سرمایہ دارانہ جمہوریت اور منافقانہ سیاست کی داستانِ محبت

اڈانی معاملہ میں وزیراعظم کی پر اسرار خاموشی بیرون ملک بحث کا موضوع

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

امریکی ارب پتی جارج سوروس کے بیان کو ’جمہوری نظام کے خلاف سازش‘ قرار دینے کی کوشش!
اڈانی جس تیزی سے اوپر گئے اسی رفتار سے نیچے آرہے ہیں لیکن اپنے ساتھ مودی جی کو بھی لارہے ہیں ۔
امسال جی ٹوئنٹی کی میزبانی کرتے وزیر اعظم مودی نے بھارت کو ’جمہوریت کی ماں‘ تو قرار دے دیا مگر انہوں نے خود ’منافقت کا باپ‘ بن کر اس سے بیاہ رچا لیا۔ جمہوریت اور منافقت کا رومانس بہت دلفریب ہوتا ہے مگر جب وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجاتے ہیں تو ان کی اولاد یعنی عوام کا جینا دو بھر ہو جاتا ہے۔ وطن عزیز میں فی الحال یہی ہورہا ہے۔ سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کا تعلق بھی اسی طرح کا ہے۔ ان دونوں کے درمیان مناسب فاصلے سے تعاون و اشتراک تو عوام کے لیے مفید ہوتا ہے لیکن ان کا آپس میں ایک جان دو قالب ہوجانا ملک و قوم کے لیے سوہانِ جان بن جاتا ہے۔ مودی اور اڈانی کے درمیان 2014 کے انتخاب سے پہلے بھی شناسائی تھی اور بعد میں بھی تعلقات قائم رہے مگر ایک مہین فاصلہ تھا۔ 2019 کے بعد یہ دوریاں مٹ گئیں اور پھر ایک ایسی لوٹ مار کا آغاز ہوگیا جس نے ایک قلیل عرصہ میں اڈانی کو امیر ترین لوگوں کی فہرست میں 56 ویں درجہ سے دوسرے مقام پر پہنچا دیا۔ اڈانی جس تیزی سے اوپر گئے اسی رفتارسے نیچے آرہے ہیں لیکن اپنے ساتھ مودی جی کو بھی لارہے ہیں ۔
دنیا کی ہر رومانی داستان میں ہر کوئی عاشق و معشوق کا دشمن ہوتا ہے۔ اڈانی اور مودی کے دشمنوں میں بھی ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ ہنڈن برگ سے شروع ہوکر جارج سورس سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔ ہنڈن برگ کی رپورٹ کو گوتم اڈانی نے ہندوستان کی معیشت پر حملہ قرار دیا تھا اور جارج سوروس کے تبصرے کو اسمرتی ایرانی ہندوستانی جمہوریت پر حملہ قرار دے رہی ہیں، لیکن عدالتِ عظمیٰ کا کیا جائے؟ اب تو وہ بھی دشمنوں کی صف میں شامل ہوگئی ہے۔ ایرانی اور اڈانی سے مودی قربت جگ ظاہر ہے۔ جس طرح دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے اسی طرح دوست کا دشمن، دشمن بھی ہوتا ہے۔ یہی منطق ایرانی کو اڈانی اور مودی کا دفاع کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ اسمرتی ایرانی اگر ایک بار یہ پڑھ لیتیں کہ جارج سوروس نے کیا کہا تو شاید ان کی مخالفت کا لب و لہجہ مختلف ہوتا لیکن فی الحال بی جے پی والوں نے پڑھنے لکھنے کا کام چھوڑ رکھا ہے۔ اب تو وہ صرف پڑھ کر سنانے کو کافی سمجھتے ہیں۔ چونکہ ان کی سننے والے بھی پڑھنے لکھنے کی زحمت نہیں کرتے اس لیے کوئی فرق نہیں پڑتا لہذا بات بگڑنے کے بجائے بنی رہتی ہے۔
وطن عزیز میں یہ خیال عام ہے کہ مودی سے لے کر اسمرتی تک ہر کوئی بی جے پی کی آئی ٹی سیل کے ذریعہ عطا کردہ بیانات کو نشر کرنے کا کام کرتے ہیں اس لیے سیل کے لوگ لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہوں گے لیکن اب تو وہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی۔ میڈیا کی ایک خفیہ تحقیق نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ایک اسرائیلی فرم نے ہیکنگ، تخریب کاری اور غلط معلومات پھیلا کر اپنے گاہکوں کے لیے دنیا بھر میں تیس سے زائد انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ ویسے اگر کسی کے پاس اڈانی جیسے بچولیے کے ذریعہ سرکاری خزانے کی بے شمار دولت آجائے تو وہ خود محنت کرنے کے بجائے اس کا ٹھیکہ کسی اور کو دے کر عیش کیوں نہ کرے؟ ایسے ہی ایک ٹھیکیدار کو تحقیقاتی صحافیوں نے ’ٹیم جارج‘ کا نام دے رکھا ہے۔ اس ادارے کا سربراہ اسرائیل کی خصوصی فوج میں کام کرنے والا طل حنان ہے۔ وہ مبینہ طور پر ٹیلی گرام اکاؤنٹس اور ہزاروں جعلی سوشل میڈیا پروفائلز کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ جھوٹی خبروں کو پھیلانے میں ماہر ہے۔ اس ٹھیکیدار کی مدد سے بی جے پی آئی ٹی سیل مودی سرکار کو مضبوط کرنے کی عظیم قومی خدمت انجام دیتا ہے۔
دنیا بھرکے معروف ترین تیس میڈیا اداروں کے صحافیوں پر مشتمل ایک تنظیم نے انکشاف کیا کہ ٹیم جارج کا طریقہ کار اور تکنیک انتخابات سے متعلق غلط معلومات کے فروغ میں ملوث عالمی نجی مارکیٹ میں دنیا بھر کی جمہوریتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ پچاس سالہ طل حنان نے تین خفیہ رپورٹرز کو بتایا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں، سیاسی مہم اور نجی کمپنیوں کے لیے اس کی خدمات دستیاب ہیں۔طل حنان کے مطابق اس نے صدارتی سطح کی تینتیس مہمات پر کام کیا ہے، جن میں سے ستائیس کامیاب رہیں۔ان مہمات میں سے لگ بھگ دو تہائی کا تعلق افریقہ سے ہے۔ اس انکشاف میں کسی ملک کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن بقیہ ایک تہائی میں ہندوستان کی موجودگی یقینی ہے کیونکہ چوبیس گھنٹے انتخاب میں غرق رہنے والی بی جے پی کیسے پیچھے رہ سکتی ہے؟ اسرائیل کی بدنام زمانہ پیگاسس سے مودی سرکار کے تعلقات پہلے ہی منظرِ عام پرآچکے ہیں۔ یہ ادارہ رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کے لیے آن لائن مہم کے ذریعہ مبینہ طور پر فیس بک، ٹوئٹر یا لنکڈ اِن پر تقریباً چالیس ہزار سوشل میڈیا پروفائلز کو کنٹرول کرتا ہے۔ انتخابات اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنے والوں پر مغربی دنیا میں پابندی ہے مگر ہندوستان میں تو ان کا خیر مقدم لازم ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اگر بدنام زمانہ برطانوی مشاورتی ادارے ’کیمبرج اینالیٹیکا‘ کو 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب میں ووٹرز کی رائے کو اپنی جانب موڑنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں تو ان کو نمستے کرنے والے مودی کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں؟
پیگاسس اور ٹیم جارج کے طل حنان جیسے دوستوں کے درمیان جارج سوروس نامی امریکی ارب پتی سرمایہ کار نے ہنود اور یہود کے مقدس رشتے کو داغ دار کر دیا اس لیے اسمرتی ایرانی کو میدانِ کارزار میں اترنا پڑا۔ جارج سوروس نے میونخ سیکورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گوتم اڈانی کے تجارتی سامراج میں اتھل پتھل سے ہندوستانی شیئر بازاروں میں حصص فروخت کرنے کے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے والوں کا اعتماد متزلزل ہونے کا اعتراف تو کیا مگر اس ہلچل سے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے روشن امکانات کا مژدہ سنا دیا۔ ایسے میں جارج سوروس پر جمہوریت پر حملے کا الزام لگا دینے سے بڑی حماقت کا تصور محال ہے۔ سوروس کا بیان اگر اڈانی تک محدود ہوتا تب بھی اس کا ردعمل تو ہوتا مگر اتنا شدید نہیں ہوتا لیکن انہوں اس معاملے میں مودی کو لپیٹتے ہوئے کہہ دیا کہ ’’مودی اس پورے معاملے پر خاموش ہیں لیکن انہیں جواب دینا ہوگا، خاص طور پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کے سوالات پر اور انہیں پارلیمنٹ میں بولنا پڑے گا‘‘
سوروس نے یہ بھی کہا کہ ’’یہ معاملہ یقینی طور پر حکومت ہند پر مودی کی گرفت کو بڑے پیمانے پر کمزور کر دے گا اور ادارہ جاتی اصلاحات کا راستہ کھولے گا، جو طویل عرصے سے محسوس کیے جا رہے تھے۔ میں اس معاملے میں ایک نو سکھیا ہو سکتا ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ ہندوستان میں جمہوریت کے دوبارہ قیام کا باعث بنے گا۔‘‘ اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن کے بانی اور دنیا بھر میں جمہوریت، شفافیت اور آزادی اظہار رائے کو فروغ دینے کی خاطر مالی امداد فراہم کرنے والے مخیر سرمایہ دار کی ملک کے حوالے سے یہ پیشن گوئی قابلِ غور ہے۔ سوروس نے دعویٰ کیا کہ ’ہندوستان کا دلچسپ معاملہ ہے۔ یہ جمہوری ملک ہے، لیکن اس کے وزیر اعظم نریندر مودی جمہوری نہیں ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کھلے اور بند سماج دونوں سے گہرے تعلقات رکھتے ہیں۔ ہندوستان ’کواڈ‘ (امریکہ ،فرانس اور آسٹریلیا کی تنظیم) کا رکن رہنے کے باوجود بھاری چھوٹ پر بہت سارا روسی تیل خرید کر پیسہ بچاتا ہے۔ سوروس کے بیان کردہ ان حقائق کا انکار ناممکن ہے۔ جارج سوروس نے پہلی بار ہندوستان کے معاملے میں لب کشائی نہیں کی بلکہ ڈیووس میں 2020 کی عالمی اقتصادی کانفرنس کے اندر بھی انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان میں جس شدو مد سے قوم پرستی کا نعرہ لگایا جا رہا ہے وہ کھلے معاشرے کا ’سب سے بڑا دشمن‘ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ ہندوستان کے لیے سب سے بڑا دھکا ہے۔
ماضی کی یہ تنقید نہایت سخت تھی لیکن چونکہ اس وقت مودی حکومت بہت مضبوط تھی اس لیے اسے نظر انداز کردیا گیا۔ اب چونکہ حالت پتلی ہو گئی ہے اس لیے دفاع کی ضرورت پیش آئی اور فوت شدہ فرد کے نام پر لائسنس لے کر بیٹی کے ذریعہ غیر قانونی شراب خانہ چلانے والی اسمرتی ایرانی کو کہنا پڑا کہ یہ ایک غیر ملکی سازش ہے۔اس میں وزیر اعظم مودی کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور امریکی ارب پتی جارج سوروس سیاسی جماعتوں کو مدد کرکے بھارت میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ اسمرتی ایرانی کا یہ مطالبہ نہایت مضحکہ خیز ہے کہ’ سبھی کو ایک آواز میں سوروس کے تبصرہ کی مذمت کرنی چاہیے‘۔ یہ عجب منطق ہے کہ اڈانی کے چندے میں تو بی جے پی کے علاوہ کوئی حصہ دار نہ ہو لیکن اس کا دفاع کرنے کے لیے سبھی متحد ہوجائیں۔ ایسا تو کہیں نہیں ہوتا۔ دنیا کا اصول ہے جو کرتا ہے وہی بھرتا ہے۔ اسمرتی ایرانی نے جارج سوروس کو جس جمہوری ڈھانچے کے لیے خطرہ بتایا اس کو تو مودی حکومت پہلے ہی مسمار کر چکی ہے۔ ملک کے اندر تقریباً سارے قومی چینلس کو خریدا جاچکا ہے اور اب بی بی سی جیسے ادارے کو ڈرانے کی کوشش کی جارہی ہے یعنی کل تک ’اسٹارٹ اپ انڈیا‘ کی بات ہوتی تھی مگر اب اسے ’شٹ اپ انڈیا‘ میں بدل دیا گیا ہے۔ اسی لیے اسمرتی ایرانی جیسے وزراء پریشان ہیں۔ وہ ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوکر جو کچھ بک رہے ہیں اس پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
اسمرتی ایرانی نے جارج سوروس کو ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے کو نقصان پہنچانے والی ایک غیر ملکی طاقت کا آلۂ کار قرار دے دیا لیکن نام نہیں لیا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا انہیں اور ان کے آقا کو نام لینے میں ڈر لگتا ہے؟ ایک سوال یہ ہے کہ کل تک تو ساری دنیا مودی جی کی دوست تھی آج اچانک دشمن کیوں بن گئی؟ ایرانی اور اڈانی کے بیان میں کمال درجہ کی مشابہت ہے۔ اڈانی گروپ نے بھی ہنڈن برگ ریسرچ کی رپورٹ کو ہندستان پر حملہ قرار دیا تھا۔ اس احمقانہ دفاع کے جواب میں ہنڈن برگ نے کہا تھا کہ قومیت کا سہارا لے کر اڈانی گروپ نہ اس کے الزامات کو کُند کرسکتا ہے اور نہ حقائق کو چھپا سکتا ہے۔ یہ نہایت شرم کی بات ہے کہ ہنڈن برگ کو یہ یاد دلانا پڑا کہ اڈانی گروپ کے چیئرمین کا اپنی دولت کو بھارت کی ترقی سے تعبیر کرنا غلط ہے۔ اڈانی گروپ نے تو قوم کو لوٹ کر ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ یہی بات سیبی کے سابق سربراہ اوپندرا کمار سنہا نے بھی کہی کہ اڈانی پر ہنڈن برگ کی رپورٹ ہندوستان پر حملہ نہیں ہے۔ ہنڈن برگ نے کسی خاص ملک کی مخصوص کمپنی کے خلاف یہ پہلی رپورٹ نہیں لکھی۔ انہوں نے سیبی کے ذریعہ دونوں کی تفتیش کا مطالبہ کیا تو کیا اب سنہا کو بھی سازش کاحصہ مان کر ان کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج ہوگا؟
ہنڈن برگ ریسرچ رپورٹ کے معاملے میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل میں ناکامی کے بعد کانگریسی رہنما جیا ٹھاکر نے اڈانی گروپ اور اس کی ساتھی کمپنیوں کے خلاف سپریم کورٹ کے ایک موجودہ جج کی نگرانی میں مرکزی تفتیشی بیورو اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ جیسی مرکزی ایجنسیوں سے تحقیقات کرانے کی ہدایت کے لیے عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کیا۔ ان سے قبل اس معاملے میں ایڈووکیٹ وشال تیواری اور منوہر لال شرما کی مفاد عامہ کی عرضی بھی داخل کی جاچکی تھی۔ مدھیہ پردیش میں کانگریسی خواتین یونٹ کی جنرل سکریٹری ڈاکٹر ٹھاکر نے اپنی عرضی میں الزام لگایا کہ اڈانی گروپ اور اس کی ایسوسی ایٹ کمپنیوں نے شیئر مارکیٹ اور منی لانڈرنگ کے ذریعے عوام کی محنت سے کمائے گئے لاکھوں کروڑوں روپیوں کی دھوکہ دہی کی ہے۔ ان کے مطابق اڈانی گروپ اور اس کی ایسوسی ایٹ کمپنیوں نے ماریشس، متحدہ عرب امارات، سنگاپور اور کیریبین جزائر جیسے ٹیکس پناہ گاہوں میں حوالات کے ذریعے رقوم کی منتقلی کے لیے مختلف آف شور کمپنیاں قائم کر رکھی ہیں۔ اس طرح وہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔
درخواست گزار جیا ٹھاکر نے ایل آئی سی اور ایس بی آئی) کے ذریعہ اڈانی انٹرپرائزز کے ایف پی او کو 1600-1800 روپے کے بجائے 3200 روپے میں خریدنے کی تحقیق پر بھی زور دیا۔ انہوں نے مختلف پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ بینکوں سے 82000 روپے کا قرضہ پر سوال اٹھائے اور مرکزی تفتیشی ایجنسیوں سے اس کی جانچ کا مطالبہ کیا۔ اس شکایت کو قابلِ سماعت سمجھتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جے بی پاردیوالا کی بنچ نے نے اشارہ دیا کہ وہ مشورہ کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دے سکتا ہے۔ اس کا مقصد مستقبل میں سرمایہ کاروں کو بڑے نقصان سے بچانے کے لیے سسٹم میں اصلاح کرنا ہوگا۔ عدالتِ عظمیٰ کی دلیل یہ ہے کہ شیئر بازار میں صرف دولت مند لوگ ہی سرمایہ کاری نہیں کرتے بلکہ متوسط طبقہ بھی پیسے لگاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے مزید کہا کہ حال میں سرمایہ کاروں کے لاکھوں کروڑ روپے ڈوب چکے ہیں ایسے میں سرمایہ کاروں کے مفادات کا تحفظ ضروری ہے۔ ان واضح تبصروں کو سن کر حکومت کے ہوش ٹھکانے آگئے۔
ایوانِ پارلیمان میں تو حکومت نے اپنی اکثریت کے بلڈوزر تلے تفتیش کا مطالبہ روند دیا تھا مگر با دلِ نخواستہ اسے سپریم کورٹ کی نگرانی میں جانچ کمیٹی بنانے پر اپنی رضامندی ظاہر کر نی پڑی کیونکہ عدالت اس کی مرضی کے خلاف بھی ایسا کرنے کی مجاز ہے ۔سرکاری وکیل تشار مہتا نے مجبوراً کہا کہ سیبی حالات سے نمٹنے کی اہل تو ہے لیکن حکومت کو جانچ کمیٹی بنائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، مگر پھر ڈنڈی مارتے ہوئے شیئر بازار کو مضبوط کرنے کے مقصد سے ماہرین کا پینل بنانے کے لیے مرکز نے اپنا مشورہ مہر بند لفافے میں دے دیا۔ اس کو توقع رہی ہوگی کی عدالتِ عظمیٰ اس لفافے کو شکریہ کے ساتھ وصول کر کے حکومت کے نامزد کردہ لوگوں تفتیش کروائے گی اور ایک نورا کشتی کے بعد سارا معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا لیکن سپریم کورٹ نے رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے اس لفافے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا عدالتِ عظمیٰ بھی مودی حکومت کے خلاف کسی سازش میں شریک ہوگئی؟ اس طرح ساری دنیا کو ملک کا دشمن قرار دینے کا سلسلہ آخر کہاں جاکر رکے گا؟
اڈانی-ہنڈن برگ معاملے پر سپریم کورٹ کا سرکار کی جانب سے دیے گئے سیل بند لفافے کو قبول کرنے سے انکار حکومت کے گال پر زور دار چانٹا تو تھا لیکن عدالت نے یہ اقدام تفتیش کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کیا۔ اس تعلق سے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کا خیال ہے کہ حکومت کے پیش کردہ نام اگر فریقِ ثانی کو نہ دیے جائیں تو شفافیت کی کمی ہوگی۔ اس لیے وہ خود اپنی طرف سے کمیٹی بنائیں گے۔ ویسے حکومت کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سالیسٹر جنرل تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ بازار کو متاثر کیے بغیر سچ کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔ ویسے ان کی خواہش تھی کہ عدالت کسی سابق جج کو نگرانی کا ذمہ سونپے لیکن بقول غالب:
’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘
اڈانی کے معاملے پر بات دن بہ دن بگڑتی جا رہی ہے۔ اس پی ای آئی ایل کے ایک مدعی وشال تیواری جانچ کے ذریعہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اڈانی کمپنیاں اپنے شیئر کی زیادہ قیمت دکھا کر قرض لینے میں کیسے کامیاب ہوجاتی ہیں۔ اس پہلو سے جانچ پڑتال ان کا اصرار ہے۔
یہ معاملہ جب عدالت میں پہنچا تو اڈانی نے بھی نفسِ مسئلہ سے توجہ ہٹانے کی خاطر اپنی جانب سے ایک مدعی کے ذریعہ پی آئی ایل داخل کروادی۔ اس کے آلہ کار وکیل ایم ایل شرما شارٹ سیلنگ کی جانچ کروانا چاہتے ہیں۔ ان سے جب سی جے آئی نے پوچھا کہ شارٹ سیلر کیا کرتا ہے؟ تو وہ بولے وہ میڈیا کے ذریعہ غلط فہمی پھیلاکر بغیر ڈیلیوری شیئر فروخت کرتا ہے۔ سی جے آئی کو اس جواب پر اطمینان نہیں ہوا تو انہوں نے پھر سے استفسار کیا کہ کیا شارٹ سیلرس میڈیا کے لوگ ہوتے ہیں؟‘‘ اس سوال پر شرما جی پھنس گئے۔ انہوں نے کہا جی نہیں، یہ مارکیٹ کو متاثر کرکے منافع کمانے والے لوگ ہیں۔ یہ تو دنیا ہے اس میں لوگ انتخاب کو متاثر کرکے سیاسی منافع کماتے ہیں اور وہ جائز ہے تو کسی سرمایہ دار کے بازار پر انداز ہوکر منافع کمانے میں کیا غلط ہے؟ دراصل کمزور بنیاد پر عمارت کھڑی کرنے سے وہ عمارت جب دھڑام سے زمین بوس ہوتی ہے تو اسے تعمیر کرنے والے بھی اس کے نیچے دب کر مرجاتے ہیں۔ بیچارے شرما جی کے ساتھ یہی ہوا کہ وہ پہلی ہی گیند میں کلین بولڈ ہوگئے۔
تیواری اور شرما سے علی الرغم معروف سماجی کارکن اور وکیل پرشانت بھوشن نے عدالت کی نگرانی میں ایس آئی ٹی یا سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کررکھا ہے۔ سی جے آئی نے جب ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ مان چکے ہیں اس معاملے میں کچھ گڑبڑ ہوئی ہے تو بھوشن نے کچھ نئے سوال کھڑے کر دیے۔ انہوں نے کہا کہ آخر اڈانی کمپنیوں کے پچھتر فیصد سے زیادہ شیئر خود پروموٹر یا ان سے وابستہ لوگوں کے پاس کیوں ہیں؟ وہ ہنڈن برگ رپورٹ میں گوتم اڈانی اور ان کی کمپنیوں پر لگے الزامات کی جانچ کے ساتھ اس پہلو کا بھی احاطہ کرنا چاہتے ہیں۔ پرشانت بھوشن ان شیل کمپنیوں کی تفتیش بھی چاہتے ہیں کہ جو اڈانی گروپ کے شیئرس خریدتی ہیں اور ان کے ذرائع آمدنی کی جانچ کا بھی تقاضہ کرتے ہیں۔ پرشانت بھوشن نے ریگولیٹری نظام میں اصلاح کا مطالبہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ ایل آئی سی کس بنیاد پر سرمایہ کاری کرتا ہے؟ انہوں نے ایل آئی سی پر الزام لگایا کہ اس نے اڈانی کے شیئرز کی قیمت بڑھانے میں مدد کی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اڈانی آج امیر ترین لوگوں کی فہرست چوبیسویں نمبر پر اس لیے ٹکا ہوا ہے کیونکہ ایل آئی سی اور ایس بی آئی وغیرہ کے ذریعہ مودی حکومت نے اسے سنبھال رکھا ہے۔ یہ سہارا اگر آج ہٹ جائے تو اڈانی کے شیئرز اوندھے منہ نیچے آجائیں۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ لیلیٰ مجنوں سے لے کر رومیو جولیٹ تک دنیا کی ہر لافانی رومانی داستان کا انجام وہی ہوا ہے جس کی جانب مودی اور اڈانی بڑھ رہے ہیں ۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 طل حنان نے تین خفیہ رپورٹرز کو بتایا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں، سیاسی مہم اور نجی کمپنیوں کے لیے اس کی خدمات دستیاب ہیں۔طل حنان کے مطابق اس نے صدارتی سطح کی تینتیس مہمات پر کام کیا ہے، جن میں سے ستائیس کامیاب رہیں۔ان مہمات میں سے لگ بھگ دو تہائی کا تعلق افریقہ سے ہے۔ اس انکشاف میں کسی ملک کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن بقیہ ایک تہائی میں ہندوستان کی موجودگی یقینی ہے کیونکہ چوبیس گھنٹے انتخاب میں غرق رہنے والی بی جے پی کیسے پیچھے رہ سکتی ہے؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 فروری تا 04 مارچ 2023