سرزمین مصر پر فرعونی کردار کا احیاء
محمد مرسی شہید کی منتخب حکومت کاتختہ الٹنے کی داستانِ خوں چکاں
ندیم اختر، علی گڑھ
قیام مصر کی کچھ یادیں اور تاثرات
ٹاٹا اسٹیل (سابق نام ٹاٹا آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی ) جمشید پور کی 13سالہ ملازمت کے بعد نومبر 1978میں جدہ سعودی عرب میں ایک سرکاری اسٹیل مل(steel Mill ) میں ملازمت مل گئی اور وہاں 21 سال قیام رہا۔ جنوری 2000 میں کمپنی بند ہونے کے قریب تھی اور میری ملازمت ایک بار پھراسٹیل کمپنی بمقام دمام، سعودی عرب منتقل ہوگئی ۔ یہاں دس سال بعد مارچ 2010ء میں جب میری عمر61 سال مکمل ہو چکی تھی، کمپنی سے مجھے سبکدوش کر دیا گیا۔
اللہ کی مشیت سے جنوبی یمن میں ایک زیر تعمیر اسٹیل میل میں جولائی 2010 میں ملازمت کے لیے بلاوا آیا۔ یہ علاقہ حضرالموت کہلاتا ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ وہ ملک اور علاقہ جس کے بارے میں پیارے نبی محمد ﷺنے اپنے صحابہ کرام سے ذکر کیا تھا کہ ایک دن ہوگا جب اسلام غالب ہوگا اور ایک بوڑھی خاتون بلا خوف و خطر صنعا سے حضرموت کا سفر کر سکے گی، دیکھنے کا موقع ملے گا، ایک مہینہ صنعاء میں قیام کے بعد میں حضرموت صوبہ کے دارالخلافہ مکلا (Mukalla) منتقل ہو گیا جہاں اسٹیل مل کا ابھی تعمیراتی کام چل رہا تھا ۔ یہ شہر ساحل سمندر پر پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ نیز یہ صوبہ قدرتی گیس اور تیل سے مالا مال بھی ہے۔ لیکن مقامی باشندوں میں غم و غصہ پایا جاتا تھا کہ یہاں پر مغربی یمن (صنعاء) کا قبضہ ہے اور ملکی آمدنی کا معقول حصہ ان کے مقامی باشندوں کو نہیں ملتا ہے اسی لیے یہاں غربت بھی کچھ زیادہ تھی۔ میری کمپنی میں کام کرنے والے بعض ایسے مزدور بھی تھے جن کے پاس کوئی گھر نہیں تھا اور وہ راتیں لبِ سڑک گزاراکرتے تھے۔ اوراس شہر کی صفائی ستھرائی نیز راستے وغیرہ صاف کرنے کے لیے بانقاب خواتین کام کیا کرتی تھیں۔
جنوری 2011 کے اخیر میں یمن کے علی عبداللہ صالح کے خلاف عوامی احتجاج بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا۔ شہر مکلا میں بھی ہر جمعرات اور جمعہ کو مظاہرہ ہونے لگا۔ ایک ہفتہ تو ہم لوگوں کے موبائل فون بھی سرکار نے بند کر دیے تھے۔ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ وہاں تھا۔ ان حالات کے پیش نظر میں وہاں قیام کے بارے میں غور کرنے لگا، کیونکہ شہر مکلا میں بس ایک چھوٹا سا ایئر پورٹ تھا اور حالات سنگین ہونے پر وہاں سے باہر نکلنا بہت دشوار ہو سکتا تھا۔ لہذا میں نے ملازمت سے استعفیٰ دےدیا اور فروری 2011 میں اپنے وطن واپس آگیا۔
اپریل 2013 میں مصر کی ایک بڑی اسٹیل کمپنی (Suez steel Co.) سے ملازمت کے لیے Planning Dept Consult کے طور پر ایک آفر آیا۔ تنخواہ معقول تھی اور مجھے خوشی تھی کہ مصر میں ایک مدت کے بعد جمہوری انتخاب کے ذریعہ ایک مقبول حکومت آئی ہے ، وہاں قیام کرنے کا موقع ملے گا۔ لہذا میں نے کمپنی کے آفر کو منظور کر لیا اور اہلیہ کے ساتھ 3مئی کو قاہرہ ہوائی اڈہ پر پہنچ گیا۔ کمپنی کی جانب سے ایک ڈرائیور کار کے ساتھ موجود تھا جو ہم لوگوں کو سوئز شہر کے ایک چار ستارہ مشہور ہوٹل میں لے گیا۔ تقریباً تین ہفتہ اس ہوٹل میں قیام رہا اور کمپنی کی جانب سے آمد و رفت کے لیے ڈرائیور کی خدمات بھی میسر تھیں لیکن ہوٹل کا ماحول میرے لیے پسندیدہ نہیں تھا کیونکہ بحر احمر (Red Sea) کے قریب اس ہوٹل میں اکثریت آزاد خیال مصریوں، لبنانیوں اور مغربی مما لک کے باشندوں کی تھی جن کے لیے تفریح کا مکمل سامان میسر تھا۔ لہذا میں نے بیرون شہر مکان تلاش کرنے میں جلدی کی ، اس طرح تین ہفتہ کے بعد شہر سوئزمیں منتقل ہو گیا۔ میرا مکان بالکل نہر سوئز ( Sues Canal) کے متصل تھا جہاں سے بحر احمر کا ملاپ شروع ہوتا ہے اور 193 کلو میٹر کے بعد شہر پورٹ سعید پر جاکر بحر روم پرختم ہوتا ہے۔ شہر میں رہائش پاکر اطمینان حاصل ہوا۔ بیشتر آبادی کی عورتیں عبایہ استعمال کرتی ہیں۔ البتہ نوجوان لڑکیاں پینٹ شرٹ میں ملبوس رہتی ہیں لیکن تقریباً سب کے سر پر اسکارف رہتا ہے۔
دھیرے دھرے میں آفس کے اسٹاف سے مانوس ہونے لگا۔ اگرچہ سعودی عرب میں ملازمت کے دوران بھی آفس کے اندر مصریوں سے تعلق تھا لیکن یہاں آفس میں سارے مصری ساتھی بہت ہی عزت سے پیش آتے تھے جبکہ سعودی عرب میں سعودی اکثر بر صغیر کے باشندوں کوتحقیر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ ایک ہفتہ کے اندر آفس کے قریبی مصری ساتھیوں سے آپس میں روابط ہو گئے اور کام کے علاوہ سیاسی امور پر بھی گفتگو ہونے لگی۔ ان میں سے ایک انجینئر ابراہیم السماحی اخوان کے رکن ہیں۔ ان سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا۔ آفس اور پلانٹ کے کارندوں میں اندازاً نصف سے زیادہ اخوانی ہیں۔ چند کے چہروں پر داڑھی بھی تھی۔ یہ لوگ صدر مرسی کی حکومت کے حامی تھے لیکن کچھ ایسے افراد بھی تھے جو نماز کے پابند ہونے کے باوجود حکومت کی شکایتیں کرتے رہتے۔ مثلاً سیاحوں سے جو آمدنی اور زر مبادلہ ملنا تھا اُس میں کمی آگئی تھی کیونکہ موجودہ حکومت نے عام مقامات پر شراب کی فروخت پر پابندی عائد کردی تھی۔ کچھ لوگوں کی شکایت تھی کہ اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں حالانکہ سب اعتراف کرتے تھے کہ ایک مدت بعد جمہوری حکومت آزادانہ انتخاب کے نتیجہ میں آئی ہے ۔
مئی 2013 گذر گیا ۔ جون 2013 میں حکومت کے خلاف مظاہروں کی شروعات ہوگئی جگہ جگہ دیواروں پر صدر مرسی سے استعفیٰ کا مطالبہ دیکھنے کو ملا۔ تحریر اسکوائر پر دوبارہ حکومت کے خلاف مظاہرین جمع ہونے لگے۔ تمرد کے نام سے یہ Campaignچل رہا تھا۔ ٹھیک اُسی وقت صدر مرسی کی حکوت کی حمایت میں Tagorad نام سے مظاہرے ہونے لگے۔ تمرد کا مطالبہ تھا کہ صدر مرسی 30جون 2013 تک حکومت سے دستبردار ہوجائیں ؟
حکومت کے حمایتی اخوانی مظاہرین قاہرہ کے دو مقام رابعہ العدویہ مسجد(Ruba Al-Adawiya) اور الناہدہ میں جمع تھے۔ اس میں میرے آفس کے انجینئر ابراهیم السماحی پابندی سے روزانہ شریک ہوتے تھے ۔ بقول ان کے اخوانی مظاہرین کی تعداد حکومت مخالف مظاہر ین سے بہت زیادہ تھی جیسے جیسے 30 جون قریب آنے لگا فوج کی طرف سے صدر پر دباؤ پڑنے لگا کہ وہ حکومت مخالف ذمہ داروں سے گفتگو کریں اور مصالحت کرلیں ۔ پھر الٹی میٹم آنے لگا۔ چنانچہ صدر مرسی نے قوم سے خطاب کرنے کا اعلان کیا، اس خطاب میں حکومت کے کارندے بھی شریک تھے اور یہ خطاب راست نشر ہوا تھا۔ ایک گھنٹہ سے زائد خطاب میں مرسی نے اپنی حکومت کی کار کردگی کا حوالہ دیتے ہوئے موجودہ حالات اور حزب مخالف کے مطالبہ (یعنی صدر استعفیٰ دیں) کے حل کے لیے پیش کش کی چونکہ پارلیمان کا انتخاب ابھی ہونا ہے تو اُسے جلد کروا کے اس پارلیمنٹ کو یہ حق دیا جائے گا کہ وہ آئندہ حکومت کا لائحہ عمل بنائے ۔ اگر وہ چاہے تو صدر سے استعفیٰ لے لے اور دوبارہ صدر کا انتخاب ہو۔ لیکن عالمی طاقتوں کے منصوبہ سے متاثر افواج کا نشانہ تو حکومت کا تختہ پلٹنا تھا اور خود اقتدار پر قابض ہونا تھا جیسا محمد مرسی سے قبل مصر کی روایت تھی حکومت مخالف مظاہرین کو فوج کی مکمل حمایت حاصل تھی ، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ مظاہرہ فوج کی ایما پر ہی ہورہا تھا ۔ میرے ڈپارٹمنٹ کے ایک ماتحت احمد کامل سے اکثر سیاسی حالات پر بھی گفتگو ہوتی تھی ۔ میرے اس سوال پر کہ کس طرح ایک منتخب صدر کو عہدہ سے بٹایا جاسکتا ہے اُس کا جواب تھا کہ وہ یعنی صدر مرسی خود استعفی نہیں دیں گے تو فوج انہیں بزور طاقت معزول کردے گی۔ جن دنوں مظاہرے ہورہے تھے اس وقت پورے ملک میں ڈیزل کی مصنوعی قلت دیکھی گئی ۔ Fuel station پر لمبی قطاریں دیکھنے کو ملیں اور دن بھر انتظار کے بعد Tanker بھرا جاتا تھا۔ یہاں بتاتا چلوں کہ تیل کمپنی فوج کی ملکیت میں سے ہے۔ ویسے تقریباً مختلف قسم کی تجارتیں اور کمپنیاں بلکہ ملک کی معیشت کا چالیس فیصد حصہ فوجی اداروں ہی کی ملکیت ہے۔ بہر کیف مصر کی تاریخ کا ایک سیاہ دن 3 جولائی 2013 تھا جب فوج نے ایوان صدر پر حملہ کر کے صدر محمد مرسی کو گرفتار کرکے انہیں ان کے عہدے سے معزول کردیا۔ حکومت کے بڑے عہدےدار، اخوان کے سربراہ (مرشد عام ) محمد بدیع سمیت ہزاروں ساتھیوں کو یکلخت گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ بغاوت کے خلاف مصر کے سارے بڑے شہروں میں احتجاج ہونے لگے۔ میرے شہر (سویز) Suez میں بھی فوجی بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ نظر آنے لگے۔ احتجاج میں مردوں کے ساتھ باحجاب خواتین بھی سڑکوں پر نظر آنے لگیں۔ سارے ملک میں بے شمار ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا جس میں الجزیرہ ٹی وی کا اسٹاف بھی تھا۔ بتدریج اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دےدیا گیا۔ اخوان پر پابندی کے بعد خلیجی ملکوں نے بھی اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ 2011 میں Arab Spring اور مصر میں بھی صدر حسنی مبارک کو ہٹانے کے لیے چلنے والی تحریک میں فوج کا بہت بڑا کردار تھا۔ صدر مبارک اپنے جانشین کے لیے اپنے بیٹے کو Promote کر رہے تھے جو فوج کو ناپسند تھا۔ میری کمپنی کے IT شعبہ کے ایک انجینئر احمد حکومت تبدیل ہونے کے بعد کہتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ سیسی صدر بنے اور وہ جلدی ہی بن بھی جائے گا۔
2014 میں صدر کے لیے انتخاب ہوا۔ میں نے دیکھا کہ شہر میں بطور صدارتی امیدوار جگہ جگہ سیسی کی تصاویر اور Banner لگ رہے تھے اور کوئی دوسرے امیدوار کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ الیکشن کے دو چار روز قبل ایک اور غیر معروف امیدوار کا کہیں کہیں پوسٹر نظر آیا یعنی امیدوار صرف ایک ہی ہے ۔ الیکشن کے دن پولنگ بوتھ پر کوئی بھیڑ دیکھنے کو نہیں ملی۔ میرا مشاہدہ ہے کہ عوام کی خاصی تعداد کو اس انتخاب سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔
مرسی مخالف حکومت کی ایک دلیل یہ تھی کہ معیشت خراب ہوتی جارہی ہے ۔ 2011 میں ایک ڈالر کا 6مصری پونڈ ملتا تھا اور مرسی کی حکومت میں ایک ڈالر،7 پاؤنڈ کا ہو گیا ہے۔ اب میں آپ کو بتاؤں گا کہ میں مصر کے اندر وسط 2018 تک تھا۔ 2017 میں مصری پاؤنڈ کی قیمت 18 پاؤنڈ فی ڈالر ہوگئی لیکن عوام کو کوئی شکایت ہی نہیں ہے کیونکہ بولنے تک کی آزادی ختم ہوگئی تھی ۔اور جنوری 2023میں ایک ڈالر کے 30 مصری پاؤنڈ ہوگئے ہیں ۔
ان ملکوں کا یہ اقدام ثابت کرتا ہے کہ اخوان کی حکومت ختم کرنے کی سازش عالمی سطح پر بہت پہلے ہی تیار کی گئی تھی۔ اخوان کا پرامن احتجاج مسجد ربع الادویۃ اور الناہدہ کے مقام پر جاری رہا۔ جس کو منتشر کرنے کے لیے 14اگست 2013 کو فوج نے طاقت کا استعمال کیا جس میں اخوان کے ترجمان کے مطابق 2600 افراد ہلاک ہوئے۔ حکومت کے ترجمان نے 595 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی۔ انسانی حقوق کے عالمی ترجمان نے اسے موجودہ دور میں کسی ایک دن میں احتجاجیوں کے قتل کی نئی تاریخ قرار دیا۔ میری خواہش تھی کہ مصر میں ان مقامات کی زیارت کروں جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے لیکن افسوس کہ فوجی حکومت آنے کے بعد غیر ملکیوں کے لیے ان مقامات کے لیے سفر کرنا غیر قانونی قرار دیا گیا۔ میں جس شہر میں تھا وہاں سے ایک تاریخی مقام بئر موسیٰ تقریباً چالیس کلو میٹر پر تھا جہاں میرے آفس کے لوگ فوجی حکومت آنے سے قبل تک آزادی سے جایاکرتے تھے لیکن اب وہاں پولیس کی اجازت کے بغیر جانا ممکن نہیں تھا۔ یہاں پر یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں نے اپنے استعمال کے لیے ایک نئی کار خریدی تھی ۔ لیکن اُس کا نمبر پلیٹ نہیں مل سکا کیونکہ نئی حکومت نے غیر ملکیوں کے نام پر کار کی ملکیت دینے پر پابندی لگادی۔ قاہرہ کے عجائب خانہ ( museum ) کو دیکھنے کا دوبار موقع ملا ۔ اور فرعون کی نعش کو بھی دیکھا ۔ اسے king RamsesII کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہی فرعون ہے جسے حضرت موسیؑ کے ساتھ ہوئی جنگ میں اللہ تعالیٰ نے اسے دریا غرق کردیا تھا اور قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس کی نعش کو رہتی دنیا تک کے لیے محفوظ کر دیا تا کہ لوگ عبرت حاصل کر سکیں لیکن افسوس کہ خود اُسی مصر میں موجودہ دور اور ماضی قریب میں کئی ایک فرعون صفت حکمراں گزرے ہیں جنہوں نے ظلم اور جبر میں اپنی عوام کو جکڑ رکھا ہے۔ کاش وہ فرعون کے انجام سے عبرت حاصل کرتے۔
میراقیاس ہے کہ آج بھی اگر مصری عوام کو آزادانہ اور منصفانہ انتخاب کا موقع دیا جائے تو پھر وہ اخوان کو ہی حکمرانی کا حق دیں گے لیکن مغربی ممالک اور خلیجی ممالک جہاں خاندانی بادشاہت ہے، وہ ہر گز مصری عوام کو آزادانہ انتخاب کی اجازت نہیں دیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کا کس کو پتہ ہے ۔
[email protected]
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جنوری تا 04 فروری 2023