سپریم کورٹ نے گیانواپی مسجد کیس کو ٹرائل کورٹ سے ڈسٹرکٹ کورٹ میں منتقل کیا
نئی دہلی، مئی 20: سپریم کورٹ نے جمعہ کو گیانواپی مسجد کیس میں ٹرائل کورٹ کی کارروائی وارانسی کے ضلع جج کی عدالت میں منتقل کرنے کا حکم دیا۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق عدالت نے کہا ’’اس سول سوٹ کیس کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے سول جج وارانسی کے سامنے اس کیس کو منتقل کیا جائے گا اور یوپی جوڈیشیل سروسز کے سینئر اور تجربہ کار عدالتی افسر کے ذریعہ اس کی سماعت کی جائے گی۔‘‘
وارانسی کی ایک ٹرائل کورٹ عدالت پانچ خواتین کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی، جنھوں نے گیانواپی مسجد کی مغربی دیوار کے پیچھے روزانہ پوجا کرنے اور دیگر ہندو رسومات کی پابندی کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس مقام پر ہندو دیوتا شرینگر گوری کی تصویر موجود ہے۔
سپریم کورٹ مسجد کی نگراں انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی ہے، جس میں مسجد کا سروے کرنے کے وارانسی عدالت کے حکم کو چیلنج کیا گیا ہے۔
پیر کے روز مقامی عدالت نے ضلعی حکام کو مسجد کے ایک حصے کو سیل کرنے کی ہدایت کی تھی جہاں ایک شیولنگ کے ملنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ تاہم مسجد انتظامیہ کمیٹی کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ وہ شیولنگ نہیں بلکہ مسجد کے وضو خانے میں پتھر کا فوارہ ہے۔
ایک دن بعد سپریم کورٹ نے حکام کو اس جگہ کی حفاظت کرنے کی ہدایت دی جہاں مذکورہ شیولنگ ملا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا نہ جائے۔
جمعہ کی سماعت میں سپریم کورٹ نے ضلعی عدالت کو ہدایت دی کہ وہ ہندو فریق کی عرضی کو برقرار رکھنے کے لیے کوڈ آف سول پروسیجر کے آرڈر 7 رول 11 کے تحت دائر درخواست پر ترجیحی طور پر فیصلہ کرے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس کا منگل کا حکم ضلع جج کے درخواست پر فیصلہ سنانے کے بعد آٹھ ہفتوں تک نافذ رہے گا۔
کوڈ آف سول پروسیجر کے آرڈر 7 رول 11 کے مطابق اگر کوئی درخواست کارروائی کی وجہ ظاہر نہیں کرتی ہے یا قانون کے ذریعہ اسے روک دیا گیا ہے تو اسے خارج کیا جا سکتا ہے۔
جمعہ کی سماعت سے پہلے ہندو درخواست گزاروں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ مسجد کمیٹی کی عرضی پر فیصلہ سنانے سے پہلے گیانواپی کے مذہبی کردار پر فیصلہ کیا جائے۔
وہیں مسجد انتظامیہ کے درخواست گزاروں نے استدلال کیا ہے کہ ہندو فریق کی طرف سے دائر پٹیشن قابل سماعت نہیں ہے کیوں کہ یہ عبادت گاہوں سے متعلق (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کی خلاف ورزی کرتی ہے، جو مذہبی مقامات کی حالت کو تبدیل کرنے سے منع کرتا ہے۔
مسجد کی انتظامی کمیٹی کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے کہا ’’جہاں تک اس مسجد کا تعلق ہے، جو 500 سالوں سے موجود ہے، 15 اگست 1947 کو مسجد کے طور پر اس کی نوعیت بظاہر متنازع نہیں ہے۔‘‘
عدالت نے ضلع مجسٹریٹ کو یہ بھی ہدایت دی کہ مسلمانوں کے لیے وضو کرنے کے انتظامات کیے جائیں۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ سروے کمیشن رپورٹ کی سلیکٹیو لیکس کو روکا جائے۔ جمعرات کو وارانسی کی عدالت میں رپورٹ پیش کیے جانے کے بعد کئی میڈیا اداروں نے اس کے کچھ حصوں کو لیک کر دیا تھا۔
احمدی نے دلیل دی کہ رپورٹ کو ایک بیانیہ بنانے کے لیے چن چن کر لیک کیا گیا ہے اور یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
عدالت نے معاملہ جولائی میں سماعت کے لیے درج کیا ہے۔