سپریم کورٹ نے 2009 میں سیکیورٹی فورسز کے ذریعہ 17 آدیواسیوں کے مبینہ قتل کی تحقیقات کی درخواست کو خارج کردیا

نئی دہلی، جولائی 14: سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک عرضی کو مسترد کر دیا جس میں 2009 میں چھتیس گڑھ میں آدیواسیوں کے قتل کے سلسلے میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

جسٹس اے ایم کھانولکر اور جے بی پردی والا پر مشتمل بنچ نے درخواست گزار ہمانشو کمار پر 5 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔

دی انڈین ایکسپریس کے مطابق کمار نے 2009 میں سکما ضلع کے دیہات (اس وقت دانتے واڑہ میں) کے مختلف واقعات میں 17 آدیواسیوں کی موت کے بعد ان کے ذریعہ ریکارڈ کی گئی شہادتوں پر مبنی ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر کی تھی۔

اپنی گواہیوں میں گاؤں والوں نے یکم اکتوبر 2009 کو ویلپوچا اور نلکاتھونگ گاؤں میں دو افراد کے ساتھ گومپاد میں نو افراد کو ہلاک کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اسی سال 17 ستمبر کو گچن پلی میں چھ دیگر افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔

کمار نے کہا تھا کہ متوفی کے اہل خانہ اور دیگر گواہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے آدیواسیوں پر سنگینوں سے حملہ کیا، انھیں قریب سے گولی مار دی اور لاشوں کو مسخ کر دیا۔ اپنی درخواست میں اس نے یہ بھی الزام لگایا کہ سیکیورٹی فورسز نے ایک نابالغ لڑکے کے ہاتھ کاٹ دیے۔

اپریل میں مرکز نے اس درخواست کی مخالفت کی تھی اور کمار کے خلاف جھوٹی گواہی کی کارروائی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ عدالت نے تاہم ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ پٹیشن میں جن ہلاکتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ ماؤنوازوں نے انجام دی تھیں۔

تاہم کمار نے کہا تھا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انھیں ماؤنواز حامی قرار دیا گیا تھا۔

دی انڈین ایکسپریس کے مطابق کمار نے مزید کہا ’’یہ دلچسپ ہے کہ مجھ پر ماؤنوازوں کی مدد کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے ان کے تمام الزامات اب آ رہے ہیں۔ جب میں ریاست [چھتیس گڑھ] میں تھا، میں لیگل ایڈ سوسائٹی کا ممبر تھا اور کنزیومر فورم کا سربراہ تھا… تب میرے خلاف کبھی مقدمہ کیوں درج نہیں کیا گیا؟‘‘