سپریم کورٹ نے بغاوت کے قانون کے آئینی جواز کی جانچ کرنے پر اتفاق کیا، مرکزی حکومت کو نوٹس جار کر کے جواب طلب کیا
نئی دہلی، یکم مئی: بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے بغاوت کے قانون کے آئینی جواز کی جانچ کرنے پر جمعہ کے روز اتفاق کرلیا۔ تقریباً تین مہینے پہلے ہی عدالت تین وکلا کی طرف سے بغاوت کے قانون کو چیلنج کرنے والی اسی طرح کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
جسٹس یو یو للت، اندرا بنرجی اور کے ایم جوزف کے تین ججوں پر مشتمل بنچ نے مرکزی حکومت کو دو صحافیوں، منی پورکے کشورچندر اور چھتیس گڑھ کے کنہیا لال شکلا، کی درخواست پر نوٹس جاری کیا، جنھوں نے اپنی درخواست میں ہندوستانی تعزیرات ہند کی دفعہ 124-اے (بغاوت) کو چیلنج کیا ہے۔
درخواست گزاروں نے کہا کہ ان کے خلاف ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت سے سوالات کرنے اور کچھ تبصروں اور کارٹونوں کے لیے، جو انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیے ہیں، بغاوت کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون آزادی اور اظہار رائے کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتا ہے، جس کی آئین کے آرٹیکل 19 (1) (a) کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔
درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ اس قانون کا باقاعدگی سے 1962 کے بعد سے ہی غلط استعمال کیا جارہا ہے، جب اسے پہلی بار پیش کیا گیا تھا۔
درخواست گزاروں نے کہا کہ اس قانون میں ’’رجحانات اور ارادوں کی اتنی وسیع پیمانے پر تشریح کی گئی ہے اور ایسے صوابدیدی انداز میں کی گئی ہے کہ محض اپنے جمہوری حقوق کے استعمال کرنے والوں کو اس سیکشن کے تحت سزائے موت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ بغاوت کا قانون فرسودہ ہے اور آج کے معاشرے میں اس کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ کیدار ناتھ سنگھ بمقابلہ ریاست بہار کے معاملے میں 1962 میں سپریم کورٹ کے ذریعے اس کے جواز کو برقرار رکھنے کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے درخواست گزاروں نے کہا کہ اگرچہ عدالت تقریباً چھ دہائی قبل اس فیصلے میں درست ہوسکتی ہے، لیکن اس قانون کے ذریعہ آج آئینی ساز باز کو منظور نہیں کیا جاسکتا۔
کیدار ناتھ فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ دفعہ 124A آئینی ہے کیونکہ اس نے آرٹیکل 19 (1) (a) پر مناسب پابندی عائد کردی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’دفعہ 124-اے اس وقت جرائم پر قابو پانے کا ایک ضروری ذریعہ تھا۔ لیکن یہ بات 2021 میں نہیں ہے۔‘‘
اس استدعا میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کے علاوہ ، دنیا بھر میں مابعد نوآبادیاتی نظام والے جمہوری دائرہ اختیار میں بھی ملک بغاوت سے متعلق سیکشن منسوخ کردیے گئے ہیں۔
انھوں نے کہا ’’برطانیہ، جو ہندوستان اور عالمی سطح پر بغاوت کے قوانین کا شروع کرنے والا ہے، اس نے حال ہی میں اپنے ہی دائرۂ اختیار میں 2009 میں بغاوت کے جرم کو منسوخ کیا ہے۔ نیوزی لینڈ اور گھانا نے بغاوت کے قانون کو ختم کرنے کے لیے پہلے ہی قانون سازی کی ہے، جب کہ کینیڈا، آئرلینڈ اور آسٹریلیا کے لاء کمیشنوں نے اپنی اپنی پارلیمنٹ سے اس قانون کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی ہے۔ یوگانڈا اور نائیجیریا دونوں ملکوں میں بغاوت کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا ہے۔‘‘
درخواست میں بین الاقوامی قانون کے تحت ہندوستان کی ذمہ داریوں کی بھی نشان دہی کی گئی اور کہا گیا کہ یہ ملک اقوام متحدہ کے شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی عہد نامہ یا آئی سی سی آر کا پابند ہے۔
آئی سی سی آر ہر فرد کے موروثی وقار کو تسلیم کرتا ہے اور شہریوں اور سیاسی حقوق سے لطف اندوز ہونے کے لیے ریاستوں کے اندر آزاد حالات کو فروغ دینے کا عہد کرتا ہے۔