ثانوی درس گاہ رامپور (یو پی) ایک تعارف
درس گاہ نے ماضی میں ملک و ملت کو ڈاکٹر عبدالحق انصاری، نجات اللہ صدیقی ، فضل الرحمن فریدی اور قاضی اشفاق احمد جیسی شخصیتیں دیں
محمد جاوید اقبال ، دلی
ہندوستان کی مسلمانوں کی علمی اور تحقیقی تاریخ میں ثانوی درس گاہ کا ایک اہم اور ناقابل فراموش کردار رہا ہے۔ اس تعلیمی ادارے کے اثرات نے نہ صرف اندرون ملک بلکہ دنیا کے دیگر ممالک پر بھی اپنی علمی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ تقسیم ملک کے بعد 1948میں جماعت اسلامی ہند کا قیام الہ آباد میں ہوا۔ پھر اس کا مرکز بہت جلد ملیح آباد منتقل ہوگیا۔ مرکز کے قیام کے چند ماہ بعد ستمبر 1948کو ابتدائی درس گاہ کا قیام منشی ہدایت اللہ مرحوم کے پیش کردہ باغ ملیح آباد کی ایک عمارت میں ہوا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ درس گاہ کو 1949میں رامپور یو پی منتقل کردیا گیا۔ اس کے لیے عمارت شہر کے اہل خیر بزرگ سید امجد علی صاحب نے پیش کی۔ درس گاہ کے پہلے اساتذہ محمد افضل حسین صاحب مرحوم اور محمد شفیع مونس صاحب مرحوم تھے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ درس گاہ اسلامی رامپور پہلے منتقل کی گئی اس کے بعد جماعت اسلامی ہند کا مرکز رامپور منتقل کیا گیا۔
ثانوی درس گاہ کا آغاز
اس درس گاہ کا اصل محرک تو مولانا مودودی کا وہ خطبہ ہے جو نیا نظام تعلیم کے عنوان سے 5جنوری 1941کو دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنو کی انجمن اتحاد طلبہ کے سامنے دیا گیا تھا۔ اس میں مولانا نے تھا کہ امامت و قیادت کا رشتہ داعیان علم سے وابستہ ہے۔ اس لیے انقلاب امامت کے لیے انقلاب تعلیم ناگزیر ہے جس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ دینی اور دنیوی علوم کی انفرادیت مٹاکر دونوں کو ایک جان کردیا جائے۔ سارے مضامین کو دینیات کے مضمون میں تبدیل کردیا جائے اس کو پڑھ کر طالب علم محسوس کرے کہ وہ دنیا کی ہر چیز میں خدا کی حکمت اور قدرت کے آثار دیکھ رہا ہے۔ جہاں تک زبانوں کی تعلیم کا تعلق ہے بچہ کو اپنی مادری زبان کے علاوہ عربی اور انگریزی اچھی طرح سکھائی جائے تاکہ اس میں قرآن کا گہرا فہم حاصل ہو اور تحقیقی کام بآسانی کرسکے۔ اس طرح ایسے لوگ تیار ہوں گے جو وقت و زمانے کی رفتار کو بدلنے کا حوصلہ اپنے اندر پائیں گے۔ اس کا مقصد دنیا میں اخلاقی، فکری اور عمرانی انقلاب کے لیے موزوں لیڈر اور افراد تیار کرنا ہے۔ اس نئے نظام تعلیم میں اعلیٰ تعلیم،، ثانوی اور ابتدائی تعلیم کا تفصیلی معیار مطلوب مقرر کیا گیا ہے۔ اس کی پوری تفصیل تعلیمات نامی کتاب میں نیا تعلیمی نظام کے عنوان سے درج ہے۔
ثانوی درس گاہ کے اولین محرک
1948میں محمد نجات اللہ صدیقی صاحب اور عبدالحق انصاری صاحب دونوں نے اس وقت گیارہواں درجہ Physics, Chemistry, Maths سے پاس کیا تھا یہ نوجوان مرکز جماعت اسلامی ہند ملیح آباد پہنچے اور مولانا ابواللیث صاحب امیر جماعت اسلامی ہند سے کہا کہ ہم نے مولانا مودودی کا مضمون نیا نظام تعلیم پڑھا ہے اس کی روشنی میں جماعت اسلامی کو ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم کرنا چاہیے جس کے اغراض و مقاصد مضمون میں درج نہیں۔
مولانا ابواللیث نے فرمایا کہ ملیح آباد ایک چھوٹی جگہ ہے یہاں نہ تو ایک بڑی لائبریری ہے اور نہ ہی معیاری اساتذہ فراہم ہوسکتے ہیں اس لیے اس خواب کی تعبیر ناممکن ہے۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات مستقبل کا خواب ساتھ لیے واپس آگئے۔
1949میں مرکز جماعت اسلامی ملیح آباد سے رامپور منتقل ہوگیا۔ اسی سال ماہ دسمبر میں علی گڑھ کے تقریباً 50طلبہ ادارہ ادب اسلامی کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے رامپور پہنچے۔ محمد نجات اللہ صدیقی صاحب نے پھر وہی بات دہرائی کہ رامپور ایک بڑی جگہ ہے اس لیے اس طرح کے ادارہ کا قیام عمل میں آنا چاہیے۔ مولانا ابواللیث اصلاحی امیر جماعت نے نوجوانوں کا یہ جذبہ دیکھتے ہوئے اللہ پر بھروسہ کرکے کہہ دیا کہ آجاو ہم ان شاء اللہ ایک معیاری تعلیمی ادارہ قائم کرتے ہیں۔
چنانچہ حمید اللہ صاحب جو بارہویں جماعت میں تھے جن کے سالانہ امتحان میں چار ماہ باقی تھے ۔ نجات اللہ صدیقی صاحب علی گڑھ یونیورسٹی B A سال اول کے طالب علم تھے۔ شمس الہدی صاحب BSc کے طالب علم تھے۔ قاضی اشفاق صاحب .BSE. Enggکے آخری سال میں تھے ان کے سالانہ امتحان شروع ہونے میں چار ماہ باقی تھے اس طرح نعمان علی شبلی بھی داخلہ کے لیے آئے۔ یہ صاحب بعد میں مولانا احسن اصلاحی کے داماد ہوئے ۔ مولانا صدر الدین اصلاحی مرحوم نے اس موقع پر کہاتھا کہ فوری طور پر اس طرح کی تعلیم کا نظم کرنا دشوار ہے۔ دوسرے دن نوجوانوں کا سال کے درمیان میں جدید تعلیم ترک کرنا ان کے سرپرستوں اور دوسرے لوگوں پر اچھے اثرت مرتب نہ کرسکے گا اور یہ نوجوان جدید تعلیم کی ڈگری سے محروم رہیں گے چنانچہ قاضی اشفاق صاحب اور نعمان علی شبلی کو اپنا کورس مکمل کرنے کے لیے تیار کیا جاسکا۔ قاضی اشفاق صاحب نے کہا تھا کہ کیا اس کی کوئی ضمانت دے سکتا ہے کہ وہ تب تک زندہ رہ سکیں گے۔
بہرحال جنوری 1950میں نجات اللہ صدیقی صاحب حمید اللہ صاحب اور عبدالحق انصاری صاحب رامپور چلے گئے۔ مرکز جماعت اسلامی اس وقت جامع مسجد کے جنوب کی جانب چند کمروں پر مشتمل تھا جو کرائے پر لیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک کمرہ ان تینوں طلبہ کو دے دیا گیا ۔ ثانوی درس گاہ سے فراغت حاصل کرکے کچھ مہینے مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ چلے گئے جہاں مولانا اختر احسن اصلاحی سے قرآن پاک پڑھا اور علامہ حمید الدین فراہی کے مسودات سے استفادہ کیا۔ ہمارے استاد مولانا صدرالدین اصلاحی بھی قرآن پڑھاتے تھے اور خوب بحث و مباحثہ ہوتا تھا۔ یہ بات نہ تھی کہ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا، مولانا خود کم بولتے اور طلبہ کو بولنے کا زیادہ موقع دیتے تھے۔
چہار سالہ نصاب تعلیم کا عربی نصاب
عربی زبان و ادب۔ جمھرۃ اشعار العرب
قرآن و حدیث ۔ جمھرۃ خطب و العرب
فقہ ۔ ہدایۃُ المجتہد
حجۃ للہ البالغہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ
اس درس گاہ کے ناظم اور اساتذہ
اس درس گاہ کے پہلے اور آخری ناظم مولانا صدر الدین اصلاحی تھے وہ تفسیر قرآن بھی پڑھاتےتھے طلبہ کو سوال پوچھنے کی پوری آزادی تبصرہ اور تنقید کا پورا حق تھا۔ طلبہ ان کے درس میں بہت دل چسپی لیتے تھے۔ اساتذہ میں مولانا ابواللیث اصلاحی امیر جماعت اسلامی ہند، مولانا جلیل احسن ندوی، مولانا سید احمد عروج قادری، مولانا عبدالودود ندوی، مولانا سید حامد علی، مولانا امتیاز علی عرشی صاب لائبریرین رضالائبریری رامپور، مولانا عبدالسلام رامپوری، مولانا عبدالوہاب صاحب محدث۔
ثانوی درس گاہ کے چند معروف طلبہ
ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر عبدالحق انصاری، ڈاکٹر حمید اللہ علی گڑھ، قاضی اشفاق احمد آسٹریلیا، حامد عبدالرحمن الکاف،ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی ، شمس الہدی، عبدالمعز منظر، ڈاکٹر احسان اللہ خاں سائنٹسٹ، ڈاکٹر عبدالباری شبنم، شمس الدین صاحب، عبدالرشید عثمانی، عمر افضل ، امریکہ۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب
گورکھپور کے رہنے والے تھے وہیں سے انٹر میڈیٹ سائنس سے کیا۔ ثانوی درس گاہ رامپور کے سب سے پہلے طالب علم تھے۔ اس کے بعد تقریباً تین سال تک مدرسۃ الاصلاح میں تعلیم حاصل کی اس کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ معاشیات میں ماسٹر کیا پھر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی وہیں پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔
علی گڑھ سے انگریزی ماہنامہ اسلامک تھاٹ نکالا اس کے بعد کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ سعودی عرب میں پروفیسر رہے۔ 1982میں انہیں اسلامی معاشیات پر خدمات انجام دینے کے لیے شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ متعدد بار جماعت اسلامی کو مرکزی شوریٰ کے رکن رہے۔ تحریک اسلامی کے بارے میں مسلسل سوچتے رہتے تھے اور اپنے مشورے دیتے رہتے تھے۔ ملک و بیرون ملک کے ہزاروں نوجوان ان کے علم اور تحقیق سے مستفیض ہوئے۔ وہ بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے۔ علم تحقیق، انکسار، ایثار، ملنساری، صاف گوئی ان کی نمایاں صفات تھیں۔
ڈاکٹر عبدالحق انصاری
تحریک اسلامی کے معتبر اسکالر اور دانش ور تھے ۔ تمکوہی ضلع دیوریا میں پیدا ہوئے جارج اسلامیہ کالج گورکھپور سے 1949 میں انٹر میڈیٹ کیا اس کے بعد ثانوی درس گاہ رامپور کے عربی اور اسلامی علوم میں ڈگری لی۔ اس کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم اے فلسفہ میں کیا۔ وہیں سے ڈاکٹریٹ کی۔ اس کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی شانتی نکیتن مغربی بنگال میں عربی فارسی اسلامک اسٹڈیز کے شعبہ کے صدر رہے۔ سعودی عرب کی کئی یونیورسٹیوں سے منسلک رہے۔ جماعت اسلامی کے شوریٰ کے رکن اور پھر امیر جماعت اسلامی ہند کی حیثیت سے 2003تا2007 خدمات انجام دیں۔ بہت سی کتابوں کے مصنف غور و فکر، کم گوئی معاملہ فہمی اور بروقت فیصلہ کرنے جیسی صفات کے حامل تھے۔
ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی
ایم اے فرسٹ لاس کرنے کے بعد ثانوی درس گاہ سے فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد معاشیات میں پی ایچ ڈی کیا۔ مسلم یونیورسٹی میں برسوں پروفیسر رہے۔ اس کے بعد کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں بھی خدمات انجام دیں۔ جماعت اسلامی کے شوری کے رکن اور ماہانہ زندگی کے ایڈیٹر رہے۔
اس کے علاوہ دیگر حضرات نے بھی اپنے اپنے میدان کار میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی علوم عربی زبان علم و تحقیق اور دعوت اسلامی کے فروغ کا جدبہ ان سب حضرات کو ثانوی درس گاہ سے ملا۔ اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر یہ حضرات یونیورسٹیوں سے جدید تعلیم کی ڈگریاں نہ حاصل کرتے تو اتنی بڑی خدمات انجام نہیں دے سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کے مقام بلند کرے۔
قاضی اشفاق احمد صاحب آسٹریلیا
قاضی اشفاق احمد صاحب قصبہ محمد آباد ضلع اعظم گڑھ کے رہنے والے تھے۔ علی گڑھ میں انجینرنگ کے چوتھے سال میں تھے وہ بھی ثانوی درس گاہ میں تعلیم کے لیے پہنچے ان سے کہا گیا تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آئیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ ضمانت دیدیں کہ میں تب تک زندہ رہوں گا۔ ظاہر ہے اس کے بعد کسی کو کچھ کہنے کا یارا نہ تھا۔ اشفاق احمد صاحب نے رضوان احمد صاحب لندن سے اپنے کوائف بیان کرتے ہوئے کہا۔ ثانوی درس گاہ میں داخلے کی منظوری ملنے کے بعد میں گھر آگیا ہمارا علاقہ مولانا حسین احمد مدنی کا عقیدت مند تھا اور مولانا جب بھی اس علاقے میں تشریف لاتے ان کے قیام کی ذمہ داری ہمارے خاندان کی ہوتی تھی۔ میں جب رامپور سے گھر آیا تو ان دنوں مولانا علاقہ میں آئے ہوئے تھے اور ان کا قیام ہمارے مکان میں تھا ایک دن میں نے مولانا سے درخواست کی کہ میں تنہائی میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ مولانا نے فرمایا ٹھیک ہے لیکن میرے ساتھ مولانا زکریا اور مولانا عاشق الٰہی صاحبان بھی ہوں گے۔
میں نے عرض کیا مولانا میں سخت مخمصے میں ہوں، جماعت اسلامی ہند نے یونیورسٹی گریجویٹ کے لیے ایک چہار سالہ کورس تیار کیا ہے جس میں طلبہ کو قرآن و احادیث کی تعلیم دی جاتی ہے مجھے بھی وہاں جاکر علم دین حاصل کرنے کا شوق ہے۔ دوسری طرف جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خلاف آپ حضرات کے فتوے گردش کررہے ہیں فیصلہ نہیں کر پار ہا ہوں کہ وہاں جاوں یا نہ جاوں۔ میری بات سن کر مولانا حسین احمد مدنیؒ نے فرمایا۔ بیٹے! تم وہاں ضرور جاو میں تمہیں اس کی تاکید کرتا ہوں جہاں تک فتووں کا تعلق ہے وہ اونچی باتیں ہیں ابھی اس کی فکر نہ کرو۔ یہ باتیں بعد میں سمجھ میں آجائیں گی۔ اس وقت تم وہاں جاکر تعلیم حاصل کرو۔ رضوان صاحب کہتے ہیں کہ قاضی صاحب نے فرمایا کہ اگر تم اس واقعہ کو شائع کرنا چاہو تو کرسکتے ہو۔
قاضی اشفاق صاحب نے ثانوی درس گاہ سے تعلیم مکمل کرکے یونیورسٹی تعلیم بھی مکمل کی اور پی ایچ ڈی بھی کیا۔ ہندوستان میں بھی داعیانہ خدمات انجام دیں اور آسٹریلیا جاکر بھی وسیع پیمانہ پر اسلام کے فروغ کے لیے منظم کام کیا ۔ ڈاکٹر اشفاق احمد کو آخری زمانے میں دل کا دورہ پڑا جس کی وجہ سے زبان میں لکنت آگئی تھی۔ بہرحال قاضی صاحب بھی تحریک اسلامی کا قیمتی اثاثہ تھے اللہ تعالیٰ ان کے مقام کوبلند کرے۔
فون:8860429904
***
***
اس درس گاہ کا اصل محرک تو مولانا مودودی کا وہ خطبہ ہے جو نیا نظام تعلیم کے عنوان سے 5جنوری 1941کو دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنو کی انجمن اتحاد طلبہ کے سامنے دیا گیا تھا۔ اس میں مولانا نے تھا کہ امامت و قیادت کا رشتہ داعیان علم سے وابستہ ہے۔ اس لیے انقلاب امامت کے لیے انقلاب تعلیم ناگزیر ہے جس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ دینی اور دنیوی علوم کی انفرادیت مٹاکر دونوں کو ایک جان کردیا جائے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 نومبر تا 03 نومبر 2022