شفاف جوہری توانائی کی سمت میں بڑھتے قدم

امریکہ سے ٹیکنالوجی کی منتقلی کی راہ ہموار۔ دو دہائیوں بعد غیر فوجی جوہری معاہدے کا عملی آغاز

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

2047 تک سو گیگا واٹ جوہری توانائی کا ہدف، قانونی رکاوٹیں دور کرنے کی تیاری
امریکہ سے غیر فوجی جوہری سمجھوتے کے قریب دو دہائیوں بعد ہمارے ملک کو ایک بڑی کامیابی حاصل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ایک امریکی کمپنی نہ صرف بھارت میں جوہری ری ایکٹر تعمیر کرے گی بلکہ ہماری ملکی کمپنیوں کو ری ایکٹر کی ٹیکنالوجی بھی فراہم کرے گی۔ امریکی شعبۂ توانائی (ڈی او ای) سے منظوری ملنے کے بعد جس کمپنی کے ساتھ یہ معاہدہ طے پا رہا ہے، وہ ہولٹیک انٹرنیشنل ہے۔
یاد رہے کہ 18 جولائی 2006 کو بھارت اور امریکہ کے درمیان غیر فوجی جوہری معاہدہ طے پایا تھا، جس کی سیاسی قیمت اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اس وقت چکانی پڑی تھی، جب بائیں بازو کی حلیف جماعتوں نے یو پی اے حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی تھی۔ اب دو دہائیوں کے بعد اسی معاہدے کے تحت ہمارے ملک میں جوہری ری ایکٹر کی تعمیر ہونے جا رہی ہے۔
امریکی شعبہ توانائی نے 26 مارچ کو چند شرائط کے ساتھ ہولٹیک انٹرنیشنل کی درخواست منظور کر لی ہے۔ اس منظوری کے تحت ہولٹیک انٹرنیشنل اپنی علاقائی معاون کمپنیوں، ہولٹیک ایشیا، ٹاٹا کنسلٹنگ انجینئرز لمیٹڈ اور لارسن اینڈ ٹوبرو کو نان-کلاسیفائیڈ ایس ایم آر (اسمال ماڈیولر ری ایکٹر) کی ٹیکنالوجی منتقل کر سکتی ہے۔ یہ معاہدہ دراصل حکومتِ ہند کی طرف سے دی گئی منظوری کی بنیاد پر عمل میں آیا ہے۔
اس سے مستفید ہونے والی نجی کمپنیاں ہولٹیک سے حاصل کردہ ٹیکنالوجی اور معلومات کو صرف بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے محفوظ اصولوں کے مطابق پر امن مقاصد کے لیے استعمال کریں گی۔ یہ معلومات جوہری ہتھیاروں، دھماکہ خیز آلات یا کسی بھی فوجی مقصد کے لیے استعمال نہیں کی جا سکیں گی۔
یہ معاہدہ دس سال کے لیے نافذ العمل ہوگا اور ہر پانچ سال بعد اس کا تجزیہ کیا جائے گا۔ ہولٹیک انٹرنیشنل کی درخواست کے ضمن میں بھارتی کمپنیاں جوہری توانائی انالیسس بورڈ، نیوکلیئر پاور کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ اور تھرمل یوٹیلیٹی این ٹی پی سی لمیٹڈ بھی شامل تھیں، لیکن حکومتِ ہند نے ان سرکاری اجارہ دار کمپنیوں کو فی الحال منظوری نہیں دی ہے۔
چونکہ ہر پانچ سال بعد اس معاہدے کا تجزیہ ہونا ہے، اس لیے مستقبل میں ان تینوں کمپنیوں کو بھی شامل کرنے کے لیے معاہدے میں ترمیم کی درخواست دی جا سکے گی۔
یہ معاہدہ بھارت کے لیے نہایت سود مند ثابت ہونے والا ہے۔ اس کے تحت نہ صرف ہمیں جدید ٹیکنالوجی حاصل ہوگی بلکہ شفاف توانائی کی ضمانت بھی حاصل ہوگی اور ملک میں جوہری توانائی کے منصوبوں کو تیزی سے آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ اس طرح ہمارا ملک پائیدار اور شفاف جوہری توانائی کی سمت میں آگے بڑھے گا۔
26 مارچ کو دو دہائیوں کے طویل انتظار کے بعد امریکہ کے شعبہ توانائی نے بھارت کو ایس ایم آر (چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹر) کی ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے ہولٹیک انٹرنیشنل کو منظوری دی ہے۔ اس کے بعد بھارتی نژاد امریکی کرش سنگھ کے ذریعے قائم کردہ ہولٹیک 30 سے 300 میگا واٹ کے جوہری ری ایکٹروں کے لیے ایس ایم آر ٹیکنالوجی بھارت میں متعارف کرا سکے گی۔
اس منظوری کو اس معاہدے کی راہ میں حائل رکاوٹ، یعنی جوہری نقصانات کے لیے شہری ذمہ داری ایکٹ (CLNDA) کی ایک اہم شرط پر پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اب نجی شعبے کے ساتھ جوہری تعاون کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔
وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے اپنے حالیہ بجٹ خطاب میں 20,000 کروڑ روپے کے جوہری توانائی مشن کے تحت 2047 تک 100 گیگا واٹ جوہری توانائی پیدا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس سے حکومت کو قانون سازی میں تبدیلی کا موقع ملے گا تاکہ توانائی کے شعبے میں تبدیلی کی رفتار کو تیز کیا جا سکے۔ اس کے لیے جوہری توانائی ایکٹ (CLNDA) میں ضروری ترامیم بھی کرنی ہوں گی۔
ان ترامیم کے نتیجے میں نہ صرف نیوکلیئر پاور کارپوریشن آف انڈیا کا خصوصی حق ختم ہوگا بلکہ نجی شراکت داروں کی شمولیت کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ خاص طور پر CLNDA کے آرٹیکل 17(b) میں ترمیم کی ضرورت ہے۔
یہ قانون دراصل چرنوبل حادثے کے بعد بین الاقوامی سطح پر کیے گئے تکمیلی جوہری ذمہ داری معاہدے (Supplementary Nuclear Liability Convention) پر مبنی ہے جس کے تحت رکن ممالک کے تعاون سے ایک فنڈ قائم کیا گیا تھا تاکہ جوہری حادثے کی صورت میں متاثرین کو فوری ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ اس فنڈ کا استعمال اسی وقت ممکن ہے جب کسی کنٹریکٹر کو ممکنہ نقصان کا قانونی طور پر ذمہ دار قرار دیا جائے۔
بھارتی قانون میں آرٹیکل 17(b) موجود ہے جو کسی جوہری حادثے کی صورت میں سپلائر کو بھی ذمہ دار ٹھیراتا ہے۔ یہ قانون بھوپال گیس سانحے کے تجربے اور جوہری توانائی پلانٹ چلانے والے کی مالی جواب دہی سے متعلق بین الاقوامی معاہدے کی غلط تشریح کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔
اسی قانون کی وجہ سے غیر ملکی جوہری فراہم کنندگان، جیسے جی ای-ہیتاچی، ویسٹنگ ہاؤس اور فرانس کی آرے وا (Areva) نے بھارت میں جوہری شعبے میں سرمایہ کاری سے گریز کیا ہے۔
پارلیمنٹ میں واضح اکثریت کے باعث حکومت کے پاس اب ان اہم اصلاحات کو مکمل کرنے کا بھرپور موقع ہے۔ یہ صرف جوہری ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے اہم نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں بھی نہایت ضروری ہے۔
واضح رہے کہ امریکی جوہری توانائی ایکٹ کے "10 CFR Part 810” (ایکسپورٹ لائسنسنگ ضابطہ) کے تحت ہولٹیک انٹرنیشنل کے ساتھ بھارت کے معاہدے کی منظوری اس شرط پر دی گئی ہے کہ بھارتی جوہری توانائی کارپوریشن لمیٹڈ (NPCIL) جیسے سرکاری اداروں کے ساتھ کوئی شراکت داری نہیں کی جائے گی۔
یہی نہیں بلکہ دی گئی معلومات کو امریکہ سے پیشگی اجازت کے بغیر کسی اور ملک یا ادارے کے ساتھ شیئر نہیں کیا جا سکتا۔
اسی شرط کی بنا پر بھارت نے اب تک ایس ایم آر ٹیکنالوجی کے شعبے میں تجربہ کار تینوں سرکاری اداروں کے ساتھ اشتراک پر امریکہ کو اعتماد میں نہیں لیا ہے۔
ملک میں اس وقت 22 جوہری ری ایکٹرز فعال ہیں جن کی مشترکہ پیداواری صلاحیت 220 گیگا واٹ ہے اور بھارت کو اپنی آبدوزوں کے لیے 85 گیگا واٹ کا جوہری ری ایکٹر بنانے کا تجربہ بھی حاصل ہے۔ یہ بھروسا دلانے کے بعد ہی بھارت اپنی جوہری صلاحیت میں بھرپور اضافہ کر سکے گا۔
یہ معاہدہ بھارت کو توانائی کے شعبے میں خود کفالت کی راہ پر گامزن کرے گا، جس سے جوہری توانائی کا شعبہ ترقی کرے گا اور سستی و شفاف توانائی دستیاب ہوگی کیونکہ ایس ایم آر ٹیکنالوجی ایک جدید اور محفوظ نظام ہے۔
یاد رہے کہ یہ ڈیل سب سے پہلے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں 2006 میں طے پائی تھی۔ تاہم، اس سے قبل امریکی صدر بل کلنٹن نے بھارت کے جوہری تجربات کے بعد اس پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ بعد میں صدر جارج ڈبلیو بش نے کلنٹن کی پالیسی کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کو پر امن مقاصد کے لیے یورینیم کی فراہمی پر آمادگی ظاہر کی اور اس پیش رفت کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارت-امریکہ اٹامک معاہدہ وجود میں آیا۔
یہ ری ایکٹرز چونکہ چھوٹے سائز کے ہوتے ہیں اس لیے ان سے تابکاری کے پھیلاؤ کا خدشہ نہایت کم ہوتا ہے اور کسی ناگہانی حادثے کا خطرہ بھی محدود ہوتا ہے۔
اس میں یورینیم کو خاص ٹیکنالوجی سے ایک جدید شکل دی جاتی ہے جس کے تعامل سے بڑی مقدار میں توانائی خارج ہوتی ہے جو پانی کو گرم کرتی ہے، ٹربائن گھومتا ہے اور بجلی پیدا ہوتی ہے۔
یہ نظام کم لاگت کا حامل ہے۔
ابھی تک بھارت کو جوہری توانائی کے لیے بھاری پانی (D₂O) استعمال کرنا پڑتا تھا جو نہ صرف مہنگا بلکہ پیچیدہ بھی تھا۔
لیکن اب بھارت پریشرائزڈ ڈِلائٹ واٹر ری ایکٹر (PWR) میں عام پانی (H₂O) کو استعمال میں لا سکے گا۔ اس سے بھارت کی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت کئی گنا بڑھ جائے گی۔
یہ توانائی مکمل طور پر شفاف ہوگی اور ماحولیاتی آلودگی نہ ہونے کے برابر ہوگی۔
ایسے ماڈیولر ری ایکٹرز چھوٹے شہروں میں بھی نصب کیے جا سکتے ہیں تاکہ دور دراز علاقوں تک بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔
فی الحال ایس ایم آرز کی تیاری ہولٹیک انٹرنیشنل ایشیا کی پونے اور گجرات میں واقع برانچوں میں ہوگی کیونکہ ان مقامات پر پہلے سے اس طرز کا کام جاری ہے۔

 

***

 ملک میں اس وقت 22 جوہری ری ایکٹرز فعال ہیں جن کی مشترکہ پیداواری صلاحیت 220 گیگا واٹ ہے اور بھارت کو اپنی آبدوزوں کے لیے 85 گیگا واٹ کا جوہری ری ایکٹر بنانے کا تجربہ بھی حاصل ہے۔ یہ بھروسا دلانے کے بعد ہی بھارت اپنی جوہری صلاحیت میں بھرپور اضافہ کر سکے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025