سندیش کھالی سے دلی تک خواتین کا سیاسی استحصال
گورنر آنند بوس، برج بھوشن سنگھ اور پرجول ریوَنّا جیسے لوگ آخر بے لگام کیسے ہوئے؟
ڈاکٹر سلیم خان
بنگال میں خواتین کارڈ کی ناکامی کے بعد دلی میں عآپ کی بدنامی اور استحصال کی سازش
امسال 19 جنوری کو عام آدمی پارٹی نے دہلی خواتین کمیشن کی چیئر پرسن سواتی مالیوال کو ایوانِ بالا کے لیے اپنا امیدوار بنا کر کامیاب کیا۔ سواتی مالیوال نے عام آدمی پارٹی کے قیام سے قبل اروند کیجریوال کا ساتھ دینا شروع کر دیا تھا۔ اس کا انعام ان کی خواتین کمیشن کی سربراہی سے لے کر ایوان پارلیمان کی رکنیت تک ملا۔ فی الحال وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے پی اے بیبھو کمار کے خلاف اپنی شکایت کے سبب سواتی مالیوال نے تنازع کھڑا کر رکھا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ بیبھو نے انہیں تھپڑ مارا اور پیٹ پر لات ماری۔ سواتی مالیوال نے پولیس کو نہایت جذباتی بیان دے کر بیبھو کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے بی جے پی سے اس واقعہ پر سیاست نہ کرنے کی درخواست بھی کی، حالانکہ ان کے اس اقدام میں بھگوا سیاست کی کارستانی دکھائی دے رہی ہے۔ تقریباً ایک سال سے برج بھوشن کو گرفتار کرنے سے گریز کرنے والی دلی پولیس نے ملزمین کی گرفتاری کے لیے اسپیشل سیل اور کرائم برانچ کی ٹیمیں تعینات کیں اور ایک دن کے اندر بیبھو کمار کو حراست میں لے لیا۔
دلی پولیس نے سواتی مالیوال کے ساتھ بد سلوکی کے معاملے میں بیبھو کمار کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے بعد انہیں طبی جانچ کے لیے ایمس لے گئی تھی اور تقریباً دو گھنٹے بعد گھر لوٹی تو ٹھیک سے چل نہیں پا رہی تھیں۔ بیبھو کمار نے بھی سواتی مالیوال کے خلاف سول لائنز پولیس اسٹیشن میں ای میل کے ذریعے وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ میں زبر دستی گھسنے اور سی ایم کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بننے جیسے سنگین الزامات عائد کر کے اپنی شکایت بھیجی۔ تاہم، دلی پولیس نے بیبھو کمار کی شکایت کو قابلِ اعتناء نہیں سمجھا۔ بیبھو کمار کی طرف سے دلی پولیس کو بھیجی گئی ای میل شکایت کے بارے میں کہا گیا کہ سواتی مالیوال کو سی ایم کی رہائش گاہ سے باہر آنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے جسمانی تشدد کا سہارا لیا اور جھوٹے مقدمے میں پھنسانے کی دھمکی بھی دی۔ بیبھو کمار نے دلی پولیس سے سواتی مالیوال کے خلاف مناسب قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا، مگر امیت شاہ کے تحت چلنے والی پولیس کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
عآپ اور بی جے پی کی اس رسہ کشی میں بیبھو کمار کی گرفتاری کے بعد ریاستی وزیر آتشی نے اپنی ہی پارٹی کی رکن پارلیمان سواتی مالیوال پر نا جائز بھرتی معاملے میں گرفتاری کے ڈر سے بی جے پی کے ذریعہ ’بلیک میل‘ ہو کر وزیر اعلیٰ کیجریوال کے خلاف سازش رچنے کا الزام لگایا۔آتشی نے بیبھو کمار کی شکایت کے 24 گھنٹے بعد بھی ایف آئی آر درج نہ کرنے پر احتجاج کیا۔ انہوں نے دلی پولیس کو ’بی جے پی کے اسلحہ‘ کے طور استعمال کرکے کیجریوال سمیت عآپ لیڈروں کی شبیہ خراب کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ آتشی نے سوال کیا کہ وہ اندر کیوں گئیں؟ وہ ملاقات کا وقت لیے بغیر وزیر اعلیٰ کی رہائش پر کیوں پہنچیں؟ اس دن اگر اروند کیجریوال مالیوال سے ملے ہوتے تو بیبھو کمار کے خلاف لگائے جانے والے الزامات خود ان کے (کیجریوال کے) خلاف لگائے جا سکتے تھے۔‘‘ آتشی نے مالیوال کو بی جے پی کی ’سازش‘ کا چہرہ بتایا۔ آتشی نے یہ بھی کہا کہ دہلی کی تیس ہزاری عدالت میں پولیس بیبھو کمار کے خلاف داخل شدہ ایف آئی آر پیش نہیں کرسکی اور عدلیہ کے اصرار پر کہا کہ وہ کافی حساس معاملہ ہے اس لیے اسے پیش نہیں کیا جاسکتا۔ عدلیہ کی تاریخ میں شاید یہ پہلا واقعہ ہوگا جب انتظامیہ ایک ایسی ایف آئی آر کو عدالت میں پیش کرنے سے کترا رہا ہے جس پر میڈیا میں جی بھر کے بحث ہوچکی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف دال میں کالا ہے پوری دال ہی کالی ہے۔
بی جے پی نے موجودہ انتخابی مہم میں دوسری بار خواتین کے استحصال کی سازش رچی ہے۔ اس سے قبل سندیش کھالی میں ٹی ایم سی لیڈر شاہجہاں شیخ کو بلی کا بکرا بنایا گیا اور اس میں ہندو-مسلم زاویہ بھی شامل کر دیا گیا تھا۔ سواتی مالیوال کے معاملے میں کم از کم اب تک فرقہ پرستی کا پہلو شامل نہیں ہے مگر آگے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ شاہجہاں کے خلاف کارروائیکی ابتداء میں خواتین کہیں نہیں تھیں۔ اس وقت شاہجہاں پر راشن گھوٹالے کا الزام تھا۔ اسے گرفتار کرنے کے لیے جب ای ڈی کی ٹیم ماہِ جنوری میں اس کے گاؤں پہنچی تھی تو لوگوں نے اسے مارپیٹ کر بھگا دیا تھا۔ اس بنیاد پر چونکہ عوامی جذبات کو بھڑکانا ممکن نہیں تھا اس لیے آگے چل اس میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کو جوڑ کر مسلمان غنڈوں سے ہندو عورت کی عزت بچانے کے لیے کمل کے نشان پر مہر لگانے کی دہائی دی گئی۔ بی جے پی پر جب سارے دروازے بند ہو جائیں تو آخری سہارا مسلمانوں کی مخالفت کا رہ جاتا ہے۔ سمرتی ایرانی سے لے کر وزیر اعظم تک سبھی نے اس واقعے کا خوب فائدہ اٹھایا لیکن وہ غبارہ وقت سے پہلے ہی پھوٹ گیا۔
سندیش کھالی کی تین شکایت کنندہ خواتین میں سے ایک نے سب سے پہلے یو ٹرن لے لیا۔ اس نے ٹائمز آف انڈیا سے کہا کہ اس کے ساتھ کوئی بد سلوکی نہیں ہوئی بلکہ مقامی بی جے پی کے ارکان نے اسے کورے کاغذ پر دستخط کرنے کے بعد پولیس میں شکایت درج کروانے پر مجبور کیا تھا۔ مذکورہ خاتون کا الزام ہے کہ مقامی بی جے پی مہیلا مورچہ اور پارٹی کے دیگر ممبروں نے اس کے گھر آ کر جس کاغذ پر دستخط کرنے کے لیے کہا تھا وہ فرضی شکایت تھی۔ خاتون کے مطابق بعد میں اسے عصمت دری کی شکایت درج کروانے کے لیے پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ اس نے بتایا کہ ٹی ایم سی دفتر کے اندر اسے نہ تو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا تھا اور نہ رات دیر گئے پارٹی کے دفتر جانے پر مجبور کیا گیا تھا۔ الٹا مقامی بی جے پی لیڈروں نے بعد میں سنگین نتائج سے خوفزدہ ضرور کیا تھا۔ اب وہ سندیش کھالی پولیس تھانے میں عصمت دری کے جھوٹے الزام کو واپس لینے کے بعد بی جے پی کے خلاف سماجی بے دخلی کی دھمکی کا حوالہ دے کر ایف آئی آر لکھوا چکی ہے۔ اس طرح گویا بی جے پی کے اس ڈرامے کا پردہ گر گیا ہے۔
ٹی ایم سی نے اس دوران ایک خفیہ ویڈیو جاری کرکے سندیش کھالی کی سازش کو بے نقاب کیا اور الیکشن کمیشن میں بی جے پی لیڈر شوبھیندو ادھیکاری کے خلاف شکایت درج کرائی۔ ان لوگوں نے ادھیکاری سے کیمرے کے سامنے من گھڑت عصمت دری کے الزامات کا اعتراف کرنے کی درخواست کی۔ ایک عورت کے گھر والوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بی جے پی امیدوار ریکھا پاترا نے ذاتی طور پر یہ دھمکی دی کہ اگر شکایت واپس لی جاتی ہے تو بی جے پی ان کے تحفظ کی ذمہ داری نہیں لے گی۔ وہ لوگ چونکہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اس لیے ان کے گھر پر پہرہ بٹھا دیا گیا ہے۔ اور اب حالت یہ ہے کہ فی الحال بی جے پی لیڈر پمپی داس پر گرفتاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ سندیش کھالی کوتو بی جے پی والوں نے ایک بھیانک خواب کی مانند بھلا دیا ہے مگر ان کی جان چھوٹ نہیں رہی ہے کیونکہ اب راج بھون میں بیٹھے ہوئے ان کے گورنر کی عزت داؤ پر لگی ہوئی ہے اور بی جے پی کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ وہ خود اپنا بچاو کر رہے ہیں، بی جے پی کچھ بول تو دیتی ہے لیکن کوئی بڑی حمایت کرتی ہوئی نہیں نظر آتی۔
مغربی بنگال کے گورنر سی وی آنند بوس بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ ان کی کئی کتابیں تہلکہ مچا چکی ہیں اور وہ عالمی شہرت یافتہ انعامات سے بھی نوازے جا چکے ہیں لیکن موجودہ دور میں ان سب کا اعلیٰ اخلاقیات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ پچھلے دنوں گورنر ہاوس کی ایک ملازمہ نے ان پر چھیڑ چھاڑ کا الزام لگا دیا۔ وہ راج بھون میں عارضی عملہ کا حصہ ہے۔ یہ معاملہ ہیر اسٹریٹ پولیس تھانے میں درج ہوا۔ راج بھون میں کام کرنے والی خاتون نے وہاں پہنچ کر گورنر کے خلاف چھیڑ چھاڑ کا الزام عائد کرتے ہوئے تحریری شکایت درج کرائی۔ اطلاعات کے مطابق متاثرہ خاتون نے گورنر پر الزام لگایا کہ انہوں نے دو بار کچھ کام کے سلسلہ میں بات چیت کے لیے بلایا اور دونوں موقعوں پر چھیڑ چھاڑ کی۔ پہلے دن خاتون کسی طرح خود کو بچانے میں کامیاب ہوئی لیکن شکایت والے دن دوبارہ اس خاتون کی ملازمت مستقل کرنے کے بہانے گورنر نے بلایا اور مبینہ طور پر اس کے ساتھ دوبارہ چھیڑ چھاڑ کی۔ گورنر بوس کی اس حرکت کے بعد متاثرہ خاتون پولیس میں شکایت درج کرانے پر مجبور ہوگئی۔
گورنر آنند بوس کی حمایت میں کوئی بڑا ہنگامہ نہیں ہوا تو انہوں نے خود اپنی وکالت شروع کر دی۔ اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہوں نے ایک منجھے ہوئے سیاستداں کی طرح کہا کہ، ’’جیت سچائی کی ہی ہو گی اور وہ من گھڑت بیانیے کے آگے جھکنے والے نہیں ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی انہیں بدنام کر کے الیکشن میں فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو، بھگوان اس کا بھلا کرے، لیکن یہ لوگ مجھے مغربی بنگال میں بدعنوانی اور تشدد کے خلاف میری لڑائی سے روک نہیں سکتے۔ گورنر بوس یہ بھول گئے کہ بدعنوانی اور تشدد سے لڑنے کے لیے مغربی بنگال میں سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور بی جے پی حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کے سبب پیش پیش ہے۔ یہ ان کی آئینی ذمہ داری نہیں ہے مگر چونکہ وہ مرکزی حکومت کا آلۂ کار بن کر صوبائی سرکار کے خلاف کام کر رہے ہیں اس لیے انہیں اپنی ناپاک حرکتوں کا خمیازہ سختی کے ساتھ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
ممتا بنرجی نے اس راز کو فاش کرنے کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا جبکہ وزیر اعظم مودی شب گزاری کے لیے گورنر ہاؤس میں مقیم تھے۔انہیں اگلے دن مغربی بنگال میں تین انتخابی ریلیوں سے خطاب کرنا تھا۔ گورنر ہاؤس میں عارضی ملازمت کرنے والی اس خاتون کو اگر جھوٹا الزام لگانا ہوتا تو وہ گورنر کے بجائے وزیر اعظم کو لپیٹ میں لے سکتی تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس مظلوم خاتون کا الزام ہے کہ آنند بوس نے اسے پہلے 24؍ اپریل کو اور پھر اگلے دن اپنے دفتر میں طلب کیا۔ پہلے دن اس کے جسم کو ہاتھ لگایا اور دوسرے دن گالوں پر ہاتھ پھیرا۔ اس پیش رفت کے بعد ریاست کی حکم راں پارٹی ترنمول کانگریس اور مرکز میں حکم راں پارٹی بی جے پی کے درمیان لفظی جنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ اور معروف صحافی ساگریکا گھوش نے سوشل میڈیا پر لکھا، ’’گورنر سی وی آنند بوس کے خلاف دست درازی کے الزامات نے راج بھون کا وقار داؤ پر لگا دیا ہے۔ وزیر اعظم مودی راج بھون میں قیام پذیر ہیں، کیا وہ آنند بوس سے وضاحت طلب کریں گے؟‘‘
ترنمول کانگریس نے اپنے آفیشیل سوشل میڈیا اکاونٹ پر لکھا، ’’راج بھون دست درازی معاملے میں بھیانک تفصیلات سامنے آرہی ہیں۔ متاثرہ خاتون نے انکشاف کیا ہے کہ دیگر خواتین کو بھی اسی طرح ہراساں کیا گیا۔ اگر وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ ‘ناری کا سمّان‘ (خواتین کی عزت) پر یقین رکھتے ہیں تو انہیں ان متاثرین کو انصاف دلانا چاہیے۔‘‘ مرتا کیا نہ کرتا بی جے پی کو گورنر آنند بوس کے دفاع میں آگے آنا پڑا۔ چنانچہ اس نے اسے ترنمول کانگریس کا سیاسی ڈرامہ قرار دیا۔ مغربی بنگال میں بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش نے ممتا بنرجی سے سوال کیا کہ ان کی پارٹی آئینی عہدوں کو توہین کرنے میں اور کتنا گرے گی؟ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر دستوری عہدے پر فائز شخص خود اپنے وقار کو پامال کرنے پر تل جائے تو اس کی مدد کون کر سکتا ہے؟ دلیپ گھوش نے الزام لگایا کہ ”یہ ترنمول کانگریس کی سیاست ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، مجھے نہیں معلوم وہ اور کتنا نیچے گرے گی۔ وہ صدر کی توہین کرتی ہے، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی توہین کرتی ہے اور اب گورنر کی توہین کر رہی ہے۔ یہ اس کا طرز عمل ہے۔ اس لیے اب اسے اقتدار سے الگ ہو جانا ہی چاہیے۔‘‘ دلیپ گھوش، وزیر اعظم نریندر مودی کے اسٹیج پر سے ’دیدی او دیدی‘ اور ۲؍ مئی دیدی گئی جیسے تضحیک آمیز نعرے بھول گئے ہیں۔ وزیر اعظم اگر اس وقت اتنا نہیں گرتے تو ممتا کو بھی انہیں ترکی بہ ترکی جواب دینے کی نوبت نہیں آتی۔
مغربی بنگال کے گورنر سی وی آنند بوس کو رسوائی اور بدنامی کا سلسلہ ایک نئے الزام سے مزید دراز ہوگیا۔ ان کی مشکلات میں اس وقت اضافہ ہوا جب ایک بار ڈانسر نے ان پر بدسلوکی کا سنگین الزام عائد کر دیا۔ پولیس تھانے میں درج رقاصہ کی شکایت کے مطابق کچھ ماہ قبل وہ ایک مشہور موسیقار کے توسط سے کولکاتا کے راج بھون گئی تھیں۔ وہاں گورنر سے بات چیت کے دوران رقاصہ نے ان کے سامنے اپنے مسائل رکھے تو ان انہوں نے اس کے حل کے لیے ایک افسر سے ملوانے کا وعدہ کیا گیا۔رقاصہ کا دعویٰ ہے کہ اس کے بعد گورنر اسے دلی لے گئے اور ایک ہوٹل میں اس کے ساتھ بدسلوکی کی۔ متاثرہ نے کچھ ماہ قبل کولکاتا پولیس میں بھی اپنی شکایت درج کرائی تھی، لیکن کولکاتا پولیس نے جب جانچ رپورٹ ریاستی سکریٹریٹ کو بھیجی تو یہ معاملہ سامنے آگیا۔ رقاصہ کے مطابق دہلی کے ہوٹل میں پیش آئے اس واقعے کے فوراً بعد اس نے پولیس کمشنر سے اپنی شکایت کر دی تھی۔
گورنر آنند بوس کو آئین کے تحت جو تحفظ حاصل ہے اس کی وجہ سے گورنر کے عہدے پر بر قرار رہنے تک ان کے خلاف نہ کوئی کارروائی ہو سکے گی نہ مقدمہ چلایا جا سکے گا اس لیے گرفتاری اور قید سے بے خوف اس قسم کے لوگ جو دل میں آئے کر گزرتے ہیں۔ اس کے باوجود گورنر سی وی آنند بوس نے راج بھون میں پولیس کے داخلے پر پابندی لگا کر ایک ریاستی وزیر کو پہلے سے طے شدہ ملاقات کے باوجود آنے کی اجازت نہیں دی جو چور کی داڑھی میں تنکے کی علامت ہے۔ سندیش کھالی میں بی جے پی کی رسوائی کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ کرناٹک میں پرجول ریوَنّا کے پونے چار ہزار ویڈیوز منظر عام پر آگئے۔ اس کے اس گھناؤنے جرم سے واقفیت کے باوجود وزیر اعظم مودی نے اس کے لیے ووٹ مانگے اور کہا کہ اس کو ملنے والا ہر ووٹ ان کی طاقت بڑھائے گا۔ میڈیا میں جب مودی اور پرجولا ریوَنّا کی تصاویر شائع ہونے لگیں تو سب کو پتہ چل گیا کہ ہندو خواتین کس کے ظلم کا شکار ہیں اور ظالموں کو کس کی حمایت حاصل ہے؟
یہ معاملہ ابھی سرد بھی نہیں ہوا تھا کہ حکومت کے خواتین پہلوانوں کا جنسی استحصال کرنے والے برج بھوشن کے آگے جھکنے کی خبر آگئی۔ پہلے تو ٹال مٹول کرکے اسے سمجھانے کی کوشش کی گئی مگر وہ نہیں مانا اور آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا تو یوگی، شاہ اور مودی سب ڈر گئے۔ برج بھوشن سنگھ کے ساتھ مصالحت کرکے اس کے بیٹے کرن سنگھ کو ٹکٹ سے نواز دیا گیا۔ اس طرح ان لوگوں نے سوچا کہ سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی مگر سچائی یہ ہے کہ اژدہے کو نئی زندگی مل گئی اور بی جے پی کا سر پھٹ گیا۔ پرجولا ریوَنّا بھی سابق وزیر اعظم کا پوتا ہے۔ اس کا پِتا سابق ریاستی وزیر اور چچا سابق وزیر اعلیٰ ہے۔ ان لوگوں کی سرپرستی نے ہی اسے سفاک مجرم بنادیا۔ بعید نہیں کہ برج بھوشن، یوگی اور مودی کا آشیرواد کرن سنگھ کو ایک خطرناک بھیڑیے میں تبدیل کر دے۔
ملک میں ایک خواتین کا کمیشن ہے، اس کی سربراہ ریکھا شرما سندیش کھالی معاملے میں تو بہت بولتی تھیں مگر گورنر بنگال پر خاموش ہیں۔ برج بھوشن اور پرجولا ریوَنّا پر بھی ایسی ہی پر اسرار خاموشی تھی مگر سواتی مالیوال پھر سے بیدار ہوگئیں اور سوشل میڈیا پر خبر دیکھ کر از خود نوٹس لیا۔ موجودہ حکومت کا خواتین اور کمیشن کا اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا قابلِ مذمت ہے۔ اس سے خواتین غیر محفوظ ہوجاتی ہیں اور ان کی عزت و وقار کو لاحق خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کی روک تھام ہونی چاہیے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
گورنر آنند بوس کو آئین کے تحت جو تحفظ حاصل ہے اس کی وجہ سے گورنر کے عہدے پر بر قرار رہنے تک ان کے خلاف نہ کوئی کارروائی ہو سکے گی نہ مقدمہ چلایا جا سکے گا اس لیے گرفتاری اور قید سے بے خوف اس قسم کے لوگ جو دل میں آئے کر گزرتے ہیں۔ سندیش کھالی میں بی جے پی کی رسوائی کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ کرناٹک میں پرجول ریوَنّا کے پونے چار ہزار ویڈیوز منظر عام پر آگئے۔ اس کے اس گھناؤنے جرم سے واقفیت کے باوجود وزیر اعظم مودی نے اس کے لیے ووٹ مانگے اور کہا کہ اس کو ملنے والا ہر ووٹ ان کی طاقت بڑھائے گا۔ یہ معاملہ ابھی سرد بھی نہیں ہوا تھا کہ حکومت کے خواتین پہلوانوں کا جنسی استحصال کرنے والے برج بھوشن کے آگے جھکنے کی خبر آگئی کہ اس سے مصالحت کرکے اس کے بیٹے کرن سنگھ کو ٹکٹ سے نواز دیا گیا۔ اس طرح ان لوگوں نے سوچا کہ سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی مگر سچائی یہ ہے کہ اژدہے کو نئی زندگی مل گئی اور بی جے پی کا سر پھٹ گیا۔ پرجولا ریوَنّا بھی سابق وزیر اعظم کا پوتا ہے۔ اس کا پِتا سابق ریاستی وزیر اور چچا سابق وزیر اعلیٰ ہے۔ ان لوگوں کی سرپرستی نے ہی اسے سفاک مجرم بنادیا۔ بعید نہیں کہ برج بھوشن، یوگی اور مودی کا آشیرواد کرن سنگھ کو ایک خطرناک بھیڑیے میں تبدیل کر دے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مئی تا 1 جون 2024