
سماجی انصاف کے نام پر نمائشی اقدامات اور کارپوریٹ کی غلامی
فکری و نظریاتی تربیت کی کمی ،سماجی انصاف کی تحریکوں کے بے اثر ہونے کی اصل وجہ
نئی دلی (دعوت نیوز ڈیسک)
سینئر صحافی اور سابق رکن پریس کونسل آف انڈیا، جے شنکر گپتا نے ایک تاریخ آشنا اور پر اثر خطاب میں ملک کی حکم راں اشرافیہ پر الزام عائد کیا کہ وہ نمائشی اقدامات، کارپوریٹس کی غلامی اور سماجی انصاف کے نعرے کو اعلیٰ ذات کے مفادات کے تابع کر کے محروم طبقات کے ساتھ بدترین غداری کی مرتکب ہو رہی ہے۔
پچھلے دنوں نئی دلی میں جماعتِ اسلامی ہند کے صدر دفتر میں ’’سماجی انصاف کا موجودہ منظرنامہ ‘‘ کے زیر عنوان منعقدہ پروگرام سےخطاب کرتے ہوئے، سینئر صحافی جے شنکر گپتا نے موجودہ سیاسی نظام کے ان کھوکھلے دعووں کا مدلل تجزیہ کیا جن کے مطابق وہ محروم طبقات کے مفاد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی تقریر جو تاریخ کے گہرے شعور، ترقی پسند فکر اور سیاسی حقیقت کے امتزاج سے مزیّن تھی، حاضرین کو اس امر پر آمادہ کرتی تھی کہ وہ بھارت کی ساخت میں پیوستہ عدم مساوات کے تلخ حقائق اور اقتدار پر فائز طبقے کی طرف سے سماجی انصاف کے مقصد سے کی جانے والی بدعہدی کا بے لاگ سامنا کریں۔
سماجی انصاف کو سمجھنے کے لیے سماجی نا انصافی کو سمجھنا لازم ہے۔
گپتا نے اپنی تقریر کے آغاز ہی میں ایک بنیادی حقیقت واضح کی کہ سماجی انصاف کا صحیح ادراک اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تاریخ میں رچی بسی اور آج تک جاری نا انصافی کے نظام کا سامنا نہ کیا جائے۔ انہوں نے ذات پات کے نظام کو ایک شعوری اور منصوبہ بند ڈھانچے کے طور پر پیش کیا جو طاقت کی ناہموار تقسیم کو برقرار رکھنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا:
’’سماجی انصاف کی بات کرنے سے پہلے ہمیں سماجی ناانصافی کو سمجھنا ہوگا،کیونکہ جب تک ہم صدیوں کی منظم غلامی اور جبر کا سامنا نہیں کرتے مساوات کی بات محض فریب ہے۔‘‘
ان کا استدلال یہ تھا کہ ذات پات کا نظام کوئی تاریخی حادثہ نہیں بلکہ ایک باقاعدہ ترتیب دیا گیا نظام تھا جس کا مقصد ہی عدم مساوات کو پیدا کرنا اور اسے دوام دینا تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ سماجی انصاف پر کوئی بامعنی گفتگو اسی حقیقت کے اعتراف ہی سے شروع کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں صدیوں سے ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کو ادارہ جاتی شکل دی گئی اور اس کا فکری و قانونی ڈھانچہ منوسمرتی جیسے متون نے تیار کیا جسے انہوں نے ’’عدم مساوات کا ضابطۂ قانون‘‘قرار دیا۔
’’برہمن کو تعلیم اور مذہب، کشترِی کو اقتدار، ویش کو تجارت اور شودر کو ذلت و بے وقعتی کے ساتھ خدمت پر مجبور کیا گیا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس تاریخ کے اثرات آج بھی نمایاں ہیں۔ کروڑوں دلت، او بی سی اور آدی واسی، جو اس موروثی جبر کے پنجے سے نکلنے کی جدوجہد کر رہے ہیں، اس امر کی زندہ دلیل ہیں کہ تاریخی نا انصافی کا سامنا کیے بغیر سماجی انصاف ایک لاحاصل خواب ہے۔
مسٹر گپتا نے ذات پات پر مبنی جبر کی تاریخی حقیقت میں مزید گہرائی سے جھانکا تو انہوں نے محروم طبقات پر مسلط کی جانے والی سفاک رسومات کی لرزہ خیز مثالیں پیش کیں۔ ان میں جبری مشقت اور ذلت آمیز سلوک شامل تھا، جس کا سامنا دلتوں کو صدیوں تک کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا تمل ناڈو میں دلتوں کو اس ذلت آمیز جبر پر مجبور کیا جاتا کہ وہ کمر سے جھاڑو باندھیں تاکہ ان کا سایہ برہمنوں کو ’ناپاک‘ نہ کرے۔ کیرالا میں دلت عورتوں سے محض اس جرم پر ’چھاتی ٹیکس‘ وصول کیا جاتا کہ وہ اپنا جسم ڈھانپنے کا حق چاہتی تھیں۔ حتیٰ کہ کیرالا کی ایک باہمت خاتون نے احتجاجاً اپنی چھاتیاں کاٹ کر انکم ٹیکس دفتر میں جمع کرا دیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ ذلت آمیز رسومات محض ماضی کی کہانیاں نہیں بلکہ بیسویں صدی تک جاری رہیں، حتیٰ کہ بھارت نے خود کو ایک جمہوری جمہوریہ قرار دے دیا تھا۔ شنکر گپتا نے یاد دلایا کہ یہ واقعات تاریخ کی کوئی شاذ و نادر باتیں نہیں بلکہ سماجی اخراج کے ایک تسلسل کی کڑیاں ہیں۔
’’بہار میں نچلی ذات کی عورتیں محض اس خوف سے اپنی خوبصورتی چھپاتی تھیں کہ کہیں جاگیردار ان پر دست درازی نہ کریں۔ شیرگھاٹی، بہار میں دلت دلہنوں کو پہلی شبِ زفاف کو جاگیرداروں کے پاس بھیج دیا جاتا تھا۔ یہ کوئی قدیم تاریخ نہیں ، یہ سب ہمارے اسی نام نہاد جمہوری دور میں ہوا۔‘‘
ٹوٹے پاؤں کے ساتھ دوڑ ممکن نہیں شنکر
گپتا کی تقریر میں ایک یادگار مثال اس افسانے کو ہدف بناتی ہے جو آئینِ ہند کے تحت ’’مساوی مواقع‘‘ کے نام پر پھیلایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ صدیوں کے منظم جبر سے پیدا شدہ خلیج کو نظر انداز کر کے سب کو یکساں موقع دینا ایک کھوکھلا اور فریب زدہ تصور ہے۔
’’آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جاگیردار کا بیٹا اور بے زمین مزدور کا بیٹا ایک ہی دوڑ میں شامل ہوں؟ ایک کو صدیوں کی مراعات ورثے میں ملیں، دوسرے کو صدیوں کی محرومیاں۔‘‘
انہوں نے اس عدم توازن کو درست کرنے کے لیے مثبت اقدام (Affirmative Action) اور ریزرویشن کو ناگزیر قرار دیا اور ڈاکٹر امبیڈکر و ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کے نظریات کو یاد دلایا:
’’ریزرویشن اور خصوصی مواقع ، جس کا خواب امبیڈکر نے دیکھا اور لوہیا نے ’اسپیشل آپرچونیٹی‘ کہا اس کے بغیر سماجی انصاف محض ایک خواب ہے۔‘‘
شنکر گپتا نے واضح کیا کہ سماجی انصاف کا مطلب سب کے ساتھ یکساں برتاؤ نہیں بلکہ ان لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع دینا ہے جو تاریخ کے ہاتھوں بدترین مظالم سہہ چکے ہیں۔
منڈل نے دروازے کھولے تھے، رام مندر نے بند کر دیے۔ انہوں نے بھارت کی جاری جدوجہدِ انصاف کو منڈل کمیشن کی سفارشات اور اس کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی کشمکش کے تناظر میں بیان کیا اور کہا کہ جب 1990ء میں منڈل کمیشن کی سفارشات نافذ ہوئیں اور پسماندہ طبقات (OBCs) کو ریزرویشن ملا تو یہ ان کے سیاسی شعور و طاقت کے ایک نئے دور کا آغاز تھا — مگر اس کا سامنا فوراً ایک منظم مزاحمت سے ہوا:
’’جس دن منڈل کمیشن کی سفارشات نافذ ہوئیں اسی دن رام مندر کی تحریک زوروں پر آ گئی۔ یہ کوئی اتفاق نہیں تھا ، یہ پسماندہ طبقات کے ابھرتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف ایک سوچا سمجھا سیاسی رد عمل تھا۔‘‘
شنکر گپتا کے نزدیک رام مندر کی تحریک مذہب سے کم اور اعلیٰ ذاتوں کی جانب سے او بی سیز اور دلتوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف ایک سیاسی صف بندی تھی۔ انہوں نے سابق مرکزی وزیر جارج فرنانڈیز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
’’ایل کے اڈوانی نے ان سے کہا ’آپ نے ہمیں رام مندر کا مسئلہ اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں چھوڑا۔‘‘
کانگریس کی اپنی بدعہدی کی تاریخ
شنکر گپتا نے کانگریس پارٹی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور الزام لگایا کہ اس نے ان طبقات سے غداری کی جن کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی رہی۔ انہوں نے بتایا کہ منڈل تحریک کے دوران او بی سیوں اور دلتوں کے ساتھ کانگریس کی مخالفت اور دھوکہ دہی نے اس کے لیے دور رس منفی نتائج پیدا کیے۔
’’راجیو گاندھی نے منڈل کی شدید مخالفت کی۔ بعد میں کانگریس بی جے پی کے ساتھ مل کر وی پی سنگھ کی حکومت گرانے میں شریک ہوئی۔ اس کے بعد وہ ہندی پٹی میں او بی سیوں اور دلتوں کا اعتماد کھو بیٹھی ، اور کبھی واپس نہ پا سکی۔‘‘
انہوں نے راہل گاندھی کے موجودہ بیانات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو ذات شماری اور سماجی انصاف کی بات کرتے ہیں مگر پارٹی کی قیادت میں اعلیٰ ذاتوں کی بالادستی واضح ہے:
’’راہل گاندھی کاسٹ سروے اور انصاف کی بات کرتے ہیں مگر ان کی پارٹی میں برہمن ہی بالا دست ہیں ، اتر پردیش کے کانگریس صدر سے لے کر یوتھ ونگ کے قائدین تک۔‘‘
دلتوں کا با اختیار ہونا: آر ایس ایس کا اصل خوف
گپتا کی آر ایس ایس پر تنقید بھی اسی قدر شدید تھی۔ انہوں نے ان کے ’’ذات سے بالاتر‘‘ ہونے کے دعوے کو اعداد و شواہد کے ساتھ رد کر دیا اور قیادت کی ذات پات پر مبنی ساخت کو بے نقاب کیا:
’’وہ کہتے ہیں کہ ان کی صفوں میں ذات پات نہیں ہے لیکن چھ میں سے پانچ سربراہ برہمن رہے ہیں ، اور وہ بھی زیادہ ترچِت پون برہمن۔ ان کی اعلیٰ قیادت میں دلت کہاں ہیں؟ آدی واسی کہاں ہیں؟ او بی سی کہاں ہیں؟ جیسے ہی کوئی دلت یا پسماندہ ذات کا فرد اقتدار میں آتا ہے، یہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔‘‘
شنکر گپتا کے نزدیک آر ایس ایس کی جدوجہد صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ محروم طبقات، خصوصاً دلتوں کے سیاسی بااختیار ہونے کے خلاف ہے:
’’ان کی لڑائی صرف مسلمانوں سے نہیں، بلکہ ان لوگوں کے سیاسی ابھار سے ہے جنہیں وہ صدیوں روندتے رہے۔‘‘
پس ماندہ مسلمان بھی نظر انداز
گپتا نے پس ماندہ مسلمانوں کے اخراج کی طرف بھی توجہ دلائی ، وہ مسلمان جو انہی مظلوم ہندو ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر ریزرویشن اور مثبت اقدام کے مباحث سے اکثر غائب رہتے ہیں:
پس ماندہ مسلمان ، جو انصاری، جولاہا جیسی مظلوم ہندو ذاتوں سے مسلمان ہوئے ریزرویشن اور مثبت اقدام کی بحث سے باہر رہ جاتے ہیں اور ان کی محرومیاں سیاسی گفتگو میں نظر ہی نہیں آتیں۔
مودی: او بی سی کے نہیں، اڈانی کے وزیر اعظم
گپتا نے وزیر اعظم مودی کے او بی سی پس منظر اور ان کی حکومتی پالیسیوں کے تضاد کو اجاگر کیا جو کارپوریٹ دیو ہیکل کمپنیوں، بالخصوص اڈانی گروپ، کو فائدہ پہنچاتی رہی ہیں۔
’’یہ کہتے ہیں کہ مودی او بی سی ہیں لیکن انہوں نے او بی سیوں، دلتوں یا آدی واسیوں کے لیے کیا کیا؟ جنگلات اور قبائلی زمینیں اڈانی جیسے کارپوریٹ اداروں کے حوالے کر دی گئیں۔ یہ نیا ’سماجی انصاف‘ ہے — مگر ارب پتیوں کے لیے ہے، محروم طبقات کے لیے نہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکومت کی ترجیحات مکمل طور پر کارپوریٹ مفادات کے تابع ہیں، نہ کہ ان محروم طبقات کی فلاح کے جن کی نمائندگی کا وہ دعویٰ کرتے ہیں؟
تقریر کے ایک خود تنقیدی حصے میں شنکر گپتا نے سماجی انصاف کی تحریکوں کی ناکامی پر افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ اس کی وجہ نوجوانوں کی فکری اور نظریاتی تربیت کی شدید کمی ہے۔
’’ہم نے اپنے نوجوانوں کو نہ تعلیمی طور پر تیار کیا نہ فکری طور پر۔ اسی لیے وہ مذہبی تماشوں اور فسادات کے مہرے بن جاتے ہیں۔ انہیں نعرے آتے ہیں مگر نظریات نہیں۔‘‘
انہوں نے فکری وضاحت اور عوامی سطح پر منظم جدوجہد کی بحالی کی اپیل کی اور خبردار کیا کہ اس کے بغیر سماجی انصاف کی تحریکیں ہمیشہ ہتھیار بننے اور بہکائے جانے کے خطرے سے دوچار رہیں گی۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025