شادیاں ملک میں ہی کیجیے

سیر و سیاحت اور شادی بیاہ اندرون ملک کرنے سے معیشت مضبوط ہونے کے امکانات

زعیم الدین احمد حیدرآباد

پچھلے دنوں وزیر اعظم نریندر مودی نے من کی بات میں بڑا دلچسپ نعرہ دیا۔ اب تک ہم ’’میڈ ان انڈیا ‘‘کا نعرہ سنتے تھے لیکن مودی نے ’’ویڈ ان انڈیا‘‘ کا نعرہ دیا ہے، یعنی شادیاں بھارت میں ہی کیجیے۔ یہ نعرہ سن کر بہت سے لوگوں کو تعجب بھی ہوا ہوگا کہ یہ کس قسم کی بات ہے؟ لوگ تو ملک میں ہی شادی کرتے ہیں، ویسے بھی شادی ہمارے ملک میں جس دھوم دھام سے منائی جاتی ہیں ویسی شاید دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں منائی جاتی ہوگی۔ شادی کے رسم و رواج کئی دن تک ادا کیے جاتے ہیں جو شادی کے کئی دن قبل شروع ہوجاتے ہیں اور شادی کئی دن بعد تک یہ جاری رہتے ہیں، خاص طور پر ہندو سماج میں شادی ایک کلچرل ایونٹ کے طور پر منائی جاتی ہے۔ لڑکی دیکھنے سے لے کر شادی کے بعد کی سسرالی دعوتوں تک یہ رسوم و رواج چلتے ہیں۔ جتنا وقت اور پیسہ شادیوں میں خرچ کیا جاتا ہے وہ ہمارے تصور سے کہیں زیادہ ہے۔ بہرحال شادیاں تہذیب کی عکاس بھی ہوتی ہیں، عوام اپنی اپنی تہذیب و تمدن کے مطابق شادی کرتے ہیں۔ ہمارا ملک مخلتف تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔ تمل ناڈو میں رہنے والا ایک طریقے سے شادی کرتا ہے تو لداخ میں بسنے والا الگ طریقے سے شادی کرتا ہے۔ بھارت انتہائی متنوع قسم کی تہذیب و تمدن کا حامل ملک ہے۔
ان سب کے بیچ وہ کیا وجہ بنی کہ وزیر اعظم کو اپنے من کی بات میں یہ کہنا پڑا کہ بھارت میں ہی شادی کیجیے۔ واقعی ہمارے لیے تو یہ حیرت میں مبتلا کرنے والی بات ہے۔ جب ہم اس بات پر غور کریں گے تو اس کی کچھ معنویت نظر آتی ہے۔ باتوں باتوں وہ گہری بات کہہ گئے، کیوں کہ اگر آپ اپنے ملک کے سماجی تانے بانے پر غور کریں گے تو آپ واضح طور پر نظر آئے گا کہ ہمارا سماج درحقیقت عدم مساوات کے مرض میں مبتلا ہے۔ سماجی عدم برابری ایک غیر منصفانہ نظام ہے جو عوام کو مختلف خانوں میں بانٹتا ہے۔ اونچ نیچ اور ذات پات کا نظام جو سماج کے ایک بڑے حصے کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہوا ہے، اسی کا اثر زندگی کے ہر شعبے پر ہم کو نظر آئے گا۔ ایک طرف سماجی عدم مساوات ہیں تو دوسری طرف بڑے ہیبت ناک معاشی عدم مساوات بھی پائے جاتے ہیں، یہ عدم برابری اتنی خطرناک ہے کہ ایک شخص ایک وقت کی روٹی کا محتاج ہے تو دوسرے کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ اپنا سفر ذاتی ہوائی جہاز میں کر رہا ہے۔ ہمارے سماج کا سات فیصد حصہ سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے یعنی اس کی روزآنہ کی کمائی ایک ڈالر یعنی اسی روپے بھی نہیں ہے اور چوراسی فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی روزآنہ کی آمدنی سات روپے ہے یعنی سماج کا یہ طبقہ بہ مشکل اپنی ضروریات زندگی پوری کر پاتا ہے تو دوسری طرف سماج میں دو فیصد لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر لمحہ اپنی دولت میں کروڑوں روپوں کا اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ آٹھ فیصد طبقے کے پاس بھی اچھی خاصی دولت پائی جاتی ہے، جنہیں متمول طبقہ کہا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی معاشی عدم برابری یہاں پائی جاتی ہے۔
مذکور دو سماجی طبقات جن میں امیر ترین اور ان سے کچھ کم درجے کے لوگ جو سماج کا بارہ فیصد حصہ ہیں، کچھ عرصے سے ان کے اندر ایک تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اسی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے وہ بات کہی جس کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے۔ تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ یہ لوگ اپنی شادیاں غیر ملکیوں سے کرنے لگے ہیں، جس طرح سیر و تفریح کے لیے لوگ بیرون ملک جانا پسند کرتے ہیں بلکہ ان سے اکثر بیرون ملک ہی کا سفر کرتے ہیں۔ ملک میں سیاحت کرنے کے بجائے بیرون ملک جاتے ہیں یہاں کی سیاحت کو فروغ نہیں دیتے، بیرون ملک بھی امریکہ یا کسی یورپی ملک کو نہیں بلکہ تھائی لینڈ، سنگاپور، انڈونیشیا، ملیشا جیسے ممالک کو جانے لگے ہیں۔ ان ممالک کو جانے کے کیا مقاصد ہیں ان کا تذکرہ یہاں مقصود نہیں ہے۔ جس طرح شہری بیرون ملک سیاحت کو ترجیح دے رہے ہیں بالکل اسی طرح بیرون ملک کی لڑکیوں سے شادی بھی ان کی پہلی پسند بن گئی ہے۔ ایک اور بات اس میں یہ بھی ہے کہ شادی کے بعد سیر و تفریح یعنی ہنی مون کے لیے بھارت کے قریبی ممالک کو جانا زیادہ پسند کر رہے ہیں، اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے یہ بات بھی کہی کہ آپ کو سیاحت کے لیے اپنے ملک کے خوبصورت مقامات کو ترجیح دینا چاہیے، بیرون ممالک کی سیاحت کو جانا گناہ نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ اپنے ملک میں بھی سیاحت کریں۔
ان دو باتوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج سیاحت بہت بڑی صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ نوجوان طبقے کو اس شعبے میں روزگار فراہم ہو رہے ہیں، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ملک کی جی ڈی پی میں اس شعبے کا بہت بڑا حصہ ہے۔ کئی ممالک کی آمدنی سیاحت پر ہی منحصر ہے۔ سیاحت پر ہی وہاں کی جی ڈی پی کا انحصار ہے، ملک کی آمدنی کو بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح بہت سارے افراد کو یہ نہیں معلوم کہ اس وقت شادی بھی صنعت بنی ہوئی ہے، یعنی میریج انڈسٹری بھی ایک معیشت ہے۔ اکثر لوگوں کو اس کے بارے نہیں معلوم ہے۔ اس وقت سیکڑوں کی تعداد میں میریج بیورو کھلے ہوئے ہیں، جس سے لوگ ہزاروں کروڑ کی کمائی کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہمارے ملک میں سالانہ 38 لاکھ شادیاں ہوتی ہیں۔ کنفڈریشن آف انڈین ٹریڈرز کے مطابق اس سال شادیوں کے موسم میں تقریباً 38 لاکھ شادیاں ہوں گی۔ شادیوں کا یہ موسم نومبر کی 23 تاریخ سے شروع ہو کر مارچ کے پہلے ہفتے تک جاری رہتا ہے۔ کنفیڈریشن نے اس سال لوکل ٹریڈرز کی کمائی کا جو تخمینہ لگایا ہے وہ تقریباً 5 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ اس سال شادیوں میں 5 لاکھ کروڑ روپے کا کاروبار ہونے کا امکان ہے اور یہ کوئی معمولی رقم نہیں ہے، یہ بہت بڑی رقم ہے۔ ایک دور تھا جب شادیوں کی رسومات کئی دنوں تک جاری رہتی تھیں، مہمان شادی والے گھر میں رہتے تھے اور بہت سارے رسوم ادا کیے جاتے تھے۔ لیکن آج زمانہ بدل گیا ہے۔ سماج تھوڑا جدید ہوگیا اور طویل شادیوں کا دور ختم ہوتا چلا گیا، لیکن کچھ عرصے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ وہ روایت نئے قالب میں پھر سے سماج کے اندر سرایت کر چکی ہے۔ آج کل شادیاں کئی کئی دنوں تک جاری رہ رہی ہیں، شادیاں مختلف تقریبات کا ایک مجموعہ بن چکی ہیں۔ رقعہ کی تقسیم کی رسم، کبھی مہندی کے نام پر تقریب رکھی جاتی ہے، کبھی منہ دکھائی کے نام کی تقریب، الغرض مختلف ناموں سے تقریبات رکھے جاتے ہیں۔ ان تقریبات میں الگ الگ سرگرمیاں انجام دی جاتیں ہیں۔ میک اپ کی تقریب، ویڈیو گرافی، کھانے کھلانے وغیرہ، ہزاروں روپے کے تحائف دیے جاتے ہیں وغیرہ۔ ان تقریبات میں خرچ کیا جانے والا روپیہ بازار میں گردش کرتا رہتا ہے، کاروبار بڑھتا ہے۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ کچھ شادیاں ایسی بھی ہوتی جو کسی سیاحتی مقام پر کی جاتی ہیں، جیسے کسی مشہور بادشاہ کے محل میں کسی مشہور پیلیس میں، ساحل سمندر پر، ہوائی جہاز میں، ہوائی غبارے میں وغیرہ۔ ان مختلف انداز میں شادیوں کی تقاریب منعقد کی جارہی ہیں، اور ان تقاریب کے انعقاد پر بے دریغ روپیے خرچ کیے جارہے ہیں۔ ایسے لوگ جو متمول ہیں یا مال دار ہیں ان کا تو معاملہ الگ ہے، ان کی تقریبات تو کہیں بیرون ملک منعقد ہو رہی ہیں۔ ایک سیاست داں نے تو اپنی لڑکی کی شادی ملیشیا میں رکھی اور تقریباً 5 سو عزیز و اقارب کو بذریعہ طیارہ ہندوستان سے ملیشیا اس تقریب لے گئے۔ اسی طرح جو مال دار ہیں ان میں یہ رجحان عام ہوتا جا رہا ہے کہ بیرون ملک جا کر شادی کی تقریب منائیں، اور بڑے شان و شوکت کے ساتھ شادی کی تقریب منعقد کریں۔ لازمی بات ہے کہ جب شادی کی تقریب بیرون ملک منعقد ہوگی تو اس کے اخراجات بھی وہیں ہوں گے اور پیسے کی گردش بھی اسی ملک میں ہوگی، جس کے نتیجے میں اس ملک کی معیشت مستحکم ہوگی۔ اسی اندیشے کے تحت وزیراعظم مودی نے کہا تھا کہ شادی کی تقاریب اپنے ملک میں منعقد کریں تاکہ پیسہ یہیں گردش میں رہے اور ملک کی معیشت مضبوط ہو۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس سال 38 لاکھ شادیاں ہوں گی جس کے نتیجے میں اندازہ ہے کہ ان کی تجارت میں پچھلے سال کے مقابلے میں 26 فیصد کا اضافہ ہوگا۔ پچھلے سال انہی شادیوں کے موسم میں 32 لاکھ شادیاں ہوئیں تھیں، جس میں مقامی تاجروں کو تقریباً 4 لاکھ کروڑ کی آمدنی ہوئی تھی۔ ملک کے صدر مقام دہلی میں اس سیزن میں 4 لاکھ سے زیادہ شادیاں ہونے کی توقع کی جا رہی ہے جس سے تقریباً سوا لاکھ کروڑ روپے کا کاروبار ہونے کا امکان ہے۔ اندازوں کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 7 لاکھ شادیاں ایسی ہوں گی جن میں فی شادی کا خرچ 3 لاکھ روپے ہوگا، اور 8 لاکھ شادیاں ایسی ہوں گی جن میں فی شادی کے اخراجات 6 لاکھ روپے ہوں گے، جبکہ تقریباً 10 لاکھ شادیاں ایسی ہوں گی جن میں فی شادی کا خرچ 10 لاکھ روپے ہوگا، اور 7 لاکھ شادیاں ایسی ہوں گی جن میں فی شادی کا خرچ 15 لاکھ روپے ہوگا، 5 لاکھ شادیاں ایسی ہوں گی جن میں فی شادی کا خرچ 25 لاکھ روپے ہونے کا امکان ہے، 50 ہزار شادیاں ایسی ہوں گی جن میں فی شادی کا خرچ 50 لاکھ روپے تک ہوگا اور 50 ہزار شادیاں ایسی ہوں گی جن کا فی شادی کا خرچ ایک کروڑ روپے یا اس سے زیادہ ہوگا۔ جو لوگ بیرون ملک اپنی شادی کی تقریبات منعقد کر رہے ہیں اندازے کے مطابق وہ ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ کر رہے ہیں۔ اگر وہ لوگ بھی اپنے ملک میں ہی شادی تقاریب رکھیں گے تو یہ روپیہ بھی ہماری معیشت میں داخل ہو گا، بازار میں گردش کرے گا جس سے ملک کی معیشت مستحکم ہوگی۔ اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے ہمارے ملک کے مکھیا نے کہا ہے کہ اپنی شادیوں کی تقاریب اپنے ہی ملک میں منعقد کریں۔
***

 

***

 آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہمارے ملک میں سالانہ 38 لاکھ شادیاں ہوتی ہیں۔ کنفڈریشن آف انڈین ٹریڈرز کے مطابق اس سال شادیوں کے موسم میں تقریباً 38 لاکھ شادیاں ہوں گی۔ شادیوں کا یہ موسم نومبر کی 23 تاریخ سے شروع ہو کر مارچ کے پہلے ہفتے تک جاری رہتا ہے۔ کنفیڈریشن نے اس سال لوکل ٹریڈرز کی کمائی کا جو تخمینہ لگایا ہے وہ تقریباً 5 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ اس سال شادیوں میں 5 لاکھ کروڑ روپے کا کاروبار ہونے کا امکان ہے اور یہ کوئی معمولی رقم نہیں ہے، یہ بہت بڑی رقم ہے


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2024