صحت عامہ کی پالیسی : عوام کے بجائے کارپوریٹس کو ترجیح
صحت مند زندگی کے لیے بیداری پروگراموں کے ذریعہ کروڑہا لوگوں کا موذی امراض سے تحفظ ممکن
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ہمارے ملک کا طبی نظام کافی مہنگا ہے۔ طبی خدمات حاصل کرنے کے لیے اتنا پیسہ خرچ ہو جاتا ہے کہ خدانخواستہ اگر کوئی موذی مرض میں مبتلا ہو جائے تو اس کا تو دیوالیہ ہی نکل جائے۔ ملک کی اکثر ریاستوں کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ عمارت ہے تو ڈاکٹر نہیں۔ ڈاکٹرس ہیں تو طبی جانچ کے لیے مناسب انفراسٹرکچر نہیں۔ اور کہیں تو طبی عملہ کی لاپروائی یا کمی کی وجہ سے ہسپتالوں میں پڑی ہوئی مشینیں زنگ آلودہ ہوجاتی ہیں۔ اس لیے علاج کے لیے کوئی سرکاری ہسپتال پہنچ جائے تو یہ ان کی قسمت ہو گی کہ انہیں کسی انسان دوست ڈاکٹر سے واسطہ پڑے۔ اس کے برخلاف نجی اسپتالوں میں مجبوراً داخلہ کے بعد آپ کے بھاری اخراجات کا میٹر چالو ہوجائے گا۔ خواہی نخواہی کارپوریٹ ہسپتالوں کے اصول کے تحت اپنے سارے جانچ کروانے کے بعد ہی آپریشن کا مرحلہ آئے گا اور ہوسکتا ہے کہ کوئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر وہاں میسر ہی نہ ہو۔ مثلاً دلی کے صفدر جنگ ہسپتال میں زیادہ قیمتی میڈیکل میں کام آنے والے سامان لینے اور ڈاکٹر کے مشورہ کے مطابق جانچ مرکز جانے کے لیے دباو ڈالا جاتا ہے۔ یہ ہے دارالحکومت دلی کا حال۔ بہار، اتر پردیش اور مشرقی ریاستوں میں حکومت کے دعووں کے مطابق ہمہ جہتی ترقی کی گنگا بہہ رہی ہے۔ مگر زمینی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ معاشی، سماجی، تعلیمی تمام شعبوں کا حال برا ہے۔ ان ریاستوں کے قصبوں اور اضلاع میں گزشتہ دہائی کے بہترین عمارتوں کا جائزہ لیں تو زیادہ تر مکانات ٹھیکہ داروں کے ہوں گے یا ڈاکٹروں کے۔ اس ضمن میں کناٹ پیلیس دلی کے ایک بینک مینیجر کا کہنا ہے کہ اس نے پہلے میڈیکل کی دکانوں، جانچ گھروں، اسپتالوں کے لیے موٹی رقم پانچ یا سات سالوں کے لیے قرض لی تھی مگر کورونا آفت کے دوران ہی اس نے وقت سے بہت پہلے تمام قرضوں کو ادا کر دیا ہے۔ ویسے ملکی روایت کے تحت ڈاکٹر کو خدا کا فرشتہ سمجھا جاتا ہے۔ چند سالوں قبل تک ہر طرح کی چھوٹی بڑی بیماریوں کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں ہو جایا کرتا تھا۔ اب تو کارپورٹائزیشن کے بعد وہاں میڈیکل انفراسٹرکچر کا خاتمہ ہی ہوگیا ہے۔ پیسے والے کارپوریٹ ہسپتالوں کی طرف دوڑتے ہیں اس لیے شعبہ طب کے سرکاری اداروں کے انتظامیہ کو اس رخ پر غور کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ساتھ ہی انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے ایماندار ڈاکٹروں اور طبی عملہ کو ازسر نو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری ادارے محض اچھے بجٹ سے صحت مند نہیں ہو سکتے، اس کے لیے بہتر منصوبہ بندی بھی ضروری ہے تاکہ ملک کے غریب عوام یہ سوچنے پر مجبور نہ ہوں کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں تو وہ علاج کیسے کرائیں گے؟ اس لیے دواوں، معاون میڈیکل آلات کی قیمتوں کو قابو میں لانا ضروری ہے۔
ملک میں آزادانہ معیشت (liberalisation) کے بعد جن پیشوں میں سب سے زیادہ ترقی ہوئی ہے وہ ہیں تعلیم اور طب۔ یہ وہ اہم شعبے ہیں جن کو قومیانے کی اکثر باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں یا کم از کم ریاستوں کے ذمہ کرنے کا مطالبہ بار بار ہوتا رہتا ہے۔ مگر حکومتوں نے ہمیشہ اسے نظر انداز ہی کیا ہے۔ اب راجستھان پہلی ریاست بن گئی ہے جو شعبہ طب کو شہری حقوق کے زمرے میں لانے کے لیے تیار ہو گئی ہے۔ مگر ریاست کے نجی اور سرکاری ڈاکٹروں کے ساتھ طبی عملہ اس کی مخالفت پر اتر آیا ہے۔ یاد رہے کہ دستور کے آرٹیکل 21 کے تحت شہریوں کو حقوق صحت بھی حاصل ہیں۔ آج جبکہ ہم آزادی کے 75 سال بعد امرت مہاتسو منا رہے ہیں تو کم از کم ایک کانگریسی ریاستی حکومت نے اسے اپنی ذمہ داری سمجھا اور ستمبر 2022 میں قانون سازی بھی کرلی۔ ممکن ہے اس سے حکومت کو سیاسی فائدہ بھی ہو۔ ساتھ ہی اس قانون کی مخالفت کرنے والے ڈاکٹروں کا الزام ہے کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد وہ آزادی سے مریضوں کا علاج کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ویسے ہم نے آزادی کے امرت مہاتسو مناتے ہوئے فراخ دلی سے تعلیم اور طب کے شعبوں کے بجٹ میں کافی کمی کر لی ہے چنانچہ 2018-19 کی رپورٹ کے مطابق ملک کے جی ڈی پی کے تناسب میں گزشتہ سال (2017-18) میں 1.35 فیصد سے کم کر کے 1.28 فیصد کر دیا گیا ہے۔ کل شعبہ صحت کے اخراجات سرکاری اور غیر سرکاری ایجنٹوں کو ملا کر 3.9 فیصد سے کم ہو کر پانچ سالوں میں 3.2 فیصد ہوگئے ہیں۔ ہمیں دنیا کی پانچویں بڑی معاشی قوت بننے پر فخر ہے تو ہمیں ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہونے کے لیے معاشی ترقی کے ساتھ تعلیمی اور طبی میدان میں بہت آگے بڑھنا ہوگا۔ ہم ہمیشہ ترقی یافتہ مغربی ممالک کی ترقی کا حوالہ دے کر اس سے آگے نکلنے کی باتیں کرتے ہیں مگر ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اٹلی میں صحت عامہ کا بجٹ اور سرکاری خرچ بہت زیادہ ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں پرائیویٹائزیشن کے باوجود سرکاری شعبہ طب بہت ہی بہتر حالت میں ہے۔ برازیل، بریکس ممالک کا ایک رکن ہے وہاں بھی اپنے شہریوں کے علاوہ غیرملکیوں کا بھی تقریباً مفت علاج ہوتا ہے۔ اس طرح ناروے، فن لینڈ اور ڈنمارک جیسے ممالک میں بھی شہریوں کے مفت علاج کی روایت ہے۔
حالیہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 5 (NFH5) کی رپورٹ کے مطابق ہم اپنے طبی نظام کو مزید بہتر کر سکتے ہیں۔ ہمارے ریاستی ہسپتالوں کا نظام خراب ہونے کے باوجود حاملہ خواتین دایہ کے ذریعہ گھروں میں زچگی کروانے کے بجائے سرکاری ہسپتالوں کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ بیمارو (BIMARU) ریاستوں کے ہسپتالوں میں گزشتہ 10 سالوں میں زچگی کی شرح 89 فیصد بڑھی ہے۔ اگرچہ زچہ اور بچہ کی شرح اموات سال 2010 کی طرح کی ہی ہے۔ ہمارے ملک میں کارڈیو ویسکولر ڈسییزیز (CVD) کینسر، کرونک ریسپائیریٹوری ڈیسیز (CRDs) اور ذیابیطس جیسی بیماریاں بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے جن کا تعلق ہمارے روز مرہ کے طریقہ زندگی سے زیادہ منسلک ہے جس میں غیر صحت مند غذا، جسمانی ورزش کا فقدان اور شراب و تمباکو کا استعمال زیادہ ہے۔ انڈیا ہیلتھ آف دی نیشنس اسٹیٹس کی رپورٹ کے مطابق Noncommunicable Diseases (NCDs) سے اموات کی شرح 1990 میں 38 فیصد سے بڑھ کر 2016 میں 62 فیصد ہو گئی ہے۔ موٹاپا۔ NFH4 اور NFH5 کے درمیان 19 فیصد سے بڑھ کر 23 فیصد ہو گیا ہے۔ اب تو دلی کے 38 فیصد لوگ موٹاپے کا شکار ہیں۔ اس کے بعد کیرالا اور تمل ناڈو کے لوگ ہیں۔ موٹاپے سے ذیابیطس، بلڈ پریشر اور سی یو ڈی کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ صحت مند زندگی کے لیے بیداری کے ذریعہ ہم کروڑوں لوگوں کو موذی امراض سے بچاسکتے ہیں۔ نتیجتاً وہ وقت سے پہلے موت کے منہ میں جانے سے بچ سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت موذی امراض کا کم قیمتوں پر علاج فراہم کرائے اور ہسپتالوں کی طبی خدمات کو بہتر کرے۔
حالیہ لانسیٹ Lancet کی 2023 کی اشاعت کے مطابق ضروری طبی خدمات مرکزی اور ریاستی حکومتوں ہسپتالوں میں ہر طرح کے سہولیات میسر ہیں۔ خواہی نخواہی لوگوں کو نجی اسپتالوں پر منحصر ہونا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ آسام، مدھیہ پردیش، پنجاب، میزورم اور یو پی وغیرہ کے ضلعی ہسپتالوں میں محض ایک فیصد ہی سہولیات دستیاب ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ میٹرو اور ضلعی ہسپتالوں کے درمیان کا تفاوت کم سے کم ہو کیونکہ بڑے شہروں کے سرکاری ہسپتالوں میں بہتر طبی سہولیات ملتے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مرکزی حکومت کے کنٹرول والے ہسپتالوں میں چالیس فیصد طبی عملے کے لیے جگہ خالی ہے اسی سے ضلعی ہسپتالوں کی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ہمارے ملک کی بڑی آبادی کے پاس ہیلتھ انشورنس نہیں ہے مگر اب تین سالوں کے اندر چار کروڑ لوگوں کا ہیلتھ انشورنس کروایا گیا ہے اور 2018 سے آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت 5 لاکھ روپے سالانہ مالیت کا 10 کروڑ غریب کنبوں کا ہاسپٹلائزیشن کا انشورنس کروایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ریاستی انشورنس اسکیموں کا بھی اجرا ہوا ہے۔ اس کے باوجود کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کا کسی طرح کا ہیلتھ انشورنس نہیں ہے۔ اس لیے ایسے لوگوں کو بیمار ہونے پر خانگی ڈاکٹروں کی فیس، ڈائیگونسٹکس اخراجات اور ادویات کی خریداری میں بہت پیسے نکل جاتے ہیں اور اس طرح متوسط طبقہ کی بڑی تعداد خط افلاس تک پہنچ جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ غیر منظم شعبوں کے متوسط طبقہ کو قابل دسترس صحت خدمات فراہم کی جائیں۔ طبی میدان میں حالیہ دنوں میں ڈیجیٹل ٹکنالوجی اور مصنوعی ذہانت (AI) کا عمل دخل کافی بڑھا ہے۔ اب تو روبوٹ کی مدد سے سرجری، جینیٹک کے استعمال AI کے ذریعہ مرض کی تشخیص اور وبائی مرض کی پیشگی اطلاع کا خیرمقدم ہو رہا ہے۔ لیکن ان تمام تر خرابیوں کے باوجود ہمارے ملک نے طبی میدان میں ترقی کی ہے۔
***
***
ملک میں آزادانہ معیشت (liberalisation)کے بعد جن پیشوں میں سب سے زیادہ ترقی ہوئی ہے وہ ہیں تعلیم اور طب۔ یہ وہ اہم شعبے ہیں جن کو قومیانے کی اکثر باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں یا کم از کم ریاستوں کے ذمہ کرنے کا مطالبہ بار بار ہوتا رہتا ہے۔ مگر حکومتوں نے ہمیشہ اسے نظر انداز ہی کیا ہے۔ اب راجستھان پہلی ریاست بن گئی ہے جو شعبہ طب کو شہری حقوق کے زمرے میں لانے کے لیے تیار ہو گئی ہے۔ مگر ریاست کے نجی اور سرکاری ڈاکٹروں کے ساتھ طبی عملہ اس کی مخالفت پر اتر آیا ہے۔ یاد رہے کہ دستور کے آرٹیکل 21 کے تحت شہریوں کو حقوق صحت بھی حاصل ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 مئی تا 13 مئی 2023