ثقافتی قوم پرستی اور بابا صاحب۔ایک تاریخی جائزہ

امبیڈکر، آرٹیکل 370 اور ہندو کوڈ بل: حقائق کے برعکس دعوے

زعیم الدین احمد حیدرآباد

امیت شاہ نے نہ صرف امبیڈکر کی ’توہین‘ کی، بلکہ صراحت کے ساتھ دروغ گوئی بھی کی
امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں اپنا جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے امبیڈکر کی توہین کی اور کہا کہ "ابھی ایک فیشن ہوگیا ہے، امبیڈکر، امبیڈکر، امبیڈکر، اتنا نام اگر بھگوان کا لیتے تو سات جنموں تک سورگ مل جاتا” یہ کہہ کر انہوں نے نہ صرف امبیڈکر کی توہین کی بلکہ ان کے بارے میں صریح جھوٹ بھی بولا۔ وہ کانگریس کو سماجی انصاف کا مخالف بتانے کے چکر میں غلط بیانی کرتے چلے گئے۔ جب آدمی غصے میں ہوتا ہے تو اپنا آپا کھو دیتا ہے، حواس باختگی میں وہ فضولیات بکنے لگتا ہے، امیت شاہ کا بھی کچھ اسی طرح کا حال تھا، ان کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کے بیان پر اتنا بڑا ہنگامہ برپا ہو جائے گا اور لوگ انہیں دلت مخالف آئیکن بنا دیں گے۔ بہر حال غصہ و تکبر انسان کی ذلت ہی کا باعث بنتے ہیں، اسے کہیں کا نہیں چھوڑتے۔
ان کی تقریر میں جس چیز پر کسی کا دھیان نہیں دیا گیا وہ بابا صاحب امبیڈکر کی دو اہم باتیں ہیں جن کے بارے میں انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا۔
پہلی بات، آرٹیکل 370 پر بابا صاحب امبیڈکر کے خیالات
امیت شاہ نے بابا صاحب امبیڈکر کا نام لینے کو موجودہ دور میں فیشن قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بابا صاحب امبیڈکر نے جواہر لال نہرو کابینہ کو تین وجوہات کی بنا پر چھوڑا تھا، پہلی وجہ یہ بتائی کہ وہ آرٹیکل 370 کے مخالف تھے، دوسری وجہ وہ نہرو کی خارجہ پالیسیوں کے خلاف تھے اور تیسری وجہ نہرو نے درج فہرست ذاتوں اور قبائل سے جو وعدے کیے تھے، ان کو پورا کرنے میں وہ ناکام ہوگئے تھے، اسی لیے بابا صاحب امبیڈکر نے نہرو کی کابینہ سے استعفیٰ دیا تھا۔ آئیے امیت شاہ کی ان غلط بیانیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
پہلے جھوٹ کو لیجیے کہ بابا صاحب دفعہ 370 کے مخالف تھے، یہ بات سچائی سے کوسوں دور ہے۔ جب مودی سرکار نے 2019 میں جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری کو ختم کیا تھا، اسی وقت سے سنگھ پریوار یہ جھوٹ پھیلا رہا ہے۔ اس وقت کے نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو نے بھی دی ہندو میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں بابا صاحب کے جعلی اقتباس کا استعمال کیا ہے۔ انہوں نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ میں نے یہ اقتباس ایس این بسی کی کتاب ڈاکٹر بی آر امبیڈکر: فریمنگ انڈین کانسٹیٹیوشن سے لیا ہے، جس میں شیخ عبداللہ اور امبیڈکر کے درمیان کشمیر سے متعلق ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں آرٹیکل 370 ہٹانے کو سماجی انصاف کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ وینکیا نائیڈو کے مطابق کتاب کا اقتباس کچھ اس طرح ہے، بابا صاحب امبیڈکر نے شیخ عبداللہ سے کہا کہ "عبداللہ، آپ چاہتے ہیں کہ بھارت کشمیر کا دفاع کرے، آپ کی سرحدوں کی حفاظت کرے، وہ آپ کے علاقے میں سڑکیں بنائے، آپ کو اناج فراہم کرے اور ساتھ ہی کشمیر کو ہندوستان کے برابر کا درجہ ملے، لیکن آپ یہ نہیں چاہتے کہ ہندوستان کے کسی شہری کو کشمیر میں کوئی حق حاصل ہو اور ہندوستانی حکومت کے پاس صرف محدود اختیارات ہوں۔ اس تجویز پر رضا مند ہونا ہندوستان کے مفادات کے خلاف غداری ہوگی اور میں ہندوستان کے وزیر قانون کی حیثیت سے ایسا کبھی نہیں کروں گا۔ میں اپنے ملک کے مفادات سے غداری نہیں کر سکتا”۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ جب دی وائر کی جانب سے اس اقتباس کی جانچ کی گئی تو پتہ چلا کہ یہ اقتباس اصل آر ایس ایس لیڈر بلراج مدھوک کے لکھے ہوئے مضمون کا ہے، جو آرگنائزر میں شائع ہوا تھا جو آر ایس ایس کا ماؤتھ پیس ہے۔
بسی نے دی وائر کو بتایا کہ جس اقتباس کا نائیڈو نے حوالہ دیا ہے، وہ میری کتاب کے جلد 4 صفحہ 472 میں مذکور ہے۔ میں نے اسے ایک انجینئر ایچ آر بھونسا کے آرٹیکل 370 – پرامن جموں و کشمیر ریاست کی تشکیل میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا کردار کے عنوان سے 20 فروری 2013 کو دلت وژن میں شائع کروایا تھا۔ بسی نے کہا کہ بھونسا نے بھی یہ اقتباس 14 نومبر 2004 کے دیپاولی ایڈیشن میں آر ایس ایس کے ماؤتھ پیس آرگنائزر میں شائع ہونے والے بلراج مدھوک کے مضمون سے لیا تھا۔ بلراج مدھوک ہندو قوم پرست نظریے کے حامل لیڈر تھے، جس طرح اس وقت کے تمام ہندو قوم پرست ہوا کرتے تھے اور یہ سارے، آرٹیکل 370 کے سخت مخالف بھی ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لکھے گئے مضمون میں اس کی جھلک صاف نظر آتی ہے، ان کے ذہن میں سیاسی ایجنڈا صاف نظر آتا ہے۔ اسی جھوٹ کو اس وقت کے پارلیمانی امور کے وزیر ارجن رام میگھوال نے بھی 20 اگست 2019 کے انڈین ایکسپریس میں شائع کروایا تھا۔
اس کے برعکس بابا صاحب امبیڈکر نے 1950 میں پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ:
"حکومت ہند کشمیر کو فوجی الاٹمنٹ سے نمٹنا چاہتی ہے، استصواب عامہ کا طریقہ دنیا کے لیے نیا نہیں ہے۔ استصواب عامہ کے ذریعے اس قسم کے مسائل کو حل کرنے کی نظیریں موجود ہیں، ان نظیروں کو دیکھنے کے لیے ہمیں ماضی میں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد، استصواب عامہ کے ذریعے دو مسائل کو حل کیا گیا، ایک اپر سائلیسیا کا مسئلہ اور دوسرا السیس لورین کا مسئلہ۔ ان دونوں مسائل کو استصواب عامہ کے ذریعے حل کیا گیا، اور مجھے یقین ہے کہ محترم دوست شری گوپال سوامی آینگر جو اس وقت کشمیر امور کے وزیر انچارج ہیں، اپنی سمجھ داری، حکمت عملی اور بردباری کے ساتھ اس مسئلے کو حل کریں گے اور وہ یہ بات کو ضرور جانتے ہوں گے کہ استصواب عامہ کے ذریعے بھی مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے۔ کیا ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم لیگ آف نیشنز کی جانب سے اپر سائلیسیا اور السیس لورین پر اختیار کیے گئے لائحہ عمل سے کچھ سیکھیں، جس سے ہم اچھے طور پر کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں اور اس معاملے کو جلد حل کر سکتے ہیں تاکہ ہم 50 کروڑ روپے جاری کرسکیں اور اسے اپنی عوام کی بھلائی کے لیے استعمال کرسکیں؟”
1951 ہی سے بابا صاحب امبیڈکر استصواب عامہ پر زور دیا کرتے تھے، جیسا کہ 1951 میں "شیڈیولڈ کاسٹ فیڈریشن کے انتخابی منشور” میں صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ "مسئلہ کشمیر پر کانگریس حکومت کی طرف سے اختیار کردہ پالیسی، شیڈول کاسٹ فیڈریشن کو قبول نہیں ہے۔ اگر یہی پالیسی جاری رہی تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دائمی دشمنی قائم ہو جائے گی اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا امکان پیدا ہو جائے گا۔ شیڈول کاسٹ فیڈریشن کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اچھے دوست اور پڑوسی ملک بن کر رہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی پالیسی دو پہلوؤں پر ہونی چاہیے۔ پہلی یہ کہ تقسیم ہند کی منسوخی کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ تقسیم کو ایک طے شدہ حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے، دونوں ممالک الگ الگ خود مختار ریاستوں کے طور پر قائم رہیں گے۔ دوسری یہ کہ کشمیر کی تقسیم کر دی جائے، پاکستان کے حصے میں مسلم اکثریتی علاقے، وادی میں رہنے والے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق اور غیر مسلم علاقے جو جموں اور لداخ پر مشتمل ہیں ہندوستان کو دے دیے جائیں۔
27 اکتوبر 1951 کو جالندھر میں منعقدہ پریس کانفرنس میں بابا صاحب امبیڈکر سے کشمیر کے حل سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ "مجھے ڈر ہے کہ جموں و کشمیر میں رائے شماری کروائی جائے گی تو وہ بھارت کے خلاف ہو سکتی ہے۔ جموں اور لداخ کی ہندو اور بدھ آبادی کو پاکستان جانے سے روکنے کے لیے جموں، لداخ اور کشمیر میں زونل سطح پر رائے شماری کروائی جانی چاہیے۔”
بابا صاحب اپنے ایک مضمون میں اسی نکتے کو دہراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انہوں نے زونل رائے شماری کو کیوں ترجیح دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "ہمارا زیادہ تر وقت پاکستان کے ساتھ اسی مسئلے پر لڑنے میں صرف ہو رہا ہے، کہ کون حق بات کہہ رہا ہے اور کون غلط۔ میرے نزدیک اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کون حق پر ہے اور کون غلطی پر، بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ حق کیا ہے؟ اسی کو بنیاد بناتے ہوئے میرا خیال ہمیشہ یہی رہا ہے کہ صحیح حل کشمیر کی تقسیم ہے۔ ہندو اور بدھ مت ماننے والوں کا حصہ ہندوستان کو اور مسلمانوں کی آبادی کا حصہ پاکستان کو دے دیا جائے، جیسا کہ ہم نے ہندوستان کی تقسیم کے معاملے میں کیا تھا۔ ہمیں کشمیر کے مسلم حصے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ کشمیر اور پاکستان کے مسلمانوں کا معاملہ ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق اس مسئلے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یا پھر اگر آپ چاہیں تو اسے تین حصوں میں تقسیم کر دیں، ایک حصہ جنگ بندی والا زون، دوسرا حصہ وادی کا اور تیسرا جموں- لداخ کا خطہ اور صرف وادی میں استصواب عامہ ہو۔ مجھے جس چیز کا خدشہ ہے، وہ یہ ہے کہ مجوزہ استصواب عامہ میں، جو کہ مجموعی طور پر رائے شماری ہو رہی ہے، کشمیر کے ہندوؤں اور بدھ مت کے ماننے والوں کو ان کی خواہشات کے برخلاف پاکستان میں شامل کر لیا جائے گا اور انہیں بھی اسی طرح مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس طرح کے مسائل کا سامنا مشرقی بنگال والوں کو کرنا پڑا ہے۔
امیت شاہ کا یہ دعویٰ کہ بابا صاحب امبیڈکر، نہرو کی خارجہ پالیسی کے بھی مخالف تھے، ایک حد تک درست ہے، لیکن شاہ نے ان کی مخالفت کی دلیل غلط جگہ پیش کر دی۔ بابا صاحب امبیڈکر نے نہرو کی کشمیر پالیسی کی مخالفت کی اور وہ مخالفت بھی ایسی تھی جس سے صرف بی جے پی کو پریشانی ہوسکتی ہے۔ بابا صاحب کا خیال تھا کہ ہندوستانی حکومت کی طرف سے کشمیر میں کسی بھی قسم کی یکطرفہ آؤٹریچ میں ممکنہ خطرہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے 1953 میں ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر پارلیمانی بحث میں حصہ لیتے ہوئے نہرو کی اس پالیسی کی مخالفت کی تھی جس میں بقیہ ہندوستان کو کشمیر سے ملانے والے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی کوششیں تھیں، انہوں نے کہا تھا کہ "ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ دوسرے ممالک کے مسائل کو حل کرنا ہے، نہ کہ اپنے مسائل کو حل کرنا۔ ہمارے یہاں کشمیر کا مسئلہ ہے، ہم اسے حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی کشمیر کے مسئلہ کو بھول گیا ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ جب کسی دن ہم جاگ جائیں گے تو اسے بھوت کی شکل میں پائیں گے، اور میں نے سنا ہے کہ وزیر اعظم نے کشمیر کو ہندوستان سے ملانے کے لیے سرنگ کھودنے کے منصوبے کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ جناب، میرے خیال میں یہ سب سے خطرناک کام ہوگا، جو ایک وزیر اعظم کر سکتا ہے۔ ہم گزشتہ پچاس سال سے سنتے آ رہے ہیں کہ انگلش چینل کے نیچے ایک سرنگ فرانس کو انگلینڈ سے جوڑنے کے لیے بنائی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود انگریزوں نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں کوئی دل چسپی نہیں دکھائی، کیونکہ یہ ایک دود ھاری تلوار کی طرح ہے۔ دشمن اگر فرانس کو فتح کر لیتا ہے تو وہ سرنگ کا استعمال کرتے ہوئے بڑی آسانی سے انگلینڈ میں داخل ہو جائے گا اور اسے بھی فتح کر لے گا۔ وزیر اعظم، سرنگ کھودتے ہوئے یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اکیلے ہی اسے استعمال کریں گے! ایسا نہیں ہے، کیوں کہ یہ ہمیشہ دو طرفہ ٹریفک ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی فاتح دوسری طرف سے آتا ہے اور کشمیر پر قبضہ کر لیتا ہے تو دوسرا پٹھانکوٹ سے آ سکتا ہے اور شاید وزیر اعظم ہاؤس تک بھی آ سکتا ہے – مجھے نہیں معلوم”
‘ہندو قوم پرستی’ پر بابا صاحب امبیڈکر کے خیالات۔
جب شاہ نے کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس ہمیشہ سے آئین اور بابا صاحب کو کالونی لینس سے ہی دیکھتی رہی ہے، اس کے برخلاف بی جے پی اور اس کی "ثقافتی قوم پرستی” کلچرل نیشنل ازم نے بابا صاحب اور آئین کا احترام کیا ہے جس کے وہ حق دار تھے۔
"انڈیا کہنے والے کبھی بھارت کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ اگر آپ انڈیا کا چشمہ لگا کر بھارت کو دیکھیں گے تو آپ زندگی میں کبھی بھی بھارت کو نہیں سمجھ پائیں گے۔ اس لیے اپوزیشن نے اپنے اتحاد کا نام انڈیا رکھا ہے‘‘ کس طرح مودی حکومت نے بھارت ماتا کو مغربی اثرات سے الگ کر دیا۔ کس طرح بی جے پی کی زیر قیادت حکومت نے 160 سال پرانے قوانین کو ختم کرکے دیسی فوج داری قوانین کو نافذ کیا، سڑکوں اور یادگاروں کو کولونیل، نوآبادیاتی ناموں سے آزاد کیا، ریس کورس روڈ اور راج پاتھ کا نام بدل کر لوک کلیان مارگ اور کرتویہ پتھ رکھا گیا، ابتدائی تعلیم کو مادری زبان میں دینے کا آغاز کیا، پارلیمنٹ میں سینگول نصب کیا، قومی جنگی یادگار تعمیر کی اور پی ایم میوزیم، شیواجی، برسا منڈا اور سبھاش چندر بوس جیسی مشہور شخصیات کو سلبریٹ کیا اور پرسنل لا کو ختم کرکے یکساں سِول کوڈ نافذ کرنے کا منصوبہ بنایا۔
کیا بابا صاحب امبیڈکر کو واقعی بی جے پی نے عزت دی؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ بابا صاحب امبیڈکر، "ہندو” یا "ثقافتی” قوم پرستی کو مسلط کرنے کے ہندتوا نظریہ کو کیسے دیکھتے تھے۔
بابا صاحب امبیڈکر کا واضح بیان ان کی اپنی کتاب پاکستان یا تقسیم ہند (1946، صفحہ 354-355) میں درج ہے، جس میں انہوں نے کہا ’’اگر ہندو راج ایک حقیقت بن جاتا ہے تو یہ بلاشبہ سب سے بڑی آفت ہوگی۔ اس ملک میں ہندو راج کو ہر قیمت پر روکا جانا چاہیے” بتائیے کہ ہندتوا کی حقیقت پر اس سے واضح بیان اور کیا ہو سکتا ہے؟
مورخ پربودھن پول ڈی وائر میں لکھتے ہیں کہ 1951 میں شیڈیولڈ کاسٹ فیڈریشن ایس سی ایف کی جانب سے شائع ہونے والے پارٹی منشور میں خود بابا صاحب امبیڈکر نے لکھا تھا کہ "شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن کا ہندو مہاسبھا یا آر ایس ایس جیسی رجعت پسند پارٹیوں کے ساتھ کوئی اتحاد نہیں ہوگا۔”
پول بابا صاحب امبیڈکر کے اخبار جنتا جو کہ ایک ذات پات کا مخالف اخبار تھا، اس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ناگپور کے ایک دلت کارکن پی ڈی شیلارے نے شکایت کی کہ "ناگپور میں آر ایس ایس کی شاکھاوں میں کھانے کے دوران ذات پات کا رواج پایا جاتا ہے” شیلارے نے کہا کہ اس طرح کے پس منظر میں ہندوستان میں "قوم پرست” جیسے الفاظ ایک ستم ظریفی اور دوغلے پن کے سوا کچھ نہیں۔
امبیڈکر کی ادارت میں چلنے والے اخبارات جیسے بہشکرت بھارت، جنتا، اور پربدھ بھارت نے "برہمنیت کے فرقہ وارانہ اصولوں اور مسلم مخالف سیاست” پر قائم ہونے کی وجہ سے ہندو مہاسبھا جیسی ہندتوا تنظیموں کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی۔ جنتا اور پربدھ بھارت ہندتوا اور اس کے سرکردہ نظریات جیسے وی ڈی ساورکر کے بارے میں مسلسل تنقیدی مضامین لکھتے رہے ہیں، مثال کے طور پر ساورکر کے ’پتیت-پاون‘ مندر، رتناگیری میں جو کہ خاص طور پر اچھوتوں کے لیے بنائی گئی تھی، اس پر جنتپر اخبار میں شدید تنقید کی گئی۔ دوسری طرف، مراٹھی میں سنسکرت زدہ الفاظ استعمال کرنے پر اور اس پر زور دینے کو بھی اسلامی اثرات کو مٹانے کی جنونی کوشش کے طور پر دیکھا گیا‘‘۔
اسی طرح دی پرنٹ میں حکومت مہاراشٹر کی طرف سے شائع شدہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے رائٹنگز اینڈ سپیچز، والیوم 17 تا 22 میں ہری نارکے نے آر ایس ایس جیسی تنظیموں کے بارے میں امبیڈکر کے خیالات کا واضح حوالہ دیا۔ 14 مئی 1951 کو پارلیمنٹ میں ان کے اقتباسات میں واضح درج ہے کہ "آر ایس ایس اور اکالی دل جیسی تنظیمیں بہت خطرناک انجمنیں ہیں۔
مشہور قانون دان اے جی نورانی نے فرنٹ لائن کے ایک مضمون میں ریاستوں اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق (24 مارچ 1947) کو بابا صاحب امبیڈکر کے مضمون کا حوالہ دیا ہے، جس کو بابا صاحب امبیڈکر نے قانون ساز اسمبلی کی کمیٹی میں پیش کیا گیا تھا:
بدقسمتی سے بھارت میں اقلیتوں کے لیے، ہندوستانی قوم پرستی نے ایک نیا نظریہ تیار کیا ہے جسے اکثریت کی خواہشات کے مطابق اقلیتوں پر حکومت کرنے کا خدائی حق قرار دیا جا سکتا ہے۔ اقلیت کی جانب سے اقتدار کی شراکت کا کوئی بھی دعویٰ فرقہ پرستی کہلائے گا، اس کے برعکس اکثریت کی جانب سے اقتدار پر اجارہ داری کو قوم پرستی کہا جائے گا۔ اس طرح کے سیاسی فلسفے میں اکثریت، اقلیتوں کو اقتدار میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں کیے گئے کسی کنونشن کا احترام کرنے کے لیے تیار ہے، جیسا کہ ان کے عمل سے ظاہر ہو رہا ہے، انہوں نے اقلیتوں کو کابینہ میں شامل کرنے سے انکار کیا ہے۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں گورنروں کو جاری کردہ انسٹرومنٹ آف انسٹرکشنز میں شامل ہے، کہ اقلیتوں کو کابینہ میں شامل کیا جائے۔ ان حالات میں آئین میں درج فہرست ذاتوں کے حقوق کو حاصل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ (بی شیوا راؤ، منتخب دستاویزات، جلد 2، صفحہ 113)
شاہ اور ہندو کوڈ بل
پارلیمنٹ کو گم راہ کرتے ہوئے شاہ نے ہندو کوڈ بلوں کے بارے میں بھی بات کی اور کانگریس پر "ہندو مخالف” بل لانے کا الزام لگایا، جس میں تمام ہندو روایات کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اس کے بر خلاف نہرو نے مسلم پرسنل لا اور تین طلاق جیسے طریقوں کو جاری رکھنے کی اجازت دی تھی۔
امیت شاہ کی اس تقریر کو ایک اور بد حواس تقریر میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ نہرو نے بابا صاحب امبیڈکر کو ہندو کوڈ بل تیار کرنے کے لیے کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا اور پارلیمنٹ میں ہندو کوڈ بل کی شکست کے بعد احتجاجاً 27 ستمبر 1951 کو بابا صاحب نے نہرو کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا، یہ بھی صاف جھوٹ ہے۔
در حقیقت ہندو کوڈ بل قدیم رسوم و رواج پر مبنی طریقوں جیسے تعدد ازدواج کے خلاف اصلاحی قوانین کی تجویز پیش کرتا ہے، ہندو برادریوں کے درمیان پدرانہ وراثت کے قوانین، اپنے ہی خاندان میں شادیاں، ذات پات کی تفریق وغیرہ، جس کا مقصد ایک جدید اور ترقی پسند ہندو سماج کی تشکیل دینا ہے۔ اس بل کو بابا صاحب امبیڈکر نے اکتوبر 1947 میں آئین ساز اسمبلی میں پیش کیا تھا جسے نہرو نے 1952 کے عام انتخابات میں اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا۔ لیکن امبیڈکر کے ابتدائی مسودات کی ہندتوا گروپوں اور خاص طور پر ساورکر جیسے لیڈروں نے سخت مخالفت کی جس کے نتیجے میں اس بل کو شکست ہوئی۔ بابا صاحب امبیڈکر کے استعفیٰ کی اصل وجہ ہندو قوم پرست تنظیموں کی جانب سے ہونے والی مخالفت ہے۔
آج بی جے پی بابا صاحب امبیڈکر کو لے کر گفتگو کر رہی ہے، آئین پر ہونے والی بحث کو سیاسی طور پر کنٹرول کرنا چاہتی ہے، وہ پارلیمنٹ کو ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کر رہی ہے، ایک جھوٹا بیانیہ چلا رہی ہے کہ بس وہی ایک پارٹی ہے جو دیش بھکت ہے، باقی ساری پارٹیاں دیش دروہی ہیں، اس کے سرکردہ لیڈر قانون ساز اسمبلی کی بحثوں کو ہی غلط بیان کرنے میں لگے ہوئے ہیں، مودی حکومت اپنے آپ کو پس ماندہ طبقات کی چیمپین کہتی ہے ان کو با اختیار بنانے کے لیے متعدد اقدامات کرنے کی بات کرتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان طبقات کی سماجی، سیاسی اور معاشی حالت جوں کی توں برقرار ہے۔ اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ جس شخص نے ان مظلوم طبقات کے لیے اپنی زندگی صرف کردی تھی، اسی پر ہرزہ سرائی کی جا رہی ہے۔ ان حالات میں ضروری معلومات ہوتا ہے کہ ایسا شخص جس کے دل میں پس ماندہ اور مظلوم طبقات کے لیے کوئی جگہ نہ ہو، اسے پارلیمنٹ میں یا کسی قانونی عہدے پر برقرار رہنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ یہ مطالبہ کسی قسم کے جذبات میں آکر نہیں کیا جا رہا ہے، بلکہ حقائق پر مبنی ہے، کیوں ان لوگوں نے پارلیمنٹ جیسے مقام پر جھوٹ بولا ہے، اپنے جھوٹ سے نہ صرف پارلیمنٹ کو بلکہ عوام کو بھی گم راہ کیا ہے، لہٰذا اب امیت شاہ اور ان کی پارٹی بی جے پی کو حکومت کرنے کا اخلاقی حق حاصل نہیں رہا۔

 

***

 امیت شاہ کی اس تقریر کو ایک اور بد حواس تقریر میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ نہرو نے بابا صاحب امبیڈکر کو ہندو کوڈ بل تیار کرنے کے لیے کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا اور پارلیمنٹ میں ہندو کوڈ بل کی شکست کے بعد احتجاجاً 27 ستمبر 1951 کو بابا صاحب نے نہرو کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا، یہ بھی صاف جھوٹ ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 جنوری تا 11 جنوری 2024