سستے تیل کا تنازعہ

روس سے کم دام پر تیل کی خریدی کے باوجود پٹرول اور ڈیزل مہنگے کیوں ہیں؟

زعیم الدین احمد حیدرآباد

بھارت نے جب سے روس سے سستا تیل خریدنا شروع کیا ہے تب سے یہ معاملہ تنازعہ کا شکار بنا ہوا ہے۔ یورپی یونین اور امریکہ نے روس سے تیل کی خریداری پر سخت اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ روس سے تیل خریدنا بند کردے ورنہ اس کو خراب نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ان کا الزام یہ ہے کہ ہمارے تیل خریدنے سے اس کو آمدنی ہو رہی ہے اور وہ اس کو یوکرین جنگ میں خرچ کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں وزیر خارجہ نے شنکر نے سخت الفاظ میں کہا کہ یورپ کو اپنی دقیانوسی سوچ سے اوپر اٹھنا چاہیے، ہمارا ملک ایک سو چالیس کروڑ آبادی والا ملک ہے، اس کو ایندھن کی بے حد ضرورت ہوتی ہے، اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ملک سے تیل خرید سکتا ہے، ہمارے ملک کا مفاد اس میں شامل ہے اور سستا تیل خریدنا ہمارے ملک کی عوام کے مفاد میں ہے، روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ان بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بار اٹھانے کا ہمارا ملک متحمل نہیں ہے، ایسے موقع پر ہم کسی کے اعتراض کو خاطر میں نہیں لائیں گے اور روس سے بلا تردد خام تیل کی خریداری جاری رہے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ روس۔یوکرین جنگ سے قبل بھارت روس سے جو تیل خریدتا تھا وہ جملہ درآمدات کا ایک فیصد سے بھی کم ہوا کرتا تھا، جب سے روس پر یورپی یونین اور امریکہ نے تحدیدات لگائے ہیں اس وقت سے بھارت نے روس سے خریداری کو بڑھا دیا ہے۔ مرکزی وزیر پٹرولیم ہردیپ پوری کے مطابق بھارت صرف صفر عشاریہ دو فیصد ہی خام تیل روس سے خریدتا تھا، لیکن اس وقت ہمارا ملک تقریباً 22 فیصد خام تیل روس سے خرید رہا ہے، ہمارا ملک دوسرے تیل درآمد کرنے والے ممالک کے مقابلے میں روس سے سب سے زیادہ خام تیل کی خریداری کر رہا ہے۔ ڈائریکٹر کمرشیل انٹیلیجنس اور شماریات جو ایک مرکزی حکومت کا ادارہ ہے، کے مطابق ہمارے ملک نے گزشتہ سات ماہ میں (روس اور یوکرین جنگ کے سات ماہ بعد) روس سے دو ہزار کروڑ ڈالرز یعنی بیس بلین ڈالر کا تیل خریدا ہے۔ در حقیقت پچھلے دس سالوں میں روس سے اتنا تیل نہیں خریدا گیا جتنا کہ اب خریدا جا رہا ہے، اس کی وجہ روس سستے دام پر ہم کو تیل فروخت کر رہا ہے، وہ تقریباً تیس تا پینتیس فیصد رعایت بھی دے رہا ہے۔ ہمارے وزراء کی باتیں تو بالکل درست معلوم ہوتی ہیں کہ ہمارے ملک کی عوام کی خاطر ہم روس سے سستا تیل خرید رہے ہیں، تاکہ عوام کو سستے تیل کے ثمرات حاصل ہوں، اس میں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ہم کو سستا تیل مل رہا ہے تو ایسی صورت میں پٹرول اور ڈیزل بھی سستا ہونا چاہیے، لیکن ان کی قیمتوں میں کمی کیوں نہیں آ رہی ہے؟ وزیر اعظم مودی سے پہلے جو حکومت میں تھے اس وقت بھی ہمیں سستا تیل نہیں ملتا تھا، اس کے باوجود ہمیں ساٹھ پینسٹھ روپے میں پٹرول اور ڈیزل مل جایا کرتا تھا، اور جب کبھی بین الاقوامی بازار میں کچھ قیمتیں کم ہوجاتیں تو یہی مودی اور بی جے پی گلے پھاڑ پھاڑ کر کہتے کہ جب تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں تو حکومت کو پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں بھی کم کرنے چاہئیں وغیرہ، لیکن آج گویا ان کے گلے گھونٹ دیے گئے ہوں، جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو آواز ہی نہیں نکل رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر یہ کہتے ہیں کہ سستا تیل خریدنا ہمارے ملک کی عوام کے لیے ضروری ہے، لیکن اس سستے تیل سے عوام کو کوئی فائدہ ہی نہیں ہو رہا ہے۔ فائدہ تو دور نت نئے طریقہ سے قیمتوں میں اضافہ ہی کیا جا رہا ہے۔ یوکرین جنگ سے قبل ڈیزل کی قیمت 80 روپے تھی آج جب کہ روس سے ہم سستا تیل خرید رہے ہیں تو قیمت سو روپے ہے، آخر اس سستے تیل کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے؟ یقینی طور پر عوام کو تو کوئی راحت نہیں ہے، اب یہ بات بھی نہیں کہی جاسکتی کہ بین الاقوامی بازار میں خام تیل کی قیمتیں زیادہ ہیں، کیوں کہ بین الاقوامی بازار میں بھی اس وقت خام تیل کی قیمت فی بیرل 82 ڈالر تک نیچے اتر گئی ہے، بین الاقوامی سطح پر بھی تیل کی قیمتیں کم ہیں۔ روس سے سستا تیل خریدا جا رہا ہے پھر بھی ہمارے یہاں پٹرول اور ڈیزل مہنگے کیوں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ اس کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچ رہا ہے؟ ان سوالات کو جاننا ضروری ہے۔
پروین چکرورتی نے دی پرنٹ میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان "ہندوستان میں روسی تیل سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے؟ عوام نہیں بلکہ پرائیویٹ کمپنیاں”
اس مضمون میں انہوں نے ساری حقیقت کھول کر رکھ دی کہ روس سے سستا تیل کون خرید رہا ہے؟ اور اس سستے تیل کا فائدہ عوام کو کیوں نہیں پہنچ رہا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ روس سے سستا تیل خریدنے والی کمپنیاں کوئی اور ہیں اور ہم تک پٹرول و ڈیزل پہنچانے والی کمپنیاں کوئی اور۔ عوام کے نام پر سستا تیل روس سے خرید رہے ہیں اور اس کا فائدہ چند مخصوص کمپنیوں کو پہنچ رہا ہے یا پہنچایا جا رہا ہے، جب کہ عوام کو اس دھوکے میں رکھا جا رہا ہے کہ عوامی شعبے کی پٹرولیم کمپنیاں ہی
روس سے سستا تیل خرید رہی ہیں، جب کہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ عوام کو 90فیصد پٹرول و ڈیزل فراہم کرنے والی کمپنیاں جیسے بھارت پٹرولیم، ہندوستان پٹرولیم، انڈین آئل عوامی شعبے کے ادارے ہی ہیں، صرف دس فیصد دیگر خانگی کمپنیاں فراہم کرتی ہیں، یعنی عوام کی 90 فیصد ضرورتوں کو یہی عوامی شعبے کے ادارے پوری کر رہے ہیں، پھر روس سے سستا تیل کون خرید رہا ہے؟ روس سے سستا تیل خریدنے والی دو کمپنیاں ہیں ایک ریلائنس انڈسٹریز اور دوسرے نیارا انرجی، یہ دونوں بھی خانگی کمپنیاں ہیں، یہی دو کمپنیاں روس سے سستا تیل خرید رہی ہیں، یعنی اس سستے تیل کا فائدہ ان دو کمپنیوں کو ہو رہا ہے۔
ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے وہ یہ کہ یہ دو کمپنیاں بھارتی صارفین کو پٹرول و ڈیزل نہیں بیچ رہی ہیں، یہ کمپنیاں روس سے سستا خام تیل خرید کر اسے خالص کرکے یورپی ممالک کو فروخت کر رہی ہیں، یعنی عوام کے نام پر سستا تیل روس سے خریدا جا رہا ہے اور اس کا فائدہ خانگی کمپنیوں کو پہنچایا جا رہا ہے، یہاں پر یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا ان خانگی کمپنیوں پر حکومت کی جانب سے کوئی ٹیکس عائد کیا گیا ہے؟ حکومت ان کمپنیوں پر ونڈفال گین ٹیکس عائد کرتی ہے، اس سے حکومت کو فائدہ ہوا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم سے عوام کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ اس سے بہتر تھا کہ سستا تیل ہی براہ راست عوام کو فراہم کیا جاتا تاکہ اس کا راست فائدہ عوام کو پہنچتا، لیکن حکومت کا کام ہی ان کے من پسند سرمایہ داروں کو خوش کرنا ہے نہ کہ عوام کو فائدہ پہنچانا؟ اسی دوغلے پن کی وجہ سے آج بین الاقوامی سطح پر حکومت کو تنقیدوں کا سامنا ہے۔ حکومت تنقیدیں کس کے لیے برداشت کر رہی ہے؟ امبانی جیسے خانگی کمپنیوں کے لیے حکومت تنقیدیں برداشت کر رہی ہے، پٹرولیم اور قدرتی گیس کے وزیر ہردیپ پوری سے سی این این نے انٹرویو لیا جس میں ان کا دوغلا پن صاف نظر آتا ہے، وہ سوال کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ ‘ ہاں میں روسی تیل خریدتا ہوں’، ہمارا ملک ایک سو پنتیس کروڑ آبادی والا ملک ہے اور خود مختار ملک ہے، عوامی ضرورتوں کے لیے ہم سستا تیل خریدتے ہیں، اور جب انٹرویو لینے والی خاتون نے یہ سوال کیا کہ کیوں اس سستے تیل کو یورپی ممالک کو فروخت کر رہے ہیں؟ تب وہ کہتے ہیں کہ ہم روس سے تیل نہیں خریدتے بلکہ خانگی کمپنیاں خریدتی ہیں۔ روسی تیل کی اس تجارت والی کہانی یہ ہے کہ کس طرح دو خانگی کمپنیاں جو یوکرین جنگ سے پہلے بہت محدود مقدار میں روسی خام تیل خریدتے تھے، اچانک ان کی خریداری میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے تین چوتھائی حصہ رعایتی قیمت پر خریدا۔ اگر قیمتوں کا نیا نظام اچھی طرح سے کام کرتا ہے، تو ان خانگی کمپنیوں کو مزید فائدہ ہوگا کیونکہ اس سے روسی تیل کی قیمتیں مزید کم ہو جائیں گی، ایسی صورت میں ان دو کمپنیوں کے لیے تو چاندی ہی چاندی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ بھارت نے روس کو اپنی جنگ جاری رکھنے کے لیے 20بلین ڈالر فراہم کیے ہیں، عوام کو کم قیمتوں پر پٹرول و ڈیزل فراہم کرنے کے لیے نہیں بلکہ وزیر اعظم مودی کے پسندیدہ سرمایہ داروں کو زیادہ منافع فراہم کرنے کے لیے یہ تجارت ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سستے تیل کی تجارت ان خانگی کمپنیوں کو یوکرینیوں کی قبروں پر رقص کرنے میں مدد کر رہی ہے۔
یہی شیوہ ہے اس حکومت کا کہ عوام کو دھوکے میں رکھا جائے اور خانگی کمپنیاں وہ بھی مودی کی خاص کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا جائے۔ عوام میں مذہبی منافرت پھیلائی جائے اور سارا ملک سرمایہ داروں کو فروخت کردیا جائے۔ کس دیدہ دلیری سے اور کس بے دردی سے عوام کا نام استعمال کرتے ہوئے عوام کو ہی نقصان پہنچاتے ہیں یہ نام نہاد قوم پرست۔ ایسی حکومت کو عوام کی حکومت کیسے کہا جاسکتا ہے جو عوام کو ہی نقصان پہنچانے میں لگی ہوئی ہو، ایسی حکومت کو محب وطن کیسے کہا جاسکتا ہے جو وطن کے اثاثوں کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں بیچ رہی ہو۔
***

 

***

 یوکرین جنگ سے قبل ڈیزل کی قیمت 80 روپے تھی آج جب کہ روس سے ہم سستا تیل خرید رہے ہیں تو قیمت سو روپے ہے، آخر اس سستے تیل کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے؟ یقینی طور پر عوام کو تو کوئی راحت نہیں ہے، اب یہ بات بھی نہیں کہی جاسکتی کہ بین الاقوامی بازار میں خام تیل کی قیمتیں زیادہ ہیں، کیوں کہ بین الاقوامی بازار میں بھی اس وقت خام تیل کی قیمت فی بیرل 82 ڈالر تک نیچے اتر گئی ہے، بین الاقوامی سطح پر بھی تیل کی قیمتیں کم ہیں۔ روس سے سستا تیل خریدا جا رہا ہے پھر بھی ہمارے یہاں پٹرول اور ڈیزل مہنگے کیوں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ اس کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچ رہا ہے؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 ڈسمبر تا 31 ڈسمبر 2022