صنعتی پیداوار 26ماہ کی کمترین سطح پر

نجی شعبہ میں سرمایہ کاری کا فقدان۔معاشی نمو پر برآمدات میں مسلسل کمی کا اثر

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

معیشت کے لیے نیا سال اور بھی کٹھن ہوسکتا ہے: رگھورام راجن
انڈیکس آف انڈسٹریل پروڈکشن (IIP) کی پیمائش سے پتہ چلتا ہے کہ صنعتی آؤٹ پٹ 26 مہینوں کے بعد چار فیصد کی تنزلی کے ساتھ اکتوبر میں کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے ساتھ ہی مینو فیکچرنگ اور کنزیومر گڈس میں بھی بڑی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ نیشنل اسٹیٹسکل آفس کے شائع کردہ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ کمزور برآمدات اور سست کھپت کی مانگ کے ساتھ چھوٹی اور متوسط تجارتوں میں مسلسل کمزوری دکھائی دے رہی ہے۔ این ایس او کے علیحدہ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ خوردہ انفلیشن گیارہ ماہ کے بعد 5.88 فیصد ہو کر نومبر میں نچلی سطح پر آگیا ہے جو آر بی آئی کی قوت برداشت کے خط (+/-2) 4 سے قدرے اوپری سطح پر قائم ہے۔ چونکہ خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں کمی آئی ہے اس لیے ملک میں برامدات میں کمی اور کمزور کنزمپشن ڈیمانڈ کی وجہ سے مجموعی انڈیکس 129.6 پر پہنچ گیا جب کہ کورونا قہر کے دوران اسی اکتوبر 2020-21میں تقریباً ایسی ہی حالت تھی مگر 2021-22میں یہ انڈیکس 135 درج کیا گیا ہے۔ مینو فیکچرنگ آؤٹ پٹ جو IIP کے پیمانے پر 7786 فیصد ہوتا ہے وہ اکتوبر میں 5.6 فیصد تک سکڑ گیا جب کہ گزشتہ سال اسی مدت میں 3.20 فیصد شرح نمو درج کی گئی تھی۔ سب سے زیادہ تیزی ملبوسات، برقی ساز و سامان، سوتی کپڑے، ادویات اور چمڑے سے منسلک پروڈکٹس کے شعبوں میں آئی ہے۔ یہ وہ شعبہ جات ہیں جہاں سے برآمدات بہت زیادہ ہوتی ہیں مگر ان کی پیداوار چھوٹے اور متوسط انٹرپرائزیز کے ذریعے بھی ہوتی ہے۔ اگرچہ انڈسٹریل آوٹ پٹ بڑی تیزی سے کمزور پڑ رہا ہے مگر شعبہ خدمات کی نمو میں بہترین مظاہرہ ہو رہا ہے۔ اسی وجہ سے ہماری معاشی شرح نمو میں بڑی چمک نظر آرہی ہے۔ آئی آئی پی کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ عالمی مینو فیکچرنگ کی سستی کا اثر ملک میں محسوس کیا جا رہا ہے۔ خوردہ انفلیشن (Retail Inflation) میں لگاتار دو ماہ اکتوبر 2022 کے 6.77 فیصد سے نومبر 2022 میں کمی ہو کر 5.88 فیصد پر پہنچ گیا۔ یہ انفلیشن گزشتہ سال نومبر میں 4.91 فیصد تھا ۔
فی الحال غذائی اجناس، دالیں اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں نرمی آئی ہے۔ حکومت نے چند ضروری قدم اٹھائے ہیں۔ اس کے اثرات آئندہ ماہ بھی مزید بہتر ہو سکتے ہیں۔ خوردنی انفلیشن جو سی پی آئی باسکٹ کا 47 فیصد ہوتا ہے اس میں اکتوبر کے 7.01 فیصد کے مقابلے میں 4.67 فیصد نومبر میں نرمی درج کی گئی ہے جبکہ ایندھن میں انفلیشن 9.93 فیصد سے بڑھ کر 10.62 فیصد ہو گیا ہے۔ سابق ماہر شماریات برنب سین کا تاثر ہے کہ مینو فیکچرنگ کی تنزلی کے ایم ایس ایم ای اور برآمدات پر خراب اثرات پڑتے ہیں۔ مینوفیکچرنگ شعبہ میں زیادہ خرچ کیے جانے کے باوجود بازار میں اس کے بہتر نتائج نہیں نکل رہے ہیں۔ دوسری سہ ماہی کی بھی جی ڈی پی سے بھی پتہ چلتا ہےکہ معیشت (مریض) کا حال اچھا نہیں ہے۔ ملک میں حسب ضرورت سرمایہ کاری بھی نہیں ہو رہی ہے اس لیے نجی شعبہ میں سرمایہ کاری کا زبردست فقدان ہے۔ بینک آف برودہ کے چیف اکانومسٹ مدنے سینویس کے مطابق کنزیور گڈس بھی تنزلی کا شکار ہے جس کی وجہ سے کھپت میں طلب (Consumption Demand) نہایت ہی کمزور ہے خصوصاً دیہی علاقوں میں۔
بھارتی ریزرو بینک کے سابق گورنر پروفیسر رگھو رام راجن نے ملکی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے راہول گاندھی سے بھارت جوڑو یا ترا کے دوران گفتگو میں کہا کہ ہمارا ملک خوش قسمت ہو گا اگر وہ آئندہ سال پانچ فیصد شرح نمو کے ساتھ بڑھتا ہے۔ سابق گورنر نے کہا کہ آئندہ سال جاریہ سال سے زیادہ مشکل ہو سکتا ہے کیوں کہ روس-یوکرین جنگ سے کئی مشکلات در پیش ہیں اور دنیا کی شرح نمو سست رہنے والی ہے ترقی یافتہ ممالک کے مرکزی بینک مسلسل اپنے شرح سود میں اضافہ کر رہے ہیں جس سے نمو میں تنرلی آئی ہے اور بھارت کو بھی بہت جلد جھٹکا لگنے والا ہے کیوں کہ یہاں بھی شرح سود میں اضافہ کیا گیا ہے اور برآمدات میں گراوٹ دیکھی جارہی ہے۔ ہمارے ملک میں کموڈیٹی کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے سبزیوں میں مہنگائی کا مسئلہ ہے جو نمو کو منفی سمت لے جائے گا۔ ہمارے ملک کے شرح نمو کے ڈیٹا میں مشکل یہ ہے کہ ہم شرح نمو کو کس کے مقابلے ناپ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کی ہماری سہ ماہی بہت بری تھی اور لوگ اسی سے موازنہ کرتے ہوئے حساب لگاتے ہیں جو بظاہر بہت اچھا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بجائے ہم ماقبل کورونا قہر 2019 میں جا کر دیکھیں تو موجودہ حالت کا صحیح نقشہ سامنے آئے گا۔ دوسری طرف ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں عدم مساوات کافی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ملک میں چار پانچ افراد مزید امیر ہو رہے ہیں۔ یہاں دو بھارت بن رہے ہیں۔ ایک غریبوں اور کسانوں کا دوسرا ہانچ چھ بڑے سرمایہ داروں کا۔ یہ ایک حقیقت ہے کورونا وبا کےدوران امیروں کی آمدنی بڑھ گئی کیوں کہ وہ گھر سے کام کرتے تھے مگر غریبوں کو فیکٹری اور کاخانوں کو جانا ہوتا تھا جو بند تھے۔ اس سے ان کی آمدنی بند ہو گئی۔ویسے ہمارا ملک زراعت پر زیادہ انحصار کرتا ہے اور وہیں سے سبز انقلاب آسکتا ہے۔ اس کے لیے پروسیسنگ پر دھیان دینا ہو گا۔ مسٹر راجن نے کہا کہ مقامی مزدوروں کو وہیں استعمال کریں جہاں آسانی سے دستیاب ہیں، اس کے لیے کھیتوں میں پروسیسنگ یونٹ کا قیام عمل میں آئے تو اس سے توانائی کی بچت ہو گی۔ ترقی یافتہ ممالک مثلاً امریکہ میں مہنگائی کافی بڑھ رہی ہے اور اسے قابو میں کرنے کے لیے مرکزی بینکس شرح سود بڑھا رہے ہیں۔ اس سے ہمارا اکسپورٹ مزید کم ہو جائے گا۔ نتیجتاً پیداوار کی رفتار میں سستی آئے گی۔ ہمارے یہاں کسانوں کے بڑے مسائل ہیں۔ کسان کہتے ہیں کہ جیسے ہی ان کی فصل آتی ہے وزارت تجارت درآمدات اور برآمدات پر فیصلہ کرتی ہے جس سے ان کے فصل کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ امپورٹ اور اکسپورٹ ان کے حق میں نہیں ہوتا اس لیے امپورٹ اور اکسپورٹ کی پائیدار پالیسی ہونی چاہیے۔ اگر دام بڑھتے ہیں تو امپورٹ کیا جانا چاہیے مگر ایکسپورٹ پر پابندی نہیں لگنی چاہیے۔ رگھو رام راجن نے مزید کہا کہ ملک کے لیے روز گار ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ پرائیوٹ سیکٹرس کو ٹکنالوجی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے تاکہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں۔
دوسری طرف دوسری سہ ماہی میں ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (سی اے ڈی) برآمدات میں تنزلی اور خام تیل میں اضافہ کے سبب 37 سہ ماہیوں کی اونچی سطح پر پہنچ سکتا ہے۔ گزشتہ سال اسی مدت میں سی اے ڈی 1.3 فیصد یا 9.7 ارب ڈالر تھا۔ اس سے قبل 20212-13 کی تیسری سہ ماہی میں 31.8 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ انڈیا ریٹنگس کی رپورٹ کے مطابق جاریہ مالیاتی سال کی پہلی ماہی میں یہ خسارہ 23.9 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا 2.8 فیصد تھا۔ ایجنسی کو توقع ہے کہ اشیا کا ایکسپورٹ مالیاتی سال 2022-23 کی تیسری سہ ماہی آٹھ سہ ماہیوں کی نچلی سطح 83.2 ارب ڈالر تک کم ہو جائے گا۔ ساتھ ہی تجارتی خسارہ (برآمدات اور درآمدات کا فرق) تیسری سہ ماہی میں 83.7 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گا۔
ادھر دو دنوں میں گھریلو شیئر بازار کے کاروبار میں جاری گراوٹ کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو چھ لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ بھارتی شیئر بازار میں سنسیکس میں جمعرات کو 878.88 پوائنٹ کی تنزلی درج کی گئی ہے اور جمعہ کو 461.22 پوائنٹس کی گراوٹ آئی۔ اس طرح ہفتہ کے آخری دو کاروباری ایام میں سنسیکس میں کل 340.10 پوائنٹس کی تنزلی درج کی گئی۔ اس طرح نفٹی میں جمعرات کو 245.40 اور جمعہ کو 145.9 پوائنٹس کی گراوٹ درج کی گئی۔ کل ملا کر نفٹی بھی دو دنوں میں 491.30 پوائنٹس ٹوٹ چکا ہے جس کے سبب شیئر بازار کے سرمایہ کاروں کا زبردست نقصان ہوا۔

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 ڈسمبر تا 31 ڈسمبر 2022