پلیس آف ورشپ ایکٹ کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر اپنا جواب داخل کرنے کے لیے سپریم کورٹ نے مرکز کو دو ہفتے کا وقت دیا
نئی دہلی، اکتوبر 12: سپریم کورٹ نے بدھ کو مرکز کو عبادت گاہوں کے تحفظ کے خصوصی قانون1991 کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کے ایک بیچ کا جواب دینے کے لیے 31 اکتوبر تک کا وقت دیا۔
یہ قانون آزاد ہندوستان میں کسی جگہ کے مذہبی کردار میں کسی قسم کی تبدیلی پر پابندی لگاتا ہے۔ یہ بابری مسجد تنازعہ کے عروج پر منظور کیا گیا تھا تاکہ عبادت گاہوں پر اس طرح کے مزید فرقہ وارانہ جھگڑوں کو روکا جا سکے۔
ستمبر میں چیف جسٹس یو یو للت، جسٹس رویندر بھٹ اور جسٹس اجے رستوگی کی بنچ نے مرکز کو درخواستوں کا جواب دینے کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا تھا۔
تاہم بدھ کے روز ایڈوکیٹ ورندا گروور، جو جمعیت علماے ہند کی طرف سے پیش ہوئے، نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ مرکزی حکومت نے اب تک اپنا جواب داخل نہیں کیا ہے۔ اس پر سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ جواب ابھی زیر غور ہے اور انھوں نے مزید دو ہفتے کا وقت مانگا۔
عدالت اب اس معاملے کی سماعت 14 نومبر کو کرے گی۔
عرضی گزاروں میں سے ایک کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل راکیش دویدی نے عدالت کو بتایا کہ یہ قانون پارلیمنٹ میں بحث کے بغیر پاس کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قانون کے بارے میں کچھ اضافی سوالات بنائے گئے ہیں جن پر سپریم کورٹ نے اپنے ایودھیا سے متعلق فیصلے میں غور نہیں کیا، جس میں عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو برقرار رکھا گیا ہے۔
جمعیت علماے ہند اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے قانون کی حمایت میں خود کو اس کیس میں فریق بنایا ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق مسلم لاء بورڈ نے عدالت کو بتایا ہے کہ یہ قانون ہندوستانی سیاست کی سیکولر اقدار کے مطابق ایک ’’ترقی پسند قانون سازی‘‘ ہے اور معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی، عوامی سکون اور امن کو فروغ دیتا ہے۔
دوسری طرف درخواست گزاروں نے اس قانون کو چیلنج کرتے ہوئے کئی سوالات اٹھائے ہیں، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ یہ دفعہ 14 (قانون کے سامنے مساوات) کے خلاف ہے کیوں کہ یہ قانون جموں اور کشمیر کے علاوہ تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں نافذ ہے۔
انھوں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ کیا پارلیمنٹ قانون بنانے کی اہل تھی کیوں کہ یہ آئین کے ساتویں شیڈول کی ریاستی فہرست میں درج معاملات سے متعلق ہے۔ ریاستی فہرست میں مذکور معاملات پر قانون بنانے کا اختیار صرف ریاستی حکومتوں کو ہے۔