سپریم کورٹ نے آسام میں الیکشن کمیشن کی حد بندی کی مشق کو روکنے سے انکار کیا
نئی دہلی، جولائی 24: سپریم کورٹ نے پیر کو آسام میں الیکشن کمیشن کی حد بندی کی مشق کو روکنے سے انکار کر دیا۔
حد بندی کی مشق سے مراد اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کے ساتھ ساتھ شہری وارڈوں کی حدود کا تعین کرنا ہے۔
تاہم چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پاردی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کے سیکشن 8A کی آئینی جواز کی جانچ کرنے پر اتفاق کیا، جو پولنگ باڈی کو حد بندی کا عمل شروع کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
بنچ نے درخواستوں پر مرکز اور الیکشن کمیشن کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے تین ہفتوں کے اندر جواب دینے کو کہا ہے۔
20 جون کو ایک مسودے میں الیکشن کمیشن نے متعدد مسلم اکثریتی اسمبلی سیٹوں کو یا تو ضم یا دیگر نئے بنائے گئے حلقوں کے تحت ختم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔
آسام میں اپوزیشن کی نو جماعتوں نے اس حد بندی کا مسودہ بنانے میں الیکشن کمیشن کے اختیار کردہ طریقہ کار کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔
یہ پارٹیاں کانگریس، رائجور دل، آسام جاتیہ پریشد، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، ترنمول کانگریس، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی، راشٹریہ جنتا دل اور آنچلک گنا مورچہ ہیں۔
اپنی درخواست میں فریقین نے دعویٰ کیا کہ پولنگ باڈی کی جانب سے مشق کے لیے اختیار کیے گئے طریقہ کار نے مختلف اضلاع کے لیے مختلف اوسط اسمبلی کے سائز لیے اور دلیل دی کہ حد بندی کی مشق میں آبادی کی کثافت کا کوئی کردار نہیں ہے۔
درخواست گزاروں نے یہ بھی کہا کہ 2001 کی مردم شماری کے اعداد و شمار پر انحصار کرتے ہوئے، الیکشن کمیشن نے اضلاع کی تین کیٹگریز بنائی ہیں اور ہر کیٹیگری کے لیے الگ الگ معیار رکھا ہے۔ اس کی وجہ سے سب سے بڑے اور چھوٹے حلقوں کی آبادی کے درمیان 33 فیصد تک ممکنہ انحراف ہوا ہے۔
انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مشق حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہے۔
معلوم ہو کہ حد بندی کے مسودے میں بارک ویلی میں اسمبلی کی نشستوں کو 15 سے کم کر کے 13 کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ کم کیے جانے والی نشستوں میں کریم گنج اور ہیلا کنڈی کے مسلم اکثریتی اضلاع سے ایک ایک نشست شامل ہے۔
ایک اور مسلم اکثریتی ضلع بارپیٹا میں پولنگ باڈی نے اسمبلی سیٹوں کو آٹھ سے کم کرکے چھ کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ ان میں سے اگر مسودہ تجویز کو قبول کر لیا جاتا ہے تو درج فہرست ذات کے امیدوار کے لیے ایک نشست مخصوص کی جائے گی۔
مجموعی طور پر الیکشن کمیشن نے آسام میں درج فہرست ذاتوں کے لیے مخصوص نشستوں کو آٹھ سے بڑھا کر نو اور درج فہرست قبائل کے لیے 16 سے بڑھا کر 19 کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ تاہم پولنگ باڈی نے اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 126 اور لوک سبھا حلقوں کی تعداد 14 برقرار رکھی ہے۔