صحتمند بھارتہی خوشحال بھارت کی تشکیل کا اہم ذریعہ
آیوشمان بھارت کی توسیع سے صحت و نگہداشت کے میدان میں بہتری ممکن
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
سالانہ 5لاکھ روپے کے علاج و معالجہ کا تحفظ قابل تعریف مگر مزید اصلاحات کی جانب توجہ ضروری
ملک بھر میں جاری آیوشمان کی عظیم مہم کے دوران پانچ کروڑ سے زائد لوگوں نے آیوشمان بھارت ہیلتھ اکاؤنٹس کا کھاتہ کھلوایا ہے۔ اس مہم میں آیوشمان صحت بخش مندر میلوں اور ہیلتھ سنٹرس میلوں کا نظم کیا جارہا ہے۔ اب تک 13.8لاکھ میلوں میں 11کروڑ سے زائد لوگوں کی شرکت ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ آیوشمان بھارت بیمہ یوجنا کے تحت غریب کنبوں کو سالانہ 5لاکھ روپے کے علاج و معالجہ کا تحفظ دیا گیا ہے۔ حکومت کے اس منصوبہ کے دائرہ میں 50کروڑ سے زائد لوگ آتے ہیں۔ یہ دنیا کا شعبہ صحت کے دائرہ میں سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ صحت مند رہنے کے لیے اچھی طرز زندگی اور وقتاً فوقتاً طبی تشخیص بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ جسمانی ورزش ، کھیل کود وغیرہ نہ کرنے سے اکثر بیماریاں خود در آتی ہیں۔ ہمارے ملک میں لوگوں کی بڑی اکثریت ہے جو شروع میں مرض کی ابتدائی علامات کو مسلسل نظر انداز کرتے رہتی ہے اور بعد میں شدید بیمار ہوجاتی ہے ۔ قومی صحت ضابطہ میں ان گوشوں پر بہت ہی زیادہ توجہ دی گئی ہے، اس لیے کسی آیوشمان ہیلتھ مندر میلوں اور دیگر ہیلتھ سنٹرس میلوں میں محض حکومت کی صحت سے متعلق سرگرمیوں اور منصوبوں کی اطلاع نہیں دی جاتی ہے یا بیمہ پالیسیز کے کھاتے ہی نہیں کھولے جاتے ہیں بلکہ ان یوجناوں میں ماہر ڈاکٹرس اور معالج بذریعہ کمپیوٹر مشورہ بھی دیتے ہیں-اس سلسلے میں اب تک تقریباً 6.40کروڑ لوگوں کو مفت دوائیں بھی فراہم کی گئی ہیں۔ ایسے منصوبوں سے ہیلتھ سنٹرس کی سہولیات میں بھی اضافہ ہوا ہے جو باشندگانِ ملک کے لیے مفید ثابت ہو رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں اکثر خواتین حاملہ ہونے یا زچگی کے دوران دم توڑ دیتی ہیں۔ زچہ و بچہ کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ حمل قرار پانے کے بعد سے ہی مشورہ لینا شروع کر دینا چاہیے۔ ان میلوں میں لاکھوں بچے والی خواتین کو اپنے بچوں کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ ایسے منصوبوں میں سرجری کا بھی نظم رہتا ہے جس سے کثیر تعداد میں لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں۔ کئی ریاستوں اور یونین ٹریٹریز نے اپنے خرچ پر آیوشمان بھارت یوجناوں کو مزید مفید بناکر بڑھاوا دیا ہے۔ دسمبر 2023تک 28.45کروڑ آیوشمان کارڈوں کا اجرا ہوچکا ہے۔ جن میں تقریباً 10کروڑ کے لگ بھگ گزشتہ سال ہی جاری کیے گئے ہیں۔ اعداد وشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس منصوبے کے فوائد کو دیکھ کر اس منصوبے کے تئیں لوگوں کا اعتماد حاصل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے موثر نفاذ کے لیے جو ہسپتال کسی طرح کی بدعنوانی میں ملوث پائے جاتے ہیں ان پر مناسب اور بروقت کارروائی بھی ہوئی ہے۔ یہ یوجنا غربا کے لیے تریاق ثابت ہورہی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ آج آزادی کے 76 سال گزر جانے کے بعد بھی 74فیصد سے زائد باشندگان ملک صحت بخش غذا کا خرچ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے جبکہ ہمارا ملک معاشی طور سے سب سے تیز رفتاری سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔ اس لیے توقع کی جا رہی ہے کہ 2027تک بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔ ہماری معیشت جو بھی ہو اگر زیادہ تر آبادی بیمار اور غیر صحت مند ہو تو ہماری معیشت کے شرح نمو کا میٹرکس ملک کی صحت سے لاتعلق ہے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگرکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کی طرف سے علاقائی رپورٹ 2023میں حیرت انگیز ڈیٹا سامنے آیا ہے جو 2021 کی رپورٹ پر ہی تیار کیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس خطہ میں تغذیہ کی کمی کے لحاظ سے 37.07 کروڑ لوگ متاثر ہیں۔ ایف اے او کی رپورٹ سے یہ پتہ چلا ہے کہ ملک کی 53 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کا 31.7 فیصد، اونچائی عمر کے اعتبار سے کم ہے اور 18.7 فیصد بچوں کا وزن ان کی اونچائی کی نسبت کم ہے۔ اس لیے ایف اے او کا ماننا ہے کہ جب تک کم آمدنی کی سطح، بڑھ رہی غذائی قیمتوں کے مساوی نہیں ہوتی ہے اس وقت تک غیر صحت بخش غذاوں پر انحصار کم نہیں ہوگا۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق برکس ممالک میں بھارت کے 91فیصد لوگ 280 روپے یومیہ (3.5ڈالر یومیہ) سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو دنیا کی بڑھتی معیشتوں میں سب سے کم ہے حالانکہ امیروں کی تعداد عالمی سطح پر زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب غریب کنبوں کی آمدنی کم ہوتی ہے تو وہ خورد و نوش میں پہلے کٹوتی کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ بھارت کے 74 فیصد افراد صحت بخش غذا کے حصول میں ناکام ہیں تو ہماری غیر صحتمند بڑھتی آبادی ہماری ترقی سے کیسے مستفید ہوپائے گی؟ حالانکہ کسی قوم کی ترقی کا پیمانہ ایک صحت مند قوم ہونا چاہیے۔ اب تو ملک میں کینسر وبائی صورت اختیار کرنے جارہا ہے ۔
ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ یہاں کے لوگ گوناگوں امراض سے ہمیشہ پریشان رہتے ہیں اس میں سے ایک بڑی تعداد کو اپنے جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے ۔ اس میں غیر متعدی بیماریاں یعنی INCDS اہم ہیں جس سے سابقہ ملک کی بڑی آبادی کو ہے۔ اس لیے ہمیں ایک صحت مند ملک کے خواب کی تکمیل کے لیے شعبہ طب میں اختراعیت کی ضرورت ہے جس میں جدید طب کے ساتھ آیوش کے مرکزی کردار پر توجہ دی جانی چاہیے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے 2019 کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 66 فیصد لوگوں کی موت این سی ڈیز کی وجہ سے ہوتی ہے جس میں قلبی امراض، کینسر، دمہ، تپ دق، ذیابطیس وغیرہ خاص ہیں۔ اس لیے بھی دیکھا گیا ہے کہ 22فیصد لوگ جن کی عمر 30سال سے زیادہ ہوتی ہے وہ ملک کی اوسط عمر 70سال کے قبل ہی این سی ڈی ایس کے شکار ہو کر دنیا کو خیرباد کہہ دیتے ہیں جو عالمی اوسط 18فیصد سے زائد ہے۔ ایسے غیر متعدی امراض کے پھیلاو کے بہت سارے عوامل ہیں جس میں ورزش اور جسمانی سرگرمیوں کا فقدان، غیر صحتمند غذا، الکوہل اور تمباکو کی لت وغیرہ ہے۔ ہمارے ملک میں دل کی بیماریاں عام ہورہی ہیں۔ اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ طرز زندگی کو بدلیں۔ پیدل چلنے یا مارننگ واک کو اپنی زندگی کا جز بنائیں۔ صرف تیس منٹ کی ہلکی ورزش یا پیدل چلنا ہمارے دل کو مضبوط اور ہڈیوں کو طاقتور اور بدن کی اضافی چربی کو کم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ فاسٹ فوڈ یا جنک فوڈ سے پرہیز ضروری ہے۔ 2024 میں صحت عامہ کو فروغ دینے غیر متعدی امراض سے تحفظ کے لیے آیوش جس میں یونانی، آیورویدی، یوگا، نیچرو ہومیوپیتھی اور سدھا جیسے طریقہ علاج کو ملاکر موثر بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سے این سی ڈیز کی وجہ سے ہونے والی اموات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ مگر ضرورت ہے کہ آیوش کو بہتر تحقیق کے ذریعہ مزید معیاری طریقہ علاج بنایا جائے۔ اب بھی آیوش سے توقع کی جاسکتی ہے کہ صحت مند بھارت بنانے کے لیے یہ ایک موثر ذریعہ ہوگا کیونکہ ایک صحتمند بھارت ہی خوشحال بھارت کی تشکیل کرسکتا ہے۔ اس لیے جدید ادویات اور آیوش سسٹم کے درمیان ہم آہنگی لوگوں کی صحت کے تئیں چیلنجز کو بہتر طریقے سے نمٹا سکے گی۔
***
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے 2019 کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 66 فیصد لوگوں کی موت این سی ڈیز کی وجہ سے ہوتی ہے جس میں قلبی امراض، کینسر، دمہ، تپ دق، ذیابطیس وغیرہ خاص ہیں۔ اس لیے بھی دیکھا گیا ہے کہ 22فیصد لوگ جن کی عمر 30سال سے زیادہ ہوتی ہے وہ ملک کی اوسط عمر 70سال کے قبل ہی این سی ڈی ایس کے شکار ہو کر دنیا کو خیرباد کہہ دیتے ہیں جو عالمی اوسط 18فیصد سے زائد ہے۔ ایسے غیر متعدی امراض کے پھیلاو کے بہت سارے عوامل ہیں جس میں ورزش اور جسمانی سرگرمیوں کا فقدان، غیر صحتمند غذا، الکوہل اور تمباکو کی لت وغیرہ ہے۔ ہمارے ملک میں دل کی بیماریاں عام ہورہی ہیں۔ اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ طرز زندگی کو بدلیں۔ پیدل چلنے یا مارننگ واک کو اپنی زندگی کا جز بنائیں۔ صرف تیس منٹ کی ہلکی ورزش یا پیدل چلنا ہمارے دل کو مضبوط اور ہڈیوں کو طاقتور اور بدن کی اضافی چربی کو کم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ فاسٹ فوڈ یا جنک فوڈ سے پرہیز ضروری ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2024