ہندوستان کے بنیادی تصور کو بچانا وقت کی ضرورت ہے: جماعت اسلامی ہند
نئی دہلی، اگست 10: ”ہم سب کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہندوستان کے جس بنیادی تصور کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس سے نہ صرف مسلمانوں یا عیسائی برادری کو نقصان پہنچے گا بلکہ اس ملک کی شناخت اور اس کے بنیادی اصولوں کو نقصان پہنچے گا۔ جب تک آپ آئیڈیا آف انڈیا کو بچائے رکھیں گے تب تک آپ ہندوستان کے وجود کو بچائے رکھیں گے، کیوں کہ ہندوستان کا وجود صرف ہندوستان کے بنیادی تصور اور ہندوستان کے آئیڈیا سے ہے۔ ہم سب آئیڈیا آف انڈیا کو بچانا چاہتے ہیں اور اسی لیے ہم اس قومی سمینار میں جمع ہورہے ہیں اور اس موضوع پر بات کررہے ہیں“۔
یہ باتیں امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر،نئی دہلی میں ’پریزرونگ آئیڈیا آف انڈیا‘ کے موضوع پرمنعقدہ ایک سمینار میں اپنے صدارتی خطبے میں کہیں۔
اس سمینار میں ملک بھر سے دانشوروں، سابق سفارت کاروں، پروفیسروں، مذہبی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر مقررین نے ملک میں آئینی بحران اور جمہوریت کی بنیادی روح پر مسلسل حملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان کے بنیادی تصور کو بچانے کی بات کہی۔ مقررین نے متفقہ طور پر کہا کہ ’ آئیڈیا آف انڈیا‘ کو بچانا وقت کی ضرورت ہے اور آئین سے محبت کرنے والے تمام لوگوں کو اپنے طور پر اس کے لیے کام کرنا چاہیے۔
اس موقع پر جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفسیر سلیم انجینئر نے مقررین کا تعارف کراتے ہوئے سمینار کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ”آئینی اداروں کا غلط استعمال، اظہار رائے کی آزادی پر قدغن اور جمہوری ڈھانچے پر حملہ کرکے ملکی تشخص کی روح کو نقصان پہنچایا جارہا ہے“۔
حکومت ہند کے سابق خارجہ سکریٹری اور ایف ڈی سی اے کے قومی صدر پروفیسر مچکند دوبے نے کہا کہ ”ہندوستان نے پہلی بار ملک گیر نفرت دیکھی ہے جس کا اثر معاشرے میں صاف نظر آرہا ہے۔ ہندوستانی آئین صدیوں کی روایت اور اقدار کا نچوڑ ہے، آئین میں سب کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔کسی کو بھی بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا گیا ہے“۔
انہوں نے موجودہ وقت میں مذہبی آزادی پر پابندیوں کے تعلق سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہندوستان کی روح کی حفاظت ضروری ہے۔“
نیتی آیوگ کی سابق رکن سیدہ سیدین حمید نے کہا کہ ’’ملک کی ثقافت اور اس کی اصل شکل کو بدلنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہم سب کو مل کر آئین کے تحفظ کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
آئی آئی ٹی ممبئی کے سابق پروفیسر اور سماجی کارکن ڈاکٹر رام پونیانی نے سماجی ہم آہنگی پر روشنی ڈالی اور نفرت پھیلانے کی سازش سے بچنے اور ملک کو بچانے کی اپیل کی۔ انھوں نے کہا کہ ”جب کسی طبقے کی طرف سے نفرت کو بڑھاوا دینے کے لیے کوئی تاریخی واقعہ سامنے لایا جاتا ہے اور اسے نفرت کی بنیاد بنایا جاتا ہے، اگر اسے دلائل اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر جانچا جائے تو زیادہ تر معاملے بے بنیاد ثابت ہوں گے“۔
بھارتیہ سرو دھرم سمواد اور دھارمک جن مورچہ کے صدر گوسوامی سشیل جی مہاراج نے ہم آہنگی، روادری اور اتحاد کے نظریے پر روشنی ڈالی اور تمام مذاہب کے لوگوں کے ایک ساتھ رہنے کی بات کہی۔
دلی یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے پروفیسر اپوروانند نے کہا کہ ”ملک میں کوئی ہندو مسلم لڑائی نہیں ہے، لیکن مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں۔ ملک میں کوئی مندر مسجد لڑائی نہیں ہے لیکن مساجد پر اجتماعی اور منظم طریقے سے حملے ہورہے ہیں۔ یہ سب ہند انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے کیا جارہا ہے“۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’’مسلمان اس ملک میں خود کو غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ ان کے لیے راستے بند ہورہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ ملک کے لیے ایک چیلنج کی طرح ہے“۔
پروگرام میں جماعت کے قومی سکریٹری محمد احمدصاحب اور شعبہ تعلقات عامہ کے معاون سکریٹری لئیق احمد خاں نے بھی شرکت کی۔