ہم جنس شادی: بار کونسل نے سپریم کورٹ سے معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑنے کے لیے کہا

نئی دہلی، اپریل 24: بار کونسل نے اتوار کو ایک قرارداد منظور کی جس میں سپریم کورٹ پر زور دیا گیا کہ وہ ہم جنس شادی کے معاملے کو مقننہ پر چھوڑ دے۔

قانونی ادارے نے دعویٰ کیا کہ ’’ملک کے 99.9 فیصد سے زیادہ لوگ ہم جنس شادی کے خیال کے مخالف ہیں۔‘‘

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں ایک آئینی بنچ بھارت میں ہم جنس شادیوں کے لیے قانونی دفعات کی درخواستوں کے ایک بیچ کی سماعت کر رہی ہے۔

درخواست گزاروں نے ان قوانین کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے جو صرف مرد اور عورت کے درمیان شادیوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ انھوں نے استدلال کیا ہے کہ یہ دفعات LGBTQIA+ کمیونٹی کے خلاف امتیازی ہیں اور ان کے وقار اور رازداری کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

مرکز نے ان درخواستوں کی مخالفت کی ہے جس میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ ہم جنس شادیوں کا ’’ہندوستانی خاندانی اکائی کے تصور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

مرکزی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ درخواستیں صرف ’’سماجی قبولیت کے مقصد کے لیے شہری اشرافیہ کے خیالات‘‘ کی نمائندگی کرتی ہیں۔

اتوار کو بار کونسل نے کہا کہ ہم جنس شادی کا موضوع ’’انتہائی حساس‘‘ ہے اور اس میں ’’سماجی، مذہبی اور ثقافتی مسائل‘‘ ہیں جن کے لیے وسیع پیمانے پر مشاورت کی ضرورت ہے۔

بار کونسل نے کہا کہ اس وقت ملک کا ہر ذمے دار اور سمجھ دار شہری اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ آبادی کی اکثریت کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کا درخواست گزاروں کے حق میں کوئی بھی فیصلہ ملک کے ثقافتی، سماجی اور مذہبی ڈھانچے کے خلاف جائے گا۔

بار کونسل نے اپنے بیان میں کہا ’’بار کونسل کے مشترکہ اجلاس کی واضح رائے ہے کہ اگر معزز سپریم کورٹ اس معاملے میں کوئی لاپرواہی ظاہر کرتی ہے تو اس کا نتیجہ آنے والے دنوں میں ہمارے ملک کے سماجی ڈھانچے کو غیر مستحکم کرنے کی صورت میں نکلے گا۔ معزز عدالت عظمیٰ سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ملک کے عوام کے جذبات اور مینڈیٹ کی قدر کرے اور اس کا احترام کرے۔‘‘

گذشتہ ہفتے مرکز نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ وہ تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو اس کیس میں فریقین کے طور پر شامل کرے۔

حلف نامے میں استدعا کی گئی کہ عدالت ریاستوں کے موقف کو ریکارڈ پر لے۔