ایس سی ، ایس ٹی ذیلی زمرہ بندی سوالات کے گھیرے میں

‘ کریمی لئیر’ کے سلسلے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور مرکزی حکومت کا موقف

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

درج فہرست ذاتوں میں پیچھے رہ جانے والوں کے لیے سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ’انقلابی‘ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ محفوظ ملازمتوں کے لیے پسماندہ طبقات اور قبائل کے غیر پُر کردہ سرکاری ملازمتوں سے متعلق حقیقی اعداد و شمار سامنے ہی نہیں آئے ہیں مثلاً کتنے خالی ہیں اور کتنے پُر کیے جائیں گے وغیرہ۔ لیکن ہر طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ فیصلہ تاریخ ساز ہے۔ ادھر یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ ایس سی، ایس ٹی کے ریزرویشن پر کریمی لیر لگائی جانے والی ہے۔
مرکزی کابینہ نے ایس سی اور ایس ٹی (شیڈولڈ کاسٹس اور شیڈیولڈ ٹرائب) کے ریزرویشن میں کریمی لیئر متعارف کرانے سے متعلق قیاس آرائیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ اس طرح کے کسی بھی لئیر کو لاگو کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ لیکن ایس سی، ایس ٹی طبقات ان پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے بارے میں سوالات بدستور باقی ہیں، ریاستوں کو ذیلی زمرہ بندی کی اجازت دینے سے کیا اصل مقصد پورا ہو جائے گا؟ ایس سی، ایس ٹی فہرست میں شامل کمیونٹیز میں جو سب سے زیادہ پسماندہ ہیں ان کے لیے علیحدہ کوٹہ فراہم کیے جانے سے اصل مقصد حاصل ہوجائے گا اور کیا اس طرح کی ذیلی درجہ بندی سے سماج میں پھیلے ہوئے امتیازی سلوک، پسماندگی، سماجی عدم برابری اور اخلاقی عدم انصاف دور ہو جائے گا؟ یہ اہم سوالات ہیں جن پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
او پی جندال گلوبل یونیورسٹی کے پروفیسر سومیت مہاسکر کا کہنا ہے کہ کریمی لیئر پر کابینہ کا فیصلہ حیران کن نظر نہیں آتا۔ جہاں تک ایس سی، ایس ٹی طبقات کا تعلق ہے، حکم راں جماعت اس چیز کے خلاف نہیں جا سکتی جو ایک طے شدہ بات ہے، کریمی لیئر لاگو نہ کرنے سے کچھ معاشی سہولت تو مل جائے گی لیکن اس کے باوجود سماج میں امتیازی سلوک بدستور باقی رہے گا،‘
مہاسکر کے مطابق یہ فیصلہ غیر آئینی ہے کیونکہ آمدنی، اثاثوں اور زمین کی ملکیت سے متعلق کوئی مخصوص ڈیٹا ہے ہی نہیں۔ "میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں ایمپریکل ڈیٹا کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ ذاتیں پیچھے رہ گئی ہوں لیکن یہ اعلیٰ تعلیم کے مواقع اور پبلک سیکٹر کی ملازمتیں کم ہونے کی وجہ سے بھی ہے۔ ہمیں رونما ہونے والی ان تبدیلیوں کو اس پس منظر میں بھی دیکھنا ہوگا۔
ذیلی درجہ بندی ضروری ہے، اگر کل مردم شماری کے اعداد و شمار سامنے آتے ہیں اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض ذاتوں کو زیادہ فائدہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک بھی کم ہی ہوتا ہوگا، تو پھر کیا ہوگا؟ سپریم کورٹ نے مراٹھوں اور جاٹوں کے معاملے میں بھی کہا تھا کہ ہمارے پاس کافی ایمپریکل ڈیٹا نہیں ہے اور فیصلہ اس کے بالکل برعکس آیا ہے۔ ذیلی ذاتوں یا ذیلی قبائل کے بارے میں کوئی ایمپریکل ڈیٹا کے بغیر انہوں نے فیصلہ دیا ہے جو میرے خیال میں غیر آئینی ہے۔”
ایسا نہیں ہے کہ حکومت کے پاس ڈیٹا نہیں ہے بلکہ حکومت نے اپنے ڈیٹا کو پبلک ڈومین میں نہیں لایا ہے، مثال کے طور پر حکومت کو یہ معلوم ہے کہ کس گروپ کے پاس زیادہ وزراء ہیں، ان کے سیکرٹریز کون ہیں، یا کس گروپ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد زیادہ ہیں۔ ایک بار جب یہ ڈیٹا پبلک ڈومین میں آ جائے گا، تو پھر گفتگو ہو سکتی ہے۔
ایس سی اور ایس ٹی طبقات کے تحفظات میں کریمی لیئر کو لانے کا سوال اس وقت آیا جب سات ججوں کی آئینی بنچ کے چار ججوں نے سب کیٹگری کے حق میں فیصلہ سنایا، ایس سی اور ایس ٹی طبقات میں کریمی لیئر والوں کی شناخت کا مطالبہ کیاگیا تاکہ انہیں ریزرویشن کے دائرے سے باہر کیا جائے۔ فیصلہ بذات خود کریمی لیئر پر نہیں تھا بلکہ اس بات پر تھا کہ آیا ریاستیں ایس سی اور ایس ٹی طبقات کی ذیلی درجہ بندی کر سکتی ہیں یا نہیں۔ فیصلہ تو یہ آیا کہ ریاستیں ذیلی درجہ بندی کرسکتی ہیں مگر اسی کے ساتھ کریمی لیئر کا ایک نیا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔
سپریم کورٹ کے سات ججوں پر مشتمل بنچ نے 6:1 کی اکثریت سے فیصلے سنایا، یہ 2005 میں ای وی چننیا بمقابلہ ریاست آندھرا پردیش کا فیصلہ جس میں عدالت نے کہا تھا کہ دفعہ 341 کے تحت تمام درج فہرست ذاتوں کا گروہ ایک ہی انڈی جینیس گروپ ہے۔ اب کا جو فیصلہ آیا ہے وہ اسی فیصلے سے بدل دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 341 کیا ہے؟ اس آرٹیکل کے تحت صدر کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ کچھ ذاتوں اور طبقات کو درج فہرست ذات قرار دے۔ لیکن عدالت نے کہا کہ ذیلی درجہ بندی ریاستوں کے ذریعہ کی جاسکتی ہے، کیونکہ ہر ریاست میں مختلف گروہ پائے جاتے ہیں، ان کو درپیش امتیازی سلوک اور پسماندگی کی الگ الگ سطحیں بھی مختلف ہیں، اس لیے ریاستوں کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ ذیلی زمرہ بندی کریں۔
فیصلہ میں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے تجویز پیش کی کہ اس طرح کی ذیلی درجہ بندی میں چند حدود متعین کرنے کی ضرورت ہوگی، جیسا کہ سپریم کورٹ کے تبصرے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ صدارتی فہرست میں مخصوص ذاتوں کو ریزرویشن کے فائدے سے خارج کرنے کا باعث نہیں بن سکتا، ایمپریکل ڈیٹا جو ذیلی درجہ بندی کو ثابت کرتا ہو، اس بنیاد پر ہونا چاہیے اور ذیلی درجہ بندی کی قانون سازی عدالتی نظرثانی سے مشروط ہوگی۔
رئیس محمد کے مطابق جو پہلے روی چندرن بتھران کے نام سے جانے جاتے تھے، انہوں نے 2016 میں ایک مقالہ لکھا تھا، جس کا عنوان تھا ‘دی مینی اومیشنس آف اے کانسیپٹ: ڈیسکرمنیشن امنگیسٹ شیڈول کاسٹس’ انہوں نے کہا کہ سی جے آئی کا ذیلی درجہ بندی کی اجازت کا فیصلہ ’انقلابی‘ ہے۔
یہ فیصلہ اس لیے انقلابی ہے کیوں کہ والمیکی اور دیگر صفائی کرنے والی کمیونٹیاں جو تعلیمی میدان میں اور دیگر بہت سے میدانوں میں نہیں ہیں، انہیں مساوی مواقع ملیں گے، "تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ عدلیہ نے سماجی کاز کو مد نظر رکھتے ہوئے قدم اٹھایا ہے۔ اگر یہ فیصلہ لاگو ہوتا ہے تو ہم تین سے پانچ سال میں دیکھیں گے کہ ان میں سے بہت سے لوگ مختلف میدانوں میں آگے بڑھیں گے اور ان ناانصافیوں کے خلاف آگے آئیں گے جو وہ روزانہ سہتے رہے ہیں،”۔
دلتوں کی تحریک کی ایک بڑی خامی یہ رہی ہے کہ انہوں نے امبیڈکر کی ذات کے خاتمے کی بات کو ایک مذہبی حیثیت میں لیا اور یہ ایک سنگین مسئلہ بن گئی۔ امبیڈکر نے اسے ذات پات کے ہندو سامعین کے لیے لکھا تھا اور دلتوں نے اب اپنا سارا مسئلہ ذات پات کے ہندوؤں پر مرکوز کر دیا ہے۔
لیکن ساری بحث یہ ہے اور فیصلہ میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ دلتوں میں کاسٹا ازم بہت زیادہ پایا جاتا ہے، ان میں برہمنی ذہنیت کے حامل لوگ بھی ہیں۔ وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذات پات صرف اونچی ذات کا مسئلہ ہے، وہ یہ نہیں کہتے کہ ذات پات نچلی ذات کے لیے بھی مسئلہ ہے۔ لیکن فیصلے میں یہ کہا گیا ہے کہ ذات پات ہر فرد کا مسئلہ ہے، اسی لیے یہ انقلابی فیصلہ ہے”
درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی بہبود سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق 44 وزارتوں اور محکموں کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ایک زمرہ ایسا بھی ہے جس میں ایس سی اور ایس ٹی طبقات کی حصہ داری طے شدہ ریزرویشن، ایس سی اور ایس ٹی طبقات کے لیے بالترتیب پندرہ فیصد اور ساڑھے سات فیصد سے زیادہ ہے۔ وہ گروپ سی کی ملازمتیں ہیں جن میں انیس فیصد ملازمین ایس سی و ایس ٹی ہیں، ان میں صفائی کرمچاری شامل نہیں ہیں اور اگر گروپ سی میں بھی ساری ملازمتوں کا حساب لگایا جائے تو ان میں اس سے بھی زیادہ ہیں، بشمول صفائی ملازمین کے تقریباً سینتیس فیصد ایس سی اور ایس ٹی ہیں۔
رپورٹ میں، کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ’یہ بات پریشان کن ہے کہ گروپ اے کے لیے درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے لیے مختلف سطحوں پر نمائندگی آئینی طور پر طے شدہ فیصد سے بہت کم ہے۔ تقریباً تمام وزارتوں اور محکمہ پی ایس یوس اور بینکوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ایس سی اور ایس ٹی طبقات کی موجودگی ’نہیں کے برابر ہے۔‘
ایم ایس نیتھرپال جو انڈین ریونیو سرویس کے افسر ہیں، سرکاری ملازمتوں اور تعلیم میں نمائندگی پر تحقیق کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ اب سوال یہ ہے کہ کیا صرف ذیلی زمرہ بندی کرنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟
ریزرویشن پالیسی کے دوسرے پہلو بھی ہیں، جیسے خالی اسامیوں کی بھرتی، اگر آپ مجموعی صورت حال دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سرکاری ملازمتیں کم ہو رہی ہیں، سرکاری شعبے میں آؤٹ سورسنگ بڑھ رہی ہے، پرائیویٹائزیشن اور ڈس انویسٹمنٹ کی وجہ سے ریزرویشن کی ملازمتیں کم ہو رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ملازمتوں کا گراف گر رہا ہے۔ اس کے علاوہ بہت ساری خالی اسامیوں کا مسئلہ الگ ہے۔
چار ججوں کے مشاہدات کے بعد کریمی لیئر سے متعلق جو قیاس آرائیاں چل رہی تھیں، ان کو حل کرنے میں مرکز کو نو دن لگے۔ جب کہ مرکز نے عدالت میں ذیلی زمرہ بندی کے حق میں بات کی تھی، بی جے پی نے تو فیصلے کے بعد بیان دینے سے تک گریز کیا۔
9 اگست کو کابینہ نے،ایس سی اور ایس ٹی طبقات کے لیے کریمی لیئر کو لاگو نہ کرنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے مرکزی وزیر اشونی ویشنو نے کہا کہ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی حکومت امبیڈکر کے آئین پر عمل کرنے کی پابند ہے۔
بغیر کسی ایمپریکل ڈیٹا کے ذیلی زمرہ بندی کرنا کتنا فائدہ مند ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس پر سیاست تو خوب گرمائی ہوئی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 اگست تا 31 اگست 2024