضرت امامؓ کی دور اندیش نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے اور اس کے دور رس کیا نتائج نکلنے والے ہیں۔ اور اگر حضرت امامؓ اس وقت راہِ عزیمت اختیار نہ کرتے تو شاید قیامت تک پھر کسی کو راہِ عزیمت اختیار کرنا ایک امرِ محال بن جاتا۔ (المرتضیٰ) کیونکہ حضرت امام حسینؓ کے نزدیک یہ کسی دنیوی بادشاہت وحکومت کی وراثت کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ اسلام جس جبریہ اور غاصبانہ امپیریلزم (ظالمانہ ملوکیت) اور مطلق العنانیت (ڈکٹیٹرشپ) سے اللہ کے بندوں کو آزاد کرانے کے لیے آیا تھا اور اللہ کے رسول اور خلفائے راشدینؓ نے جس کا عملی نمونہ پیش کیا تھا، اس کو ملیا میٹ کیا جا رہا تھا، یعنی وہ دینِ اسلام کو اسی طرح جانتے تھے جیسا کہ وہ فی الواقع ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اسلام صرف مسجد و مدرسے تک محدود دین نہیں ہے، بلکہ وہ عربی زبان کا ایک دین ہے جس کے معنی ہی مکمل نظامِ زندگی (Way of Life) ہیں۔ ان کی تقریریں اور بیانات ان کے اندرونی کرب واضطراب کی گواہی دیتے ہیں۔ ان کے بیانات میں ایک مشہور جملہ یہ تھا کہ ’’نانا جان کا لایا ہوا دین میری آنکھوں کے سامنے مٹایا جائے اور میں زندہ رہوں؟ یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘ ان کی نظر میں تو اللہ کے دین کی حکومت کا مطلب یہ تھا کہ خلیفہ اس شخص کو منتخب کیا جائے جو مسلمانوں میں سب سے زیادہ متقی ہو۔ وہ بذاتِ خود کسی منصب کا طالب یا خواہش مند نہ ہو۔ لوگوں نے اس کو اس کے اخلاص وتقویٰ ہی کی بنیاد پر منتخب کیا ہو۔ خلیفہ اللہ کا نائب ہے۔ اس کی اپنی مرضی یا اپنا قانون کچھ نہیں ہے، بلکہ وہ صرف اللہ کی حاکمیت اور اس کی شریعت کو سب سے پہلے اپنی ذات پر اور اس کے بعد اپنی حدودِ مملکت کے تمام افراد پر نافذ کرنے کا مکلف ہے۔ کلّکم راع وکلّکم مسؤول عن رعیتہ فالإمام راع وہو مسؤول عن رعیتہ۔ (تم میں کا ہر شخص ذمے دار اور جواب دہ ہے اپنے زیر دستوں اور ملک کے افراد کے لیے)۔
اسی عرصے میں حضرت امام حسینؓ کے پاس شہر کوفہ (جو حضرت علیؓ کا دارالخلافہ تھا) سے پیغامات اور خطوط آئے کہ آپ یہاں تشریف لے آئیں، ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتے ہیں اور اس میں کوئی دھوکہ نہیں تھا، بلکہ وہاں کے مسلمان بنو امیہ کے ظلم وجور کے مقابلے میں آپ کی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے۔ حضرت امام حسینؓ مدینہ سے مکہ ہوتے ہوئے شہر کوفہ کی جانب روانہ ہوئے اور اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کو صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے کوفہ روانہ کر دیا۔ ادھر جب یزید کو معلوم ہوا کہ حضرت حسینؓ کوفہ کی جانب کوچ کر رہے ہیں تو اس نے وہاں ایک ظالم صفت شخص ابن زیاد کو اپنا گورنر مقرر کر دیا۔ وہ فریب کے ساتھ اپنا چہرہ ڈھانپ کر کوفہ میں داخل ہوا اور سب سے پہلے اس ظالم نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو شہید کر دیا جس کی خبر حضرت امامؓ کو راستے ہی میں مل چکی تھی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت امامؓ کو راستے ہی میں کوفہ کے حالات کا علم ہو چکا تھا تو پھر آپ نے کوفہ جانے کا ارادہ ترک کیوں نہیں کیا۔ یہی وہ نکتہ اور مرحلہ ہے جو عافیت اور رخصت پسند طبائع کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
یہاں تک کہ بہت سے غبی یا دنیا پرست حضرات تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ حضرت امام حسینؓ نے کوفہ پہنچ کر خود کشی کا ارتکاب کیا۔ (العیاذ باللہ) یہ بات کہنے والے اپنی کم فہمی کے ساتھ اپنی ایمانی کمزوری کا بھی ثبوت فراہم کر دیتے ہیں۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ حضرت تو واپسی کا ارادہ کرنا چاہتے تھے، لیکن حضرت مسلم بن عقیلؓ کے بیٹوں نے مجبور کیا کہ ہم ان کی شہادت کا انتقام لیں گے۔ مگر یہ بات بھی حضرت امام حسینؓ کے مشن اور مقصدِ عظیم سے مناسبت نہیں رکھتی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت امام حسینؓ کو اپنی شہادت کا پورا امکان تھا، لیکن ان کے پیشِ نظر جو مقصدِ عظیم تھا وہ ان کے بیانات سے صاف معلوم ہو جاتا ہے۔ ایک موقع پر انہوں نے فرمایا کہ جب موت یقینی ہے تو کیوں نہ اس کو شہادت کی صورت بنالیا جائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی عظیم قربانی جس کا آغاز حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذریعے ہوا تھا، اس کی تکمیل کے ذریعے قیامت تک آنے والی امتِ مسلمہ کو ایک پیغام دینا چاہتے تھے۔
بہرحال شہر کوفہ پہنچنے سے پہلی ہی کربلا کے میدان میں آپ کو روک کر آپ کے لشکر کی گھیرا بندی کی گئی۔ تین محرم کو آپ میدانِ کربلا پہنچ چکے تھے۔ یزید اور اس کے کارندوں کی پوری کوشش یا ان کے خیال میں ان کی بڑی کامیابی یہ تھی کہ حضرت امام حسینؓ کسی دباو یا لالچ سے متاثر ہو کر زندہ رہتے ہوئے یزید کی بیعت کا اقرار واعلان کر دیں۔ اسی لیے ظالموں نے ان کا پانی کا راستہ بھی بند کر دیا اور تین محرم سے دس محرم تک پورے ایک ہفتے ان پر گفت وشنید کے ذریعے یہ دباو ڈالا جاتا رہا کہ وہ یزید کی خلافت کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیں یعنی اس کی بیعت کا اعلان کر دیں۔ آج کل کی زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ یزید کی حکومت کے حق میں اپنا ایک ووٹ دے دیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس ایک ووٹ کے بدلے میں کچھ نہ کچھ لالچ بھی ضرور دیے گئے ہوں گے۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ظالموں کے نزدیک حضرت امامؓ کے ایک ووٹ کی قدر واہمیت کتنی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ پورے عالمِ اسلام میں اعلان کر دیا جاتا کہ حضرت امام حسینؓ نے یزید کی خلافت اور بیعت پر مہر لگا دی ہے، لہٰذا اب یہ ایک اسلامی قانونی خلافت بن چکی ہے اور اب کسی مسلمان کے لیے بھی اس سے بغاوت یا خروج جائز نہیں ہے۔ لیکن دوسری جانب حضرت امامؓ کو بھی اپنے ایک ووٹ کی قدر و قیمت کا بخوبی علم تھا اور وہ ان ظالموں کے ادنیٰ اور وقتی مقاصد سے کہیں زیادہ بلند و برتر تھا۔ ان کے پیشِ نظر اس روئے زمین پر قیامت تک پیدا ہونے والی امتِ مسلمہ کی صحیح رہنمائی مقصود تھی اور وہ یہ کہ بزورِ شمشیر قائم کی جانے والی کوئی خاندانی اور موروثی مطلق العنان حکومت خواہ کسی نام نہاد مسلمان ہی کے ذریعے کیوں نہ قائم کی جائے، وہ ہرگز اسلامی خلافت نہیں ہوگی۔ اسلامی خلافت کی سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کی شوریٰ یعنی اہلِ علم و تقویٰ کے مشورے سے ہونا چاہیے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ انتخاب کا معیار صرف ایمان واخلاص اور تقویٰ ہونا چاہیے۔ کوئی خاندانی یا نسبی برتری اس کا معیار ہرگز نہ ہو تاکہ خلیفہ سب سے پہلے خود اپنی ذات اور اپنے خاندان پر اللہ کے دین کو نافذ کرکے عملی نمونہ پیش کرے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اگر منتخب خلیفہ بھی راہِ حق سے منحرف ہوجائے یا کوئی غلط اقدام کرے تو ایک عام مسلمان بھی اس کی اصلاح کرنے کا مجاز ہے۔ اگر کسی عام شہری نے عدالت میں خلیفہ کے خلاف کوئی شکایت کی ہے تو خلیفہ کو بھی عام انسان کی طرح عدالت میں حاضر ہوکر اس شکایت کا سامنا کرنا ہوگا اور-جیسا کہ عرض کیا گیا- یہ کسی خیالی دنیا کی کہانیاں نہیں ہیں، بلکہ خلفائے راشدین (رضی اللہ عنہم) نے اس پر عمل کرکے دکھایا ہے۔
مختصر یہ کہ مسلسل ایک ہفتے کی جد و جہد کے بعد جب ظالم، حضرت امامؓ کو جھکانے اور بیعت لینے میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے نو محرم کی شام کو جنگ کا الٹی میٹم دے دیا اور کہا گیا کہ آپ یا تو کل صبح تک بیعت کا فیصلہ کر لیں یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ اب ذرا سوچنے کا مقام ہے کہ نو اور دس محرم کی درمیانی شب میں حضرت امام حسینؓ اپنے بہتر (۷۲) ساتھیوں سے کیا فرماتے ہیں۔ کہ میرے بھائیو! میں نے اپنی شہادت کا فیصلہ کر لیا ہے، آپ حضرات میں سے جو جانا چاہے وہ رات کے اندھیرے میں یہاں سے نکل جائے، میری جانب سے تم سب کو اجازت ہے۔ اس کے جواب میں بہتر جاں نثاران یک زبان ہو کر جواب دیتے ہیں کہ حضرت آپ فرماتے ہیں کہ ہم یہاں سے نکل جائیں، لیکن ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم جیتے جی اپنی آنکھوں کے سامنے آپ کو شہید نہیں ہونے دیں گے بلکہ آپ سے پہلے ہم شہید ہوں گے۔اور ایسا ہی ہوا بھی، یعنی حضرت امامؓ کے تمام ساتھی یکے بعد دیگرے ظالموں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت امام صاحبؓ کو تنہا شہید کر دیا گیا۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
اس پیغامِ شہادت میں آج کے مسلمانوں کے لیے ایک لائقِ عبرت و نصیحت پہلو یہ ہے کہ کسی الیکشن میں ووٹ دینا یا کوئی بھی سیاسی عمل دینِ اسلام سے جدا یا آزاد کوئی عمل نہیں ہے کہ صرف وقتی یا انفرادی مفادات کی خاطر کسی بھی باطل کو ووٹ دے دیا جائے۔ بلکہ یہ شہادت ہمیں پیغام دیتی ہے کہ ایک سچے مومن و مسلم کو اپنے ووٹ کی قدر و قیمت کا احساس ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے دونوں گروہوں (شیعہ اور سنی) کو اپنے باہمی اختلاف کو ختم کرکے ان کی عظیم اور با مقصد شہادت کے پیغام کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری کتنی بڑی محرومی اور کم نصیبی ہوگی کہ ہم اس عظیم پیغامِ شہادت کو بھی شیعہ اور سنی کے خانوں میں تقسیم کر دیں، جبکہ دونوں گروہوں کی اپنی فلاح وکامرانی اور اخروی نجات صرف اس بات پر منحصر ہے کہ سب سے پہلے اپنی ان غیر اسلامی گروہ بندیوں سے تائب ہوکر اللہ کی ناراضی سے نجات حاصل کریں۔ اس کے بعد جو یزید اس دنیا سے ناکام و نامراد ہو کر جا چکا ہے اس کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں۔ آج مسلم ممالک کی اکثریت پر یزید کے جو جانشین مسلط ہیں، یعنی جو حضرات خلفائے راشدینؓ کے شورائی نظامِ خلافت کو چھوڑ کر حضرت امیر معاویہ اور یزید کو اپنا مثالی نمونہ یا آئیڈیل بناکر اسلام میں خاندانی ملوکیت کا جواز فراہم کرتے ہیں ان کے خلاف مشترکہ اور مسلسل جد و جہد اس وقت تک جاری رکھی جائے جب تک کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے قائم کردہ نظامِ خلافت کے سامنے اپنا سرِ تسلیم خم نہ کر دیں، اور اپنے ملکوں کی خلافت وہاں کے علمائے حق اور عوام کے حوالے کر دیں۔ بس یہی حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا وہ حقیقی پیغام ہے جس پر تمام دنیا کے مسلمانوں کو تمام گروہ بندیوں اور فرقہ بندیوں سے بالاتر ہوکر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
مضمون نگار سے رابطہ : 7599440075
***

 

***

 حضرت امام حسینؓ کو اپنی شہادت کا پورا امکان تھا، لیکن ان کے پیشِ نظر جو مقصدِ عظیم تھا وہ ان کے بیانات سے صاف معلوم ہوجاتا ہے۔ ایک موقع پر انہوں نے فرمایا کہ جب موت یقینی ہے تو کیوں نہ اس کو شہادت کی صورت بنالیا جائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی عظیم قربانی جس کا آغاز حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذریعہ ہوا تھا، اس کی تکمیل کے ذریعے قیامت تک آنے والی امتِ مسلمہ کو ایک پیغام دینا چاہتے تھے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جولائی تا 05 اگست 2023