سپریم کورٹ میں ‘بغاوت کی دفعات’ پر جنوری میں سماعت، کئی اہم مقدمات کا تصفیہ اسی ماہ ہونے کی توقع

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ ملک سے بغاوت کے قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر اگلی سماعت جنوری 2023 میں کرے گا۔ شیو سینا کے مستقبل کا فیصلہ اورقیدیوں کو ووٹنگ کے حق سے محروم کرنے کو چیلنج کرنے والی مفاد عامہ کی عرضیوں پر فیصلہ بھی عنقریب ہونے کی توقع ہے۔

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو اس تعلق سے بتایا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران کوئی بھی مناسب فیصلہ لے سکتی ہے۔
چیف جسٹس یو یوللت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ کی بنچ نے مرکزی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کے آئندہ سرمائی اجلاس میں "متنازع”قانون پر فیصلہ لینے کی یقین دہانی کے بعد اس معاملے کی سماعت جنوری تک ملتوی کر دی۔
اٹارنی جنرل آر وینکٹرمنی نے بنچ کو بتایا کہ مرکزی حکومت فوجداری قوانین کا جائزہ لینے میں مصروف کار ہے اور پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں مناسب فیصلہ کر سکتی ہے۔ حکومت جن قوانین کا جائزہ لے رہی ہے ان میں تعزیرات ہند کی دفعہ 124اے  (غداری کا جرم)شامل ہے۔
اٹارنی جنرل نے حکومت کی طرف سے چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ کے سامنے پیش ہوتے ہوئے مناسب اقدامات کرنے کے لیے مزید مہلت مانگی جس پر معاملے کی سماعت جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔
سپریم کورٹ نے بغاوت کے قانون کی دفعات کے خلاف میجر جنرل (ر)ایس جی ومبٹکرے سمیت متعدد دیگر عرضی گزاروں کی عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے،مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی تھی کہ جب تک قانون کا جائزہ نہیں لیا جاتا اس وقت تک اس دفعہ کے تحت کوئی ایف آئی آر درج کرنے سے گریز کریں۔
بنچ نے آج پوچھا کہ کیا مرکز کی طرف سے تمام زیر التواء کارروائیوں کو ملتوی کرنے اور دفعہ 124اےکے تحت کسی بھی نئے مقدمہ کے اندراج کو روکنے کے لئے کوئی ہدایت جاری کی گئی ہے۔
مرکز کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بھی کہا کہ اس سلسلے میں تمام چیف سکریٹریوں کو ہدایات بھیج دی گئی ہیں۔

دوسری طرف ،سپریم کورٹ نےآج  کہا ہے کہ وہ مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے اور سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے حریف دھڑوں کی طرف سے شیوسینا سے متعلق تنازعات پر ایک دوسرے کے خلاف دائر الگ الگ درخواستوں پر29 نومبرکو سماعت کرے گا۔
جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس ایم آر شاہ، جسٹس کرشنا مراری، جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ نے کہا کہ وہ 29 نومبر کو درخواستوں کی سماعت کرے گی۔
جسٹس چندر چوڑ کی سربراہی والی آئینی بنچ نے اگلی سماعت کی تاریخ طے کرتے ہوئے عرضی گزاروں کے وکیل سے کہا ہے کہ وہ چار ہفتوں کے اندر متعلقہ معاملات کے اہم نکات کی ایک فہرست تیار کریں اور اسے سپریم کورٹ میں جمع کرائیں تاکہ تمام نکات پر غور کیا جا سکے۔

ادھر،سپریم کورٹ نے قیدیوں کو ووٹنگ کے حق سے محروم کرنے کو چیلنج کرنے والی مفاد عامہ کی عرضیوں پر مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیا۔
چیف جسٹس یو یو للت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ اور جسٹس بیلا ایم ترویدی کی بنچ نے قانون کے طالب علم آدتیہ پرسنا بھٹاچاریہ کی طرف سے دائر ایک مفاد عامہ کی عرضی پر مرکز اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیا ہے۔
درخواست میں الیکشن کمیشن کو قیدیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کے لئے ضروری ہدایات جاری کرنے درخواست کی گئی ہے۔ مسٹر بھٹاچاریہ نے عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 62(5) کی درستگی پر سوال اٹھایا ہے، جس نے قیدیوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دیا  ہے۔
سنہ2019 میں دائر کی گئی اس عرضی میں درخواست کی گئی ہے کہ عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1951 کی دفعہ 62 (5)کے تحت اورآئین کے آرٹیکل 14کے تحت مساوات کے بنیادی حق نیز آئین کے آرٹیکل 326 کے تحت ووٹ دینے کے آئینی حق کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی ہے۔