شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن

غزہ: ظلم کا مقابلہ شوق شہادتسے

ڈاکٹر ساجدعباسی

آج حماس فلسطین میں بغیر کسی ایر فورس کے صرف دیسی راکٹوں اور زمینی جنگ کے ذریعے اسرائیل جیسی طاقت سے برسرِ پیکار ہے جس کی پشت پر سوپر پاور امریکہ اور مغربی دنیا ہے۔ اگر وہ جنگی میدان میں فتح یاب نہ بھی ہوں تب بھی انہوں نے اخلاقی طور پر اپنی فتح تو درج کروادی ہے۔
غزّہ میں اب تک تقریباً دس ہزار افراد راہِ خدا میں شہید ہو چکے ہیں۔ ان شہداء میں دو تہائی آبادی بچوں اور خواتین کی ہے۔ صیہونی بربریت کی انتہا یہ ہے کہ وہ نہتے عوام پر ان کی عمارتوں پر، ہسپتالوں پر اور اسکولوں پر اور پناہ گاہوں پر تک بمباری کر رہا ہے۔ وہ چاہتا تو زمینی جنگ پر اپنی توجہ مرتکز کرتا۔ چونکہ اس کو زمینی جنگ میں مجاہدین کے ہاتھوں شکست کا سامنا ہے اس لیے وہ اپنی خفت کو مٹانے کے لیے اندھا دھند معصوم عوام پر بمباری کرکے شہداء کی تعداد کو بڑھا رہا ہے تاکہ خود کو اور اپنی عوام مطمئن کو کرسکے کہ دشمن کا زیادہ نقصان ہوا ہے۔ وہ مجاہدین پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے کہ وہ اپنے معصوم بچوں، عورتوں اور بیماروں پر بمباری ہوتے ہوئے دیکھ کر دشمن کی شرطوں کو مان لینے پر راضی ہوجائیں۔ جبکہ غزّہ کے با غیرت مسلمانوں نے یہ مصمم فیصلہ کرلیا ہےکہ وہ ذلت کی زندگی سے شہادت کی موت کو ترجیح دیں گے۔ یہ اسلام کی روحانی طاقت ہے کہ اسلام پر جینا بھی کامیابی ہے اور اسلام پر جان دینا اس سے بھی بڑی کامیابی ہے۔
اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو شہید کہا جاتا ہے۔ ان معنوں میں صرف ایک آیت قرآن میں آئی ہے۔ إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ وَتِلْكَ الأيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاء وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
﴿آل عمران:160﴾
(اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور تم میں سے بعض کو شہادت کا درجہ عطا فرمائے۔۔۔۔ کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں)
یہ آیت غزوۂ اُحد کے بعد ان حالات میں اتری ہے جس وقت مدینہ میں مجموعی طور پر ماتم کی سی کیفیت چھائی ہوئی تھی ستر صحابہ شہید ہوچکے تھے۔ اس آیت میں صحابہ کو دلاسہ دیا گیا ہے کہ اس جانی نقصان کے ہونے میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ تم میں سے بعض کو شہادت کے اعلیٰ مقام و مرتبہ پر فائز کرنا چاہتا تھا۔
اس آیت میں لفظ شہداء مخصوص معنوں میں آیا یعنی وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ شہادت کے عام معنی ہیں: حق بات کی گواہی دینا۔ حق بات کی گواہی قول سے بھی دی جاسکتی ہے اور عمل سے بھی۔ قولی گواہی کے معنی ہیں حق کو دنیا کے سامنے پیش کرنا۔ عملی گواہی کے معنی ہیں حق کو عملی زندگی میں برت کر دنیا کو اس کے فیوض وبرکات سے آگاہ کرنا۔ اس کو سورۃ البقرۃ میں اس طرح پیش کیا گیا ہے وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ﴿البقرۃ:143﴾ (اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امّتِ وسط بنایا ہے تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں)
اللہ کی خاطر میدانِ جہاد میں جان دینے والے کو شہید اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی جان قربان کرکے ثابت کرتا ہے کہ سچائی کی خاطر ہی جان دینا چاہیے۔
سورۃ آل عمران کی آیت 140 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے زمانے میں نشیب وفراز کو رکھا ہے جس کے تحت کبھی اہلِ ایمان کو بھی نقصان ہوتا ہے تاکہ کفار و مشرکین اور ملحدین کے لیے اشتباہ کا پردہ پڑا رہے ورنہ ہر دفعہ اہلِ ایمان کو غیبی مدد کے ذریعے فتح ملتی چلی جائے تو عقلی امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معجزات کے ذریعے رسولوں کی مدد کی ہے لیکن معجزے رونما ہونے کے بعد انکار کی صورت میں اسی دنیا میں ان کفار پر عذاب کا آجانا بھی سنتِ الٰہی کا عین تقاضا تھا۔ اب چونکہ سلسلۂ رسالت ختم ہوچکا ہے اس لیے اس طرح کا عذاب منکرین پر نازل نہیں ہوتا جو رسولوں کی موجودگی میں اتمامِ حجت کے بعد رسولوں کی قوموں پر نازل ہوا کرتا تھا۔رسولوں کی موجودگی میں دو طرح سے اتمامِ حجت ہوا کرتی تھی۔ ایک دعوت الی اللہ کے ذریعے اور دوسرے معجزات کے ذریعے۔ ختمِ نبوت کے بعد معجزات کا سلسلہ بھی رک گیا اور دعوت الی اللہ کے میدان میں اس شان کی اتمامِ حجت نہیں ہوسکتی جو انبیاء ورسل کے زمانے میں ہوتی تھی۔ لیکن ابھی بھی اللہ کی یہ سنت باقی ہے کہ امتِ مسلمہ اگر دعوت الی اللہ کے میدان میں اتمامِ حجت کی حد تک اپنا فرضِ منصبی ادا کرے تو داعی قوم کو اللہ سرخ رو کرے گا اور جھٹلانے والی قوم پر غلبہ عطا
کرے گا۔ اس لیے کہ اللہ کی سنت جو رسولوں کے زمانے میں جاری تھی وہی قیامت تک بھی جاری رہے گی۔ اس کو اللہ تعالیٰ قرآن میں اس طرح بیان فرماتا ہے: ۔۔وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً  (اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے ایک پیغام بر نہ بھیج دیں۔ (الاسراء:15)
اگر داعی امت دعوت الی اللہ یعنی شہادت علی الناس کے فرضِ منصبی سے غفلت برتے تو مدعو اقوام کو دنیا میں سزا دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ داعی امت کو مسئول ٹھیرائے گا اور اس دنیا میں ذلت و رسوائی میں ڈال دے گا۔
امتحان کی غرض سے اشتباہ کا پردہ رکھنے کے لیے دنیا میں اللہ کا انکار کرنے یا اس کی ذات میں شریک کرنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ عارضی فتوحات سے ہمکنار کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ اللہ کا فرمان ہے کہ جب بھی اہل ِ ایمان کو فتح نصیب ہوتی ہے اللہ ہی کی مدد سے ہوتی ہے۔ اللہ کی مدد ایسی ہوتی ہے جو ظاہر بین نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا جَعَلَهُ اللّهُ إِلاَّ بُشْرَى وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿الانفال:10﴾ (یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے۔
اللہ کی مدد ہی سے اہلِ ایمان کو فتح و نصرت نصیب ہوتی ہے ورنہ شیاطین جن و انس تو ہر حال میں یہی چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان کو شکست ہو۔ اللہ کی راہ میں جامِ شہادت نوش کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے اعزاز سے نوازا ہے جو دوسرے اعمالِ صالحات پر عطا نہیں کیا ہے۔ سب سے بڑا انعام و اعزاز یہ دیا گیا ہے کہ شہداء کو حیاتِ جاودانی حاصل ہوتی ہے۔ وہ مر کر فنا نہیں بلکہ اَمر ہوجاتے ہیں۔ ان کے لیے فرمایا گیاکہ: وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴿آل عمران:149﴾ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مُردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں۔
ایک اور مقام پر فرمایا گیا: وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ ﴿البقرۃ 153﴾ (اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔
نہ صرف یہ کہ وہ زندہ ہیں بلکہ اللہ کے پاس یوم القیامہ تک رزق پارہے ہوں گے۔ یہ اعزاز ایک مومن کو بے خوف و خطر اللہ کی راہ میں میدانِ جہاد میں پا مردی سے لڑنے پر ابھارتا ہے۔ افسوس کہ لوگ شہداء کی حیاتِ معنوی کو لغوی معنوں میں فوت شدہ مان کر اولیاءاللہ سے استعانت طلب کرنے کی سنگین گمراہی میں پڑگئے ہیں۔ شہداء کی موت بعد حیات کے بارے میں فرمایا گیا کہ ہم اس حیات کا شعور و ادراک نہیں رکھ سکتے۔ اس سلسلے میں ایسی رائے قائم کرنا کہ قبر میں مدفون اولیاء ہماری بات کو سن سکتے ہیں اور ہماری سفارش کرسکتے ہیں۔ یہ عقیدہ ہمیں شرک بالاستعانت کے دلدل میں پہنچا دیتا ہے جو ہمیشہ کے لیے اللہ کی مغفرت سے محرومی کا ذریعہ بنے گا۔ شہداء کے حیات بعد موت کا تصور اللہ تعالیٰ نے اس لیے دیا کہ موت کا خوف جو کہ حق کی خاطر جان لٹانے سے انسان کو باز رکھ سکتا ہے، نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایک مردِ مومن حق کے خاطر بے خطر رزم گاہِ حق و باطل میں قدم رکھے اور حق کی خاطر اپنا آخری قطرۂ خون بھی بہانے میں دریغ نہ کرے۔
دنیا میں موت کی مختلف شکلیں ہیں۔ فطری طور پر ہر کوئی موت کے تصور سے دور بھاگتا ہے۔ یا تو لوگ حوادث کا شکار ہوکر لقمۂ اجل بنتے ہیں یا بیمار ہوکر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ دوسری شکل یہ ہے کہ لوگ اتنے مایوس ہو جاتے ہیں کہ ان کو موجودہ زندگی سے موت زیادہ اچھی لگتی ہے۔ زندگی کے مسائل میں وہ ایسے گھر جاتے ہیں کہ ان مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ موت کو حل سمجھنے لگتے ہیں۔ موت کی تیسری شکل یہ ہے کہ ایک آدمی کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انتھک جدوجہد کرتا ہے یہاں تک کہ وہ موت کی بھی پروا نہیں کرتا۔ کوئی اپنے ملک و قوم کی برتری کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ تاریخ ساز ہوتے ہیں اور دنیا ان کو یادرکھتی ہے۔ لیکن ایسی موت جس کو ایک مومن اپنے رب کی خوشنودی کے لیے گلے لگاتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا اعزاز واکرام رکھا گیا ہے۔ یہ ایسی موت ہے جس کے بعد حیاتِ جاوداں ہے ۔ایسی حیات میں شہداء، اللہ کے پاس مہمان بن کر رزق پارہے ہوں گے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ’’میری خواہش ہے کہ میں اللہ کے راستے میں شہید ہو جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید ہوجاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید ہوجاؤں ۔‘‘
ایک اور موقع پر رسول اللہ (ﷺ) نے شہید کے لیے چھ انعامات بتلائے ہیں ’’اسے پہلے قطرۂ خون گرنے پر بخش دیا جاتا ہے۔ اس کو جنت میں ٹھکانا دکھادیا جاتا ہے۔ اسے عذابِ قبر سے بچالیا جاتا ہے اور وہ قیامت کی بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا۔ اس پر وقار کا تاج رکھ دیا جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا۔ بہتر حوروں سے اس کا بیاہ ہوگا۔ اس کے ستر رشتہ داروں کے بارے میں سفارش قبول کی جائے گی‘‘
شہید ایک اعلیٰ مقصد کے لیے اپنی جان قربان کرتا ہے اور وہ مقصد انسانیت کے لیے فائدہ مندثابت ہوتا ہے۔ ایسی شہادت سے ظلم کا طلسم ٹوٹنے لگتا ہے جبکہ خود کشی کی صورت میں مرنے والا یہ گمان رکھتا ہے کہ موت کے بعد وہ معدوم ہوجائے گا۔ ایسی موت مایوسی اور شکست خوردگی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ تھوڑی سی بھی ناگواری انسان کے اندر سے جینے کا اور حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ چھین لیتی ہے۔ اس ذہنیت کے ساتھ ایک آدمی یا تو ذلت کے ساتھ ظالموں کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے یا پھر خود کشی کر کے زندگی کے چیلنجز اور مشکلات سے جان چھڑاتا ہے۔ شہادت کی آرزو بندۂ مومن کو پامردی کے ساتھ ظالم کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ ہر چیلنچ کو قبول کرنے کی ہمت عطا کرتی ہے۔ ایسے افراد ہی دنیا میں حقیقی انقلاب لاسکتے ہیں۔ شہید یہ یقین رکھتا ہے کہ زندگی جو سب سے قیمتی متاع ہے اس سے بھی بدرجہا قیمتی چیز اللہ کی خوشنودی اور اس کے بدلے میں ابدی جنت ہے جہاں وہ نعمتیں ملنے والی ہیں جو تصور سے ماواء ہیں۔ جنت کی طلب میں شہادت کی آرزو ایک آدمی کے اندر ایسی اخلاقی طاقت پیدا کر دیتی ہے جس کو وقت کے سب سے بڑے سخت دل متکبر، طاقتور اور جبار بادشاہ بھی جھکا نہیں سکتے۔ وقت کا فرعون شہید کی جان لے سکتا ہے لیکن اس سے اپنی بات منوا نہیں سکتا۔ یہ ظالم کے لیے شکست کا مقام ہے کہ وہ اپنی عارضی قوت کو استعمال کرکے ایک حق پرست کو مار سکتا ہے لیکن جھکا نہیں سکتا۔ جب اہلِ ایمان کے لیے نازک وقت ہو اور اسلحہ و تعداد کے لحاظ سے قلت ہو تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی ہے: وَلَمَّا بَرَزُواْ لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُواْ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿البقرۃ:250﴾ (اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ پر نکلے تو انہوں نے دعا کی: "اے ہمارے رب ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر”
یہ وہ موقع ہے جب طالوت کی فوج کی بہت ہی قلیل تعداد کو ایک بہت بڑی فوج سے سامنا کرنا تھا۔ ایسے وقت قلیل گروہ نے مقابلے سے پہلے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ دعا کی تھی۔
موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے جادوگروں نے فرعون کی طرف سے دردناک سزا سننے کے بعد یہ انہوں نے یہ دعا کی تھی: وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلاَّ أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءتْنَا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ﴿الاعراف:124﴾
(تُو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں تو ہم نے انہیں مان لیا۔ اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اُٹھا اِس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں)
ان دونوں آیات میں افرغ علینا کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے معنی ہیں اے اللہ ہم پر صبر کو انڈیل دے۔ ایسا صبر عطا فرما جس سے ہماری پوری ہستی صبر میں ڈوب جائے جیسے نہاتے وقت جسم پر پانی انڈیل دیا جاتا ہے۔ اور اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ وہ کسی متنفس کو اس کی مقدرت سے زیادہ مشقت و تکلیف میں نہیں ڈالتا۔ یہ یقین انسان کو ظالموں کے سامنے نڈر اور بہادر بنا دیتا ہے۔دنیا میں کوئی عقیدہ ایسا نہیں ہے جو ایسا ایقان عطا کرے کہ انسان ظلم کا مقابلہ شوقِ شہادت سے کرے۔ دنیا میں جتنے بھی عقیدے پائے جاتے ہیں وہ قلوب میں ظن و تخمین کے درجے میں پائے جاتے ہیں۔ ان عقائد کے پیچھے دلائل کے ذریعے وہ علم الیقین حاصل نہیں ہوتا جو اسلامی عقائد کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ میدانِ جنگ میں یا تختۂ دار پر جان دینے والا جنت کے خوابوں کو اپنے دل میں سجاتا ہوا اپنی جان، جانِ آفریں کے حوالے کرتا ہے۔ یہ اسلام کی ایسی طاقت ہے جو کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو نصیب نہیں ہو سکتی۔
اسلام کی طاقت کے دو سرچشمے ہیں۔ جس دور میں اسلام سوپر پاور بن کر ابھرا اور اسلام کے بہت گہرے اثرات دنیا پر مرتب ہوئے اس وقت اسلام ان دو سرچشموں سے سیراب ہو رہا تھا۔ ایک ہے اسلام کی فکری طاقت اور دوسرا ہے اسلام کی عسکری طاقت۔ عسکری طاقت کو کئی گنا بڑھانے والی طاقت وہ جذبۂ شہادت ہے جو مردِ مومن کو پر خطر محاذوں پر اللہ کی راہ میں لڑنے پر ابھارتی ہے۔ جہاں مسلمان اقلیت میں رہے وہاں انہوں نے اسلام کی اشاعت میں اپنی توجہات کو مرتکز کیا اور جہاں ان کی اکثریت رہی وہاں انہوں نے اپنی عسکری طاقت کے استعمال سےکہیں اپنی مدافعت میں اور کہیں دنیا سے ظلم کو مٹانے اور انصاف کو قائم کرنے کے لیے جہاد وقتال کیا تو فتوحات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ دنیا میں امن و انصاف کو قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسا سنہرا اصول دیا ہے کہ مسلم ریاست اس بات کی جدوجہد کرے کہ اس کی عسکری طاقت دوسری غیر مسلم طاقتوں کے مقابلے میں بالاتر رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعْلَمُهُمْ ﴿الانفال:60﴾
(اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے)
یہ ایسا اصول ہے جس سے مسلم ریاست میں امن قائم رہتا ہے اور کسی دشمن ملک کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ مسلم ریاست پر حملہ کرے۔ اس حکمِ خداوندی پر عمل کرنے کی صورت میں اکثر و بیشتر جنگ کی نوبت ہی نہیں آتی اور آپسی ترھیب deterrence کے ذریعے امن قائم رہتا ہے۔
پچھلی صدی میں جنگی ہتھیاروں کی مسابقت میں سائنس و ٹکنالوجی کی بے حد ترقی ہوئی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ اور روس کے درمیان کبھی براہ راست جنگ نہیں ہوئی اس لیے کہ دونوں ایک دوسرے سے خائف رہے اور دونوں طاقتیں نئے ہتھیاروں کی ایجاد میں ایک دوسرے سے مسابقت کرتی رہیں۔ اسی مسابقت میں سائنس و ٹکنالوجی میں بہت تیزی سے ترقی ہوئی۔ افسوس یہ ہے کہ یہ سبق اہلِ ایمان کو قرآن میں 1400 سال قبل پڑھایا گیا لیکن مسلمان حکم راں آرام و آسائش میں ایسے منہمک ہوئے کہ یورپی قوموں نے سائنس و ٹکنالوجی کی قیادت سنبھال لی اور آج وہ اس میدان میں مسلمانوں کو پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نکل گئی ہیں۔ جب سے بیسوی صدی کے اوائل سے نئی ٹکنالوجی کے بل پر نت نئے ہتھیار ایجاد ہوئے تب سے آج تک مسلمان کوئی جنگ مغربی ممالک سے جیت نہیں سکے۔ ایک تو ایمانی طاقت کی کمی اور پھر جنگی ٹکنالوجی میں مسلم حکومتوں کا خود مغربی ہتھیاروں پر انحصار۔ آج حماس فلسطین میں بغیر کسی ایر فورس کے صرف دیسی راکٹوں اور زمینی جنگ کے ذریعے اسرائیل جیسی طاقت سے برسرِ پیکار ہے جس کی پشت پر سوپر پاور امریکہ اور مغربی دنیا ہے۔ اگر وہ جنگی میدان میں فتح یاب نہ بھی ہوں تب بھی انہوں نے اخلاقی طور پر اپنی فتح تو درج کروادی ہے۔ انہوں نے پھر ایک بار مسئلہ فلسطین کو دنیا کے سامنے تازہ کر دیا اور دوسری طرف اسرائیل کی طاقت کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ صرف مہلک ہتھیاروں سے جنگ نہیں جیتی جا سکتی، اس کے لیے اخلاقی جواز اور جذبۂ شہادت درکار ہے۔تیسری طرف بے غیرت مسلم حکمرانوں کے ضمیروں کو جھنجوڑا گیا کہ تم اتنے بے غیرت ہو گئے ہو کہ اتنی شہادتوں کے بعد بھی اسرائیل جیسے اسلام دشمن ملک سے دوستی کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کر رہے ہو؟ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ غزّہ کے مسلمانوں کی شہادت کو اپنی راہ میں قبول فرمائے اور ان کی قربانیوں کا ان کو بہترین ثمر دے، اس طرح کہ ان کو حقیقی آزادی مل سکے اور مسجدِ اقصیٰ غاصب صیہونیوں کے ناپاک وجود سے پاک ہوجائے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کِشوَر کشائی
***

 

***

 اسلام کی طاقت کے دو سرچشمے ہیں۔ جس دور میں اسلام سوپر پاور بن کر ابھرا اور اسلام کے بہت گہرے اثرات دنیا پر مرتب ہوئے اس وقت اسلام ان دو سرچشموں سے سیراب ہو رہا تھا۔ ایک ہے اسلام کی فکری طاقت اور دوسرا ہے اسلام کی عسکری طاقت۔ عسکری طاقت کو کئی گنا بڑھانے والی طاقت وہ جذبۂ شہادت ہے جو مردِ مومن کو پر خطر محاذوں پر اللہ کی راہ میں لڑنے پر ابھارتی ہے۔ جہاں مسلمان اقلیت میں رہے وہاں انہوں نے اسلام کی اشاعت میں اپنی توجہات کو مرتکز کیا اور جہاں ان کی اکثریت رہی وہاں انہوں نے اپنی عسکری طاقت کے استعمال سےکہیں اپنی مدافعت میں اور کہیں دنیا سے ظلم کو مٹانے اور انصاف کو قائم کرنے کے لیے جہاد وقتال کیا تو فتوحات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 نومبر تا 18 نومبر 2023