انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کے خلاف نفرت انگیز تقریر کے معاملے میں ایف آئی آر کا مطالبہ کرنے والی عرضی پر سپریم کورٹ نے دہلی پولیس سے جواب طلب کیا
نئی دہلی، اپریل 17: سپریم کورٹ نے پیر کو دہلی پولیس سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کے خلاف ان کی مبینہ نفرت انگیز تقریر کے لیے مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر جواب طلب کیا۔
یہ عرضی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی رہنما برندا کرت نے دائر کی ہے۔ اس نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جب جون میں دہلی ہائی کورٹ نے ٹھاکر اور ورما کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹ طلب کرنے والی ان کی عرضی کو مسترد کر دیا۔
جنوری 2020 میں ایک ریلی میں ٹھاکر کو ’’دیش کے غداروں کو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سنا گیا اور بھیڑ نے ’’گولی مارو سالوں کو‘‘ کے ساتھ اس کا جواب دیا۔
وہیں پرویش ورما نے اپنی تقریر میں سامعین سے کہا تھا کہ دہلی کے شاہین باغ میں جمع ہونے والے ’’لاکھوں مظاہرین‘‘ ان کے گھروں میں گھس کر ’’ان کی بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کریں گے اور انھیں قتل کریں گے۔‘‘
اس کے فوراً بعد فروری میں شمال مشرقی دہلی میں فسادات پھوٹ پڑے تھ، جس میں 53 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
کرت نے سیکشن 153A (مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 153B (قومی یکجہتی کے لیے متعصبانہ الزامات)، 295A (مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے کام)، 298 (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے الفاظ کہنا) کے تحت ایف آئی آر کی درخواست کی تھی۔
تاہم دہلی ہائی کورٹ کے حکم نے ایک مجسٹریٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا اور کہا تھا کہ درخواست گزاروں نے ایسے معاملات میں پہلی معلوماتی رپورٹ کے اندراج کے لیے ضابطہ فوجداری کے تحت طے شدہ طریقہ کار پر عمل نہیں کیا تھا۔
ضابطہ فوجداری کے سیکشن 196 میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو تعزیرات ہند کی دفعہ 153A، 153B، 295A اور 505 کے تحت مقدمہ کی سماعت کے لیے مرکز یا ریاستی حکومت سے پیشگی منظوری کی ضرورت ہے۔
ہائی کورٹ نے مجسٹریٹ کے اس موقف کو برقرار رکھا تھا کہ اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے کے لیے حکومت سے منظوری درکار تھی۔
پیر کے روز جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگارتھنا پر مشتمل بنچ نے مشاہدہ کیا کہ پہلی نظر میں مجسٹریٹ کا نظریہ غلط معلوم ہوتا ہے۔
تین ہفتوں میں کیس کی دوبارہ سماعت ہوگی۔