سعید عاش سعیدا ومات سعیدا

کاکا سعید احمد عمری۔ شخصیت کے نقوش اور تاثرات

ڈاکٹر محمد فہیم اختر ندوی
پروفیسر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
مولانا کاکا سعید احمد عمری بھی 11؍ مئی 2024 کو اس سفر پر روانہ ہو گئے جہاں ہر ایک کو جانا ہے، اور جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا، بلکہ ہر یہاں آنے والے کو وہاں ہی جانا ہے۔ کاکا سعید احمد اس قافلہ باکمال کے ایک ممتاز فرد تھے جس نے ملت اسلامیہ ہندیہ کو تیز گام رکھنے کے لیے اپنی حدی خوانی مسلسل جاری رکھی۔ وہ جنوبی ہندوستان کی ان چند معروف ومعتبر شخصیات میں سے ایک تھے جنہوں نے خود بھی ملت کے معروف اداروں سے وابستگی رکھی اور جن کو ان اداروں نے بھی ہاتھوں ہاتھ لیا۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ کاکا سعید احمد عمری تمام اہم ملی اداروں کے اجلاس اور پروگراموں میں اپنی سرگرم شرکت رکھتے تھے اور ان کے ادارہ’جامعہ دار السلام عمر آباد‘ کا رابطہ دیگر ملی اداروں سے قائم رہتا تھا۔
جامعہ دارالسلام عمر آباد، کاکا سعید احمد عمری کی محنتوں، جانفشانیوں اور مسلسل جد وجہد کا خوبصورت آئینہ دار ہے۔ یہاں آنے والا ہر فرد ادارہ اور اس کے وابستگان کی ثنا خوانی اور اظہار شادمانی کیے بغیر نہیں رہتا۔ اس کی بنیادی وجہ اس ادارہ کی وسعت فکر اور بلندی فکر ہے۔ اس کی بنیاد آپ کے دادا کاکا محمد عمر (اول) نے 1924 میں اسی مخلصانہ فکر پر رکھی تھی، اور آپ 1958 سے اس کے شریک معتمد اور 1989 سے معتمد عمومی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ دار السلام ‘دینی تعلیم کی اشاعت، اسلام کی دعوت اور مسلکی وسعت کا علم بردار بنا ہوا ہے اور اس کی برکتیں چہار سو پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ تینوں خوبیاں یہاں کے اساتذہ و فضلاء میں ایسی رچی بسی اور اس قدر نمایاں رہتی ہیں کہ ان کی خوشبو ہم نشینوں کے مشام جاں کو معطر کر جاتی ہے، اور وہ زبان حال سے گویا ہوتے ہیں:
جمال ہم نشیں در من اثر کرد
جامعہ دار السلام کے فضلاء علم و کمال، تقویٰ واخلاص اور دعوت اسلامی کے ایسے ایسے ممتاز لعل وگہر بن کر نکلے ہیں کہ ان کی دعوتی، علمی اور ادبی خدمات کے روشن نقوش نے ایک عالم کو فیض پہنچایا۔ مثال کے طور پر مشہور مصنف مولانا سید جلال الدین عمری سابق امیر جماعت اسلامی ہند وشیخ الجامعہ جامعۃ الفلاح، معروف محقق و عالم ڈاکٹر مولانا ضیاءالرحمن اعظمی عمری، مولانا ابوالبیان حماد عمری، مولانا خلیل الرحمن اعظمی عمری اور مولانا حفیظ الرحمن عمری وغیرہ۔ جامعہ کو اس ڈگر پر جاری بلکہ ترقی پذیر رکھنے میں کاکا سعید احمد عمری کے مخلصانہ جہد مسلسل اور وسعت فکر و نظر نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔
یادش بخیر کہ آخر دسمبر 1993 – جنوری 1994ء میں جامعہ دار السلام عمر آباد کے پر فضا احاطہ میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا چھٹا فقہی سمینار منعقد ہوا تھا۔ میں 1992 میں اکیڈمی سے بحیثیت رفیق علمی وابستہ ہوچکا تھا۔ اکیڈمی کے بانی اور جنرل سکریٹری‘ اسلامی شریعت پر سند رکھنے والی شخصیت حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کی تھی جو اپنے گہرے علم، بے مثال فہم، زمانہ شناسی، وسعت فکری اور جذبہ اتحاد واخلاص کی خوبیوں کی وجہ سے مختلف مسالک ومکاتب فکر کے باکمالوں کے لیے مرکز کشش بنے ہوئے تھے، اور ان کی مجتہدانہ قیادت میں فقہ اکیڈمی کا کارواں ملک کے مختلف شہروں میں اپنے شاندار اور باوقار اجلاس منعقد کر کے نئے مسائل کو حل کر رہا تھا۔ اس کارواں میں حنفی، شافعی، اہل حدیث، دیوبندی اور بریلوی مسالک کے اصحاب کمال شامل تھے۔ مولانا کاکا سعید احمد عمری بھی اپنی ٹیم کے ساتھ اس کارواں کا حصہ بنے، جس میں دکتور عبداللہ جولم عمری اور مولانا خلیل الرحمن عمری شامل ہوا کرتے تھے۔ چھٹے فقہی سمینار کے میزبان یہی کاکا سعید احمد عمری تھے اور مقام اجلاس جامعہ دار السلام عمر آباد کا شاندار وجاندار اور پر فضاء و پر وقار احاطہ تھا۔اس سمینار میں عالم اسلام کی ممتاز فقہی شخصیت، بین الاقوامی اسلامک فقہ اکیڈمی جدہ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر حبیب بن الخوجہ بھی شریک تھے۔ کاکا سعید احمد صاحب کے زیر انتظام و اہتمام یہ اجلاس بڑی خوبی کے ساتھ پر سکون علمی ماحول میں اختتام پذیر ہوا تھا۔
یہ پہلا موقع تھا جب کاکا سعید احمد صاحب کو راقم نے قریب سے دیکھا اور سنا تھا، اور ان کی دلآویز شخصیت کے ساتھ جامعہ دار السلام عمر آباد اور اس کے اساتذہ و طلباء کا حسن نقش دل پر بیٹھا تھا۔ کاکا سعید صاحب اپنے دونوں رفقاء ڈاکٹر عبداللہ جولم اور مولانا خلیل الرحمن عمری کے ساتھ شریک فقہی سمینار ہوتے رہے۔ اجین مدھیہ پردیش کے سترہویں فقہی سمینارمنعقدہ مارچ 2017 میں دیکھا کہ فقہی مباحثہ کے ساتھ ساتھ ان کا وہی بے تاب دعوتی جذبہ دروں محفل علماء کو سرگرم و پرجوش بنا رہا تھا۔
کاکا سعید عمری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بھی سرگرم ممبر تھے۔ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے دور صدارت (2000-2002ء) میں اس کے مرکزی آفس دہلی کے اعزازی آفس سکریٹری کے طور پر مجھے کام کرنے کا موقع ملا تو بورڈ کی میٹنگوں اور اجلاسوں میں بار بار کاکا سعید صاحب کو دیکھنے اور بات چیت کرنے کے مواقع ملے۔ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ ہوتے اور اسی خوش خلقی کے ساتھ لوگوں سے ملتے اور بات کرتے۔ ان کے اندر سنجیدگی، فکر مندی اور درد مندی نمایاں رہتی، اور یہی اوصاف‘ خوش مزاجی اور نرم روی سے آمیز ہو کر کاکا سعید صاحب کی دل نواز شخصیت بناتے تھے۔
جنوری 2020ء میں ایک بار پھر مجھے جامعہ دار السلام عمرآباد جانے کا موقع ملا، وہاں کی بزم طلباء کی انجمن ’ تہذیب الاخلاق‘ نے اپنے سالانہ جلسہ کی صدارت کا اعزاز مجھے بخشا تھا اور وہاں سے واپسی پر میں نے اپنی یادوں اور تاثرات پر مشتمل ایک مختصر سفرنامہ بھی لکھا تھا۔ میرے ذہن کے نقشے پر وہ سارے حسین مناظر تازہ اور نمایاں تھے جب فقہ اکیڈمی کے سمینار کے موقع پر اس پر وقار احاطہ میں چند دنوں تک ملک وبیرون کی مایہ ناز علمی وفقہی شخصیات سے قربت واستفادہ کا موقع ملا تھا۔ پہاڑ کے دامن میں واقع خوبصورت مسجد، اس کا صحن، جامعہ کا دار الاقامہ، اجلاس گاہ اور اس سے جڑے کمرے، جامعہ کی مرنجان مرنج اور دل نواز شخصیتیں، نوجوان علمی رفقاء۔ سب کچھ ذہنوں میں لیے جب دوبارہ جامعہ کے احاطہ میں پہنچا تو پرانی یادوں کے نقوش ذہن کے پردہ پر دوبارہ چلنے لگے۔ میں بالقصد ہر جگہ جا جا کر ان یادوں کو تازہ اور نئے نقوش سے خود کو آراستہ کر رہا تھا۔ جامعہ کے ارباب انتظام اور اساتذہ نے اپنی حسن خلقی اور علم نوازی کا وہی انداز دلربانہ پیش کیا۔ میرے عزیز اور علم نواز دوست اور معروف صاحب قلم مولانا رفیع احمد کلوری نے بڑی محبت وشفقت سے نوازا تھا۔
لیکن اس بار جو بڑی کمی محسوس کی وہ کاکا سعید احمد عمری کی کمی تھی، وہ اب کمزور ہو گئے تھے اور اپنے گھر پر ہی ملاقات کر لیتے تھے۔ میں نے ان کے دولت خانہ پر حاضری دی، اور ملاقات وبات چیت کا شرف حاصل کیا۔ انہیں نقاہت تو تھی لیکن چہرہ بشرہ پر وہی دل نوازی اور سادگی، وہی سنجیدگی وفکر مندی اور وہی خوش خلقی واپنائیت پائی جو ان کی شخصیت کا امتیاز رہی ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ جولم ماشاءاللہ اب بھی چاق وچوبند اور دعوتی جذبہ سے فکر مند نظر آئے۔ جامعہ کا ماحول، وہاں کے اساتذہ اور تعلیمی سرگرمیاں اسی طرح گہرے علم، وسیع فکر اور دعوتی رنگ کے ساتھ آمیز نظر آئیں۔ یہ سب اسی شخصیت یعنی کاکا سعید احمد کی محنت وفکر کا عکس جمیل تھا۔ انتظامات اب ان کے خلف رشید کاکا انیس احمد عمری کے پاس تھے، اور ان میں بھی اپنے پیش روؤں اور اسلاف کا رنگ نظر آ رہا تھا۔
خدا آباد رکھے اس چمن کو مہرباں ہو کر اچانک سوشل میڈیا پر خبر ملی کہ کاکا سعید احمد عمری اس جہان فانی سے گزر گئے ہیں تو دل کو ایک دھچکہ لگا۔ ان کی پوری شخصیت، اس کے خد وخال اور اس کی دل نوازی نگاہوں میں پھرنے لگی۔ وہ لمبا قد، ہلکا سانولا رنگ، چہرہ پر بھرپور اور قدرے لمبی داڑھی، جنوبی ہند کا معروف لباس یعنی سفید قمیص اور سفید لنگی، ساتھ میں دکتور جولم‘ یا دوسرے احباب ورفقاء۔ ساتھ ہی اس دور کی وہ شخصیات بھی ذہن کے پردہ پر آنے لگیں‘جن سے کاکا سعید عمری قریب تھے اور نیاز مندانہ ملتے تھے۔ جیسے سابق صدر بورڈ مولانا علی میاں ندوی، سابق صدر بورڈ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، جنرل سکریٹری بورڈ مولانا سید نظام الدین، سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سراج الحسن اور مولانا سید جلال الدین عمری اور ان جیسی وہ شخصیات جن کے نفس گرم، آہ سحر اور جہد مسلسل نے ملت اسلامیہ ہندیہ کو دین سے وابستہ اور راہ شریعت پر گامزن رکھا ہے۔
کاکا سعید احمد عمری اسی قافلہ درد مندان ملت کے ممتاز فرد اور اسی راہ وفا کے رہ نورد شوق تھے۔ وہ اپنی بھرپور زندگی گزار کر اپنے رب کریم کے جوار میں چلے گئے۔ اس ذات عالی شان سے ہم پر امید ہیں کہ مرحوم یقیناٌ اپنے رب کے اجر عظیم کے مستحق ہوں گے اور جنت کے بالا خانے ان کی منزل ہوگی۔ دعا ہے کہ اللہ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش برسائے اور انہیں اپنے خاص جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔ آمین۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مئی تا 1 جون 2024