شہداء کا قائد بھی شہادت سے سرفراز

دل مغموم ہیں اور آنکھیں اشکبار ۔۔ ان کی یاد ہمارے تزکیہ کا ذریعہ بن جائے

ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد

اللہ تعالیٰ گردشِ زمانہ اس لیے برپا کرتا ہے تاکہ لوگوں میں سے حسن ِ عمل کے ذریعے احسن الخلائق بھی ظاہر ہوجائیں اور اپنے جرائم کے ذریعے بدتر خلائق بھی ظاہر ہوجائیں۔
سیدنا امام حسینؓ کی اتباع میں اسماعیل ھنیہ قائد تحریک حماس بھی اپنے کنبے کے ۸۰ افراد کی شہادت کے بعد خود بھی سچی آرزوئے شہادت لیے ہوئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے ۔ دشمن کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس نے حماس کے قائد کو راستے سے ہٹا کر تحریکِ حماس کو بہت بڑی زک دی ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ آج اسماعیل ھنیہ اپنے کنبے کے چھوٹے بڑے شہداء کے درمیان شاداں و فرحاں ہیں جس کی منظر کشی قرآن میں اس طرح کی گئی ہے: يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ ۔وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ (سورۃ آل عمران ۱۷۱)
دشمن کو یہ نہیں معلوم ہے کہ غزہ میں ہر ایک فرد اسماعیل ھنیہ ہے اور سب کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ مسجدِ اقصیٰ کی بازیابی اور اس کے لیے آخری قطرۂ خون تک بہا دینا۔شہیدوں کا خون تحریک کو کمزور نہیں بلکہ اور مضبوط کرتا ہے ۔ نیتن یاہو جو اس وقت کا سب سے بدترین درندہ صفت انسان بنا ہوا ہے وہ فلسطینیوں کے خون کا پیاسا بن کر خودساختہ تلمودی عقائد کے مطابق علانیہ طورپر اپنی فوج سے کہتا ہے کہ جس طرح بائیبل میں (ا۔سیمول ۱۵:۳) عمالقہ سے نمٹنے کی تعلیم دی گئی ہے اسی طرح اہلِ غزہ کے مردوں ،عورتوں اور ان کے بچوں یہاں تک کہ ان کے شیرخوارنونہالوں کو بلا تردّد قتل کردیا جائے ۔ ایسے ہی ظالموں کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا ہےکہ : وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْمًا وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ۔ یہ ڈھیل جو ہم انہیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہترنہ سمجھیں، ہم تو انہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں، پھر ان کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے۔ (سورۃ آل عمران ۱۷۸)
یہ صیہونی درندے جو اللہ کی ڈھیل کو اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں، اپنی درندگی کے ذریعے یہ اس وقت ساری دنیا کے سامنے یہ ثابت کررہے ہیں کہ دراصل وہی بدترین خلائق ہیں ۔دنیا میں اللہ تعالیٰ جب تک ظلم کرنے کے مواقع پیدا نہیں کرتا اس وقت تک ظالم کی شقاوت دنیا کے سامنے کھل کر سامنے نہیں آتی ۔اسی طرح صبر کے اعلیٰ منازل پر فائز ہونے والے بھی منظر عام پر نہیں آتے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ وَتِلْكَ الأيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاء وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ۔اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہےتو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو شہادت کے درجے پر فائز ہوں ۔۔۔۔کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں۔(سورۃ آل عمران ۱۴۰)
اس آیت میں فرمایا جارہاہے کہ اللہ تعالیٰ گردشِ زمانہ اس لیے برپا کرتا ہے تاکہ لوگوں میں سے حسن عمل کے ذریعے احسن الخلائق بھی ظاہر ہو جائیں اور اپنے جرائم کے ذریعے بدتر خلائق بھی ظاہر ہوجائیں ۔جہاں صابرین اپنے عمل سے اپنے لیے جنت میں اعلیٰ مقام کا استحقاق پیداکرتے ہیں وہیں ظالم لوگ جہنم میں اپنےلیے بدترین مقام اذیت کا استحقاق پیدا کرتے ہیں ۔چند روزہ مہلت امتحان میں صبر سے ابدی آسائش کا مقام حاصل کرنا ہی حقیقی کامیابی ہے ۔اورچند روزہ جھوٹے تفاخر کی خاطر ابدی جہنم کا مستحق بننا حقیقت میں بہت بڑی بدنصیبی ہے جہاں آگ اوڑھنا بچھونا ہوگی اور زقوم ،کھولتے ہوئے پانی اور کچ لہوپیپ سے ان کی ضیافت کی جائے گی ۔اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ آخرت میں لوگوں کے حق میں کامیابی اور ناکامی کے فیصلے نہیں سناتا بلکہ وہ باطن کو عمل کی صورت میں ظاہر کرنے کے لیے گردشِ ایام کی چکی کو چلاتا ہے ۔ دنیا میں طلاطم و اضطراب پیداکرتا ہے ۔حق و باطل کے علم برداروں کے درمیان گھمسان اور اتھل پتھل پیداکرتا ہے ۔مستکبرین کے ہاتھوں مستضعفین پر ظلم کی داستانیں رقم کی جاتی ہیں ۔انبیاء ورسل کے وارثین شیاطین انس سے نبردآزماہوتے ہیں تب جاکرامتحان کا مقصد پورا ہوتا ہے۔دنیا اس مقصد کے لیے بنائی ہی نہیں گئی ہے کہ اس کرۂ ارض کےبحر و بر میں امن و شانتی ہو ،سکون و اطمینان ہو، معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔ لوگ اتمام حجت کے بعد حق کو بے چوں و چرا مان لیں جس طرح فرشتے مطیع وفرماں ہیں اور کائنات میں ہر شئے طوعاً وکرھاً اللہ کی تسبیح کررہی ہے ۔ اگر یہی مطلوب ہوتا تو فرشتے یہ کام کرہی رہے تھے ۔فرشتوں کی دنیا میں تخلیق بھی اللہ کی ہے اور حکم بھی اللہ کا ہے ۔اللہ کے نزدیک مقصود یہ ہے کہ ایسی مخلوق کو بنایا جائے جس کو معصیت کا اختیار دیا جائے اور وہ اپنی مرضی سے اللہ کو بغیر دیکھے اس کی اطاعت اختیارکرے۔ایسی کڑے امتحان میں انسانوں میں سے اکثریت ناکام ونامراد ہوگی لیکن جو چند نفوس کامیاب ہوں گے وہی اللہ کی تخلیق کا اصل حاصل ہیں ۔انہی کو اللہ تعالیٰ عالیشان جنتوں کا مستحق بنائے گا۔جنت وہ مقام ہے جہاں پر ہر طرف حقیقی امن و سلامتی ہوگی جس کو دارالسلام کہا گیا ہے جس کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں خوف و حزن کے ماحول میں اللہ کے مطیع وفرماں بردار اور اس سے راضی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دنیا میں عدل و انصاف قائم ہو لیکن اسی دنیا میں ظلم و عدوان برپا کرنے والوں کو بھی موقع دیا جاتا ہے۔یہ اس لیے ہے کہ اصل چیز جو اللہ کو مطلوب ہے وہ انسانوں کا امتحان ہے ۔حق و باطل کی اس کشمکش میں اس بات کا امکان بہت ہی کم ہے کہ اس کرۂ پر نظام عدل قائم ہو ۔اگر ہوگا بھی تو وہ بہت قلیل عرصہ کے لیے ہوگا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں جتنے پیغمبر آئے ان سب کو انسانوں کی اکثریت نے جھٹلایا اور ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ داؤود اور سلیمان علیہم السلام کا معاملہ اس لیے مختلف تھا کہ ان کو ایسی غیر معمولی شان و شوکت اور قوتیں دی گئیں تھیں جن کے سامنےدوسری مخلوقات کے ساتھ جنوں کی گردنوں کو بھی جھکا دیا گیا تھا ۔اس استثناء کے ساتھ صرف محمد رسول اللہ ﷺ کے حق میں اللہ کا وعدہ پورا ہوا کہ دین آپ کی زندگی میں غالب ہوا ۔ اس غلبہ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی غیر معمولی مدد فرمائی ۔غزوات میں فرشتوں سے مدد کی گئی ۔اہل ایمان کے دل جوڑدیے گئے جن کے بارے میں فرمایا گیا کہ روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کردی جاتی تو بھی آپ ان کے دل جوڑنہ پاتے ۔آپ کی زندگی میں دین اسلام غالب اس لیے ہوا کہ قیامت تک کے لیے نمونہ و نظیر بن جائے کہ اسلام قابل عمل دین ہے ۔اس کے بعد خلفائے راشدین کا دور بھی پرآشوب اور پر فتن ثابت ہوا۔تین خلفاء شہید کردیے گئے ۔تیس سال کے عرصہ کے بعد خلافتِ راشدہ ایسی ملوکیت میں تبدیل ہوئی جو جبرواستبداد سے عبارت تھی، جس کا سلسلہ آج تک دنیائے عرب میں جاری وساری ہے۔سورۃ آل عمران کی آیت ۱۴۰ میں جہاں شہداء کا ذکر ہے وہیں ظالموں کا بھی ذکر ہے جو اللہ کے نیک بندوں کو قتل کرتے ہیں ۔گردشِ ایام کے طلاطم کے بجائے اگر دنیا میں ہر وقت خلافت راشدہ ہوتی تو نہ کوئی ظالم ہوتا اور نہ کوئی مظلوم ہوتا اور نہ ہی امتحان کا مقصد پورا ہوتا ۔اللہ کی اس حکمت کو اس آیت میں سمجھایا گیا ہےتاکہ حق کے علم بردار مایوس نہ ہوں ۔ مزید اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:وَلاَ يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّواْ اللهَ شَيْئاً يُرِيدُ اللهُ أَلاَّ يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۔اے پیغمبرؐ، جو لوگ آج کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کر رہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں، یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے، اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے، اور بالآخر ان کو سخت سزا ملنے والی ہے۔ (سورۃ آل عمران ۱۷۶)
جہاں تک یہودی قوم کا معاملہ ہے قرآن میں صاف فرمادیا گیا ہے کہ تاقیامت یہود مسلمانوں کے سخت دشمن رہیں گے: لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُواْ ۔۔ تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے۔(سورۃ المائدہ ۸۲)
اور یہودیوں میں سے بھی جو بدترین گروہ ہے وہ صیہونی گروہ ہے جنہوں نے فلسطینی بچوں تک کو مارنا اپنے لیے مذہبی اعتبارسے جائز قرار دے دیا ہے۔اور یہودیوں کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ ان پر ذلت طاری رہے گی لیکن کچھ وقت کے لیے ان کو اللہ کی طرف سے اور انسانوں کی طرف سے پناہ ملے گی ۔لیکن یہ پناہ ان کے گھات ثابت ہونے والی ہوگی ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُواْ إِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنْ اللّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ ۔۔ یہ جہاں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار ہی پڑی ، کہیں اللہ کے ذمّہ یا انسانوں کے ذمّہ میں پناہ مل گئی تو مل گئی ۔(سورۃ آل عمران ۱۱۲)
اس آیت میں حبل من اللہ اور حبل من الناس سے کیا مراد ہے؟ حبل من اللہ سے مراد یہ ہے کہ ان کو عارضی طور پر اللہ کی طرف سے پناہ ملے گی ۔آج کے دور میں اللہ کی طرف سے پناہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کے اطراف و اکناف میں اللہ تعالیٰ نے ایسے حکم راں رکھ دیے ہیں جو یہودیوں کے مقابلے میں انتہائی بزدل اور اپنی عوام کے حق میں انتہائی ظالم ہیں ۔حبل من الناس سے مراد یہ ہے کہ وقت کی سوپر پاورز کو ان کا حامی بنادیا گیا ۔جنگ عظیم دوم تک برطانیہ یہودی ریاست کا حامی اوربانی تھا اور اس کے بعد امریکہ کی اسرائیل کے حق میں غیر مشروط اور ناقابل یقین حد تک مالی و فوجی مدد کو یقینی بنایا جاتا رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ایسے انتظامات کیوں کیے گئے ہیں؟یہ اس لیے کہ عیسی علیہ السلام کی آمد تک یہودی ریاست کو قائم رہنا ہے تاکہ عیسیٰؑ کے ہاتھوں یہودی ریاست کا خاتمہ ہواور یہودی قوم کا بھی ۔ سوال یہ ہے کہ عیسیؑ کے ہاتھوں یہودیوں کا خاتمہ کیوں ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہودیوں نے صرف عیسیؑ کی رسالت کا ہی انکار نہیں کیا بلکہ آپ پر اور آپ کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام پر بہتان لگایا۔جبکہ عیسیؑ نے گہوارے میں سے گواہی دی تھی کہ : قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ۔بچہ بول اٹھا "میں اللہ کا بندہ ہوں اُس نے مجھے کتاب دی، اور نبی بنایا۔(سورۃ مریم ۳۰)
یہ جرم ان یہودیوں کا ہی نہیں تھا جو عیسیؑ کے زمانے میں موجود تھے بلکہ آج کے یہودی بھی عیسیؑ اور ان کی والدہ پر وہی قبیح بہتان لگاتے ہیں۔ حضرت عیسیؑ کو مسیح تسلیم کرنے کے بجائے وہ جھوٹے مسیح کے منتظر ہیں جس کو احادیث میں مسیح الدجال کہا گیا ہے ۔ اللہ کی نظر میں یہ ایسا جرم ہے کہ اس کی سزا خود عیسیؑ کے ہاتھوں ان کو دی جائے گی ۔اس لیے متواتر احادیث سے یہ بات یقینی ہے کہ عیسیؑ قربِ قیامت تشریف لائیں گے اور اس وقت تک یہودیوں اور صیہونیوں کے جرائم کا گھڑا بھرتا ہی چلا جائے گا۔ اس لیے مستقبل قریب میں یہ مسئلہ حل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
ایک طرف فلسطینیوں اور بالخصوص اہل غزہ کا صبر اور ان کی استقامت کا ہمالیہ پہاڑ ہمارے سامنے ہے ۔دوسری طرف ہمیں یہودیوں کی صورت میں درندہ صفت شیاطین انس نظر آرہے ہیں ۔ایک جانب صبر کی انتہا ہے تو دوسری جانب ظلم کی انتہا ہے ۔دنیا ایک عجیب منظر کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہی ہے۔ساری دنیا کے ضمیر کا امتحان لیا جارہا ہے۔غیر مسلم سوال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا خدا فلسطینیوں کی مددکیوں نہیں کررہا ہے؟ یہ بھی امتحان کا ایک انداز ہے۔یہ ایک معرکہ ہے لیکن اس سے اربوں انسانوں کا امتحان لیا جارہا ہے۔اہل ِغزہ کی استقامت کئی سلیم الفطرت انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بھی بن رہی ہے۔وہیں ظلم و ستم کی یہ داستاں دشمنان اسلام کے عناد کو مزید بڑھارہی ہے۔ہمارے دل مغموم ہیں اور آنکھیں اشکبار ہیں ۔شب وروز ہم دعاؤں میں ان کو یاد رکھیں ۔ان کی یاد ہمارے نفوس کے تزکیہ کا ذریعہ بن جائے ۔
***

 

***

 سیدنا امام حسینؓ کی اتباع میں اسماعیل ھنیہ قائد تحریک حماس بھی اپنے کنبے کے ۸۰ افراد کی شہادت کے بعد خود بھی سچی آرزوئے شہادت لیے ہوئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے ۔ دشمن کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس نے حماس کے قائد کو راستے سے ہٹا کر تحریکِ حماس کو بہت بڑی زک دی ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ آج اسماعیل ھنیہ اپنے کنبے کے چھوٹے بڑے شہداء کے درمیان شاداں و فرحاں ہیں جس کی منظر کشی قرآن میں اس طرح کی گئی ہے: يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ ۔وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ (سورۃ آل عمران ۱۷۱)


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 اگست تا 17 اگست 2024