سیرت نگاری اور سرسید احمد خان

کتاب خطبات احمدیہ؛ اعتراضات کی تردید اورسیرتِ رسولﷺ کا اہم سنگ میل

0

ہاشمی سید شعیب ،ممبئی

سر سید احمد خان کا جب بھی تذکرہ ہوتا ہے تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، تہذیب الاخلاق، سائنٹفک سوسائٹی ،قرآن کی تفسیر،علی گڑھ تحریک اور تعلیم سے وابستہ کئی چیزیں سامنے آجاتی ہیں۔لیکن اگریہ کہا جائے کہ سرسید ایک بہترین سیرت نگار بھی تھے تو بیشتر افراد چونک جاتے ہیں۔آج اس مضمون میں سر سید کی سیرت نگاری خصوصاً ان کی شہرت یافتہ کتاب ”خطبات احمدیہ“ کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔
سر سیداحمد خان ولد میر محمد متقی خان۱۷ اکتوبر ۱۸۱۷ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ان کی تعلیم پر انے اسلامی اصولوں پرہوئی۔پہلے قرآن مجید، پھر فارسی اور عربی کی درسی کتابیں مختلف اساتذہ سے پڑھیں۔ سر سید کی ابتدائی زندگی پر ان کی تربیت کا بہت گہرا اثر ہے۔ اپنے نانا خواجہ فرید الدین سے انہوں نے تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے خالو مولوی خلیل اللہ کی صحبت میں رہ کر عدالتی کام کاج سیکھا۔سر سید احمد خان نے اپنی حیات میں مختلف شعبہ جات میں ایسی ایسی نمایاں خدمات انجام دیں کہ جن کاتذکرہ کسی ایک مضمون میں کرنا لامحال ہے۔
اردوزبان میں سیرت نگاری کی ابتدا گیارہویں صدی ہجری سے ہوتی ہے اوریہ سیرت نگاری کا پہلا دور ہے۔ جبکہ اس سے قبل اردوزبان وادب میں سیرت النبیؐ کا بیشتر ذخیرہ منظوم ہے کیوں کہ اس زمانہ میں نثر سے زیادہ نظم میں دلچسپی لی جاتی تھی ۔ جنوبی ہند میں بالخصوص اور برصغیر ہند و پاک کے دیگر علاقوں میں بالعموم ایسی نظمیں کثرت سے لکھی گئی ہیں جو آنحضرتؐ کی حیات مقدسہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں ۔ اسی وجہ سے سرسید سے قبل سیرت نبوی پر چار طرح کی تصانیف ملتی ہیں جن میں میلا دنامے ، روایتی کتب سیرت اور ان کے تراجم اور مناظرانہ کتب سیرت کی تحریریں شامل ہیں ۔
یہ بات واضح رہے کہ سر سید احمد خان بنیادی طور پر سیرت نگار نہیں تھے لیکن ان کو ابتداء عمر سے ہی رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی سے محبت اور عقیدت تھی۔ جب ان کی عمر محض 26 برس تھی انہوں نے’جلاء القلوب بذکر المحبوب‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تھی ۔ اس مختصر کتاب میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی ولادتِ با سعادت ، معجزات ، دیگر حالات اور وفات وغیرہ سے متعلق معتبر اور مستند روایات شامل کی تھیں ۔ اس کا بیش تر مواد شاہ ولی اللہ کی کتاب ”سرورالمحزون“ اور شیخ عبدالحق دہلوی کی کتاب ”مدارج النبوۃ“ سے ماخوذ ہے۔اس کے علاوہ سیرت پران کی جوکتاب سب سے زیادہ مقبول ہوئی وہ ”خطباتِ احمدیہ “ہے جسے عالمی شہرت حاصل ہوئی ہے۔
’’جلاء القلوب بذکر المحجوب ‘‘لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ سر سید احمد خاں کے دل میں رسول اللہ ﷺ کا بڑا احترام تھا اور ان کی خواہش تھی کہ پیغمبر اسلام سے متعلق مستند روایات پر مبنی حقائق عوام تک پہنچیں ۔ اس لیے کہ ہندوستانی مسلمان میلاد النبی کے موقع پر سیرت النبی کی متعدد محفلیں منعقد کرتے تھے اور ان محفلوں میں اس زمانے میں مروج مولود نامے اور مجالس سامعین کو پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ان کتابوں میں ایسی باتوں اور واقعات کو پیش کیا جاتا تھا جو نبی کریم ﷺ کی پیدائش کے موقع پر پیش آئے تھے۔ سرسید احمد کو ایسے مولود ناموں میں پیش کردہ مافوق الفطرت روایتوں پر اعتراض تھا۔سر سید نے اس رسالہ میں صحابہؓ کے حالات زندگی اور ان کا نبی سے قلبی لگاؤ پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں آپؐسے تعلق رکھنے والے پالتو جانور ،ہتھیار اور آپ کے معجزے اورحجتہ الوداع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس رسالے کی تصنیف کے وقت سرسید احمد خان معجزات کے قائل تھے۔ سرسید نے یہ کتاب ایک نعت پر ختم کی ہے ۔
۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کی جانب سے جو آواز اٹھائی گئی اس کو پہلی جنگ آزادی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دور میں انگریزوں کے خلاف علماء کرام اور دیگر معزز مسلم رہنماؤں کی جارحیت کو دیکھتے ہوئے انگریزوں کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔برطانوی حکومت کی ایما پر مسلمانوں کا دھیان منتشر کرنے اور انہیں ذہنی اذیت پہنچانےکی غرض سے عیسائی پادریوں نے زبانی اور لٹریچر کے ذریعہ اسلام اور حضرت محمدﷺ پر رکیک حملے کیے اور اسلام اور حضور اکرم کے بارے میں زہر آلود لٹریچر کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا جس کی وجہ سے مناظرانہ ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ مگر عیسائیوں کی اس سازش کو مسلم علماء اور دانشوروں نے جوابی لٹریچر کے ذریعے ناکام بنا دیا جن میں سر سید احمد خان، مولانا الطاف حسین حالی اور مولوی چراغ علی کا نام سر فہرست ہے۔ مشہور مستشرق ولیم میور نے 1861 میں چار ضخیم جلدوں میں The Life Of Muhammad کے نام سے کتاب لکھی تھی جس میں اس نے اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے بارے میں نہایت متعصّبانہ اور بے سروپا تبصرے کیے تھے۔ولیم میور نے یہ کتاب ایک فنڈر نامی یورپی پادری کی فرمائش پر لکھی تھی ۔ جب سر سید احمد خان کو اس کا علم ہوا تو وہ بہت ملول اور مضطرب ہوئے ۔ ان کے اضطراب کا حال مولانا حالی نے ان الفاظ میں بیان کیا :
” جب سر ولیم میور کی کتاب لائف آف محمدؐ ‘چار جلدوں میں چھپ کر ہندوستان میں پہنچی تو اس وقت سر سید کی بے چینی کا جو عالم تھا وہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے۔ وہ جب بھی کام سے فارغ ہو کر بیٹھتے تھے ، اکثر سرولیم کی کتاب کا ذکر کرتے تھے اور نہایت افسوس کے ساتھ کہتے تھے کہ اسلام پر یہ حملے ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کو مطلق خبر نہیں‘‘
سر سید نے ولیم میور کی اس زہر آلود کتاب کا جواب لکھنے کا ارادہ کیا تو اس کے لیے بنیادی کتابیں اور مراجع جمع کرنے میں مصروف ہو گئے۔اس سلسلہ میں سب سے پہلے انہوں نے اس کتاب کا فارسی ترجمہ کروایا۔سرسید نے جس قسم کی کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تھا اس کے لیے صرف انگریزی ضروری نہیں تھی بلکہ یونانی، لاطینی، عبرانی ، جرمنی اور فرانسیسی بھی ضروری تھی تاکہ اعتراضات کی تردید کے ساتھ ساتھ عیسائیوں اور یہودیوں کو اسلام کی طرف راغب کیا جائے۔ اس کےلیے انہوں نے مطالعہ کوکافی اہمیت دی۔ سرسید نے فیصلہ کیا کہ وہ اس فریضہ کی انجام دہی کے لیے لندن جائیں گے اور وہاں بیٹھ کر کتاب کا جواب لکھیں گے کیونکہ ہندوستان کے تمام بڑے کتب خانے اور لائبریریاں انگریز لوٹ کر لندن لےگئے تھے۔ اسی اثنا میں ان کے بیٹے سید محمود تعلیمی وظیفہ پر ولایت جانے کے لیے عازمِ سفر ہوئے ۔ سر سید نے اپنےبیٹے کے ساتھ انگلستان جانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں کے کتب خانوں سے استفادہ کر کے ولیم میور کی کتاب کا جواب لکھ سکیں ۔ انگلستان پہنچتے ہی انہیں انڈیا آفس لائبریری سے ضروری کتابیں مل گئیں۔ مصر ، فرانس اور جرمنی سے شائع ہونے والی کتابیں انہوں نے ڈاک سے منگوائیں۔سرسید نے اس کتاب کے لیے جو مشقت وصعوبت اٹھائی ہے اس سے ان کی رسول اکرمﷺکے ساتھ گہری عقیدت کا پتہ بھی چلتا ہے۔ سرسید احمد خان نے اس کتاب کی تالیف و تصنیف کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا تذکرہ اپنے رفیق نواب محسن الملک کے نام ایک خط میں کچھ اس طرح کیا ہے :
” ان دنوں میں ذرا دل کو شورش ہے ۔ولیم میور نے جو کتاب آنحضرتؐ کے حال میں لکھی ہے اس کو میں دیکھ رہا ہوں ۔ اس نے دل کو جلا دیا اور اس کی ناانصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہو گیا اور مصمّم ارادہ کیا کہ آں حضرتؐ کے سیر میں، جیسا کہ پہلے ارادہ تھا کتاب لکھ دی جاوے ۔ اگر تمام روپیہ خرچ ہو جاوے اور میں فقیر بھیک مانگنے کے قابل ہو جاؤں تو بلا سے ۔ قیامت میں یہ تو کہہ کر پکارا جاوے گا کہ اس فقیر مسکین احمد کو، جو اپنے دادا محمد ﷺ کے نام پر فقیر ہو کر مر گیا ، حاضر کرو ۔ میں نے فرانس اور جرمنی اور مصر سے کتبِ سیر منگانی شروع کر دیں ۔ سیرتِ ہشام مطبوعہ اور چند کتابیں لیٹن کی خرید لیں۔ ایک آدمی مقرر کر دیا جو لیٹن کا ترجمہ کر کے مضمون بتلا سکے ۔ تین مقدمات لکھنے شروع کر دیے ۔ اول : جغرافیہ عرب ، دوم : انسابِ عرب ، سوم : ثبوت آنحضرتؐ کی نسل کا حضرت ابراہیمؑ تک ۔ سب سے مشکل کام جغرافیہ ہے اور تمام چیزوں کے متعلق اسلام و سیر کے ثبوت کی بنیاد ہے ۔ خیر اب دعا کرو ، خدا مدد کرے اور انجام کو پہنچا دے ۔‘‘(بحوالہ ’خطبات احمدیہ‘؛سر سید احمد خان ،ص۱۶)
سرسید احمد خان کے اس خط سےان کے دلی جذبات اور اس والہانہ محبت کا اظہار ہوتا ہے جو ان کو حضورؐ کی ذات اقدس کے ساتھ تھی۔لندن میں قیام کے اخراجات سرسید کے بس کی بات نہیں تھی، وہاں کے قیام کے دوران وہ اپنے دوستوں سے قرض لیتے رہتے تھے لیکن ایک وقت آیا کہ دوستوں نے قرض دینے سے انکار کرنا کردیا تو سرسید نے اپنے دوست نواب محسن الملک کو خط لکھا کہ میرا فلاں مکان فروخت کردو اور رقم مجھ کو بھیج دو پھر دوبارہ خط لکھا کہ میرے فلاں مکان میں تانبے پیتل کے بہت سے برتن ہیں ان کو فروخت کرکے مجھ کو رقم بھیج دو اور لکھا کہ میں دفاع رسول اللہ میں بے گھر اور بےسہارا ہونے کو تیار ہوں جب قیامت میں کہا جائے گا کہ لاؤ اور حاضر کرو اس فقیر اور مسکین سرسید احمد کو میرے نام پر گھر بار لٹا بیٹھا تو میرے لیے یہی اعزاز کافی ہے۔سر سید نے ولیم میور کی کتاب کے جواب میں بارہ خطبات تحریر کیے پھر ایک لائق انگریزمترجم سے انگریزی میں ان کا ترجمہ کروایا۔ 1870 میں ان خطبات کی اشاعت لندن سے A series of Essays on the Life of Muhammad کے نام سے ہوئی ۔ بعد ازاں 1887 میں اصل اردو کتاب مع اضافات علی گڑھ انسٹیٹیوٹ پریس سے شائع ہوئی ۔کتاب کا پورا نام’’ الخطبات الاحمدیۃ علی العرب والسیرۃ المحمدیۃ‘‘ ہے لیکن وہ ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ کے نام سے معروف ہوئی ۔
“ خطباتِ احمدیہ ”کا شمار سیرت کی اہم ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔ انیسویں صدی میں استشراق کے حملوں کو روکنے اور رسول اللہ ﷺ کی شبیہ کو داغ دار کرنے کی مذموم کوششوں کا بہترین جواب ہے۔ پروفیسر آرنلڈ نے اس کے بارے میں لکھا ہےکہ :
” ایسی مثالیں تو پائی جاتی ہیں کہ کسی مسلمان نےبمقابلہ عیسائیوں کے اپنی زبان میں اپنے ہی ملک میں بیٹھ کر اسلام کی حمایت میں کوئی کتاب لکھی اور اس کا ترجمہ کسی یورپ کی زبان میں ہوگیا لیکن مجھے کوئی ایسی مثال نہیں معلوم کہ کسی مسلمان نے یورپ جاکر یورپ ہی کی کسی زبان میں اس مضمون میں کتاب لکھ کر شائع کی ہو۔ ‘‘(بحوالہ ’خطبات احمدیہ‘؛سر سید احمد خان ،ص۱۱)
خطبات احمدیہ کے ۱۲ خطبوں کا مختصر تعارف
پہلا خطبہ
پہلا خطبہ جو کہ بہت مفصل ہے اس میں نہایت تفصیل کے ساتھ جزیرۃ العرب کا تاریخی جغرافیہ مع نقشہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد ان عناصر کوغلط ثابت کرنا ہے جن کا ولیم میور نے اعتراض کیا ہے ۔ خطبہ میں سب سے پہلے عرب کی وجہ تسمیہ، عرب کی حدود ، بناوٹ اور اس میں آباد قوموں اورقبائل کا تذکرہ کیا گیاہے۔ اس کے بعد حضرت ابرا ہیمؑ، حضرت ہاجرہؑ ، حضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاقؑ کا ذکر ہے ۔ساتھ ہی مختلف قوموں اور ان کے پیغمبروں کی بعثت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے واضح تاریخی دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ عربوں کی حکومتوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس خطبہ میں سرسید احمد خاں نے توریت کے حوالوں اور عیسائی محققوں کی شہادت کے علاوہ قرآن ، حدیث اور دیگر کتب کے حوالوں کے ذریعہ ولیم میور اور دیگر عیسائی مصنفوں کے خلاف استدلال کیا ہے۔حالاں کہ اس خطبہ میں حضرت اسماعیلؑ اور حضرت ہاجرہؑ کےمکہ میں سکونت سے متعلق سرسید نے احتیاط سے کام نہیں لیا۔
دوسرا خطبہ :
دوسرے خطبہ میں سرسید احمد خان نے اسلام سے قبل عربوں کے عقائد، عبادات، اخلاقیات ، رسم ورواج اور عادات و خصائل اور مذاہب کا ذکر ہے۔ شعرائے جاہلیت جن میں لبید، طرفہ، نابغہ عمرو، حاتم طائی ،بکری، زبیدی، عوص اور حارث کے نام قابل ذکر ہیں۔ ساتھ ہی عرب کے مشہور بتوں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جن میں ہبل، سواع، یغوث، یعوق، عزی، لات، منات اور نائلہ وغیرہ خاص ہیں۔ اس کے ساتھ خانہ کعبہ اور دیگر عبادت گاہوں کا ذکر کرتے ہوئے حج کا بھی بیان ہے۔ اس خطبہ میں عربوں کی تہذیب، عام اخلاقیات اور معاشرتی رسومات کے ذریعہ سے اجاگر کی گئی ہے۔اس خطبہ کے لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ سرسید اسلام سے پہلے کے عرب کے حالات اور طریقۂ عبادات کو پیش کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس لیے کہ لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ پہلے اہلِ عرب کی کیا حالت تھی اور وہ کسی طرح مختلف برائیوں میں مبتلا تھے اور اسلام کی وجہ سے اُن میں کیا تبدیلیاں آئیں جس کے نتیجہ میں شر، خیر میں بدل گیا۔
تیسرا خطبہ :-
تیسرے خطبہ میں ان ادیان اور مذاہب کا ذکر ہے جو خطہ عرب میں اسلام سے پہلے تھے۔ ساتھ ہی اس بات کی وضاحت ہے کہ اسلام ان تمام ادیان میں سے کون سے دین سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ اس خطبہ کے مطابق اہل عرب اسلام کی آمد سے پہلے چارا نواع میں منقسم تھے ۔ (۱) بت پرست (۲) خدا پرست (۳) لامذہب اور (۴) معتقدین مذہب الہامی ۔ان ادیان کے مطالعہ کا مقصد یہ تھا کہ سرسید اسلام کی حقانیت کو اور مذاہب پر ثابت کرنا چاہتے تھے اور وہ یہ بھی بتانا چاہتے تھے کہ اسلام ان ادیان میں کون سے دین سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے ۔ وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ دوسرے مذاہب کسی ایک خطہ یاکسی ایک قوم کے لیے تھے۔ اس لیے ان میں وہی باتیں یا قوانین آئے تھے جو اس قوم کے لیے ضروری ہو سکتے تھے اور چونکہ اسلام دین عالم ہے اس لیے دوسرے مذاہب کے بہت سے اصول اس میں آگئے۔اس خطبہ میں سرسید نے لکھا ہے کہ تمام دنیا کو حضرت محمدؐ کا ہمیشہ ممنون رہنا چاہیے جنہوں نے ابتدائے دنیا سے اپنے زمانہ تک کے تمام نبیوں کی رسالت کو برحق ٹھہرایا۔
چوتھا خطبہ :
اس خطبہ میں سرسیدنے لکھا ہے کہ اسلام دنیا کے حق میں رحمت بن کر آیا ہے۔ اس دین نے تمام مذاہب سابقہ کی تائید کی ہے جو مختلف انبیاء سے منسوب ہیں خاص طور سے یہودیت اور عیسائی مذہب کو اس سے نہایت فوائد پہنچے ہیں۔ یہ خطبہ تیسرے خطبہ ہی کی توسیع ہے۔ سرسید نے اس خطبہ کو چار حصوں میں منقسم کیا ہے ۔ پہلے حصہ میں وہ فائدے بیان کیے ہیں جو اسلام سے عموماً انسانی معاشرت کو اور خصوصاً موسوی اور عیسوی مذہب کو پہنچے ہیں اور اس کے ثبوت میں معروف و نامور عیسائی مصنفوں کے اقوال نقل کیے ہیں جنہوں نے اسلام کے حق میں مذہب اسلام کے مفید ہونے کی نسبت شہادتیں دی ہیں۔دوسرے حصہ میں ان متعصب مورخین و مؤلفین کی رائے کی تردید کی ہے اور ان کے الزامات اور غلط بیانوں کا جواب دیا ہے جنہوں نے اسلام کو انسانی معاشرت کے حق میں مضر بتایا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ تردید ولیم میور کی کتاب میں عائد کردہ الزامات کی ہے۔ خصوصیت سے تعدد ازدواج مطہرات ، طلاق ، غلامی، آزادی رائے کے بارے میں مفصل و مدلل بحث کی ہے ۔خطبہ کے تیسرے حصہ میں ان فوائد کو بیان کیا گیا ہے جو عیسائیوں اور یہودیوں کے مذہب کو اسلام سے پہنچے ہیں۔تیسرے حصہ میں مذہب یہود اور مذہب عیسائی کو اسلام کی بدولت پہنچنے والے فوائد کا ذکر ہے ۔اس خطبہ کےچوتھے حصہ میں ان فوائد کو بیان کیا گیا ہے جو اسلام کی بدولت خاص طور سے عیسائی مذہب کو پہنچے ہیں ۔سر سید نے لکھا ہے کہ خاص طور سے حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے تعلق سے عیسائیوں کی بد عقیدگی کی اصلاح کا کام مذہب اسلام نے ہی انجام دیا تھا۔ اسلام نے ہی کہا تھا کہ حضرت یحییٰؑ ؑسچے پیغمبر اور حضرت عیسیؑ عبد اللہ اور روح اللہ تھے۔ اسلام ہمیشہ اس زمانے کے عیسائیوں کو ان کی غلطیوں سے خبر دار کرتا رہا ہے ۔ اسی بنا پر کئی عیسائی عقیدہ توحید کےقائل ہو گئے ۔
پانچواں خطبہ :
پانچویں خطبہ میں نہایت تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کی مذہبی کتابوں پر تبصرہ کیاگیا ہے۔ اس میں کتب احادیث، کتب سیرت، کتب تفسیر اور کتب فقہ کا تجزیاتی مطالعہ بھی پیش ہوا ہے ۔ان کتابوں کے لکھنے کے مقصد و منشا پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ دیگر مذاہب کے محققین اور نکتہ چین جو اسلام کی نسبت آئندہ زمانے میں کچھ لکھنا چاہیں توان کو مسلمانوں کی مذہبی کتابوں کی طرز تصنیف سے آگاہی ہو اور وہ کبھی گمراہ نہ ہونے پائیں جیسا کہ اور مصنفین مذہبی کتابوں سے ناواقفیت کی بنا پر ہوئے تھے۔سر سید نے صحیح بخاری، صحیح مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ اور موطا امام مالک کو دیگر کتب احادیث کے مقابلہ زیادہ مستند قرار دیا ہے۔ کتب تفسیر کے متعلق سرسید نے لکھا ہے کہ اکثر لائق مفسرین نے قرآن مجید کی الگ الگ تفسیریں لکھی ہیں جن کی الگ الگ خصوصیات ہیں۔ اس خطبہ کے آخر میں کتب فقہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
چھٹا خطبہ :-
یہ پانچویں خطبہ کی توسیع ہے جو اسلام کی روایات سے بحث کرتا ہے ۔ اس میں روایتوں کی اصلیت اور ترویج و اشاعت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ روایات کی ابتدا کا تذکرہ کرتے ہوئے جھوٹی حدیث بیان کرنے اور محمد ﷺ کی طرف منسوب کرنے کی قرآن میں کیا وعید آئی ہے اور اس کی سزا اسلام نے کیا مقرر کی ہے مفصل پیش کیا ہے۔ پھر ولیم میور نے جن روایات سے استدلال کر کے مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام پر اعتراضات کیے ہیں ان کا نہایت مناسب جواب دیا ہے۔ اس خطبہ میں شامل مواد کو پڑھنے کے بعد کوئی آدمی اسلامی روایات کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہو سکتا۔ اس خطبہ میں موجود سرسید کے بعض بیانات و نتائج سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔
ساتواں خطبہ :-
ساتویں خطبہ میں قرآن مجید، اس کے نزول کی کیفیت ، اس کی سورتوں اور آیتوں کی جمع و ترتیب کے متعلق بحث ، اس کے جمع ہونے کا زمانہ اور اس کی نقلوں کی اشاعت اور اس کے کامل ہونے کو ثابت کیا گیا ہے۔ اس کے بعد عیسائی مصنفوں خصوصاً ولیم میور کی غلطیوں کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ قرآن کے متعلق غلطیوں کی وجہ بیان کرتے ہوئے سر سید نےلکھا ہے کہ:
مسلمان بادشاہوں یا عالموں کوخدا نے توفیق نہیں دی کہ قرآن مجید کو خود دوسری زبانوں میں ترجمہ کرواتےاور مختلف ملکوں سے شائع کرواتے۔یورپ کی زبانوں میں بے شک اس کے کئی ترجمے ہوئےمگر وہ سب غیرمذہب کے لوگوں یعنی عیسائیوں نے کیے ہیں ۔
اس کے بعد مصنف نے ولیم میور جیسے عیسائیوں کی غلطیوں کی توضیح کی ہے اور جو اعتراضات انہوں نے قرآن پر کیے ہیں ہر ایک کا مدلل جواب دیا ہے۔یہ سارا خطبہ قرآن مجید کی آیات، احادیث نبوی، مفسرین و محدثین اور فقہا کے اقوال سے آراستہ ہے۔
آٹھواں خطبہ :
یہ خطبہ خانہ کعبہ،حجر اسود، مختلف ادوار میں خانہ کعبہ کی تعمیر کی تاریخ، غلاف کعبہ،امام کعبہ ،زم زم، واقعہ اصحاب فیل، مقام قربانی اور سکونت اسماعیلؑ وغیرہ کے متعلقہ مسائل سے بحث کرتاہے۔ یہ خطبہ اس غرض سے لکھا گیا ہے کہ ولیم میور نے اپنی کتاب ’’لائف آف محمد‘‘ میں حضورؐ کے حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سے ہونے سے انکار کیا ہے۔ سر سید نے اس کے اس دعوے کی مدلل انداز میں تردید کی ہے۔مصنف نےنہ صرف مسلمانوں کی تاریخ سے بلکہ زیادہ تر یورپ کے عیسائی محققوں اور جغرافیہ دانوں کی تحقیقات سے حضرت اسماعیلؑ اور ان کی اولاد کا عرب میں ہونا ثابت کیا ہے۔اس کے بعد توریت کی شہادتوں سے اس بات کا ثبوت پیش کیا ہے۔ان ثبوتوں کی روشنی میں ولیم میور کے شکوک و شبہات بے معنیٰ ثابت ہوجاتے ہیں۔ اس خطبہ کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں شہر مکہ اور خانہ کعبہ کی تاریخ محققانہ طور پر بیان کی گئی ہے۔
نواں خطبہ:
نواں خطبہ حضورؐ کے نسب ونسب نامے کی تحقیقات پر مبنی ہے۔ اس خطبہ کے لکھنے کا منشاء یہ تھاکہ ولیم میور نے لائف آف محمد میں رسول اکرمﷺ کے بنی اسماعیل ہونے سے انکار کیا ہے۔ ولیم میور نے طنزاً لکھا ہے کہ آنحضرتؐ کا نسب نامہ عدنان تک خاص عرب کی زبانی روایتوں سے لیا گیا ہے اور عدنان سے آگےیہودیوں سے۔ اس پر سرسید لکھتے ہیں کہ بلا شبہ اہل عرب بنی اسرائیل سے نہایت قرابت قرینہ رکھتے تھے۔ وہ اسماعیلؑ کی اولاد تھے اور بنی اسرائیل اسحقؑ کی۔ صرف ہم مسلمان ہی ہیں جواللہ کے بھیجے ہوئے ہرنبی کے سچے پیرو ہیں۔ ہم مسلمانوں کا فخر یہی ہے کہ ہم یہودیوں سے زیادہ موسیٰ کلیم اللہؑ کے اور عیسائیوں سے زیادہ عیسیؑ روح اللہ کے پیرو ہیں ۔آخر میں سرسید نے یہ ثابت کیا ہے کہ نبی کریمؐ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سے تھے اور اس میں کسی طرح کا شبہ نہ تھا ۔سر سید نے مشہور مورخین کے بیانات کے علاوہ احادیث وغیرہ سے ولیم میور کی غلط بیانیوں کی نشاندہی کرنے کے علاوہ اس کی مدلل تردید کی ہے۔ خطبہ کے آخر میں سرسید نے خود کا تحقیق شدہ آنحضرتؐ کا نسب نامہ تحریر کیا ہے ۔
دسواں خطبہ :-
دسویں خطبہ میں محمد ﷺکی بعثت سے متعلق ان بشارتوں کا بیان ہے جو آسمانی کتابوں میں شامل ہیں ۔ اس تعلق سےسر سید نے قرآن کی ان آیات کو پیش کیا ہے جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ توریت اور انجیل میں نبیؐ کی آمد اور نبوت سے متعلق اطلاع موجود ہے۔ اس کے بعد ان محققین کے بارے میں بھی لکھا ہے جنہوں نے کافی تحقیق کے بعد توریت اور انجیل میں بتائے گئے ان مقامات کاپتہ لگایا جہاں حضورؐ کی بعثت کی خبریں موجود تھیں۔ ساتھ ہی حضورؐ سے متعلق بشار تیں درج کرنے سے پہلے حضرت عیسیؑ سے متعلق بشارتوں کا ذکر کیا ہے تا کہ مقابلہ کرنے سے ظاہر ہو جائے کہ کون سی بشارت زیادہ صاف اور روشن ہے۔ اس کے بعد چھ بشارتیں عہد عتیق سے اور تین بشارتیں عہد جدید سے حضورؐ سے متعلق بیان کی ہیں اور اپنے مدعا کے حق میں عیسائی محققوں کے اقوال اور بائبل کے حوالے پیش کیے ہیں تاکہ ان بشارتوں کے ماننے کے علاوہ عیسائیوں کے پاس اور کوئی چارہ نہ رہے۔
گیارہواں خطبہ :
گیارہویں خطبہ میں سر سید احمد خان نےسفر معراج اور شق صدر کی حقیقت کوبیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک انتہائی اہم خطبہ ہے جس میں دو اہم سیرتی پہلوؤں سے متعلق بحث کی گئی ہے ۔ معراج کے متعلق جو بات قرآن مجید میں موجود ہے سرسید نے اس بات کو قابل اعتبار مانا ہے۔
بارہواں خطبہ :-
سر سید احمد خان کے خطبات احمدیہ کا یہ بارہواں اور آخری خطبہ ہے جس میں انہوں نےنبیؐ کی پیدائش سے لے کر بارہ سال کی عمر کے ان واقعات کو جمع کیا ہے جو معتبر روایات سے ثابت ہیں۔ ولیم میور نے حضورؐ کے سفر شام سے متعلق واقعہ کو اپنی کتاب میں غلط بیانیوں سے کام لیتے ہوئےکافی اہمیت دی ہے۔ خطبات احمدیہ میں سر سید نےان غلط بیانیوں کو رد کرنے کی کوشش توکی ہے لیکن اس دوران انہوں نےاحتیاط سے کام نہیں لیا۔سفر شام کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے سرسید نے نبیؐ اور راہب کے درمیان پیش آنے والے واقعہ کا انکار کیا ہےجبکہ محدثین نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔آخری خطبہ میں سر سید نے سفر شام کے علاوہ حضورؐ کا نام احمد رکھے جانے، مہر نبوت کے ثبت ہونے جیسے کئی مباحث کو اس میں شامل کیا ہے۔
ریسرچ اسکالر محمد حسن اپنے مقالہ میں خطبات احمدیہ کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ:
ادبی اورفنی اعتبار سے ’خطبات احمدیہ‘ اپنے مصنف کے معیار کے مطابق کتاب ہے۔ سرسید احمد خاں کی جو خصوصیات ان کو اردو ادب میں اولیت، انفرادیت اور امتیاز سے نوازتی ہیں ان تمام خصوصیات کی جھلکیاں خطبات احمدیہ میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ یہاں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ کتاب خود مصنف کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے ۔ مثلاً سرسید کے مزاج کی سادگی اور بے ساختگی جو اردو نثر میں منتقل ہوئی وہ اس کتاب میں بھی موجود ہے۔ تحقیق اور حق گوئی کا عنصر کتاب کے دیگر عناصر پر غالب ہے۔ مصنف نے پورا زور تحقیق و تلاش پر دیا ہے۔ اس لیے یہ ایک فن پارے سےزیادہ حقیقی دستاویز معلوم ہوتی ہے۔ سرسید نے اپنے زمانے کے مخصوص حالات میں مخصوص محرکات کی بنا پر یہ کتاب لکھی ہے۔اس میں تصنیف کے مقابلہ میں تحقیق کی خوبیاں زیادہ نمایاں ہیں۔ خطبات احمدیہ کے ماخذ و مصادر پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کی تصنیف میں سرسید نے ’’لائف آف محمد‘‘ کے حوالوں کی کثرت کے علاوہ قرآن مجید، مشہور و معروف کتب احادیث سیرت ابن ہشام ، کتاب المغازی، کتاب الشفاء مواہب لدنیہ، مدارج النبوہ، تاریخ ابوالفدا، طبقات ابن سعد،تفسیر بیضاوی، تفسیر رازی جیسی مشہور زمانہ کتابوں اور ہائیل، اپالوجی فار محمد، با یوگرافی آف محمد وغیرہ سےاستفادہ کیا ہے۔ خطبات احمد یہ اس طور پر اردو ادب کی اہم تصنیف ہے کہ سب سے پہلے کسی ادیب نے اس طرف توجہ دی کہ اہل مغرب جو اسلام کے متعلق غلط فہمیاں رکھتے ہیں اُن کو کیسے دور کیا جائے ۔ لہٰذا سرسید نے خطبات احمدیہ کے ذریعہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے متعلق صحیح معلومات کو جمع کیا اور اہل مغرب مستشرقین کے غلط دعوؤں کی تردید کی۔ جس عہد میں یہ کتاب لکھی گئی تھی اس عہد میں اس طرح کا مواد نہ صرف کمیاب بلکہ نایاب تھا۔ لہٰذا اس کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے اس نقطہ کو نظر میں رکھنا ضروری ہے۔ اس کتاب نے اردو کے دیگر سیرت نگاروں کے لیے اہم راہنما اصول فراہم کیے ہیں جن کی روشنی میں بعد میں اس سے بہتر کتابیں بھی لکھی گئیں اور عمدہ سیرت نگاری کی ایک با قاعدہ روایت اردو ادب میں قائم ہو گئی۔( اردو ادب میں سیرت نگاری کا ارتقا: محمد حسن، ص۹۲،۹۳)
سر سید خان کے رفقا جن میں مولانا الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی اور مولوی محمد چراغ علی نے بھی انگریز مصنفین کی بے ہودہ کتابوں کامدلل اور منہ توڑجواب دیا اور ان کی لکھی ہوئی کتابیں سیرت کے خزانے میں اہم نگینہ ثابت ہوئیں۔سر سید احمد خان ادب برائے ادب کے قائل نہیں تھے بلکہ وہ ادب کو مقصدیت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی تحریریں لوگوں کے دلوں پر کافی اثر انداز ہوتی تھیں اوروہ ایک تحریک بن جاتی تھیں۔یہ اور بات ہے کہ ان کے کچھ نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کیوں کہ وہ بعض اسلامی عقائدکو مانتے نہیں تھے اس کے باوجود سرسید احمدخان کی خدمات سیرت کو ہرگزفراموش نہیں کیا جاسکتا۔ان کی یہ خدمات سیرتی ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ خطبات احمدیہ کے بعد مناظرانہ سیرت نگاری کا دور شروع ہوا جس کے ذریعے علماء کرام نے مستشرقین اور عیسائیوں کی اسلام اور نبیﷺ کے خلاف لکھی جانے والی کتابوں کا مستند اور مدلل حوالوں کے ذریعے اپنی کتابوں سے جواب دیا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024