سماجی تنظیموں کے ذریعہ گجا پور کا جائزہ اور حکومت سے مطالبات

منصوبہ بند دہشت گردانہ حملے کو غیر متوقع فساد کی شکل دینے کی سازش بے نقاب

کولہاپور (دعوت نیوز ڈیسک)

مہاراشٹر میں نفرت انگیز تقاریر کے سنگین نتائج، لمحہ فکریہ۔ حکومت فوری ایکشن لے
پچھلے دنوں گجا پور (کولہاپور) میں جو دہشت گردانہ حملہ کیا گیا اس کا جائزہ لینے کے لیے متعدد سماجی سوسائیٹیوں، اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سیول رائٹس مہاراشٹرا (APCR) اور سنٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرزم (CSSS) کی فیکٹ فینڈنگ ٹیم اور جماعت اسلامی ہند کے وفد نے علاقے کا دورہ کیا اور متاثرین سے گفتگو کی، خاص طور پر تین سو سال پرانی جامع مسجد رضا کے ٹرسٹ کے چیئرمین سراج قاسم پربھولکر اور دیگر گاؤں والوں سے کولہاپور میں ملاقاتیں کی گئیں۔ اس جائزے کے دوران جو حقائق سامنے آئے ان کا خلاصہ پیش ہے:
• حملہ پہلے سے منصوبہ بند تھا۔ گاؤں کے مسلمان وہاں کئی نسلوں سے آباد ہیں۔ انہوں نے غیر قانونی طور پر زمین پر قبضہ نہیں کیا، ان کے پاس زمینوں اور مکانوں کے کاغذات ہیں، مسجد کے کاغذات بھی ہیں۔ اس گاؤں کے مسلمان مردوں کی بڑی تعداد ممبئی اور دیگر مقامات پر کام کرتی ہے۔ وہ تہواروں میں گھر والوں سے ملنے آتے ہیں۔ ان کا وشال گڑھ کے غیر قانونی اسٹالوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
• حملہ آوروں کے ہاتھوں میں تلواریں، ہتھوڑے، کدال، سلاخیں اور لوہے کے پائپ وغیرہ تھے۔
• اس حملے کا مقصد سیاسی اور فرقہ وارانہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ حملہ اس وقت ہوا جب اسمبلی انتخابات قریب آ رہے ہیں اور خاص طور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا جن کا تجاوزات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ گجا پور گاؤں وشال گڑھ سے پانچ کلومیٹر دور ہے۔ صرف انہی پر حملہ اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ مسلمان تھے۔
• تمام حملہ آور باہر کے لوگ تھے۔ کچھ میٹنگیں پہلے ایک مقامی شخص نارائن پانڈورنگ ویلہار کے گھر رویندر پڈوال کی پہل پر ہوئی تھیں، جس کا نام بھی ایف آئی آر میں درج ہے۔
• جب پہلی مرتبہ نارائن پانڈورنگ ویلہار کا نام ایف آئی آر میں لکھایا گیا تو پولیس نے قبول نہیں کیا تھا۔اس سے اس کے مقامی اثر و رسوخ کا پتہ چلتا ہے۔
• پولیس نے وہ چوکسی نہیں برتی جو اسے برتنی چاہیے تھی۔ پولیس کو اسی وقت ناکہ بندی کرنی چاہیے تھی مگر اس نے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ اس لاپروائی کی وجہ سے گجا پور کے اکتالیس مکانوں دس دکانوں اور تین سو سال پرانی مسجد سمیت کل بیالیس تعمیرات منہدم کی گئیں۔ اس کے علاوہ سترہ بڑی چونتیس چھوٹی گاڑیوں سمیت جملہ اکیاون گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ یہ حملہ دو پہر بارہ بجے سے شام پانچ بجے تک جاری رہا۔ ایک گھر سے چھیانوے ہزار روپے اور چھ تولے سونا لوٹ لیا گیا۔ دیگر دو گھروں سے تین تولے سونا اور کچھ رقم لوٹ لی گئی۔ ٹی وی، الماری، فریج اور لائٹ کنکشن تباہ کر دیے گئے۔ قرآن پاک کا ایک نسخہ جلا دیا گیا۔ مسجد میں توڑ پھوڑ کی گئی اور قبرستان کی دیوار بھی گرا دی گئی۔ ایک مسلم خاتون، جس نے یاترا میں شامل لوگوں کو پانی پلایا اور ان کے مانگنے پر چھتری اور رین کوٹ بھی دیا کیونکہ بارش ہورہی تھی، جواب میں ان احسان فراموشوں نے اسی خاتون کے گھر میں موجود دو گیس سلینڈروں کو جلا کر گھر کو پوری طرح نذرِ آتش کردیا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچائی۔ جلوس میں پندرہ ہزار لوگ تھے لیکن تقریبا پندرہ سو لوگوں نے حملہ کیا۔
• وزیر اعلی ایکنا تھ شندے اور وزیر داخلہ دیویندر پھڈنویس نے حملے پر کچھ کہے بغیر وشال گڑھ سے غیر قانونی تعمیرات ہٹانے کا وعدہ کیا اور وشال گڑھ پر پینتیس غیر مجاز دکانوں کو منہدم کر دیا جیسا کہ پندرہ جولائی کو موجودہ خط میں بتایا گیا ہے۔
• پرتشدد ہجوم نے پولیس پر بھی حملہ کیا جس میں گیارہ پولیس والے زخمی ہوئے۔ مسلمانوں جان بچا کر جنگل میں چلے گئے تھے ورنہ ان کی جانوں کو خطرہ ہو سکتا تھا۔ ان میں سے ایک شخص یعقوب محمد پربولکر معذور تھا اور اس کی ٹانگ میں دو فریکچر اور ایک بازو میں فریکچر ہو گیا تھا جو اب شہر میراج کے ڈاکٹر برانی کے ہسپتال میں زیر علاج ہے۔
• بعض ہندو، سنجے پاٹل، راجو کامبلے، منگیش کامبلے، پانڈورنگ کونڈے، ماروتی نبیل اور چندر کانت کوکرے گجا پورگاؤں کے مسلمانوں کی ہمت بندھانے کے لیے آئے اور ان کو کھانا پیش کیا۔
وفد کے مطالبات :
• سب سے پہلے گجاپور کے لوگوں کو حکومت کی طرف سے فوری طور پر معاوضہ دیا جائے۔ فی الوقت حکومت نے فی گھر پچیس تا پچاس ہزار روپے کے چیکس تقسیم کیے ہیں جو کہ بالکل ناکافی ہیں۔
• ہر نقصان کا الگ الگ ایف آئی آر درج ہونا چاہیے۔
• ایس آئی ٹی سے ہائی کورٹ کی نگرانی میں تحقیقات کرائی جائیں، ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا جائے اور انہیں کڑی سزادی جائے۔
• اس بات کی بجی تحقیقات ہونی چاہیے کہ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ کون ہے؟
• مہاراشٹر میں ہندتوادی لیڈروں اور بی جے پی کے دیگر ایم ایللوں کی طرف سے کئی نفرت انگیز تقاریر کی گئی ہیں۔ اس معاملے میں مہاراشٹر ملک میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہاں ماحول کبھی بھی تشدد میں بدل سکتا ہے لہٰذا حکومت نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کرے۔
اس فیکٹ فائنڈنگ کا اہتمام جن اداروں نے مشترکہ طور پر کیا تھا اس میں انجینئر عرفان، ڈائریکٹر، سنٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکیولرزم ممبئی محمد اسلم غازی، ایگزیکٹو صدر ای پی سی آر، عبد المجیب سکریٹری جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر، ایڈووکیٹ ابھے ٹکسال، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اورنگ آباد، مظہر فاروق ممبرا، ا ے پی سی آر، روی پاٹل، اکیڈمی آف سیکولر تھکس اینڈ ہیومینٹی، اسماعیل شیخ جماعت اسلامی ناظم ضلع کولہاپور، اشفاق پٹھان سکریٹری رابطہ عامہ ایس آئی او، جنوبی مہاراشٹر،معراج صدیقی مسلم نمائندہ کونسل اورنگ آباد، پریتیم گھنگھاوے، ٹیچر متھیلا راوت، سنٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم وغیرہ اس ٹیم کا حصہ تھے۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024