شاہ صاحب :خوب وعدے کیے خوب دھوکے دئیے

نوٹاور ووٹ کا ’یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے؟‘

ڈاکٹر سلیم خان

ایکزٹ پول کے بعد جن لوگوں نے مونگیری لال کے حسین سپنے دیکھ کر ایک دن میں 14؍ لاکھ کروڑ روپئے حصص بازار میں پھینک دئیے تھے اب ان کا کیا ہوگا؟
تادمِ تحریر رجحانات کے مطابق نہ تو انڈیا محاذ کو اکثریت مل رہی ہے اورنہ ہی بی جے پی کو، اس لیے گمان غالب تو یہی ہے کہ این ڈی اے کی سرکار بنے گی الاّ یہ مجبوری کی حالت میں بی جے پی کے ساتھ جانے والے نتیش کمار جیسے حلیف پینترا بدل کر انڈیا اتحاد کے ساتھ آجائیں۔ اس انتخابی اچھل کود کی آڑ میں ایک بہت بڑا معاشی کھیلا ہوگیا جس پر لوگ کم توجہ دے رہے ہیں۔ ہوا یہ کہ ایکزٹ پول کے بعد اچھلنے والا حصص بازار انتخابی رجحانات کے آتے ہی دبکنے لگا اور اس سے شک کی سوئی اس طرف مڑ گئی۔ ابتداء میں ہی جبکہ فتح و شکست کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا بلکہ صرف کانٹے کی ٹکر نظر آرہی تھی شیئر بازار کا سانڈ اچانک بھالو کی کھال اوڑھ کر مندی کی جانب رواں دواں ہوگیا۔ 4 جون کی صبح کا آغاز ہی 200 پوائنٹس کی گراوٹ سے ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے 6200 پوائنٹس گر گیا لیکن پھر سنبھل کر 4,390 کے گھاٹے پر بند ہوا، یعنی جو ایک دن پہلے کمایا تھا وہ اگلے دن ڈوب گیا۔ نفٹی میں تو600 پوئنٹس کی بڑی گراوٹ شروع ہوا تھا اور بالآخر 1,379 پوئنٹس نیچے آگیا۔ سینسیکس کے 30 میں سے 28 شیئرز تو ابتداء میں ہی لڑھکنے لگے تھے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی اور شیئر بازار کا یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے۔
ایکزٹ پول کے بعد جن لوگوں نے مونگیری لال کے حسین سپنے دیکھ کر ایک دن میں 14 لاکھ کروڑ روپے حصص بازار میں پھینک دیے تھے اب ان کا کیا ہوگا؟ ایک معاشی روزنامہ کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ 4 جون 2024 کو اسٹاک مارکیٹ ریکارڈ بلندیوں کو چھو لے گا۔ انہوں نے اس متوقع عروج کے لیے حکومت کے ذریعہ حصص بازار کے لیے موافق اصلاحات کو نافذ کرنا بتایا تھا۔ مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک مضبوط اور شفاف مالیاتی نظام بنایا گیا ہے۔ اس نے ہر ہندوستانی کے لیے اسٹاک مارکیٹ میں حصہ لینا آسان بنا دیا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا تھا کہ 4 جون کو بی جے پی لوک سبھا کی ریکارڈ تعداد میں سیٹیں حاصل کرے گی اور اسٹاک مارکیٹ بھی نئی بلندیوں کو چھو لے گی۔ یہ دونوں باتیں غلط ثابت ہوگئیں اور وزیر اعظم کے جھانسے میں آنے والے لوگوں کے لاکھوں کروڑ روپے ڈوب گئے۔ سوال یہ ہے کہ اس لوٹ مار کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ مودی اگر کسی طرح جوڑ توڑ کر کے وزیر اعظم بن بھی گئے تو کیا ان کے زخموں پر مرہم رکھ پائیں گے؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا، کیونکہ اپنے جن دوستوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے انہوں نے اپنے وفادار گودی میڈیا سے ایکزٹ پول کروایا تھا ان کا تو بھلا ہو چکا۔ مودی اب وزیر اعظم بنیں یا نہ بنیں اپنے کرم فرماوں کے ساتھ عیش کریں گے۔
بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کی مصداق، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے تو ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو میں عوام کو ترغیب دلاتے ہوئے کہا تھا کہ سرمایہ کاروں کو 4 جون سے پہلے حصص خرید لینا چاہیے۔ ان کے مطابق بازاروں میں تیزی آنے والی تھی جو نہیں آئی بلکہ تباہی آگئی۔ وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ 4 جون کو مارکیٹ میں اضافے کی توقع کر رہے تھے لوگوں کو سرمایہ کاری کرکے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ابھار رہے تھے لیکن عوام کے ساتھ دھوکا ہوگیا۔ ملک کروڑوں بھولے بھالے لوگوں کی طرح جنہوں نے اس گجراتی جوڑی کے جھانسے میں آکر بی جے پی کو ووٹ دیا پڑھے لکھے سرمایہ دار بھی فریب کھا گئے۔ وہ بھول گئے کہ کل ان کی جیب کٹنے کے بعد شاہ جی کو ان کے یہ بیانات یاد دلائے جائیں گے تو وہ ہنس کر اسے ’ ایک انتخابی جملہ‘ کہہ کر ٹال دیں گے لیکن اس وقت تک کئی لوگوں کا دیوالیہ پٹ چکا ہوگا۔ ہندوستانی رائے دہندگان کو بار بار دھوکا دینے والے امیت شاہ پر حفیظ میرٹھی کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
شاہ صاحب تمہاری بھی اچھی کٹی
خوب وعدے کیے خوب دھوکے دیے
آگے بڑھنے سے پہلے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ایکزٹ پول کے نام پر جو سازش رچی گئی اس پر ایک نگاہ ڈال لینا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ ملک کے الیکٹرانک میڈیا میں سب سے پہلے نیوز ٹریک کے نام سے انڈیا ٹوڈے نے قدم رکھا تھا۔ ایک زمانے میں وہ ملک کا سب سے معتبر میڈیا ہاوس تھا۔ اس نے ایکسس مائی انڈیا کی مدد سے ایکزٹ پول کروا کر شائع کیا۔ اس کے مطابق این ڈی اے کو لوک سبھا انتخابات میں 361-401 سیٹیں جیتنے کی پیش قیاسی کی گئی تھی یعنی اس نے چار سو پار کروا ہی دیا تھا۔ انڈیا ٹوڈے نے انڈیا محاذ کو 131-166 سیٹیں ملنے کی امید ظاہر کی تھی۔ اس سروے میں دیگر جماعتوں کو 8 سے 20 سیٹیں دی گئی تھیں۔ ارنب کا ریپبلک اس بار قدرے محتاط تھا۔ اس نے پی مارک کے اشتراک سے ایکزٹ پول کرکے 543 میں سے 359 سیٹیں این ڈی اے کو، 154 انڈیا محاذ کو دینے کی جرأت کی جبکہ 30 نشستیں دیگر کو بخش دی گئیں۔ ریپبلک نے میٹرائز پول کے ساتھ بھی ایک جائزہ لیا اس میں این ڈی اے کو 353-368 سیٹیں، انڈیا بلاک کو 118-113 اور دیگر کو 43-48 سیٹیں دی گئیں۔ دی نیوز ایکس ڈائنامکس نے این ڈی اے کو 371، انڈیا بلاک کو 125 اور دیگر کو 47 سیٹیں حاصل ہونے کا امکان ظاہر کیا۔ یعنی کوئی بھی این ڈی اے کو 350 سے کم اور انڈیا کو 175 کے اوپر نہیں لے جا سکا جبکہ یہ دونوں اعداد غلط نکل گئے۔
ایکزٹ پولس نے جب یہ سبز باغ دکھائے کہ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے لوک سبھا انتخابات میں 543 میں سے 350 سیٹیں جیت سکتی ہے تو اس کے بعد سینسیکس اور نفٹی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ سینسیکس 2,778 پوائنٹس یعنی تقریبا 4 فیصد بڑھ کر 76,738.89 کے اپنے تمام وقت کی بلند ترین سطح پر چلا گیا اور جب گرا تو دوگنی گراوٹ آئی۔ نفٹی 808 پوائنٹس، تقریباً 4 فیصد بڑھ کر 23,338.70 کی تازہ ترین بلند ترین سطح پر پہنچ گیا اور وہ بھی گنتی کے دن آٹھ فیصد سے زیادہ نیچے گرا۔ سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو نے اسی وقت مختلف ٹی وی چینلوں پر دکھائے جانے والے ایکزٹ پولس کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ بی جے پی نے یہ تمام ایکزٹ پول اپنے حق میں کروائے ہیں۔ دو دن بعد اسٹاک مارکیٹ کے کھلنے پر بی جے پی لیڈر چپکے سے اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے عوام کی سمجھداری کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ ملک بھر میں انڈیا اتحاد کی لہر جاری ہے، کارکنان صبر و تحمل سے کام لیں اور اپنی جیت کا انتظار کریں۔ اکھلیش یادو نے ایکزٹ پولس کے پیچھے کی بڑی سازش سے ملک کی عوام کو خبردار کردیا تھا مگر راتوں رات امیر بن جانے کی ہوس سرمایہ کاروں کو لے ڈوبی۔
عوام کو لوٹنے کی یہ سازش کیسے رچی جاتی ہے اس کا انکشاف پچھلے سال اگست کو لندن سے نکلنے والے اخبار گارجین نے اپنی ایک رپورٹ کردیا تھا ۔ اس کا الزام تھا کہ مالیاتی دستاویزات کے مطابق اڈانی گروپ نے خفیہ طور پر اپنی ہی کمپنیوں کے شیئرز خرید کر بھارتی اسٹاک مارکیٹ میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ دی گارجین نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) نے اس حوالے سے کچھ دستاویزات اسے اور فائنانشل ٹائمز کے ساتھ شیئر کی تھیں۔ ان رپورٹس میں انکشاف ہوا تھا کہ ماریشس میں ایک نامعلوم اور پیچیدہ آف شور آپریشن کو اڈانی کے ساتھی کنٹرول کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو 2013 سے 2018 تک اپنی گروپ کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ اڈانی گروپ کے ساتھ مودی کی قربت کے سبب اسے سرکاری تحفظ اور سہولت حاصل ہوتی رہی اور اسے ہر معاملے میں کلین چٹ ملتی رہی نیز، اس کے خلاف بولنے والے راہل گاندھی اور مہوا موئترا کو خاموش کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔
مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق یہ لوگ عوام کے سامنے دانہ ڈالتے ہیں۔ لوگ جب اس کی فریب میں آکر سرمایہ کاری کرنے لگتے ہیں تو یہ اپنا پیسہ نکال لیتے ہیں ۔ اس دھوکہ دہی کے کھیل میں اس بار مودی اور شاہ بھی کھلے عام شامل ہوگئے۔ ان لوگوں نے اڈانی جیسے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے پہلے گمراہ کن بیانات دیے اور پھر جعلی ایکزٹ پول کے ذریعہ ایک خطرناک جال بچھایا۔ اس سے ایک دن میں اڈانی گروپ کو جملہ1.6 لاکھ کروڑ کا فائدہ ہوگیا۔ اڈانی کو اس طرح فائدہ پہنچانے کا کام کرنے والے مودی اور شاہ نے اپنی دلالی کی قیمت یقیناً وصول کی ہوگی۔ اس لیے اکھلیش یادو کا سازش والا الزام درست لگتا ہے۔ اڈانی گروپ نے کارڈین کے الزامات کی تردید میں آناً فاناً وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے اس رپورٹ کو ملک کے خلاف غیر ملکی تنظیموں کی سازش قرار دیا تھا۔ اس کے باوجود اڈانی گروپ کے شیئرز میں زبردست گراوٹ آئی اور اس کی مارکیٹ کیپ 150 بلین ڈالر تک کم ہو گئی تھی۔ ایکزٹ پول والے دن اڈانی نے اپنا نقصان پورا کیا اور اگلے دن گنوا دیا۔
معیشت کی دنیا کا ایک دلچسپ مشاہدہ یہ بھی ہے کہ ایکزٹ پول نے جہاں شیئر مارکیٹ میں اچھال پیدا کیا وہیں سونے و چاندی کی قیمتوں میں گراوٹ کا سبب بھی بنا۔ اس کا مظاہرہ ملٹی کموڈیٹی ایکسچنج (ایم سی ایکس) پر سونے اور چاندی کی قیمتوں میں گراوٹ سے کیا جا سکتا ہے۔ وہ چاندی جس کی قیمت 31 مئی کو 91,570 کو روپے فی کلو تھی ایکزٹ پول والے دن تقریباً 1400 روپے کم ہو کر 90121 روپے فی کلو پرآ گئی ۔ اسی طرح سونا جو 71,886 روپے فی 10 گرام تھا ایکزٹ پول کے بعد 600 روپے گر کر 71295 روپے فی 10 گرام پر آ گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ سرمایہ کار شیئر بازار کے سراب کی جانب آنکھ موند کر بھاگنے لگے اور ان کی نظر میں ٹھوس سونا چاندی ہلکا ہوگیا۔ سیاست میں بھی یہی ہوا۔ ملک کے رائے دہندگان نے مودی کی جعلی چکا چوند سے متاثر ہو کر بنیادی مسائل کو اٹھانے والے انڈیا محاذ کی جانب سے منہ پھیر لیا۔ حصص بازار میں یہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ اگر بی جے پی کو ایکزٹ پول میں 280 سے کم سیٹیں ملتی ہیں تو اسٹاک مارکیٹ میں بڑی گراوٹ ہو سکتی ہے۔ اس کو تو انہوں نے جعلی جائزے کے ذریعہ چھپایا مگر جب دو دن بعد جب یہ حقیقت کھل گئی تو اسے ڈھائی سو سیٹیں بھی نہیں مل رہی ہیں تو تباہی مچ گئی۔
بی جے پی چونکہ برہمنوں اور بنیاوں لوگوں کی پارٹی ہے اس لیے بازار کے استحکام کی خاطر اس کا اکثریت میں آنا یعنی 272 سے آگے بڑھنا ضروری تھا۔ بی جے پی کی سیٹیں اگر 270 سے 300 کے رینج میں ہوتیں تب تو مارکیٹ میں تیزی نہ سہی مندی بھی نہیں آتی۔ کیونکہ معمولی اتار چڑھاؤ تو جاری رہتا ہے۔ لیکن مودی اور شاہ نے اڈانی جیسے بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے چکر میں متوسط سرمایہ کاروں کی لٹیا ڈبو دی۔ فی الحال رجحانات کے مطابق بی جے پی کو 240 سے 250 کے درمیان سیٹیں ملتی نظر آرہی ہیں۔ ایسے میں بی جے پی اور این ڈی اے کی مخلوط حکومت بن سکتی ہے لیکن شرد پوار کے ذریعہ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو پر ڈورے ڈالے جارہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں انڈیا محاذ کی سرکار بھی بن سکتی ہے اور اگر این ڈی اے کی حکومت بن بھی جائے تو مارکیٹ میں استحکام نہیں آئے گا اور سرمایہ کاری متاثر رہے گی۔ اس کا مظاہرہ ووٹوں کی گنتی کے ساتھ ہی ہوچکا ہے۔ بی جے پی کے بلا اکثریت دوسروں کے ساتھ حکومت بنانے کی صورت میں مارکیٹ کے تقریباً دس فیصد گرنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا جو آٹھ فیصد سے کچھ زیادہ ہی گرا۔
کمل کے مرجھاتے ہی حصص بازار کے لڑکھڑانے کا معاملہ اپریل 2021 میں بھی ہو چکا ہے جب مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے ایکزٹ پول سے شیئر بازار کے سرمایہ کار مایوس ہوگئے تھے اور چو طرفہ فروخت کے سبب سینسیکس دو فیصد گر گیا تھا۔ بی ایس ای کا 30 شیئروں والا سینسیکس 405 پوائنٹ کی گراوٹ کے ساتھ کھلا تھا اور شام تک 983.58 پوائنٹ یعنی 1.98 فیصد نیچے 48,782.36 پوائنٹ پر بند ہوا تھا جبکہ اس سے چار دن پہلے جب بی جے پی کی کامیابی کے خواب بیچے جارہے تھے تو سینسیکس 1,885 پوائنٹ چڑھا تھا۔ اس وقت نیشنل اسٹاک ایکسچنج کا نفٹی بھی 263.80 پوائنٹ یعنی 1.77فیصد کی گراوٹ میں 14,631.10 پوائنٹ پر بند ہوا تھا۔ مغربی بنگال تو خیر ایک صوبہ ہے اس لیے قومی سیاست و بازار پر اس کے اثرات محدود تھے لیکن پارلیمانی انتخاب میں مودی کی رسوائی نے تو شب خون مار دیا ۔
حصص بازار میں تو خیر مٹھی بھر خوش حال لوگ ملوث ہوتے ہیں عام آدمی اس سے متاثر نہیں ہوتا لیکن مودی سرکار نے ایکزٹ پول سے خوش ہوکر اپنے رائے دہندگان پر مہنگائی کا کوڑا چلا دیا ۔ ووٹوں کی گنتی کے ایک دن پہلے امول اور مدر ڈیری نے دودھ کی قیمتوں میں دو روپے فی لیٹر کا اضافہ کر دیا گیا۔ دودھ ہر خاص و عام کی ضرورت ہے۔ اس کی قیمتیں بڑھوا کر بی جے پی نے اپنے رائے دہندگان کے ساتھ کمال احسان فراموشی کا سلوک کیا۔ اس کے علاوہ روز مرہ کے استعمال کی تمام اشیاء کو مہنگا کرنے کی خاطر ملک کے تمام ٹول پلازوں پر پانچ فیصد اضافی ٹول ٹیکس لاگو کردیا۔ بی جے پی سرکار تو یکم اپریل سے ہی یہ ٹیکس لگانا چاہتی تھی ۔ انتخابات میں ناراضی سے بچنے کی خاطر اس اضافہ کو عارضی طور پر ملتوی کیا گیا مگر مطلب نکلتے ہی اسے نافذ کر دیا۔ دودھ کی قیمت اور ٹول کی شرح میں اضافے کے بعد بی جے پی کے اندھے بھکتوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ہوگا مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ بی جے پی عوام کے ووٹ لے کر سرمایہ داروں کو نوٹ کمانے کا موقع دینے والی دھوکے باز پارٹی ہے۔ اس کے باوجود عام لوگ بھگوا نعروں سے مرعوب ہو کر اسے ووٹ دے کر اپنے معاشی استحصال کی راہ آسان ہموار کرتے ہیں۔ ان انتخابی نتائج کا یہ سب سے اہم سبق ہے بشرطیکہ لوگ اسے اگلے الیکشن تک یاد رکھیں۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 حصص بازار میں تو خیر مٹھی بھر خوش حال لوگ ملوث ہوتے ہیں عام آدمی اس سے متاثر نہیں ہوتا لیکن مودی سرکار نے ایکزٹ پول سے خوش ہوکر اپنے رائے دہندگان پر مہنگائی کا کوڑا چلا دیا ۔ ووٹوں کی گنتی کے ایک دن پہلے امول اور مدر ڈیری نے دودھ کی قیمتوں میں دو روپے فی لیٹر کا اضافہ کر دیا گیا۔ دودھ ہر خاص و عام کی ضرورت ہے۔ اس کی قیمتیں بڑھوا کر بی جے پی نے اپنے رائے دہندگان کے ساتھ کمال احسان فراموشی کا سلوک کیا۔ اس کے علاوہ روز مرہ کے استعمال کی تمام اشیاء کو مہنگا کرنے کی خاطر ملک کے تمام ٹول پلازوں پر پانچ فیصد اضافی ٹول ٹیکس لاگو کردیا۔ بی جے پی سرکار تو یکم اپریل سے ہی یہ ٹیکس لگانا چاہتی تھی ۔ انتخابات میں ناراضی سے بچنے کی خاطر اس اضافہ کو عارضی طور پر ملتوی کیا گیا مگر مطلب نکلتے ہی اسے نافذ کر دیا۔ دودھ کی قیمت اور ٹول کی شرح میں اضافے کے بعد بی جے پی کے اندھے بھکتوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ہوگا مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ بی جے پی عوام کے ووٹ لے کر سرمایہ داروں کو نوٹ کمانے کا موقع دینے والی دھوکے باز پارٹی ہے۔ اس کے باوجود عام لوگ بھگوا نعروں سے مرعوب ہو کر اسے ووٹ دے کر اپنے معاشی استحصال کی راہ آسان ہموار کرتے ہیں۔ ان انتخابی نتائج کا یہ سب سے اہم سبق ہے بشرطیکہ لوگ اسے اگلے الیکشن تک یاد رکھیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024