جموں و کشمیر میں انتخابات کی راہ ہموار، حد بندی کو چیلنج کرنے والی عرضی سپریم کورٹ سے خارج
جموں و کشمیر میں حد بندی کو چیلنج کرنے والی عرضی کو سپریم کورٹ میں خارج کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے حلقہ بندیوں اور اسمبلی سیٹوں کی تبدیلی کے عمل کو جائز قرار دیا ہے۔
نئی دہلی،13فروری :۔
جموں و کشمیر میں نئی حد بندی کے تحت انتخابات کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔ جموں و کشمیر میں حد بندی کو چیلنج کرنے والی عرضی کو سپریم کورٹ میں خارج کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے حلقہ بندیوں اور اسمبلی سیٹوں کی تبدیلی کے عمل کو برقرار رکھا ہے۔ جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ابھے ایس اوک کی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔ بنچ نے کہا کہ مرکزی حکومت کو حد بندی کمیشن بنانے کا حق ہے۔ اس معاملے میں مرکزی حکومت نے اپنے اختیارات کا صحیح استعمال کیا ہے۔
جموں و کشمیر میں حد بندی کمیشن کی طرف سے 25 اپریل کو پیش کی گئی حتمی رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کی 83 نشستیں اب حد بندی کے ذریعے 90 ہو جائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی پانچ نئی مجوزہ لوک سبھا سیٹیں بنائی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ کوفیصلہ کرنا تھا کہ کیا حلقہ بندی اور اسمبلی سیٹوں کی تبدیلی کا عمل درست ہے یا نہیں؟ یکم دسمبر 2022 کو سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں اسمبلی سیٹوں کی حد بندی اور تبدیلی کے خلاف دائر درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیاتھا۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن نے حد بندی کے خلاف عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حد بندی ختم ہو چکی ہے اور اسے گزٹ میں بھی نوٹیفائی کر دیا گیا ہے۔ دو سال کے بعد اس طرح درخواست دائر نہیں کی جا سکتی۔ ایسے میں اب عدالت کو کوئی حکم جاری نہیں کرنا چاہئے اور درخواست کو خارج کر دینا چاہئے۔
سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا تھا کہ درخواست گزار نے قانون کی دفعات کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ درخواست گزار نے آئینی چیلنج بھی نہیں دیا۔ اس سے قبل بھی تنظیم نو کے ایکٹ کے تحت اسمبلی سیٹوں کی آئینی طور پر مقررہ تعداد کو از سر نو ترتیب دیا گیا تھا۔ 1995 کے بعد کوئی حد بندی نہیں کی گئی۔ حد بندی ایکٹ جموں و کشمیر میں 2019 سے پہلے لاگو نہیں تھا۔
عرضی میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ اسے صرف جموں و کشمیر میں کیوں نافذ کیا گیا اور شمال مشرقی ریاستوں کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟ جواب یہ ہے کہ 2019 میں شمال مشرقی علاقے میں بھی حد بندی شروع کی گئی تھی۔ لیکن شمال مشرقی ریاستوں میں اندرونی خلفشار کی وجہ سے حد بندی نہیں ہو سکی۔ 2020 میں حد بندی کمیشن تشکیل دیا گیا۔ اس کے بعد جہاں بار بار اعتراضات مانگے گئے لیکن یہ عرضی 2022 میں دائر کی گئی۔ جب حد بندی ختم ہو چکی ہے اور اس کا گزٹ میں نوٹیفکیشن بھی کر دیا گیا ہے۔تو اب درخواست دے کر اعتراض کرنا درست نہیں ہے۔
ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ قانون کے مطابق مرکزی حکومت کے پاس حد بندی کمیشن کی تشکیل کا اختیار ہے۔ جہاں تک نشستوں کی تعداد میں اضافے کا تعلق ہے، عوام کو اعتراضات کرنے کا مناسب موقع فراہم کیا گیا۔ سیکشن 10(2) کے مطابق، حد بندی کا حکم اب قانون بن چکا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا تھا کہ جب لوک سبھا میں پوچھا گیا کہ آندھرا پردیش تنظیم نو قانون کے تحت سیٹوں میں کب اضافہ کیا جائے گا، تو مرکزی حکومت کے وزیر نے جواب دیا تھا کہ 2026 تک کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ سماعت میں مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ وہ اس معاملے میں کچھ اور دستاویزات داخل کرنا چاہتی ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو اضافی دستاویزات داخل کرنے کی اجازت دی تھی۔ 30 اگست 2022 کو سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کے حلقوں کی مجوزہ حد بندی کے عمل پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزار سے کہا تھا کہ 2020 میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کو چیلنج کریں، آپ دو سال تک کہاں سو رہے تھے؟ تاہم سپریم کورٹ نے اس معاملے پر مرکز اور جموں و کشمیر انتظامیہ اور الیکشن کمیشن سے چھ ہفتے کے اندر جواب طلب کیا تھا۔
اس کے علاوہ درخواست میں جموں و کشمیر حد بندی کمیشن کی تشکیل کو بھی غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔ درخواست میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 170 کے تحت ملک میں اگلی حد بندی 2026 میں ہونی ہے، ایسے میں جموں و کشمیر میں الگ سے حد بندی کیوں کی جا رہی ہے۔ یہ درخواست جموں و کشمیر کے رہائشی حاجی عبدالغنی خان اور ڈاکٹر محمد ایوب مٹو نے دائر کی ہے۔ سرینگر کے رہائشی حاجی عبدالغنی خان اور محمد ایوب مٹو کی درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ حد بندی میں درست طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا ہے۔ حلقوں کی حد بندیوں میں تبدیلی کی گئی ہے، اس میں نئے علاقے شامل کیے گئے ہیں۔ نشستوں کی تعداد 107 سے بڑھا کر 114 کر دی گئی ہے جس میں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کی 24 نشستیں بھی شامل ہیں۔ یہ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کے سیکشن 63 کے مطابق نہیں ہے۔