’’شادی مبارک‘‘

حسیب جاوید، شارجہ

عزیز صاحب نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اچانک اس کشمکش کا شکار ہو جائیں گے۔ وہ تو یوں ہی واٹس ایپ اور یوٹیوب پر ٹائم پاس کیا کرتے تھے۔ انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ کب وہ اسرار احمد صاحب کے اصرار پر ان کے سماجی گروہ میں شامل ہوگئے۔ اس گروہ کے افراد، اسرار احمد صاحب کی قیادت میں شادی بیاہ میں لین دین اور بے جا رسومات کی مخالفت کرتے ہوئے نکاح کو آسان بنانے کی کوششیں کر رہے تھے اور ان کوششوں کے نتیجہ میں معاشرہ میں کچھ تبدیلی بھی رونما ہو رہی تھیں۔
عزیز صاحب بھی ان کے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہو کر جہیز کے خلاف ڈھونڈ ڈھونڈ کر نئے نئے پوسٹ فارورڈ کرنے لگے اور کچھ ہی دنوں میں گروپ کے ایڈمن کو پیچھے چھوڑ خود ہی کمان سنبھال لی اور بڑی سختی سے جہیز کی مخالفت اور جہیز لینے والوں پر لعن طعن اور ان کی شادیوں کے بائیکاٹ کی مہم چلانے لگے۔ پھر ہوا یوں کہ عزیز صاحب سوسائٹی کی مشہور ومعروف شخصیت قرار پائے۔ وہ روز روز ہر خاص و عام کے ریٹنگ کے ترازو میں تلنے لگے۔ کبھی حمایت کا پلڑا بھاری ہوجاتا تو کبھی مخالفت کا ۔
وقت کے ساتھ ساتھ عزیز صاحب کی عمر ڈھلنے لگی۔ مہنگائی تو بڑھتی جارہی تھی لیکن کاروبار جوں کے توں چل رہے تھے۔ میاں بیوی اور تین بچوں کا گزارہ ہو جاتا تھا لیکن کچھ بچت ہونے نہیں ہو پاتی تھی۔ بیٹا انجنئیرنگ کے فائنل ایئر میں پہنچ چکا تھا۔ دونوں بیٹیاں بھی دسویں اور بارہویں میں خوب پڑھائی کر رہی تھیں۔
اس دوران بغیر کسی اعلان کے یہ بات شہر میں عام ہو گئی کہ عزیز صاحب اپنے لڑکے کی شادی بغیر کسی رسم و رواج اور لین دین کے انتہائی سادگی سے انجام دیں گے۔ اس سانحہ میں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کے حمایتیوں سے زیادہ ان کے مخالفین سوشل میڈیا پر زیادہ ایکٹیو تھے کہ اب دیکھیں اپنی باری کیسے کھیلتے ہیں۔
عزیز صاحب کے فرزند اور مستقبل قریب کے دولہے میاں نے انجینئرنگ پاس کرلی اور ایک عارضی نوکری بھی جوائن کرلی۔
اسرار احمد صاحب کی نظر خاص بھی عزیز صاحب کے انجنیئر بیٹے پر پڑگئی اور پھر وہ بھی ان کی تقاریر کے موضوعات میں بھی شامل ہوگیا۔ ہونے والی ایک مثالی شادی کی مارکیٹنگ شروع ہو گئی۔ عزیز صاحب، اسرار احمد صاحب کے ساتھ اور زیادہ مصروف ہو گئے اور گھر اور خاندان میں لڑکے کی شادی کا موضوع زیر بحث آ گیا۔
کچھ رشتہ دار اور شناسا افراد کی طرف سے رشتے آنے لگے۔ اسرار احمد صاحب نے تو گویا اعلان کر دیا تھا کہ شادی انتہائی سادگی سے ہوگی۔ ہر موضوع کی طرح اس موضوع پر بھی خاندان کے افراد تین گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک حمایتی گروہ، دوسرا مخالف گروہ اور تیسرا زبان بند لیکن آنکھیں کھلی والا تماشائی گروہ جو کہ اکثر زیادہ تعداد میں پایا جاتا ہے۔ حمایتی گروہ اور مخالف گروہ میں مقابلہ شروع ہوگیا۔ حمایتی گروہ کمزور پڑنے لگا اور مخالف گروہ اپنے دلائل کے ساتھ حاوی ہونے لگا۔
عزیز صاحب اور ان کی اہلیہ بھی بٹ گئے۔ عزیز صاحب کا تو وقار کا مسئلہ بن گیا تھا لیکن ان کی اہلیہ دلیل دینے لگیں کہ گھر کا فریج کئی بار ریپیر ہو چکا ہے۔ بہو نیا فریج لے آئے تو کیا قباحت ہے۔ انجنیئر بیٹا اپنی دس سالہ پرانی بائیک پر کام پر جا رہا ہے جو کئی بار راستے میں بند ہو جاتی ہے۔ اگر سسرال والے اپنی خوشی سے نئی بائیک دلوائیں گے تو اس میں کیا حرج ہے۔ اگر اسرار احمد صاحب کی باتوں میں آگئے تو پھر اس طرح کی تکالیف سے چھٹکارا ممکن نہیں۔
اس دوران اسرار احمد صاحب کو عزیز صاحب کے خاندان میں ہی ایک اور کیس بھی مل گیا۔ عزیز صاحب کی چھوٹی بہن کا لڑکا کافی محنتی تھا۔ ابھی چند ماہ ہوئے اپنے محلے کے ایک چوراہے پر ایک کرانہ اور گھریلو سامان کی ریٹیل شاپ اوپن کیا ہی تھا کہ لوگوں نے اس کے رشتے کی بات شروع کر دی۔ اسرار احمد صاحب کو پتہ چلا تو وہ عزیز صاحب کے توسط سے ان کے بہنوئی سے رابطہ کر بیٹھے اور دو چار ملاقاتوں کے بعد انہیں بھی منوا لیا کہ وہ بھی اپنے لڑکے کی شادی انتہائی سادگی سے کریں گے۔
عزیز صاحب کی اہلیہ اور ان کی بہن ایک ناگہانی صورتحال سے دوچار ہو گئیں۔ دونوں ہر مہینہ کے آخر میں اپنے اپنے گھروں کے اخراجات پورے نہ ہونے کی صورت میں رشتہ داروں سے کچھ ادھار لے کر پھر اگلے مہینے واپس کر دیا کرتی تھیں۔ ایسے میں چند رشتہ داروں کے طعنے زور پکڑنے لگے کہ کیا بیٹوں کی شادیاں بھی ادھار لے کر کریں گے؟
دونوں مائیں احتجاج بلند کرنے لگیں کہ بہوئیں اپنے ساتھ کچھ روپیہ پیسہ اور ساز وسامان لے کر آئیں تو انہیں ادھار سے چھٹکارا ملے گا۔
دونوں گھروں میں گھمسان شروع ہوگیا۔ عزیز صاحب اور ان کے بہنوئی، اسرار احمد صاحب کی پشت پناہی میں اڑ گئے کہ شادیاں بغیر لین دین کے ہی ہوں گی۔
اس دوران دونوں ہونے والے دولہے اس تمام ہنگامے سے دور اپنے اپنے مستقبل کی فکر میں لگے رہے۔ انجنیئر کی آدھی تنخواہ اپنی بائیک کی مرمت اور پٹرول میں صرف ہو جاتی تھی۔ پرائیویٹ کنسٹرکشن کمپنی میں تنخواہ میں اضافے کی کوئی امید نہیں تھی اور دوسرے ریٹیل شاپ کے مالک دولہے میاں گاہک کے انتظار میں وقت کاٹ رہے تھے۔ سوپر مارکیٹ اور ہول سیل سے خریداری کر کے واپس آنے والے لوگ کسی بھولے ہوئے آیٹم کی خریداری کے لیے اس چھوٹی سی ریٹیل شاپ پر رک جاتے تھے۔
سب کی زبان پر ان دونوں کی شادی بلکہ سیدھی سادی شادی کے چرچے تھے لیکن ان دونوں کی اس حالت زار پر کسی کی توجہ نہ تھی سوائے ایک شخصیت کے اور وہ تھے عزیز صاحب کے بڑے بھائی جمیل بھائی۔
جمیل بھائی ایک لمبا عرصہ خلیجی ممالک میں گزار کر وطن واپس لوٹے تھے۔ وہ اپنے بچوں کی شادیاں کر کے انہیں مختلف ممالک میں سیٹل کرا چکے تھے۔ وہ اکثر اپنے خاندان اور شناساؤں کے بچوں کے بارے میں معلومات حاصل کر انہیں مشورے اور ہر ممکن مدد کرنے کی کوششیں کرتے رہتے تھے۔
اپنے چھوٹے بھائی عزیز اور بہن کے بچوں کی شادیوں کے چرچے بھی جمیل بھائی تک پہنچ گئے اور پھر انہوں نے اپنے بھائی عزیز اور بہنوئی کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ وہ اسرار احمد صاحب کے شادی بیاہ میں سادگی اور اصراف سے بچنے کے فلاحی فلسفے کو تو مان گئے لیکن انہیں پہلا کام دوسروں پر چھوڑ کر دوسرا کام کرنے والا بتا دیا۔ انہیں دو نمبری قرار دے دیا اور پھر اپنے بھائی عزیز اور بہنوئی کو پہلا کام کرنے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ عادت کے مطابق خود بھی اس کام میں جٹ گئے۔
جمیل بھائی کے مشوروں پر دونوں بیٹوں کی شادیوں کا پلان ملتوی کر دیا گیا۔ جمیل بھائی نے پھر اپنے خلیجی ممالک کے دوستوں اور شناساؤں سے رابطے قائم کیے اور کافی جدوجہد کے بعد انجنیئر بھتیجے کو سعودی عرب میں اچھی سی جاب دلوانے میں کامیاب ہو گئے اور پھر اپنے بہنوئی کے بھائی جو ایک بڑے سرکاری عہدہ پر ریٹائر ہوے تھے، ان سے رابطہ کر بیٹھے۔ وہ اپنی ملازمت کے دوران دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمرشیل پراپرٹی خرید چکے تھے۔ ان کے بچے بھی اپنی اپنی جگہ پرسکون اور مصروف تھے۔ انہوں نے اپنے ریٹائرمنٹ کے پیسے بنک میں جمع کر رکھے تھے۔ کمرشیل پراپرٹی کے معقول کرایہ پر گزارہ ہو رہا تھا اور مشاعروں اور محفلوں میں مہمان خصوصی بھی بنے ہوئے تھے۔ جمیل بھائی نے انہیں بادل نخواستہ منا ہی لیا کہ وہ اپنے بھتیجے کی ریٹیل شاپ کو ہول سیل شاپ میں تبدیل کرنے کے لیے اپنے بینک میں منجمد سرمائے کا کچھ عرصہ کے لیے استعمال کریں گے۔
ایک سال گزر گیا۔ عزیز صاحب کے انجنیئر بیٹے کی سعودی عرب میں محنت ہندوستان میں رنگ لانے لگی۔ گھر میں نیا فریج آگیا اور پرانی بائیک بیچ کر ایک نئی بائیک لے لی گئی۔ ان کے بہنوئی اپنے بیٹے کی محنت کے نتیجے میں اس کی ہول سیل کی شاپ پر کاؤنٹر پر نوٹ گننے لگے۔ دونوں لڑکوں کی ماؤں کے ہاتھوں میں اب مہینے کے اواخر میں کچھ رقم بچنے بھی لگی۔
ڈیڑھ سال کا ہی عرصہ گزرا تھا کہ دونوں کی شادیاں طے کردی گئیں اور اسرار احمد صاحب کی مرضی کے مطابق تمام معاملات سادگی کے ساتھ طے پاگئے۔ دو سال ہوتے ہوتے دونوں شادیاں بڑی سادگی سے انجام کو پہنچیں۔ شرکاء نے ایک دوسرے کو شادی کی مبارکباد دی۔ اسرار احمد صاحب نے محفل نکاح میں تقریر کی جس میں انہوں نے برملا اعتراف کیا کہ وہ دو نمبر کے سماجی کارکن ہیں جبکہ پہلا نمبر جمیل بھائی کا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 جون تا 24جون 2023