عصمت دری کی متاثرہ کے ‘ٹو فنگر ٹیسٹ’ پر فوری روک لگانے کا حکم

سپریم کورٹ نے عصمت دری کی جانچ کے لیے کیے جانے والے متنازع اور تکلیف دہ'ٹو فنگر ٹیسٹ' کرائے جانے کوغیرسائنسی، غیر عقلی، صنفی امتیاز پر مبنی اور متاثرہ کو دوبارہ اذیت پہنچانے والا قرار دیتےہوئےاس طریقہ کار پر فوری طور پر روک لگانے کا حکم دیا ہے۔

نئی دہلی: جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور ہیما کوہلی کی بنچ نے مرکزی حکومت کو ‘ٹو فنگر ٹیسٹ’ پر فوری روک لگانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اب اس عمل سے جانچ کرنے والے کو قصوروار ٹھہرایا جائے گا۔
عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ عصمت دری  کی متاثرین کا ‘ٹو فنگر ٹیسٹ’ نہ کروایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے تمام ریاستوں کے پولیس سربراہوں کو اپنے حکم کی کاپی بھیجنے کی بھی ہدایت دی ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ حکم تلنگانہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو تبدیل کرتے ہوئے دیا ہے۔
تلنگانہ کی ایک عدالت نے عصمت دری کے مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی، لیکن ریاست کی ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کے بعد مجرموں کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے پیر کو تلنگانہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ٹرائل کورٹ کی طرف سے مجرموں کو سنائی گئی عمر قید کی سزا کو قانونی قرار دیا۔
سپریم کورٹ نے اس کیس کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹو فنگر ٹیسٹ‘ کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ تفتیش کا یہ عمل ایک غلط عقیدہ پر مبنی ہے، جو متاثرہ کو دوبارہ اذیت دیتا ہے۔ عدالت عظمیٰ بار بار تحقیقات کا ایسا طریقہ اختیار کرنے کی حوصلہ شکنی کرتی رہی ہے۔
جسٹس چندر چوڑ، جنہیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا، نے کہا کہ یہ  بہت ہی افسوسناک ہے کہ’ٹوفنگر ٹیسٹ’ کا چلن آج بھی جاری ہے۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ اس عدالت نے عصمت دری اور جنسی زیادتی کے معاملات میں ’ٹو فنگر ٹیسٹ‘کے عمل کی بار بار مذمت کی ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کی ہے۔
سپریم کورٹ نےحکم دیتے ہوئے کہا ’’اس نام نہاد ٹیسٹ کے لئے کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔اس سے خواتین کو بار بار تکلیف پہنچتی ہے۔’ٹو فنگر ٹیسٹ‘نہیں کیا جاناچاہیے۔ یہ غلط عقیدے پر مبنی ہے کہ ایک جنسی طور پر فعال خاتون کی عصمت دری نہیں کی جا سکتی۔ سچائی سے آگے کچھ نہیں ہو سکتا۔ہم اس ٹیسٹ کو کلعدم قراردیتے ہیں۔

دوسری طرف،خواتین کے خلاف کی جانے والی زیادتی اور استحصال کے خاتمے کے لیے ، جماعت اسلامی ہندکی شعبہ خواتین کی جانب سے’خواتین پرتشدد اوران کے استحصال کا ثقافتی معمول’کے عنوان سے ایک ویبنار منعقد کیا گیا جس میں مختلف طبقات فکر سے تعلق رکھنے والی ممتاز خواتین اور سماجی کارکنان نے اظہار خیال کیا۔

شرکاء نے معاشرے میں خواتین کے ساتھ ہونے والے اہانت ا ٓمیز سلوک اور انہیں انسان سمجھنے کے بجائے ایک جنسی شئے کی طرح برتاؤ کرنے کے مزاج اور تشدد کے بڑھتے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا۔ ‘دی ویمن ایجوکیشن اینڈ ایمپاورمنٹ ٹرسٹ’کی جنرل سیکرٹری محترمہ شائستہ رفعت صاحبہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ "خواتین پر تشدد اور ان سے بدسلوکی کسی ایک ملک کا مسٔلہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا اس صورت حال سے دوچار ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں صورت حال سنگین ہے ۔ خواتین کو انسان نہ سمجھنے اور ایک شئے کی طرح ان کے ساتھ سلوک کرنے کا جو مزاج معاشرے میں پنپ رہا ہے اس کے پس پشت سماج میں مرد کی برتری والی ذہنیت اور خود عورت کا اس صورت حال کو قبول کرلینا ہے۔ سرمایادارانہ نظام اورمیڈیا سب عورت کا استعمال ایک سامان کی طرح کر رہے ہیں۔ ہم سب کو ان حالات کو بدلنے کی کوششوں میں تیزی لانی چاہیے” ۔

محترمہ رحمت النساء(نیشنل سیکرٹری شعبہ خواتین ، جماعت اسلامی ہند) نے خواتین کے استحصال اور تشدد پر سماج کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ گھر،بازار ،کام کی جگہ ، کہیں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں اس پر خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے خلاف خواتین کوآواز اٹھانی چاہیے تاکہ عورت کو عورت کی حیثیت سے جینے کا حق ملے”۔ ایک ویبنار کو خطاب کرتے ہوئے ‘ آپریشن پیس میکر اور مائی چوائسیز فاونڈیشن’ کی محترمہ ڈاکٹر فرزانہ خان نے عورت کے تعلق سے سماج میں پائے جانے والے نظریے کو بدلنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ایسے قوانین ہونے چاہئیں جس سے مظلوم عورت کو انصاف ملے”۔ ایڈووکیٹ ویشالی ڈولاس نے میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی عریانیت کو روکنےپرزور دیا اور کہاکہ بلقیس بانو کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے خلاف ہم کو آواز اٹھانی چاہیے”۔ جنرل سیکرٹری ‘نیشنل فیڈریشن آف جی آئی او(گرلس اسلامک آرگنائزیشن )’ثمر علی نے کہا کہ حجاب پہننے کی بات ہو یاعبا، پہننے والے کی پسند پرمنحصر ہے۔ پہننے والوں کو شدت پسند کہنا انتہائی غلط ہے۔ عورت سامان نہیں ہے ۔عورت کے استحصال کے خلاف ہمیں جدوجہد کرنی ہے تاکہ سماج میں انہیں صحیح مقام مل سکے”۔ ‘ ونچت بہوجن آگاڑی ‘کی ممبر محترمہ جے شری شرکے نے کہا کہ عورت سامان تعیش نہیں ہے۔ عورتوں کو چاہیے کہ اپنے حقوق کی لڑائی خود لڑیں اور مظلوم خواتین کو انصاف دلانے کی کوشش کریں”۔

‘ویمن پالی ٹیکنک کالج ، گونٹور آندھرا پردیش میں الکٹرانک ڈپارٹمنٹ کی ایچ او ڈی محترمہ رما سندری نے کہا کہ مقابلہ حسن کا کلچر عام ہونے کے بعد عورت بکاؤ چیز بن گئی ہے۔ انہوں نےمسلم خواتین میں آنے والی تبدیلی خصوصاً سی اے اے اور کورونا وبا کے دوران مسلم خواتین کی خدمات کو سراہا”۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اما سنگھ نے کہا کہ عورت پر تشدد عام ہے۔ گھر ہو یا دفتر۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اپنی بچیوں کو اعلی تعلیم دلوائیں اور انہیں ظلم برداشت کرنے اور چپ رہنے کی تعلیم نہ دیں دے”۔