! شادیوں میں تاخیر اور جنسی آوارگی

نکاح میں عجلت درست لیکن زوجین ذمہ داری اٹھانے کے قابل بھی تو ہوں!!

حمیرا علیم

والدین بچوں کی بروقت کونسلنگ کے ذریعہ مسئلہ حل کرسکتے ہیں
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شادیوں میں تاخیر ہمارے سماج کا ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے جو اکثر لڑکے و لڑکیوں کے ذہنی خلفشار اور جنسی آوارگی کا سبب بن رہا ہے۔ آج کے معاشرے میں برائی کے راستے اس قدر کھلے ہوئے ہیں کہ نوجوانوں کے لیے صالحیت کی ڈگر پر قائم رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس صورتحال نے والدین کے سامنے زبردست چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ وہ والدین جو اپنی بے پناہ معاشی مصروفیت اور ڈیجیٹل تفریح کے باعث اولاد کو اپنی توجہ نہیں دے پاتے ان کے لیے اپنے بچوں کو پاکیزہ زندگی کا سبق پڑھانا ممکن ہی نہیں ہے اور دوسری طرف وہ والدین جو اپنے بچوں کی تربیت اور انہیں لائق فائق بنانے کے لیے فکرمندی کے ساتھ وقت فارغ کرتے ہیں انہیں بھی بچوں کو بری صحبتوں اور برائیوں کے طوفان سے بچانے کا چیلنج در پیش ہے۔
آج کل یہ رجحان عام ہوچلا ہے کہ آدمی بھی ابلیس کی طرح ضد اور میں نہ مانوں کی عملی تفسیر بنا بیٹھا ہے۔ اپنے ہر گناہ اور غلطی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہو جاتا ہے، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ خود کو اور دوسروں کو تو دھوکہ دے سکتا ہے مگر اللہ تعالٰی کو نہیں۔اس تمہید کی وجہ ایسی تحاریر بنی ہیں جو ان نوجوان لڑکے لڑکیوں نے لکھی ہیں جن کے مطابق ان کے والدین ان کا نکاح نہیں کرتے اور وہ مجبورا زنا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ دین اسلام نکاح نہ ہونے کی صورت میں کیا حکم دیتا ہے پھر دنیاوی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔ حضرت محمد (ﷺ) نے فرمایا جو شادی کی طاقت نہ رکھے وہ روزے لازم کرلے ( روزے اس کی شہوت کو توڑ دیں گے)
قرآن پاک میں ہے۔
’’اور جو لوگ نکاح کی طاقت نہیں رکھتے وہ عفت اور پاک دامنی کے ساتھ رہیں، تآنکہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے‘‘ (النور: 32-33)
دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آزاد اور امیر شخص یا عورت نہ ملے تو مومن لونڈی یا غلام (آج کے دور میں لونڈی غلام تو نہیں تو ہم غریب مزدور سمجھ سکتے ہیں) سے نکاح کر لینا چاہیے لیکن چوری چھپے دوست نہیں بنانا چاہیے کیونکہ مسلمان مردو خواتین محصن یعنی اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں زانی نہیں۔ اور افضل وہی ہے جو اپنی عصمت کی حفاظت کرے اس میں مرد و عورت کی تخصیص نہیں۔
ان احکام کی روشنی میں کسی بھی حال میں زنا تو کیا خفیہ دوستی کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ہر والدین کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد بہترین زوج سے بیاہی جائے اور ان کی شادی شدہ زندگی بے مثال اور خوش گوار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہترین رشتہ ڈھونڈتے ہیں۔ لیکن اگر کسی بھی وجہ سے ان کی کوشش کے باوجود شادی نہیں ہو سکے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بچے بد کاری شروع کر دیں اور الزام والدین کے سر دھریں کہ ہم کیا کریں اگر وہ ہماری شادی جلد کر دیتے تو ہم یہ گناہ نہ کرتے۔ والدین کے ذہن میں جو نکات ہوتے ہیں اگر وہ اولاد کو معلوم ہو جائیں تو شاید وہ انہیں الزام نہ دیں۔
یاد رکھیے کہ اگر والدین سے اولاد کی تربیت ان کی شادی وغیرہ کا حساب ہو گا تو بچوں سے بھی ان کے والدین اللہ تعالٰی کی اطاعت اور اعمال کا حساب ہو گا۔ ہر چیز کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ وقت سے پہلے کوئی کتنی بھی کوشش لے وہ کام نہیں ہو سکتا۔ میرا مشاہدہ اور تجربہ یہی ہے کہ والدین سے زیادہ کسی کو بچوں کی شادی کی فکر نہیں ہوتی لیکن بچوں کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ شادی صرف جسمانی تسکین کا نام نہیں ہے۔ جسمانی تسکین صرف چند ماہ میں مانند پڑ جاتی ہے جب گھر کا کرایہ، بلز، سودا سلف، بچوں کے اخراجات کے لیے پیسہ نہ ہو تو قربت کے نام سے بھی وحشت ہونے لگتی ہے۔ فرض کیجیے کہ والدین پندرہ سال کے لڑکا لڑکی کو بیاہ دیتے ہیں، جو لوگ قرآن و حدیث کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ بچوں کو بلوغت کے فوراً بعد بیاہ دینا چاہیے انہوں نے قرآن حدیث میں یہ بھی پڑھا ہو گا کہ بیوی بچوں کی کفالت، گھر چلانا، مہر وغیرہ مرد کی ذمہ داری ہے سسرال کی نہیں۔ دور نبوی میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ سسرال والوں کے ساتھ میاں بیوی رہ رہے ہوں اور گھر کی ذمہ داری شوہر کے والد پر ہو۔ اب جب ہنی مون پیریڈ اوور ہو جاتا ہے، دونوں بچے جو میٹرک کے طالب علم ہیں ان کی پڑھائی کے اخراجات اور بیوی کا نان نفقہ سسر کے ذمہ لگ جائے گا جو اپنے بیوی بچوں کو پالنے کے ساتھ ساتھ بیٹے بہو اور اس کے بچوں کو بھی پالے گا حالانکہ یہ اس کا فرض نہیں۔ کیونکہ ہر شخص تو امیر نہیں ہوتا کہ بیٹے کو گھر اور بزنس بطور شادی کا تحفہ دے دے۔ اس لیے لازماً گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں۔
ایک لڑکا اور لڑکی شادی کر لیتے ہیں یہ سوچ کر کہ ہم کام تو کرہی رہے ہیں مل جل کر گھر چلا لیں گے۔ جب بچے ہو جاتے ہیں تو خاتون کے لیے جاب کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس صورت میں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا ایک وقت آتا ہے جب عورت یہ سوچتی ہے کہ جب میں نے خود ہی کما کر اپنا اور بچوں کا خرچہ اٹھانا ہے تو اس بندے کے ساتھ رہنے کا فائدہ کیا ہے پھر نتیجتاً طلاق یا خلع ہوجاتی ہے۔
اگر والدین کسی بھی رشتے کے لیے راضی ہوکر صرف یہ سوچیں کہ بچے گناہ میں نہ پڑیں لہذا جیسا بھی لڑکا لڑکی ہو بس بیاہ دیں تو پیسے کی کمی، کردار، سسرال کی مداخلت اور دیگر مسائل کی بنا پر علیحدگی ہوجاتی ہے۔ جب کہ کوئی لڑکا یا لڑکی کسی دین دار قبول صورت غریب اور زیادہ عمر کی لڑکی یا لڑکے سے شادی پر آمادہ نہیں ہوتا۔ ہر ایک کو خوبصورت، تعلیم یافتہ، امیر اور ہم عمر بیوی چاہیے ہوتی ہے۔یہاں سنت بالکل یاد نہیں رہتی۔
چنانچہ اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ نفس کی وقتی تسکین کا نام ہی شادی نہیں ہے بلکہ شادی ذمہ داری کا نام ہے۔ شوہر پر بیوی بچوں کی کفالت کی اور بیوی پر شوہر کی اطاعت اور بچوں کی تربیت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جب دونوں اپنے حقوق لینا تو چاہتے ہیں مگر فرائض پورے نہیں کرتے تو گھر ٹوٹ جاتا ہے۔
اب بتائیے جو کنوارے لڑکے لڑکیاں اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ پاتے وہ شادی کے بعد کیسے اس صورتحال کا سامنا کر پائیں گے؟ کیا کسی طلاق یافتہ مرد یا عورت کے لیے دوسری شادی آسان ہو گی؟ اگر دوسری شادی نہ ہوسکی تو وہ کس کو مورد الزام ٹھہرا کر زنا کریں گے کیونکہ بیوہ طلاق یافتہ مرد و عورت اپنے افعال کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں۔
والدین اگر بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں اور پھر شادی کرنا چاہتے ہیں تو اس میں انہی کی بہتری ہوتی ہے۔ لڑکا خاندان کی کفالت کے قابل ہو جاتا ہے اور اگر لڑکی پر برا وقت آ جائے تو وہ خود کچھ کرنے کے قابل ہو اور خاندان کی مدد کر سکنے کے قابل رہتا ہے۔ اور اگر وہ ان کی شادی مڈل اسٹینڈرڈ کے بعد کر دیں تو روز خرچے پر جھگڑے ہوں گے۔ آخر لڑکا کمائے گا یا پڑھے گا؟ لڑکی کو جب حسب خواہش چیزیں نہیں ملیں گی تو محبت اور نفسانی خواہش سب ختم ہو جائے گی اور ذہن پر صرف ضرورت چھائی ہوئی رہے گی۔ پھر یہی شادی کے شدید خواہش مند بچے ہر چیز کے لیے والدین کو تنگ کریں گے اور والدین کا آسرا بننے کے بجائے ان پر بوجھ بن جائیں گے۔ جب والدین ان کے اخراجات پورے نہیں کرسکیں گے تو گھر ٹوٹ جائے گا۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ پہلے لڑکا و لڑکی دونوں خود کو شادی کی ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل بنائیں پھر شادی کریں؟
جن لوگوں نے کم عمری میں شادی کی ان کی زندگی کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیجیے۔جن بچوں کو خوش قسمتی سے والدین نے اور نصیب نے سنبھال لیا ان کا مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن زیادہ تر مثالیں ایسی ملیں گی جہاں جوان جوڑوں کے لیے شادی باعث شادمانی بننے کے بجائے سوہانِ روح بن جاتی ہے۔ لہذا نوجوانوں کو آنکھیں کھلی رکھ کر ان تجربات سے سیکھنا چاہیے۔ اگر نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ گناہ کیے بغیر نہیں رہ سکتے تو براہ راست والدین سے کھل کر بات کریں کہ آپ کو گناہ سے بچا لیں۔ کیونکہ کسی مفتی، رشتے دار یا دوست سے یہ مسئلہ بیان کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ صرف والدین ہی ہیں جو آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تھوڑا نفس شناس بنیں اور اپنے بچوں کا ذہن پڑھیں۔ ان کے حال چال سے اندازہ ہو جائے گا کہ ان کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ اس طرح مسئلہ گمبھیر ہونے سے پہلے بروقت کونسلنگ کے ذریعہ اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ بچوں کے ساتھ ان کے مستقبل پر کھل کر بات کریں۔ انہیں سمجھائیں کہ وہ جلد سے نکاح اور ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل بن جائیں۔
ہم اکثر خبروں میں پڑھتے ہیں کہ لڑکا اور لڑکی والدین کے انکار پر گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کر لیتے ہیں۔ اگرچہ علماء کے مطابق ایسا نکاح، نکاح ہی نہیں ہوتا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد جائز نہیں ہوتی مگر جسے اس چیز کی پروا ہو وہ خفیہ دوستی ہی کیوں کرے گا۔ ایسے 95 فیصد نکاح جلد ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ وجہ شوہر اور سسرال کا تشدد طعنے اور شک ہوتا ہے اخراجات پر جھگڑا۔ ذرا سوچیے کہ ایسی لڑکی کی زندگی طلاق یا خلع کے بعد کیسی ہوتی ہو گی۔ پہلے تو وہ والدین کے گھر جا نہیں سکتی اور اگر والدین اس کو معاف کر کے لے بھی جائیں تو معاشرہ اس لڑکی اور اس کے خاندان کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے۔
اس لیے نوجوانوں کو چاہیے کہ ایسے مواد یا لٹریچر سے دور رہیں جو ان کہ شہوت کو بڑھائے۔ زندگی میں صبر سے کام تو لینا ہی پڑے گا۔ شہوات پر قابو پانے کے لیے روزے رکھیں۔ نظر نیچی رکھیں۔ پردے کا اہتمام کریں۔ نامحرم سے اختلاط سے پرہیز کریں تاکہ جنسی بے راہ روی کی طرف رغبت نہ ہو اور شادی خواہ کسی بھی عمر میں کریں شادی سے پہلے سورہ البقرہ، التحریم ، النور اور الطلاق کا ترجمہ و تفسیر کے ساتھ مطالعہ ضرور کر لیں، کیونکہ صرف اسلام ہی آپ کے کنوار پن کو پاکیزہ اور شادی شدہ زندگی کو خوش گوار بنانے کا ضامن ہے۔
اور یہ بھی یاد رکھیے کہ جو خصوصیات آپ اپنے زوج میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ اپنے آپ میں پیدا کر لیں تو ان شاء اللہ آپ کو ویسا ہی جوڑ مل جائے گا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ حرام کاری کرنے والوں کو زوج باعمل مسلمان ملے۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023