اتراکھنڈ: گھروں کی مجوزہ مسماری کے خلاف ہلدوانی کے باشندوں کی عرضی پر سپریم کورٹ کرے گا سماعت
نئی دہلی، جنوری 4: لائیو لاء کی خبر کے مطابق اتراکھنڈ کے ہلدوانی ضلع کے رہائشیوں کے ایک گروپ نے مبینہ طور پر غیر مجاز تعمیرات کو مسمار کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔
عدالت میں جمعرات کو اس کیس کی سماعت کا امکان ہے۔
20 دسمبر کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ریاستی حکام کو ہدایت کی کہ وہ خاندانوں کو ایک ہفتہ کے نوٹس کے بعد ہلدوانی ضلع کے بنبھول پورہ علاقے میں ’’ریلوے کی زمین‘‘ سے مبینہ طور پر غیر مجاز تعمیرات کو ہٹا دیں۔ تاہم رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ زمین ہندوستانی ریلوے کی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ پہنچے درخواست گزاروں نے کہا کہ ان 4 ہزار سے زائد گھروں میں 20 ہزار سے زائد افراد رہتے ہیں، جنھیں گرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ انھوں نے استدلال کیا کہ ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا حالاں کہ رہائشیوں کی قانونی ملکیت سے متعلق کارروائی ضلع مجسٹریٹ کے سامنے ابھی زیر التوا ہے۔
عرضی گزاروں نے کہا کہ وہ برسوں سے ہاؤس ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور ان کے پاس آدھار کارڈ ہیں جس میں اس محلے کا پتہ بتایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں پانچ سرکاری اسکول، ایک اسپتال اور دو اوور ہیڈ واٹر ٹینک ہیں۔ درخواست گزاروں کے مطابق ان کے خاندان نسلوں سے وہاں رہ رہے ہیں اور ان میں سے کچھ آزادی سے پہلے سے وہاں مقیم ہیں۔
بنبھول پورہ کے باشندے 23 دسمبر سے پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں علاقے میں وقفے وقفے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ منگل کو خواتین کے ایک گروپ نے اندرا نگر علاقے میں بڑی مسجد کے پاس ایک اجتماع منعقد کیا اور خصوصی دعا کا اہتمام کیا۔
مظاہرین میں سے ایک 15 سالہ منتشا شفیق نے دی اسکرول کو بتایا کہ وہ اور اس کے رشتہ دار اپنے گھروں اور اسکول کو بچانے کے لیے لڑیں گے۔
ایک اور شخص ابرار حسین نے کہا کہ رہائشیوں کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے دستاویزات موجود ہیں کہ وہ اس علاقے میں قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔
کچھ مظاہرین نے احتجاج کی کوریج کے دوران ’’لینڈ جہاد‘‘ جیسی توہین آمیز اصطلاحات استعمال کرنے پر میڈیا کے کچھ حصوں پر غصے کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا ’’ہم اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، ہم کوئی غیر قانونی کام نہیں کر رہے ہیں۔‘‘
مکینوں کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ سے انھیں کوئی ریلیف نہ ملا تو وہ اپنا احتجاج مزید تیز کریں گے۔
ہلدوانی کے کانگریس ایم ایل اے سمیت ہریادیش نے الزام لگایا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت ریاستی حکومت نے ریلوے کو زمین کا یہ بڑا ٹکڑا دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہم ذاتی طور پر اس 78 ایکڑ اراضی سے تجاوزات ہٹانے کی مخالفت کرنے کے لیے ہائی کورٹ گئے تھے جسے ریلوے اپنا کہتا ہے۔ ہم سپریم کورٹ تک گئے جہاں ہمارے سینئر رہنما سلمان خورشید کیس لڑ رہے ہیں لیکن اس زمین پر اسکول اور اسپتال بنانے والی حکومت نے اپنے شہریوں کی کوئی پرواہ نہیں کی۔‘‘
دریں اثنا، وویک گپتا، اضافی ریلوے مینیجر، عزت نگر نے کہا کہ قانونی تنازعہ 2013 میں ہلدوانی ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ساتھ گاؤلا ندی میں ریت کی غیر قانونی کانکنی کے خلاف درخواست کے ساتھ شروع ہوا تھا۔
گپتا نے کہا کہ ’’رہائشیوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس نے ہائی کورٹ سے کہا تھا کہ وہ علاقے میں رہنے والوں کے موقف کو بھی مدنظر رکھے۔ پچھلے مہینے تمام فریقین کو سننے کے بعد ہائی کورٹ نے ایک بار پھر پایا کہ زمین ریلوے کی ہے اور اسے ایک ہفتے کے نوٹس کے بعد کلیئر کیا جانا چاہیے۔ اب ہمیں حکم کی تعمیل کرنی ہوگی۔‘‘