!سیکولر حکم راں کی متشدد بادشاہ کے بطور غلط تصویر کشی

مذہبی تعصب سے پاک ریاست حیدرآباد کے سیکولر آصف جاہی نظام

ڈاکٹر ضیاءالحسن ناندیڑ

مندر کی وجہ سے مسجد کو مدرسے میں تبدیل کرنا دور اندیشی کی عمدہ مثال
شیواجی کی خاندانی مندر اور اہلیہ بائی ہولکر کے کْنڈ کے تحفظ کے لیے عاجلانہ کارروائی
تاب ناک مستقبل کے لیے شان دار ماضی کی داستان، نئی نسل تک پہنچنا ضروری
آصف جاہ اول کا پورا نام میر قمرالدین علی خاں تھا۔ انہوں نے آج سے تین سو برس قبل (۱۷۲۴) دکن میں آصف جاہی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ وہ بچپن ہی سے نہایت ذہین و فطین تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے کمسن آصف جاہ اول کی ذہانت سے متاثر ہو کر کہا تھا :’ ایں کودک بے تخت و تاج بادشاہی خواہد کرد ‘ آگے چل کر آصف جاہ اول مغل بادشاہ کے با اعتماد سردار بن گئے۔ محمد شاہ رنگیلا کے دور حکومت میں انہوں نے اپنی دانش مندی اور فراست سے نادر شاہ کے حکم سے جاری دہلی کے قتل عام کو رکوایا تھا جس کی وجہ سے بادشاہ کی نظر میں ان کی عزت بڑھ گئی۔چنانچہ انہیں دکن کی صوبہ داری عطا کی گئی۔جب مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرنے لگا تو آصف جاہ اول نے دکن میں اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا اور آصف جاہی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ ۲۲۴ سال کے آصف جاہی دور حکومت میں اس خاندان کے سات حکم راں ہوئے۔ آصف جاہ اول کے طویل دور حکومت میں علاقہ دکن میں تمام مذہبی فرقے صلہ و امن اور آرام و راحت کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے ملکی و جنگی معاملات میں ساتھ ساتھ حصہ لیتے تھے۔ آصف جاہ اول کی بے تعصبی کی ایک عمدہ مثال یہ ہے کہ انہوں نے اعلیٰ ترین ’ہفت ہزاری منصب‘ سے اپنے مذہب کے صرف دو سرداروں کو سرفراز کیا تھا جو ان کے قریب ترین رشتہ دار عضد الدولہ (پھوپا) اور نصیر الدولہ (چچا) تھے۔ جب کہ یہی منصب پانچ ہندو مراٹھا سرداروں یعنی باجی راؤ،چندر سین جادَو،سلطان جی نمبالکر،راؤ رنبھا نمبالکر اور مان سنگھ ہاکیہ کو عنایت کی۔یہ وصف ان کے جانشینوں میں بھی نمایاں پایا جاتا ہے۔‘‘ (حیات آصف از:محمد محمود جنیدی ۱۳۶۵ ھ صفحہ ۴۲۸)آصف جاہی سلاطین کی دستار،ان کے پرچم اور فوجی نشان زرد رنگ کے ہوا کرتے تھے۔سرکاری عمارتوں پر یہی رنگ کرایا جاتا تھا۔یہ بھی ان کی بے تعصبی کی چھوٹی مثال ہے۔
نواب میر عثمان علی خاں بہادرآصف جاہی حکومت کے ساتویں اور آخری حکم راں تھے۔ انہیں آصف جاہ سابع یا نظام سابع کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ان کی ریاست یعنی ریاست حیدرآباد (دکن) ہندوستان کی تمام دیسی ریاستوں میں سب سے بڑی اور ترقی یافتہ ریاست تھی جس کا رقبہ تقریباََ اسّی ہزار مربع کلو میٹر تھا۔ موجودہ تلنگانہ،مہاراشٹر اور کرناٹک کے علاقے اس میں شامل تھے۔ اس ریاست کا اپنا الگ سکّہ تھا جو ’سکہ آصفی‘ کہلاتا تھا۔ ریلوے اور محکمہ ڈاک بھی ان کا اپنا تھا جب کہ دوسری ریاستوں میں انگریزی سکہ اور ریلوے و ڈاک انگریزوں کے تحت تھے۔حکومت برطانیہ نے تمام دیسی ریاستوں کے حکم رانوں میں صرف نواب میر عثمان علی خاں بہادر کو ’ہز اگزالٹیڈ ہائینیس‘ کے اعلٰی ترین خطاب سے نوازا تھا۔ میر عثمان علی خاں اپنے آباو اجداد کی طرح صاف ذہن رکھنے والے بے تعصب حکم راں تھے۔ان کے قول و فعل میں تضاد بالکل نہیں تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہندو اور مسلمان میری دو آنکھیں ہیں۔انہوں نے ہمیشہ ان دونوں فرقوں کے ساتھ انصاف کیا اور کسی فرقہ کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔ ایک فرمان کے ذریعہ انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ’’بہ حیثیت رئیس میں ایک دوسرا مذہب بھی رکھتا ہوں جسے ’صلہ کل‘ کے مذہب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔کیونکہ میرے زیر سایہ مختلف مذاہب اور فرقہ کے لوگ بستے ہیں اور ان کے معابدکی نگہداشت میرے آئین سلطنت کا ایک زمانے سے وطیرہ رہا ہے۔‘‘ (کتاب ۔پولیس ایکشن ۔ایم ۔اے ۔عزیز انجنئیر،صفحہ ۹۸)
انہوں نے ہندوؤں کے علاوہ پارسی اقلیت کو بھی اعلٰی مناصب اور خطابات سے نوازا اور انہیں اونچے عہدوں پر فائز کیا تھا۔ ۱۹۴۷ میں جب ملک کا بٹوارہ ہوا تو انگریز حکم رانوں نے یہاں کی دیسی ریاستوں کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ انڈین یونین یا پاکستان میں ضم ہو سکتے ہیں یا پھر آزاد رہ سکتے ہیں۔نواب میر عثمان علی خاں نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا جو بھارتی حکومت کو منظور نہیں تھا۔ چنانچہ ۱۲ ستمبر ۱۹۴۸ کو بھارتی فوجیں ۲۲ سمتوں سے ریاست حیدرآباد میں داخل ہوئیں۔ اسے ’آپریشن پولو‘ کا نام دیا گیا۔ اس فوجی کارروائی کو عام طور پر ’پولیس ایکشن‘ کہا جاتا ہے۔ ۱۷ ستمبر کو حیدرآبادی افواج نے ہتھیار ڈال دیے اور ۱۹ ستمبر ۱۹۴۸ کو ریاست حیدرآباد کا انڈین یونین میں انضمام عمل میں آیا۔ اس فوجی کارروائی کے دوران ذاتی نوعیت کی دشمنیوں کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دے کر نہتے مسلمان مرد، عورتوں اور معصوم بچوں کو تک نشانہ بنایا گیا تھا۔ بیرون ریاست حیدرآباد میں بسنے والے کم و بیش دس لاکھ مسلمانوں نے وہاں کے ظلم و ستم سے بچنے کی خاطر ۱۹۴۷ کے آس پاس ریاست حیدرآباد کا رخ کیا تھا۔ نظام سابع نے تقریباََ دو برس تک ان مہاجرین کے قیام و طعام کے بہترین انتظامات کیے۔لیکن ان مظلوموں کو بھی یہاں آکر پولیس ایکشن کی بربریت کا شکار ہونا پڑاتھا۔ ویسے مسلمانوں پر تشدد تو ساری ریاست حیدرآباد میں ہوا لیکن عثمان آباد، لاتور (موجودہ مہاراشٹر کے اضلاع) اور بیدر (موجودہ کرناٹک کا ضلع) سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ اسی لیے شاعر کو کہنا پڑا تھا :
تین مقتل ہیں بہت مشہور
بیدر،عثمان آباد اور لاتور
البتہ شہر حیدرآباد جسے بلدہ کہا جاتا تھا اس قیامت صغریٰ سے بڑی حد تک محفوظ تھا۔ یہ فوجی کارروائی اس ریاست پر کی گئی تھی جس کا حکم راں نواب میر عثمان علی خاں انتہائی سیکولر اور رعایا پرور تھا۔ عربوں روپے کئی ٹن سونا چاندی،ہیرے جواہرات کا مالک ہونے کے باوجود جس نے انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ جس کی پہلی ترجیح اپنے عوام کی فلاح و بہبود تھی۔آصف جاہ سابع نے اپنی ریاست میں بسنے والے ہر شخص کے ساتھ انصاف کیا چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔کئی ہندوؤں کو انہوں نے بڑے بڑے عہدے دیے اور خطابات سے نوازا۔ریاست حیدرآباد میں راجا رگھوناتھ داس بہادر،راجا پرتاپ ونت بہادر،راجا چندو لعل بہادر،مہاراجہ رام بخش بہادر پیش کار / دیوان (وزیر اعظم) کے عہدوں پر فائز تھے۔دور عثمانی میں مہاراجہ سرکشن پرشاد بہادر طویل مدت تک (دو مرتبہ) ریاست حیدرآباد کے وزیر اعظم رہے۔ نظام سابع کی کابینہ میں پی ایس وینکٹ راؤ وزیر تعلیم اور مراٹھا قوم سے تعلق رکھنے والے گوئند رائوچڑاویکر ایڈووکیٹ ریلوے منسٹر تھے۔ دلت لیڈر شیام سندر کو بھی نظام سے قرب حاصل تھا۔راجا بہادر وینکٹ راما ریڈی عہد عثمانی کے طویل المعیاد کوتوال (کمشنر پولیس) رہے ہیں۔
نواب میر عثمان علی خاں بہادر نے نہ صرف مساجد اور درگاہوں وغیرہ کی خدمت کے لیے انعامات دیے بلکہ ہندو مندروں،گردواروں اور گرجا گھروں کے لیے بھی نقد رقم،انعام اور جاگیریں مقرر کی تھیں۔ ان عبادت گاہوں کی نگہداشت اور مرمت بھی سرکاری خرچ سے کروائی جاتی تھی۔ ریاست حیدرآباد میں معاش یابان مذہبی کی کل تعداد ۲۰۴۲ تھی ان میں ہندو ۱۱۵۶ اور مسلمان ۸۸۶ تھے۔یہ بات حیران کردینے والی ہے کہ ریاست میں شرعیہ اسلامیہ کی ۱۱۸ معاشیں غیر مسلموں کے نام تھیں۔پٹہ داران اور اجارہ داران میں بھی ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ تھی۔لیکن افسوس کہ آج سیکولر حکم راں نواب میر عثمان علی خاں کو ظالم و جابر کہا جاتا ہے۔آصف سابع کے عدل و انصاف،رواداری اور دور اندیشی کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہر حیدرآباد کے مشہور علاقہ عابد شاپ (عابڈز) کے سامنے نواب سر افسرالملک نے ایک مسجد کی تعمیر شروع کی تھی۔اس کے قریب میں ایک چھوٹا سا مندر بھی تھا۔ایک مرتبہ نظام سابع اس تعمیر کو دیکھنے وہاں آئے۔جوں ہی ان کی نظر قریب کے ایک اس دیول (مندر) پر پڑی تو باوجود اس کے کہ مسجد کی تعمیر تقریباََ مکمل ہوچکی تھی، البتہ کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا۔انہوں نے فوراََ ایک امتناعی حکم صادر کرکے مسجد کی تعمیر رکوادی۔ چنانچہ بعد میں یہاں مسجد کے بجائے ایک چھوٹا دینی مدرسہ قائم کیا گیا۔ نواب میر عثمان علی خاں کی مذہبی رواداری اور دور اندیشی کی یہ ایک زندہ مثال ہے۔اسی عدل و انصاف کے تحت حیدرآباد ہائی کورٹ کی فلک بوس شاندار عمارت کے ہر دو جانب کے دیول (مندر) اور چار مینار کے مشرقی گوشہ پر نصب شدہ پتھر کی بقاء، رواداری اور عدل عثمانی کے ناقابل فراموش نشان ہیں۔‘‘ (مجلہ ’یادگار سلور جوبلی‘ مرتب محمد فاضل ۱۳۵۴ ھ ص ۸۴)
سابق ریاست حیدرآباد دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے بھی فوری طور پر اقدامات کیا کرتی تھی۔اس طرح کے معاملات میں وہ آج کی سیکولر حکومتوں سے بہت آگے تھی۔ریاست حیدرآباد کے ضلع اورنگ آباد کے موضع ویرول میں غار ہائے ایلورہ سے قریب مراٹھا حکم راں شیواجی کے آباء و اجداد کا تعمیر کیا ہوا گریشنیشور مندر ہے۔ اس مندر کو مہارانی اہلیہ بائی ہولکر نے اپنے دور حکومت میں ازسر نو تعمیر کروایا تھا اور اس کی بہترین آرائش و زیبائش کی تھی۔مندر کے قریب ہی اہلیہ بائی ہولکر کا تعمیر کردہ ایک کْنڈ بھی ہے۔ مندر اچھی حالت میں تھا لیکن اس کے ایک حصہ میں پجاری نے اپنا چولہا لگا لیا تھا۔ ڈاکٹر سید داؤد اشرف اپنی کتاب ’ریاست حیدرآباد کے آخری حکم راں کی وسیع النظری ‘۲۰۱۴ میں تفصیل سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ جب مندر کی چھت اور اس کے دیگر خوبصورت حصے متاثر ہونے لگے تو ریاست حیدرآباد کے تحت محض دو ماہ دس دن کے اندر درستگی کرکے دوبارہ احتیاط کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ کام ختم ہونے پر حکومت اِندور نے اس ضمن میں ایک خط لکھ کر میر عثمان علی خاں بہادر کی سیکولر حکومت کا شکریہ ادا کیا تھا۔
دور عثمانی میں اس طرح کی مذہبی رواداری اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں اور ان کے جان و مال کے تحفظ کے لیے کی جانے والی عاجلانہ کارروائیوں کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ ریاست حیدرآباد اور اس کے حکم راں نواب میر عثمان علی خاں نے مذہب اور عقیدہ کی بنیاد پر اپنی رعایا سے کبھی امتیاز نہیں برتا۔ ان کے دور حکومت میں ہندوؤں کے مذہبی مقامات کے لیے جو مالی امداد دی جاتی تھی اور جو سہولتیں فراہم کی جاتی تھیں وہ محض تکمیل ضابطہ اور رسم نبھانے کے لیے نہیں تھیں بلکہ امداد کے معمول کو ان کا حق گردانا جاتا تھا۔
کولاس نامی قصبہ سابق ریاست حیدرآباد کے ضلع ناندیڑ میں تھا۔اب یہ تلنگانہ کے ضلع کاماریڈی کے تعلقہ بانسواڑہ اور جوکل منڈل میں ہے۔ وہاں اننت گیری اور بالاجی کے مندر ہیں۔ سمستان کولاس کے راجااور وہاں کے ہندو عوام ان مندروں سے عقیدت رکھتے تھے۔ان منادر کے اخراجات کے لیے اراضی معاش، معاش محاصلی کے علاوہ نقد معاش ایک ہزار تین سو اٹھانوے روپے تین آنے آٹھ پائی جاری تھی جو سمستان کولاس کو ضبط کرنے کے بعد بھی ایک عرصہ تک جاری رہی لیکن بعد میں روک دی گئی تھی۔مندر کے پجاری پشکر داس نے سرکار میں درخواست دی کہ وہ متوفی پجاری ہری چرن داس کاچیلہ ہے اور مندر کی خدمات انجام دے رہا ہے لہذا مندر کی معاش اس کے نام بحال کی جائے اور بقایہ جات بھی منظور کیے جائیں۔چنانچہ اس بارے میں اسپیشل آفیسر و سوم تعلقہ دار ناندیڑ نے بعد تحقیق سرکار میں رپورٹ پیش کی۔حالانکہ پجاری پشکر داس نے کوئی سند پیش نہیں کی تھی لیکن پٹیل،پٹواری اور دیگر گواہوں کے بیانات سے اس کا مندر کی خدمت انجام دینا ثابت تھا۔اس لیے رپورٹ اس کے حق میں دی گئی۔البتہ بعض مصارف کو غیر ضروری قرار دے کر انہیں مسدود کرنے کی سفارش کی گئی۔ناندیڑ کے اول تعلق دار (ڈسٹرکٹ کلکٹر) کے علاوہ امور مذہبی کے معتمد اور ناظم نے بھی اس سفارش سے اتفاق کیا تھا۔لیکن نواب لطف الدولہ بہادر صدر المہام اْمور مذہبی نے اس سے اختلاف رائے کیا کہ خیرات جنگم،دھوبی،برہمن و طوائف وغیرہ کے مصارف کی تخفیف سے انہیں اتفاق نہیں ہے کیونکہ یہ قدیم معمولات ہے ۔طوائف اور ناچ گانا گرچہ اسلام میں جائز نہیں لیکن ہندوؤں کے پاس یہ عبادت ہے۔محکمہ فائنانس نے بھی اس بات سے اتفاق کیا۔ اس طرح باب حکومت (کونسل) اور آخر میں نظام سابع نے بہ ذریعہ فرمان اس کی منظوری دے دی۔چنانچہ مندر کی نقد معاش کے علاوہ بقایہ جات بھی پجاری کو ادا کیے گئے۔ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ دور عثمانی میں مذہبی معاملوں اور عقیدوں کو زیر بحث لانے کی اجازت نہیں تھی۔اسی طرح حکومت یا ان کے عہدہ داروں کویہ حق نہیں تھا کہ وہ مذہبی معاملات میں کسی طرح کا فیصلہ خود کریں۔مذہبی معاملات کو اس مذہب کے پیروکاروں کے نقطہ نظر ہی سے دیکھا جاتا تھا ۔ایسی مثالیں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔لیکن آج کے مفاد پرست سیاست داں،متعصب مورخین اور حکومتیں مذہبی رواداری پر عمل پیرا، وسیع النظر،رعایا پروراور سیکولر حکم راں نواب میر عثمان علی خاں بہادر کو ایک ظالم،جابر اور ہندو دشمن بادشاہ کے طور پر پیش کرتی ہیں۔معصوم ذہنوں میں زہر گھولنے کے لیے اسکولوں میں غلط تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔نظام سابع کی شبیہ بگاڑنے والوں کی باتوں میں اگر ذرا بھی سچائی ہوتی تو آزاد بھارت کی حکومت نے سقوط حیدرآباد کے بعد نواب میر عثمان علی خاں کو ریاست حیدرآباد کا ’راج پرمْکھ‘ نہ بنایا ہوتا۔ ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ تا ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۶ تک وہ ریاست حیدرآباد کے اس اعلی ترین عہدہ پر فائز رہے اور اپنی مرضی سے مستعفی ہوگئے۔بہرحال آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نواب میر عثمان علی خاں اور دوسرے مسلم بادشاہوں کی صحیح تاریخ عوام کے سامنے لائی جائے۔ایسی تحریریں غیر مسلم بھائیوں کے مطالعہ میں بھی آنی چاہئیں تاکہ حقیقت سے واقف ہوکر ان کی غلط فہمیاں دور ہوں۔اس طرح کی کوششوں سے ہمارے ملک میں یقیناً امن،بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ یکجہتی کا ماحول بنے گا۔زندہ قومیں اپنی تاریخ کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں اور نئی نسلوں کو اس سے واقف بھی کراتی رہتی ہیں۔
تاریخ عہد رفتہ بھی پیش نگاہ رکھ
اور آئینہ میں حال کے حالات کل کے دیکھ
حوالہ جات:
۱۔مجلہ یادگار سلور جوبلی ۱۳۵۴ ھ
۲۔حیات آصف ۱۳۶۵ ھ
۳۔ریاست حیدرآباد کے آخری حکم راں کی وسیع النظری ۲۰۱۴
۴۔کتاب ’پولیس ایکشن ‘ ۲۰۰۶

 

***

 نوٹ15 : اگست 1947 کو بھارت کی آزادی کے بعد ریاست حیدرآباد ایک آزاد ریاست بن چکی تھی پھر تقریباً ایک سال بعد 17 ستمبر 1948 کو پولیس ایکشن کے ذریعہ اس کو بھارت میں ضم کرلیا گیا لہٰذا اسی مناسبت سے آخری نظام حکم راں میر عثمان علی خان بہادر کی مذہبی رواداری کی حقیقی تصویر اس مضمون میں پیش کی گئی ہے


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 ستمبر تا 21 ستمبر 2024