!سماجی کارکنوں پر حکومتی عتاب۔ چہ معنی دارد
کیا جمہوری ملک میں حقوقِ انسانی کے لیے جدوجہد جرم ہے؟
لکھنؤ (دعوت نیوز بیورو)
سماجی جہدکاروں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کی مہم قابل مذمت
اختلاف رائے پر پولیس اور انتظامیہ کی کارروائیاں اظہار آزادی کا حق چھیننے کے مترادف
حقوق انسانی کے کارکن، سماجی جہد کار اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سِول رائٹس (اے پی سی آر) کے قومی سکریٹری ندیم خان کو دہلی ہائی کورٹ سے حالانکہ راحت مل گئی ہے، عدالت نے کمیونٹیز کے درمیان عداوت و رقابت پیدا کرنے اور مجرمانہ سازش رچنے کے الزام میں انہیں گرفتار کرنے پر روک لگادی ہے مگر یہ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ آخر کیوں حکومت سے اختلاف کرنے والے جہد کاروں اور تنظیموں پر پولیس و حکومت کا عتاب بڑھتا جا رہا ہے اور کیوں انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنا اور مظلوموں کو انصاف دلانا جرم بن گیا ہے؟
کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے گزشتہ گیارہ دسمبر کو ہاتھرس (اترپردیش) جاکر گینگ ریپ سے متاثرہ دلت کنبہ سے ملاقات کی۔ ہاتھرس میں ۱۴ ستمبر ۲۰۲۰ کوایک دلت خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا تھا اور ۲۹ ستمبر کو دہلی کے ایک ہسپتال میں اس کی موت ہوگئی تھی۔ یہ واقعہ ملک بھر میں کئی دنوں تک سرخیوں میں رہا جس سے یوگی حکومت کی بے چینی پیدا ہونا لازمی تھا، چنانچہ پولیس کو علاقہ کی گھیرا بندی کی سخت ہدایت دی گئی تاکہ باہر کے لوگ یہاں نہ آسکیں اور امن و قانون کا مسئلہ نہ پیدا ہو۔ اس دوران اکتوبر ۲۰۲۰ میں اس واقعہ کی رپورٹنگ کے لیے کیرالا سے آنے والے صحافی صدیق کپّن کو گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس نے ان پر امن و قانون کے لیے مسئلہ پیدا کرنے اور تشدد بھڑکانے کا الزام لگایا۔
پریس کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنوں نے صدیق کپّن کی گرفتاری کی مذمت کی۔ انہیں بعد میں ایک معاملہ میں سپریم کورٹ سے اور دوسرے معاملہ میں الٰہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملی۔ جیل سے ان کی رہائی اٹھائیس مہینے بعد ہی ممکن ہوسکی۔ ابھی بھی انہیں مہینے میں دو چار بار اپنے مقدمہ کی سماعت اور پیشی کے لیے لکھنؤ آنا پڑتا ہے۔
جیل سے اپنی رہائی کے بعد صدیق کپن نے پولیس پر انہیں جسمانی اور ذہنی اذیت دینے کا الزام لگایا ہے، جب کہ پولیس نے الزامات سے انکار کیا ہے۔ کپن پر پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) سے وابستہ ہونے کا بھی الزام لگایا گیا جس کی انہوں نے تردید کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کپن پر ابتدا میں قابل ضمانت چھوٹے الزامات عائد کیے گئے لیکن دو سال بعد ملک سے بغاوت اور انسداد دہشت گردی قانون کی دفعات بھی جوڑ دی گئیں، جن میں ضمانت مشکل سے ملتی ہے۔ اسی درمیان فروری ۲۰۲۱ میں انفورسمنٹ ڈائرکٹریٹ (ای ڈی) نے ان پر منی لانڈرنگ کا کیس لاد دیا۔ ای ڈی کا کہنا تھا کہ کپن نے فساد بھڑکانے کے لیے پی ایف آئی سے رقومات لیں۔
کپن کے خلاف تعذیبی کارروائی کے دوران ہندتوا سیاست کی حمایت کرنے والے نیوز پورٹلوں نے ان کے خلاف وسیع پیمانے پر منفی پروپیگنڈا کیا اور انہیں دہلی فسادات کا ماسٹر مائنڈ تک قرار دیا۔
کپن کے خلاف پولیس انتظامیہ کی کارروائی کو ہراسانی کی کارروائی قرار دیا گیا اور اس کی گونج عالمی سطح پر بھی ہوئی۔ بھارت کے گرتے ہوئے پریس فریڈم انڈیکس میں کپن کے خلاف کارروائی کا بھی ذکر کیا گیا۔
اسی طرح کا معاملہ آلٹ نیوز کے بانی ایوارڈ یافتہ صحافی محمد زبیر کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ بدنام زمانہ یتی نرسنگھا نند کی ایک نفرت انگیز تقریر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کرنے کو ملک کی سلامتی اور اتحاد کو خطرہ میں ڈالنے والی حرکت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نرسنگھا نند کے ٹرسٹ کی ایک اہلکار کی شکایت پر غازی آباد پولیس نے ان پر بی این ایس کی دفعہ ۱۵۲ کے تحت کیس درج کیا ہے۔
پولیس کے ذریعہ ایف آئی آر درج کیے جانے کا معاملہ ۲۷ نومبر کو سامنے آیا۔ ویب سائٹ بار اینڈ بینچ کے مطابق ایف آئی آر، آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ ۶۶ اور بی این ایس کی دفعہ ۱۵۲، ۱۹۶، ۲۲۸، ۲۹۹ سمیت دیگر دفعات کے تحت درج کی گئی ہے۔ دفعہ ۱۵۲ بھارت کے اتحاد و سلامتی کو پارہ پارہ کرنے اور ملک کو توڑنے کی سازش سے تعلق رکھتی ہے، جس میں سات سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ ویب سائٹ آرٹیکل 14 کے مطابق سال ۲۰۱۰ سے ۲۰۲۱ کے درمیان بھارت میں بی این ایس سے قبل کے پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت صحافیوں، سماجی جہدکاروں اور سوشل میڈیا استعمال کنندگان سمیت تیرہ ہزار لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
محمد زبیر کو فیکٹ چیکنگ اور سوشل میڈیا کے ناقدانہ استعمال کے لیے لگاتار نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جون ۲۰۲۲ میں انہیں دہلی اور یو پی کی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ایک ٹی وی چینل پر بی جے پی کے ایک ترجمان کے بیان کو ایکس پر شیئر کرنے اور اس پر طنزیہ تبصرہ کرنے پر ان پر مذہب، نسل، جائے پیدائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروپوں کے درمیان عداوت پیدا کرنے اور مذہب یا مذہبی عقیدہ کی توہین کا الزام لگایا گیا تھا۔ ایک ایف آئی آر سے ضمانت ملتی تو دوسری دائر کردی جاتی۔ چنانچہ ان پر یکے بعد دیگرے چھ ایف آئی آر درج کی گئیں اور اس طرح انہیں چوبیس دن گرفتاری، ضمانت اور پھر گرفتاری اور جیل کے دور سے گزرنا پڑا۔
اظہار رائے، اختلاف رائے اور تنقید کو جس طرح سے ایک جرم بناتے ہوئے حکومت و پولیس انتظامیہ حالیہ کچھ برسوں سے کارروائی کر رہی ہے اس سے عالمی سطح پر حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ محمد زبیر کے معاملہ میں پریس کلب آف انڈیا، ڈی آئی جی آئی پی یو بی نیوز انڈیا فاؤنڈیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل، بین الاقوامی تنظیم انڈیکس آن سنسرشپ، پین انٹرنیشنل، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن، رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز، انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ، انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس، الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن، ہیومن رائٹس واچ، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس، آئیفیکس وغیرہ نے حکومت ہند سے ایف آئی آر ختم کرنے اور آزادی اظہار کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے ۔
سماجی کارکن عمر خالد ستمبر ۲۰۲۰ سے جیل میں بند ہیں۔ ان کی ضمانت پر عدالت سے تاریخ پر تاریخ مل رہی ہے۔ ان پر ۲۰۲۰ میں شمال مشرقی دہلی کے علاقہ میں فساد بھڑکانے کی سازش کے سلسلہ میں یواے پی اے کیس درج ہے۔ اس کے علاوہ آرمس ایکٹ، بلوہ، قتل، ملک سے بغاوت، دہشت گردانہ سرگرمیوں اور اس کے لیے فنڈ جمع کرنے کے الزامات ہیں ۔
اے پی سی آر کے قومی سکریٹری ندیم خان کا معاملہ بالکل تازہ ہے۔ حیدرآباد میں منعقدہ ایک سماجی پروگرام میں اے پی سی آر نے اپنا ایک اسٹال لگایا تھا جس میں ملک میں مختلف مقامات پر متاثرین کے لیے انصاف کی جدوجہد پر مبنی اپنی سرگرمیوں کو تنظیم نے پیش کیا تھا۔ اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر ہوئی جسے ہندتوا نواز تنظیم نے رپورٹ کیا، جسے دہلی پولیس نے طبقات کے درمیان عداوت کو بڑھانے اور مجرمانہ سازش رچنے کا نام دیا اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی۔
دہلی ہائی کورٹ میں ندیم خان کی پٹیشن پر بارہ دسمبر کو سماعت کے دوران جسٹس جسمیت سنگھ نے ان کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ کو خارج کر دیا اور گرفتاری پر روک لگاتے ہوئے کہا کہ اگر حراست میں پوچھ گچھ کی ضرورت ہوگی تو ندیم خان کو دہلی پولیس سات دن پہلے نوٹس دے گی۔ عدالت کی اجازت کے بغیر انہیں دہلی چھوڑنے سے بھی روکا گیا ہے۔ ندیم خان کے وکیل کپل سبل نے عدالت کو یقین دلایا کہ ان کے مؤکل جانچ میں شامل ہوگئے ہیں اور پولیس سے تعاون جاری رکھیں گے۔
اپنی عرضی میں ندیم خان نے کہا تھا کہ ان کا ویڈیو آئین کے آرٹیکل ۱۹ کے تحت اظہار رائے کی آزادی کے دائرے میں آتا ہے اور ویڈیو سے کوئی منفی واقعہ نہیں پیش آیا جیسا کہ ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ویڈیو میں کوئی بھی غلط تبصرہ نہیں ہے، بلکہ یہ اقلیتوں اور مظلوموں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے خلاف امتیازی سلوک کے بارے میں ہے۔
مذکورہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد ۲۹ نومبر کو دہلی پولیس نے اے سی پی آر کے دہلی دفتر پر چھاپہ مارا اور اگلے دن دہلی پولیس کے چار جوانوں نے بنگلورو جاکر ندیم خاں کو ان کے بھائی کے گھر سے حراست میں لینے کی کوشش کی۔ اس سلسلہ میں ۳۰ نومبر کو شاہین باغ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 24 نومبر کو سنبھل میں پولیس کارروائی اور بلوہ کا شکار ہونے والے لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے اے پی سی آر کی جانب سے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی تھی۔ متاثرین کو انصاف دلانے کے عمل کے دوران ہی اے پی سی آر کے قومی سکریٹری کو دہلی پولیس کے عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر 2024