
صحت عامہ پر تشویش بجا مگر تیر صرف دیسی کھانوں ہی پر کیوں؟
الٹرا پراسیس فوڈ کو چھوٹ لیکن سموسہ کچوری اور جلیبی نشانے پر!
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
گزشتہ ماہ مرکزی ہیلتھ سکریٹری کے ایک خط نے ملک بھر میں ایک نیا طوفان کھڑا کر دیا۔ اس خط میں تمام وزارتوں اور شعبوں سے گزارش کی گئی تھی کہ عوامی مقامات اور کیفیٹیریا میں ’’چینی‘‘ اور ’’چکنائی‘‘ (شوگر اور فیٹ) سے متعلق تختیاں نصب کی جائیں جن پر جلیبی، سموسہ، وڑا پاؤ، کچوری، حتیٰ کہ پیزا اور برگر میں موجود چینی اور چربی کی مقدار درج ہو۔ بعد میں وزارتِ صحت نے وضاحت دی کہ اس اقدام کا مقصد کسی مخصوص غذائی شے کو نشانہ بنانا نہیں تھا بلکہ ملک میں بڑھتے ہوئے موٹاپے اور غیر متعدی بیماریوں (Non-Communicable Diseases) کی روک تھام کے لیے تھا۔
واقعی صحت ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ معروف طبی جریدہ دی لانسیٹ کے مطابق 2050ء تک بھارت میں زیادہ وزن والے افراد کی تعداد 44.9 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایڈوائزری نہ صرف مبہم ہے بلکہ مکمل طور پر مغربی صحت کے نظریات پر مبنی ہے۔ اس کا اثر الٹا ہوا ہے — جہاں اصل فوکس الٹرا پروسیسڈ فوڈز پر ہونا چاہیے تھا وہاں بحث کا رخ بھارتی تہذیب اور وراثتی کھانوں کی طرف مڑ گیا ہے۔ نتیجتاً اس اقدام کو نوکر شاہی کی جانب سے تہذیبی وراثت میں مداخلت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور یہ خود ایک نیا موضوعِ بحث بن چکا ہے۔
کھلے بازار میں جب الٹرا پروسیسڈ، یعنی صنعتی کارگزاریوں سے گزرے چپس، کوکیز اور کولا جیسے دشمنِ صحت غذائی اشیا سوپر مارکیٹ میں دستیاب ہیں تو پھر جلیبی اور سموسے جیسی روایتی غذائی اشیا کو حکومت کیوں نشانہ بنا رہی ہے؟ ایڈوائزری میں بہت زیادہ چینی اور تیل کے استعمال والی دیگر غذائی اشیا کا بھی ذکر ہے جیسے پکوڑے، کیلے کے چپس، گلاب جامن وغیرہ۔
روزمرہ میں استعمال ہونے والی ان غذائی اشیا کو مغربی طرزِ زندگی میں مستعمل مصنوعات کی طرح نہیں سمجھا گیا۔ مگر بھارتی غذائی اشیا کو صرف کیلوری کے پیمانے پر پرکھنا مناسب نہیں ہے۔ مثلاً دال اور گھی میں تیار کی گئی مشہور راجستھانی ڈَل، باٹی، چورما، لوچ (پوری) آلو دم، رس گلا اور سندیش جیسی بنگالی مٹھائیاں یا مغلائی بریانی اور قورمہ ہماری تہذیبی وراثت ہیں۔
ان تمام اشیا میں صحت کی بہتری کے کئی اوصاف بھی پائے جاتے ہیں۔ ان میں ہلدی اور زیرہ جیسے مصالحہ جات ہمارے معدے کو بہتر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ظہرانے یا عشائیے میں ایسی غذائیں ہمیں نفسیاتی طور پر صحتمند اور مطمئن رکھتی ہیں۔
اس طرح کی تنبیہ دراصل ہماری ثقافتی وراثت کے خلاف محسوس ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ایڈوائزری دیگر ممالک میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کے مد نظر جاری کی گئی ہے۔ مثلاً میکسیکو میں موٹاپے کے پیش نظر 2020 سے سوڈا اور چپس جیسے زیادہ چینی اور تیل والی اشیا پر تنبیہ جاری کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح برطانیہ میں زیادہ چینی والے مشروبات پر اضافی ٹیکس لگانے کی بات ہو رہی ہے اور سنگاپور میں ہیلتھ پروموشن بورڈ اپنے شہریوں کو تیل سے تیار کردہ فرائڈ نوڈلز سے دور رہنے کی ہدایت دیتا ہے۔
غیر ممالک میں جاری کردہ ان تنبیہات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان سب میں سوڈا، ڈونٹس اور فرائی جیسے پروسیسڈ پیداوار کو نشانہ بنایا گیا ہے جنہیں کارپوریٹ کمپنیاں بہت خوبصورت پیکیجنگ میں فروخت کرتی ہیں لیکن ملک میں اسٹریٹ فوڈز کو نشانہ بنانا وزارتِ صحت کی ایڈوائزری میں زیادتی محسوس ہوتی ہے، کیونکہ سڑک کے کنارے دکاندار کی فروخت کردہ غذائی اشیا، بیگ میک میک ڈونلڈ کے ہیمبرگر کی جتنی نقصان دہ ہرگز نہیں ہیں۔ مثلاً 471 گرام کے برگر یا پیزا میں تقریباً 1377 کیلوریز ہوتی ہیں، 117 گرام فرنچ فرائز میں 342 کیلوریز، ایک گلاب جامن کے وزن کے برابر چاکلیٹ پیسٹری میں تقریباً 32 گرام چینی ہوتی ہے۔ یہ سب اشیاء بھی کم نقصان دہ نہیں ہیں لیکن وزارتِ صحت کی ایڈوائزری کا نشانہ نہیں بن رہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کڑی، ڈوسہ، اڈلی، پراٹھا اور بریانی جیسی مشہور بھارتی غذائیں اشیاء نے نیویارک کے ریستورانوں اور لندن کے "کڑی ہاؤسز” تک اپنی جگہ بنائی ہے، جہاں ان سے کسی کو پریشانی نہیں ہے۔ اب سموسہ اور جلیبی بھی مغربی دنیا میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ لوگ ان کھانوں کو صحت کے لیے نہیں بلکہ ذائقے کے لیے کھاتے ہیں — اور یہی ان کی اصل کشش ہے۔
یمس ناگپور سے جاری کردہ ایک حالیہ سرکاری ایڈوائزری میں ’’کیلوری کنٹرول‘‘ کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے، تاہم اس ایڈوائزری میں بھارتی تلی ہوئی اور مصالحہ دار روایتی غذاؤں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جس پر تنقید شروع ہو گئی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ایڈوائزری دراصل مغربی افکار و نظریات کی عکاسی کرتی ہے اور اس میں مقامی تہذیبی ورثے اور کارپوریٹ کمپنیوں کے تیار کردہ مضرِ صحت ’’جنک فوڈز‘‘ کے درمیان کوئی واضح فرق نہیں کیا گیا ہے۔
تنقید کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ وزارتِ صحت میں شامل مغربی سوچ رکھنے والے افسران — چاہے وہ بیرونِ ملک تعلیم یافتہ ہوں یا ملک میں ہی مغربی انداز سے متاثر ہوں — عام بھارتی شہریوں کی طرزِ زندگی سے نابلد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی ایڈوائزری عام شہریوں کے لیے غیر مؤثر اور پریشان کن بن جاتی ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ بھارت میں صحتِ عامہ کے حوالے سے اعداد و شمار حوصلہ افزا ہیں۔ مثال کے طور پر، سال 2000 میں بھارت میں اوسط متوقع عمر 63.7 سال تھی جو 2024 میں بڑھ کر 76 سال ہو چکی ہے — حالانکہ بڑی تعداد میں لوگ غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
اگر اس کا موازنہ نائجیریا (54 سال) اور امریکہ (77.5 سال) سے کیا جائے جہاں موٹاپا اور منشیات کا استعمال سنگین مسئلہ بن چکا ہے تو بھارتی عوام کی صحت کا عمومی معیار بہتر دکھائی دیتا ہے۔ بھارتی شہری اب بھی گھر کے پکے ہوئے کھانوں کو ترجیح دیتے ہیں اور یوگا اور دیگر ورزشیں بھی کرتے ہیں۔ اس رجحان کے پیچھے سرکاری کوششوں سے زیادہ عوامی شعور اور سماجی روایت کا دخل ہے۔ عام شہری یہ بخوبی جانتے ہیں کہ کب جلیبی کا ذائقہ لینا ہے اور کب سموسہ کھانا ہے۔
اسی تناظر میں ناقدین کا کہنا ہے کہ وزارتِ صحت کو صرف ایڈوائزری جاری کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ الٹرا پروسیسڈ فوڈز پر پابندی یا ان کے خلاف آگاہی مہم چلانا زیادہ ضروری ہے۔
ایڈوائزری پر رد عمل دیتے ہوئے مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بنرجی نے واضح طور پر کہا ہے کہ ریاست میں یہ ایڈوائزری لاگو نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں طنز کرتے ہوئے کہا کہ کچھ میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ مرکزی وزارتِ صحت نے سموسہ، جلیبی اور دیگر روایتی غذاؤں کے خلاف ایڈوائزری جاری کی ہے۔ یہ مغربی بنگال حکومت کا فرمان نہیں ہے، ہم اسے لاگو نہیں کرنے والے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ سموسہ اور جلیبی دیگر ریاستوں میں بھی بہت مقبول ناشتہ ہیں، اور لوگ انہیں پسند کرتے ہیں۔ ترنمول حکومت عوام کی غذائی عادات میں مداخلت نہیں کرتی۔
ریاست میں حکم راں ترنمول کانگریس نے بھی مرکز کی وزارتِ صحت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایڈوائزری مقامی ثقافت، کھانوں اور طرزِ زندگی سے مطابقت نہیں رکھتی اور زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرتی ہے۔
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کی رہنمائی میں کیے گئے ایک حالیہ مطالعے میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر چوتھا شادی شدہ جوڑا موٹاپے یا زائد وزن کے زمرے میں آتا ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ طرزِ عمل 30 سال سے کم عمر کے زوجین میں تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ مطالعے میں ان شادی شدہ افراد کو زائد وزن کا حامل تصور کیا گیا جن کا باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) 23 یا اس سے زیادہ تھا۔
ایک اہم پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ ملک کے امیر ترین طبقے میں تقریباً 47.6 فیصد شادی شدہ جوڑوں میں دونوں میاں بیوی کا وزن یکساں طور پر بڑھا ہوا پایا گیا ہے جبکہ سب سے غریب طبقے میں یہ شرح صرف 10.2 فیصد تھی۔
ایک اور تحقیق میں 2019-20 کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (NFHS) کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جس میں پورے بھارت سے 52,737 شادی شدہ جوڑوں کو شامل کیا گیا۔ یہ ملک میں شادی شدہ جوڑوں کے موٹاپے کی یکسانیت پر کی جانے والی اب تک کی سب سے بڑی تحقیق تھی۔ نتائج کے مطابق 27.4 فیصد زوجین ایسے تھے جن میں دونوں شریکِ حیات زائد وزن یا موٹاپے کی یکساں کیفیت کا شکار تھے۔ یہ رجحان بالخصوص شہری اور خوشحال خاندانوں میں زیادہ دیکھا گیا ہے۔
اسی تناظر میں چین کے جیانگا اسکول آف میڈیسن کے محققین نے ایک تحقیق میں 7,258 درمیانی عمر کے مرد و خواتین کو شامل کیا، جن کا باڈی راؤنڈنیس انڈیکس (یعنی قد کے مقابلے میں کمر کے گھیر کا تناسب) زیادہ تھا۔ تحقیق میں انکشاف ہوا کہ ایسے افراد میں ڈپریشن کا خدشہ 40 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ بتائی گئی کہ جسم میں موجود چربی کے خلیے (Fat Cells) فری ریڈیکلز کی مقدار بڑھا دیتے ہیں جو دماغ میں موڈ کو قابو میں رکھنے والے کیمیکل سیروٹونن (Serotonin) کی سطح کو کم کر دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پیٹ کی چربی (Belly Fat) صرف میٹابولزم ہی نہیں بلکہ ہماری بصارت، سماعت، سونگھنے اور ذائقہ محسوس کرنے کی صلاحیتوں پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
خراب طرزِ زندگی سے پیدا شدہ امراض میں موٹاپے کے ساتھ، ذیابیطس، ہائپر ٹینشن، امراضِ قلب اور چند کینسر کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں غیر متعدی امراض (NCDs) کے بڑھتے ناسور سے ملک بھر میں 66 فیصد اموات ہوئی ہیں۔
یو این ہیلتھ سکریٹری کے خط میں 2024 کے مطالعہ کا ڈیٹا آیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ The Lancet Global Burden of Disease کے مطابق موٹاپے اور زیادہ وزن (Overweight) والے بالغ 2021 میں 18 کروڑ تھے جو 2050 میں 44.9 کروڑ ہو جائیں گے۔ ملک کے ایک نمائندہ مطالعے میں 35.1 کروڑ لوگ پیٹ کے موٹاپے میں مبتلا پائے گئے ہیں۔
اس سے قبل وزیراعظم مودی نے بھی عام شہریوں سے اپیل کی تھی کہ صحت مند اور بہتر طرزِ زندگی اختیار کرتے ہوئے تیل اور چینی کی کھپت کو کم کریں۔
ہمارے ملک میں سب سے بڑا مسئلہ جس سے موٹاپے میں اضافہ ہو رہا ہے وہ غذائی اجناس بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ہے، جنہوں نے الٹرا پروسیسڈ غذائی اجناس سے سارے ملک کو بھر دیا ہے۔ اس میں تیل، چینی اور نمک کی زیادتی کے ساتھ چٹپٹے کیمیکلز ملائے جاتے ہیں جو تباہی مچانے کے لیے کافی ہوتے ہیں جسے سماج کا بڑا طبقہ، خصوصاً بچے اور نوجوان زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ مسلسل الٹرا پروسیسڈ غذا کے استعمال سے موٹاپا منسلک ہے۔ یہ غذائیں نہ صرف کیلوری کی مقدار کو بڑھاتی ہیں بلکہ یہ صحت مند غذا، جس میں تغذیہ، فائبر اور وٹامن ہوتے ہیں، ان کی مقدار کو بھی کم کر دیتی ہیں۔
چند مطالعوں سے پتہ چلا ہے کہ الٹرا پروسیسڈ کھانے ایڈکٹیو ہوتے ہیں۔ اگر ایسی غذاؤں تک رسائی آسان ہو تو لوگوں کا بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے حکومت کو ایم این سیز کے فوڈ پروڈکٹس کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے پالیسی بنانی چاہیے تاکہ عام شہریوں کی صحت خراب نہ ہو۔ ساتھ ہی شہریوں میں تیل، چینی اور نمک کے تعلق سے قومی بیداری پیدا کی جائے۔
ہمارا ملک بڑی ڈیموگرافک ڈیویڈ والا ملک ہے جہاں ساٹھ فیصد نوجوانوں کی آبادی ہے۔ اگر نوجوانوں کی صحت اچھی ہو گی تو ملک ترقی کرے گا۔
***
***
چند مطالعوں سے پتہ چلا ہے کہ الٹرا پروسیسڈ کھانے ایڈکٹیو ہوتے ہیں۔ اگر ایسی غذاؤں تک رسائی آسان ہو تو لوگوں کا بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے حکومت کو ایم این سیز کے فوڈ پروڈکٹس کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے پالیسی بنانی چاہیے تاکہ عام شہریوں کی صحت خراب نہ ہو۔ ساتھ ہی عام شہریوں میں تیل، چینی اور نمک کے تعلق سے قومی بیداری پیدا کی جائے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025