ہم جنس شادی: وکلا کی تنظیم اور وشو ہندو پریشد نے سپریم کورٹ میں اس مسئلے کی سماعتوں کی مخالفت میں قراردادیں پاس کیں
نئی دہلی، اپریل 25: ہندوتوا گروپ وشو ہندو پریشد کے لیگل سیل اور دہلی کی آل ڈسٹرکٹ کورٹس بار ایسوسی ایشنز کی کوآرڈینیشن کمیٹی نے پیر کو سپریم کورٹ میں ہم جنس شادیوں کے معاملے پر سماعت کے خلاف الگ الگ قراردادیں منظور کیں۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی آئینی بنچ 18 اپریل سے اس کیس میں دلائل سن رہی ہے اور عدالت نے گذشتہ ہفتے کی سماعتوں کے دوران کئی اہم باتیں کہی ہیں۔
نریندر مودی حکومت نے ان درخواستوں کی مخالفت کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہم جنس شادیاں خاندان کے ہندوستانی تصور سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں اور ان کی قانونی شناخت کے مطالبات صرف ’’سماجی قبولیت کے مقصد کے لیے شہری اشرافیہ کے خیالات‘‘ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
حکومت نے یہ بھی کہا کہ شادی کے بارے میں قانون بنانا مقننہ کا استحقاق ہے اور اس لیے عدلیہ کی اس میں مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔
اپنی قرارداد میں وشو ہندو پریشد کے قانونی سیل نے پیر کو کہا کہ LGBTQIA+ کمیونٹی اسپیشل میرج ایکٹ 1954 کے اندر ایک حق پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جب یہ صرف ’’مرد اور عورت‘‘ پر لاگو ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ قانون کی کسی بھی شق کو ختم کرنے یا کسی خاص شق کو شامل کرنے کی کوششیں ’’واضح طور پر قانون کو دوبارہ لکھنے اور پارلیمنٹ سے قانون سازی کا اختیار حاصل کرنے کے مترادف ہوں گی۔‘‘
انھوں نے مزید کہا ’’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستان پر آئین کے تحت حکومت کی جارہی ہے اور آئین میں اختیارات کی واضح علاحدگی ہے، [جیسا کہ] قانون سازی کا کام پارلیمنٹ اور ریاستی مقننہ کو سونپا گیا ہے نہ کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس کو۔‘‘
ہندوتوا گروپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ موجودہ معاملہ واضح طور پر پارلیمنٹ کے اختیارات پر قبضہ کرنے کی کوشش ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کی مخالفت کرتے ہوئے تنظیم نے کہا کہ شادی محض دو ہم جنس پرستوں کا ملاپ نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد نسل انسانی کی ترقی ہے۔
ہندوتوا تنظیم نے دعویٰ کیا کہ ہندوستانی ثقافتی تہذیب پر ’’صدیوں سے مسلسل حملے ہوتے رہے ہیں لیکن وہ تمام مشکلات کے باوجود زندہ رہی ہے۔‘‘
قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اب آزاد ہندوستان میں اسے مغربی افکار، فلسفے اور طرز عمل کی بالادستی سے اپنی ثقافتی جڑوں پر حملوں کا سامنا ہے جو اس قوم کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔‘‘
دریں اثنا وکلا کی ایک تنظیم کا بھی کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو مقننہ کو اس کا فیصلہ کرنے دینا چاہیے۔
دہلی کی آل ڈسٹرکٹ کورٹ بار ایسوسی ایشنز نے اپنی قرارداد میں کہا کہ ہم جنس شادی کے معاملے کو مقننہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔
وکلاء کی باڈی نے اپنی قرارداد میں کہا کہ ’’یہ ضروری ہے کہ ایسے مسائل جو معاشرے کو بڑے پیمانے پر متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے جہاں منتخب نمائندے اپنے حلقوں کے خیالات اور خدشات کو مدنظر رکھ سکیں‘‘۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے ہونے والی کارروائی کے سماجی اثرات بہت زیادہ ہیں اور اس کے ’’سماجی تانے بانے پر غیر ارادی اثرات کے امکانات‘‘ ہیں۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن کچھ مسائل ایسے ہیں جن کے دور رس نتائج ہیں اور انھیں عدالتوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
یہ پیش رفت بار کونسل آف انڈیا کی جانب سے ایک ایسی ہی قرارداد منظور کرنے کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو ہم جنس شادی کے مسئلے کو پارلیمنٹ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس نے دعوی کیا کہ ’’ملک کے 99.9 فیصد سے زیادہ لوگ‘‘ اس طرح کی یونینوں کے مخالف ہیں۔
بار کونسل آف انڈیا کی قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ آبادی کی اکثریت کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے درخواست گزاروں کے حق میں فیصلہ ہندوستان کے ثقافتی اور ملک کے سماجی مذہبی ڈھانچے کے خلاف جائے گا۔