سنگیتا دیوی کی اسلامی طریقے سے تدفین

اسلام کے مطابق زندگی گزارنے والی خاتون کی وصیت پر عملدرآمد

0

مشتاق عامر

مذہبی منافرت کی تاریکیوں کے درمیان روشنی کی ایک امید افزا کرن
بھارت میں اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنا ایک ایسا جرم بن گیا ہے جو مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر روک لگاتا ہے ۔لیکن ایسے گھٹن زدہ ماحول میں بھی اسلام کے شیدائیوں کی کمی نہیں ہے جو اپنی مرضی سے اسلامی عقیدے کو اپنا رہے ہیں ۔ملک میں جہاں ایک طرف مسلمانوں کے خلاف لگاتار نفرت کا ماحول بنایا جا رہا ہے وہیں دوسری طرف ایسے امید افزا واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں جس سے منافرت کی اس فضا میں امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔ چنانچہ بہار میں ایک ہندو عورت نے اپنی آخری رسومات اسلامی طریقے سے کرنے کی وصیت کی، جس کی وجہ سے اس واقعے نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے ۔یہ واقعہ بہار کے ضلع روہتاس کے منی نگر کا ہے ۔پچھلے دنوں 7 فروری بروز جمعہ اس گاؤں میں رہنے والی 58 سالہ سنگیتا دیوی کی موت ہو گئی ۔سنگیتا دیوی نے مرنے سے پہلے خواہش ظاہر کی تھی کہ اس کی آخری رسومات اسلامی طریقے سے ادا کی جائیں اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے ۔سنگیتا دیوی کی وصیت سامنے آنے کے بعد علاقے میں گفتگوؤں کا بازار گرم ہو گیا ۔روہتاس کا یہ علاقہ ہندو مسلم ملی جلی آبادی کا ہے۔ سنگتیا دیوی کئی برسوں سے اسلامی عقیدے کے مطابق زندگی گزار رہی تھیں ۔ان کی وصیت تھی کہ ان کی آخری رسومات بھی اسلامی طریقے سے ادا کی جائیں اور ان کی تدفین مسلمانوں کے قبرستان میں کی جائے۔سنگیتا دیوی کے شوہر لکشمن رام نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔لکشمن رام نے کہا کہ سنگیتا دیوی پچھلے چالیس برسوں سے اسلامی عقیدے کے مطابق زندگی گزار رہی تھی ۔ ان کے شوہر نے بتایا کہ سنگیتا دیوی رمضان کے پورے روزے رکھتی تھیں اور نماز کی پابندی کیا کرتی تھی ۔ان کے مسلم طریقے سے زندگی گزارنے پر گھر کے لوگوں کو کبھی کوئی اعتراض نہ تھا ۔لکشمن رام نے کہا کہ چالیس برس پہلے سنگیتا کے ساتھ میری شادی ہوئی تھی۔ تقریباً دس سال تک ہماری کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔کئی سال بیت جانے کے بعد ہم مایوس ہو گئے ۔ایک مولانا صاحب کے کہنے سے سنگیتا نے روزہ رکھنا اور نماز پڑھنی شروع کی۔اس نے خدا سے دعا مانگی۔اس کی دعا قبول ہوئی ۔ہمارے گھر تین بچے ہوئے ۔اس کے بعد سے سنگیتا اسلامی طریقے سے زندگی گزارنے لگی ۔ہم نے یا گھر کے لوگوں نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا ۔سنگیتا کی بہو چاندی بتاتی ہے کہ ہم سبھی ہندو دھرم پر یقین رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان (سنگیتا) کے عقیدے کا احترام بھی کرتے ہیں ۔ہم لوگوں کو ان کے مسلمان ہونے سے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی ۔
سنگیتا دیوی کی پیدائش ایک ہندو گھرانے میں ہوئی لیکن ان کی زندگی کا بیشتر حصہ اسلامی عقیدے کے مطابق گزرا ۔سنگیتا دیوی نے نہ صرف دل سے اسلام کو اپنایا بلکہ اس کی تعلیمات پر عمل بھی کیا ۔وہ ایک مسلم خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن بھی تھیں ۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق سنگیتا دیوی انسانی خدمت پر بھروسا رکھتی تھیں ۔ وہ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں ۔خاص طور سے غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی تھیں۔سنگیتا دیوی کی جب موت ہوئی اور ان کی وصیت کی خبر عام ہوئی تو ہندو اور مسلم دونوں نے سنگیتا دیوی کے گھر والوں کا ساتھ دیا ۔محلے کے لوگوں نے علاقے کی مسجد کےامام سے مشورہ کیا ۔ سنگیتا دیوی کی نماز جنازہ مسجد کے امام نے پڑھائی ۔ ان کے جنازے کو کاندھا دینے والوں میں ہندو اور مسلمانوں دونوں طبقے کے افراد شامل تھے ۔سنگیتا دیوی کی تدفین علاقے کے اسلام گنج قبرستان میں کی گئی۔تدفین میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔اس پورے واقعے کا اہم پہلو یہ رہا کہ سنگیتا دیوی کی اسلامی طریقے سے آخری رسومات ادا کرنے کے دوران کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ۔روہتاس اور آس پاس کے اضلاع میں بھی اس خبر کو لوگوں نے مثبت انداز میں لیا ۔سنگیتا دیوی کے اہل خانہ بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلامی طریقے سے آخری رسومات ادا کرنے کے معاملے میں کسی شر پسند گروہ یا تنظیم کی جانب سے کوئی اعتراض نہیں کیا گیا ۔علاقے کے لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ سنگیتا دیوی نے ایک مسلمان کے طور سے اپنی زندگی گزاری لہٰذا ان کی آخری خواہش کے مطابق اسلامی طریقے سے تدفین ان کا حق تھا۔
سنگیتا دیوی نے اپنی پوری زندگی سماجی ایکتا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے وقف کردی تھی۔انہوں نے اپنے طرز عمل سے مذہبی منافرت کو شکست دی۔سنگیتا دیوی نے اپنی زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی انسانیت اور یکجہتی کا جو پیغام دیا ہے اس سے منافرت زدہ تاریک سماج کو ایک نئی روشنی ملی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025