مبصر: عمر فاروق
اگر سائنس کے کسی بھی طالب علم سے سائنس کی تعریف بیان کرنے کو کہا جائے تو اس کا جواب ہوگا کہ سائنس ایک ایسا علم ہے جس کی بنیاد تجربات ،مشاہدات اور ان دونوں سے اخذ شدہ نتائج پر ہوتی ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ سائنس بیک وقت علم بھی ہے اور طریقہ بھی۔سائنس ہی کی بدولت آج کل انسان دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کررہا ہے اور یوں اس نے انسان کی زندگی میں بے شمار سہولتیں پیدا کی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
سائنس کا اصل مقصد انسانیت کی خدمت ہے اور یہ صرف کائنات کے مادی وجود سے ہی بحث کرتا ہے اور یہی اس کا اصل دائرۂ کار ہے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب لوگ سائنس کو اس کے حقیقی مقام اور دائرے سے باہر نکال کر ’امامت‘ کے منصب پر متمکّن کر کے اسے ہر درد کا درماں اور ہر مسئلے کا (بلا لحاظ نوعیت و کیفیتِ مسئلہ) واحد حل سمجھتے ہیں۔ اور جب بات یہاں تک پہنچ جائے کہ سائنس کو ہی کل علم قرار دیا جائے تو اسے اب مجرد سائنس نہیں بلکہ ’سائنس پرستی‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے ہمارے سماج پر دور رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور آئندہ بھی ہو سکتے ہیں۔
سائنس ،سائنس پرستی اور اس مسئلے کے حوالے سے دینِ اسلام کی تعلیمات کے موضوع پر چند ماہ پہلے ڈاکٹر محمد رضوان کی کتاب ’سائنس ،سائنس پرستی اور اسلام ‘ منظرِ عام پہ آئی۔ ۱۳۵ صفحات پر مشتمل اس بظاہر مختصر سی کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے بڑی محنت سے سائنس کے ان پیچیدہ مباحث پر روشنی ڈالی ہے۔ڈاکٹر محمد رضوان اس وقت ڈپٹی ڈائرکٹر سنٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ نئی دلی کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ڈپارٹمنٹ آف بائیو ٹکنالوجی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی بطورِ مدرس خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد رضوان اپنی اس کتاب کے لکھنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ’’حقیقت یہ ہے کہ سائنس ،مذہب اور سماج کے مثلث پر اسلامی عدسے سے ایک تازہ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ وہ عدسہ جو اسلام کے تصورِ عدل اور تصورِ علم کے شفاف ترین معیار پر ہو جو اس سائنس، مذہب اور سماج کے تعامل کو ایسے رُخ کی طرف لے جائے جس کے استنباط اور استخراج سے ایک مبنی بر عدل حقیقی علمی انقلاب کی راہ ہموار ہوجائے، جس کا نافع ہونا سر کی آنکھوں سے نظر آئے اور جس کی بنیاد پر ایک حقیقی سائنس کی تشکیلِ نو اور تجدیدِ نو کی جاسکے ۔یہ کتاب اسی جانب ایک جنبشِ قدم ہے ( صفحہ : ۸)
یہ کتاب دس ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول ’’سائنس ،مذہب اور سماج‘‘ میں مصنف قاری کا ذہن ان ابدی سوالات کی جانب مبذول کراتے ہیں جن سے ہر ایک حساس ذہن اور طبیعت رکھنے والے انسان کو کبھی نہ کبھی سابقہ پیش آتا ہے۔اس کے بعد وہ اس بات پہ زور دیتے ہیں کہ جس طرح یہ جاننا ضروری ہے کہ سائنس کیا ہے اسی طرح یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ سائنس کیا نہیں ہے۔ پھر وہ اسے تین نِکات کی روشنی میں دلائل کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور وہ یوں ہیں:
۱) سائنس ایک طریقہ ہے یہ حتمیت نہیں ہے۔
۲) سائنس’’کیسے‘‘ کا جواب ہے ’’کیوں‘‘ کا نہیں۔
۳) سائنس صحیح اور غلط، اچھائی اور برائی سے بحث نہیں کرتی۔
باب دوم ’’سائنٹزم ،سائنس اور انسانی تصورِ حیات‘‘ میں ڈاکٹر صاحب پہلے ان اسباب سے بحث کرتے ہیں جن کی وجہ سے باب اول میں مذکور ابدی سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لیے لوگوں نے وحی و فلسفہ کے بجائے سائنس کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے اسے مسندِ افتاء پر براجمان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس باب میں انہوں نے سائنس پرستی (Scientism ) کی مختصر تاریخ بھی بیان کی ہے اور آخر میں ایک جدول کے ذریعے بائبل، جدید مغربی سائنسی تصورِ حیات اور سائنٹزم تصورِ حیات کا باہم موازنہ بھی پیش کیا ہے۔
باب سوم ’’سائنٹزم کے اثرات‘‘ میں فاضل مصنف انسانی تصورِ حیات پر سائنٹزم کے اثرات سے بحث کرکے چار نِکات بیان کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ سائنس پرستی کی وجہ سے سائنس کو واحد ذریعۂ علم سمجھا گیا اور یوں اس کے ذریعے پیدا شدہ کلیت پسندی( Totalitarianism ) نے خواص کے بڑے حصے کو علم کے دیگر ذرائع سے محروم کر دیا۔ اسی طرح سائنٹزم کے زیرِ اثر ’’اخلاقیات اور قدروں کی سائنس کاری‘‘ کی بھی کوشش کی گئی۔ مثال کے طور پر ممتا کے جذبے کو فقط ایک ہارمون آکسٹاسن (Oxytocin) کی کارستانی قرار دیا گیا اور ہم جنسیت کو فروغ دینے کے لیے سماجی حیاتیات (Sociobiology ) کے حوالے سے اسے قدیم ترین رویہ باور کرانے کی کوششیں کی گئیں جو آج بھی جارہی ہیں وغیرہ۔ اس سلسلے میں تیسرا نکتہ بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ’’مذہب خواہ جس شکل میں ہو، قطع نظر چند مستثنیات کے انسان کو امید اور مقصد دیتا ہے جبکہ سائنٹزم اس سے امید اور مقصد چھین لیتا ہے۔ (صفحہ : ۳۷) چوتھا اور آخری نکتہ بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ مختصراً
جدید ملاحدہ ماضی کے چوٹی کے سائنس داں حضرات کے خدا کے تئیں غیر مبہم موقف کو الحادی موقف کے طور پر لیتے ہیں اور اس طرح اپنے لیے عقلی تسکین کی غذا فراہم کرتے ہیں۔
باب چہارم ’’سائنس، ٹکنالوجی اور عقائد‘‘ میں مصنف نے اس بات کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرائی ہے کہ ’’اب ٹکنالوجی کی تشکیل اور تدوین و ارتقاء میں تصورِ حیات کا دخل بہت بڑھ چکا ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ بہت ساری ٹکنالوجی وجود ہی میں نہ آتیں اگر ایک مخصوص تصورِ حیات سائنس کے افق پر غالب نہ ہوتا‘‘(صفحہ : ۴۵)
اس باب میں فاضل مصنف نے سائنس کے تین میدانوں کے متعلق بالتفصیل لکھا ہے کہ کس طرح مصنوعی حیاتیات (Synthetic Biology ) نے عقیدہ تخلیق کو جینوم ایڈیٹنگ ٹکنالوجی (Genome editing Technology) نے عقیدہ صورت گری کو اور نیورو ٹکنالوجی (Neurotechnology) نے عقیدہ و اختیار اور الوہیتی صفات کو کئی زایوں سے اثر انداز کیا ہے۔اس باب میں وہ خاص طور پر عیسائی عقائد پر ان کے اثرات سے بحث کرتے ہیں۔
باب پنجم ’’سائنس بحیثیتِ ماخذ اخلاقی اقدار‘‘ میں وہ اس بات پہ بحث کرتے ہیں کہ آیا سائنس کو بحیثیتِ ماخذِ اخلاق تسلیم کیا جانا چاہیے یا نہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ کئی وجوہ کی بنا پر ممکن نہیں ہے۔اولاً یہ کہ سائنس حتمیت کا دعوی نہیں کرتی۔ثانیاً یہ کہ سائنس اضافیت سے عبارت ہے اور ثالثاً یہ کہ سائنس تغیر پذیری کی صفت سے عبارت ہے۔
باب ششم بعنوان ’’عصبی نفسیات اور مذہبی عقائد‘‘ میں مصنف عصبی نفسیات (Neuropsychology) اور عصبیات (Neuroscience) کی عقائد پر اثراندازی پر مفصل گفتگو کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اس باب کے متعلق لکھتے ہیں ’’یہاں صرف یہ دکھانے کی کوشش کی جائے گی کہ مذہبی عصبیاتی نفسیات نے کس طرح مذہب، مذہبی افکار، عقائد و تجربات کو محض چند کیمیائی تعاملات اور چند عصبیاتی شبکوں (Neuronal Networks s) تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے ۔(صفحہ : ٦۵)
باب ہفتم ’’مذاہب کا ارتقاء‘‘ میں مصنف کئی سائنسدانوں کی جانب سے مختلف مذاہب کو سادہ رسومات سے ترقی یافتہ شکلیں قرار دینے کے مسئلے پر بحث کرتے ہیں۔ اس پہ مفصل بحث کرنے کے بعد وہ رقمطراز ہیں: ’’مذاہب کے ارتقاء کا بیانیہ نہایت کم زور نظریات پر مبنی ہے۔ اس سلسلے میں جتنے ثبوت دیے جاتے ہیں ان تمام کی حیثیت صرف ثانوی درجے کی ہے۔مزید یہ کہ یہ تمام بیانیے غیر معمولی تغیر سے گزارتے ہیں۔
(صفحہ : ۸٦ ).
باب ہشتم ’’جدید سائنس،مذہب کا تعامل اور سماج‘‘ میں وہ سائنس اور مذہب کے تعامل اور ان کے سماج پر ممکنہ اثرات پہ گفتگو کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں "سائنس اور مذہب کے اس سطح کے تعامل نے مذہب کے لیے ایک غیر معمولی کارنامہ انجام دیا ہے جسے ماننا چاہیے وہ یہ کہ اس نے نسبتاً حقیقت پسند عقل کو اپیل کرنے والے،نسبتاً منطقی اور علمی و عملی سطح پر ترقی پذیر مذہب کے ماننے کے لیے ایک روزن پیدا کیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی سائنسداں یا محقق کسی ایسے مذہب کی تلاش میں ہو جہاں Rheotric کم اور منطق اور دلیل کے لیے گنجائش ہو تو وہ اسلام کی طرف دیکھ سکتا ہے۔
(صفحہ : ۹۳ )
باب نہم بعنوان’’ اسلام رُخی سائنس _ اصول و مبادی‘‘ میں فاضل مصنف نے اسلام رُخی سائنس (Islam Inspired Science )کا ایک نیا تصور پیش کیا ہے جس کے مطابق سائنس کو کچھ اہم اصول و ضوابط کا باپند ہونا چاہیے تاکہ یہ انسانیت کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہو۔ بعد ازاں وہ اسلام رُخی سائنس کے اصول بیان کرتے ہیں جن کا خلاصہ یوں ہے :
۱) جدید سائنس کا فلسفہ اور منہج دونوں کا الگ الگ تجزیہ کیا جانا چاہیے، جیسے عمرانیات میں منہج پر نسبتاً زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ مغربی سائنس کے تصورِ حیات کا اثر عمرانیات میں زیادہ دیکھا جاسکتا ہے۔
۲) اصلاً اسلام رخی سائنس’’ کیسے‘‘ کا جواب ہوگا ’’کیوں‘‘ کا نہیں۔ معرفتِ خالق اس کاوش کا بالآخر مطمحِ نظر ہوگا۔
۳) اسلامی سائنس میں بطورِ خاص طبیعی علوم کے لیے منہج کی سطح پر تخفیفیت کے لیے جگہ ہوگی لیکن حریص تخفیفیت (Greedy Reductionism) سے یہ سائنس پاک ہوگی۔
۴) اسلام رخی سائنس میں معنی اور مقصد دونوں مقدم رہیں گے وغیرہ۔
باب دہم بعنوان ’’اسلام رخی ٹکنالوجی‘‘ میں ڈاکٹر صاحب پہلے تو اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ اسلام اور ٹکنالوجی پر ابھی کچھ خاص لٹریچر موجود نہیں ہے اور جو ہے بھی وہ بھی ابتدائی نوعیت کا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ لکھتے ہیں کہ ’’جدید ٹکنالوجی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اسے ایک مرکزی موضوع کے تحت زیرِ بحث لایا جائے نہ کہ محض سائنس کے پروڈکٹ کے طور پر دیکھا جائے‘‘(صفحہ : ۱۱۹ )۔
اسلام اور ٹکنالوجی کی اخلاقیات کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ ٹکنالوجی کی اخلاقیات کا سب سے اہم پہلو یہ ہوگا کہ سیکس انڈسٹری سے جڑی تمام ٹکنالوجی پر سخت گرفت کی جائے۔ اسی طرح اس کا علیحدہ فلسفہ ہوگا جس میں تصورِ خالق اور انسانی خلافت کا تصور غالب رہے گا۔اس پہ مستزاد وہ لکھتے ہیں کہ اسلام رخی ٹکنالوجی کی باضابطہ تقسیم ہوگی جو نافع ٹکنالوجی اور غیر نافع ٹکنالوجی ہوگی۔وغیرہ۔
الغرض میں نے بحیثیتِ سائنس کے ایک ادنی طالب علم کے اس کتاب کو کافی مفید پایا۔یہ ایک طرف سائنس اور مذہب کا صحیح مقام متعین کرتی ہے تو دوسری طرف سائنس کو دیکھنے کا منفرد زاویہ بھی پیش کرتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ حوالہ جات اور جدول کے اہتمام نے کتاب کی افادیت میں اضافہ کیا ہے۔اس سے قبل ان کی کتاب’’ نظریۂ ارتقا و تصور تخلیق: عصری مباحث کا جائزہ‘‘ بھی اہلِ علم سے دادِ تحسین حاصل کر چکی ہے۔
آخر میں، میں چند باتوں کی جانب مکرمی ڈاکٹر صاحب کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔
۱) اولاً یہ کہ اگر اس کتاب کا مقدمہ کسی سائنس داں یا بڑے عالم سے لکھایا جاتا تو وہ اس کے لیے سند کا کام کرتا جیسے اس سے پہلے والی کتاب پر جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب نے مفصل اور وقیع مقدمہ تحریر فرمایا ہے۔
۲) چوں کہ سالہا سال سے طلبہ و طالبات سائنس کو انگریزی زبان میں پڑھتے آرہے ہیں تو اس وجہ سے خالص اردو زبان میں سائنسی اصطلاحات کو ڈھالنے کی وجہ سے کہیں کہیں سمجھنے میں دشواری پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کا کوئی حل نکالنے کی کوشش ہونی چاہیے۔
۳) اس کتاب کو سمجھنا میرے خیال سے ایک غیر سائنسی طالب علم کے لیے بہت مشکل ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے افادۂ عام کے لیے کتاب میں شامل سائنسی اصطلاحات کی آسان اور دلنشین الفاظ میں تشریح کرکے انہیں کتاب میں شامل کیا جاتا۔
۴) اگلے ایڈیشن میں اگر اشاریہ بھی شامل کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 مئی تا 13 مئی 2023