زعیم الدین احمد، حیدرآباد
جمہوریت کی سلامتی کے لیے میڈیا کو غیر جانب دار رہنے دیا جائے
بین الاقوامی پریس کا ادارہ انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ (آئی پی آئی) نے مودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کی حفاظت پر توجہ دے اور صحافیوں کے قتل اور ان پر ہونے والے حملوں کی جامع، شفاف اور ہمہ گیر تحقیقات کروائے۔
آئی پی آئی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، مودی کی پہلی دو میعادوں میں پریس کی آزادی تشویش ناک حد تک ختم ہوئی ہے۔ ان کی پہلی دو معیادوں میں نہ صرف آزادیِ صحافت پر قدغن لگا ہے بلکہ صحافیوں پر غداری کے الزام لگا کر ان پر مقدمات چلائے گئے اور انہیں جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ اب جب کہ نریندر مودی تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں تو آئی پی آئی نے دوبارہ اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سابقہ تجربات کی روشنی میں اس کی تشویش واجبی نظر آتی ہے۔ مودی کے دس سالہ دور اقتدار میں اور خاص کر دوسری میعاد میں پریس کی بالعموم اور صحافیوں کی بالخصوص جو درگت بنی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ جسے ہم مین اسٹریم میڈیا کہتے ہیں اسی نے صرف مودی کی تشہیر اور مودی حکومت کی مدح سرائی کو اپنا مقصد بنایا ہوا ہے، اسی لیے عوام نے بھی اس کا نام گودی میڈیا رکھ دیا، جب بھی عوامی احتجاج ہوتا تو یہ گودی میڈیا مودی کے دفاع میں آجاتا اور احتجاج کو غیر آئینی و غیر جمہوری ثابت کرنے میں لگ جاتا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا کی یہ صورت حال دیکھ کر سوشل میڈیا والے حقیقت حال بیان کرنے اور عوام کی نمائندگی کرنے لگے تو مودی حکومت ان سے خائف ہو کر ان پر مقدمات لگانے لگی انہیں جیلوں میں بند کیا جانے لگا، ان پر غداری کے الزامات لگائے جانے لگے اور مسلسل کوشش کی جانے لگی کہ کسی طرح سے ان کے یوٹیوب چینلوں کو بند کر دیا جائے۔ جب کہ ملک کا آئین اظہار آزادی رائے کا حق دیتا ہے، آئین کے آرٹیکل 19(1)(a) میں صاف لکھا ہوا ہے کہ اظہار آزادی رائے ایک بنیادی حق ہے اور آئین میں اس کی ضمانت ہے۔ اظہار آزادی رائے میں پریس کی آزادی بھی شامل ہے۔ آزاد، بے لاگ اور غیر جانب دار خبریں جمہوریت کے لیے بے انتہا ضروری ہوتی ہیں۔ ایک آزاد اور خود مختار پریس، جہاں ملک کے باشندوں کو حالات سے باخبر رکھتا ہے وہیں حکم رانوں کا محاسبہ بھی کرتا ہے اور غلط کاموں سے آگاہ بھی کرتا ہے۔
آئی پی آئی نے سابق میں بھی مودی حکومت کو آزادی صحافت اور صحافیوں کا تحفظ کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی، اور صحافیوں کی حفاظت اور صحافتی آزادی کا خاکہ بھی پیش کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے گزشتہ سال ان میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔ لہٰذا، ایک بار پھر اس نے بہت سے ایسے مسائل کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے جو آزادی صحافت کو مجروح کر رہے ہیں اور صحافیوں کے کام کو آزادانہ اور محفوظ طریقے سے انجام دینے میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور انہیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
مودی حکومت کی پریس کے خلاف قانون سازی:
سرکاری حکام نے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والا ایکٹ، یعنی (یو اے پی اے) انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) ایکٹ اور صحافت اور میڈیا کو سنسر کرنے کے لیے متعدد قوانین اور ضوابط بنائے ہیں جو مبہم اور خطرناک ہیں۔ اب جو کوئی مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، ان کے خلاف انہی مبہم قوانین کا استعمال کیا جارہا ہے۔ سرکاری حکام کا یہ سلسلہ گزشتہ مودی حکومت میں بھی تھا اور اب بھی جاری ہے، یعنی جو کوئی تنقید کرتا ہے اس کو نشانہ بنا کر سزائیں دی جا رہی ہیں۔
جموں و کشمیر میں یو اے پی اے جیسے قانون کے تحت صحافیوں پر کئی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اپریل 2024 تک اس علاقے میں سب سے زیادہ صحافیوں کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں، بڑی عجیب بات ہے کہ یہ علاقہ آبادی کے لحاظ سے ملک کی آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہے لیکن یہاں صحافیوں کو حکومتی ہراسانی کا شدید سامنا ہے، حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنے والے غیر ملکی صحافیوں کو ویزا دینے سے انکار کردیا جاتا ہے یا انہیں اوورسیز سٹیزن آف انڈیا (او سی آئی) کے ویزے کی منسوخی کے ذریعے خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک ایسے ہی معاملے میں آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی ایک صحافی آوانی ڈیاس کو انتخابات سے قبل ملک سے بے دخل کر دیا گیا۔ جب حکام سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب یہ تھا کہ اس نے اپنی رپورٹنگ میں حدیں پار کر دی تھیں۔ ڈیاس کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے خلاف تیس غیر ملکی نامہ نگاروں نے احتجاج کیا اور خط میں لکھا کہ ان کے احتجاج کی پاداش میں ان کے ویزا اور صحافتی اجازت ناموں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ آرٹیکل 14، جو ملک میں قانونی مساوات و حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ہے، اس نے انکشاف کیا ہے کہ او سی آئی والوں کو ہندتو کے خلاف بات کرنے، ملک مخالف سرگرمیوں میں حصہ لینے والے اور نقصان پہنچانے والے پروپیگنڈے کے لیے آواز اٹھانے کا الزام لگا کر انہیں ویزا دینے سے انکار کیا گیا ہے۔
سائبر کرائم قوانین، سنسرشپ کے آلہ کار :
انفارمیشن ٹیکنالوجی ترمیمی قانون 2023، اس قانون کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ کسی بھی آن لائن مواد کو ہٹانے کا حق رکھتی ہے جسے وہ غلط یا گمراہ کن سمجھتی ہے۔ اس قانون کی آڑ میں حکومت کے پاس وسیع اختیارات آجاتے ہیں کہ وہ صحافیوں پر اس کا اطلاق کرے، اس قانون کا صحافیوں پر بڑا گہرا اثر پڑا ہے، کیونکہ اس میں یہ واضح نہیں ہے کہ کون سی بات سنسر کی جائے گی اور اس کے کیا حدود ہوں گے، حکومت جس پر چاہے مقدمہ چلا سکتی ہے، اگر کوئی حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کرتا ہے اور اگر اسے حکومت غلط سمجھتی ہے تو اس کو سنسر کردیا جائے گا اور صحافی یا پورے میڈیا ہاؤز پر مقدمہ چلایا جائے گا، ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو سنسر کر دیا جائے گا اور ان کی ویب سائٹس کو بلاک کر دیا جائے گا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومت نے مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں پر اپنا عتاب نازل کیا ہے ان کے تمام کاموں پر سنسر شپ کی قینچی چلائی گئی ہے۔
انٹرنیٹ کی بندش:
ہمارا ملک دنیا میں سب سے نرالا ہے، دنیا کے کسی ملک اتنی انٹرنیٹ پر پابندی نہیں ہوتی جتنی کہ ہمارے ملک میں ہے۔ ذرا سا مسئلہ ہوا ادھر انٹر نیٹ بند کر دیا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل رائٹس کے ایک گروپ ایکسس ناؤ نے 2023 میں حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ بند کرنے کے کم از کم 116 واقعات درج کیے ہیں۔ اسی گروپ نے 2022 میں 84 واقعات درج کیے تھے۔ یاد رہے کہ انٹرنیٹ پر پابندی کے واقعات میں اضافہ بہت خطرناک ہے۔کیونکہ معلومات کا حاصل کرنا کسی بھی فرد کا بنیادی حق ہے، چاہے وہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ہو یا ہندوستانی قانون کے تحت، معلومات کے حصول کو بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے مطابق معلومات کا حق آئین کے آرٹیکل 19(1) کا ایک لازمی جزو ہے۔
صحافیوں کے کمپیوٹروں یا ان کے آلات پر اسپائی ویئر سے حملے:
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور واشنگٹن پوسٹ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کے پاس واضح ثبوت موجود ہیں کہ کچھ ہندوستانی صحافیوں پر انتہائی جدید اسپائی ویئر "پیگاسس” کے ذریعے حملہ کیا گیا ہے۔ اکتوبر 2023 میں یہ حملے ہوئے تھے۔ یہ کوئی عام حملے نہیں تھے بلکہ یہ بغیر کلک والے حملے یعنی جو لنک آتی ہے اس کو کلک نہ بھی کیا جائے تب بھی وہ اس آلے میں داخل ہوجاتا ہے، ایسے اسپائی ویئر حملے تھے، یہ اسپایی ویئر اتنے خطرناک تھے کہ وہ فون میں پائے جانے والے تمام مواد کو لمحوں میں مٹانے کی صلاحیت رکھتے تھے، یہ حملے صحافیوں کی نگرانی کے لیے کیے گیے تھے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، یہ آزاد صحافت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور ان کی تحقیقاتی رپورٹنگ کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
صحافیوں پر حملے :
ہمارے ملک کو سی پی جے نے گلوبل امپیونیٹی انڈیکس 2023 میں 12ویں بدترین ملک کے طور پر درجہ بندی کی ہے، یعنی ہمارا ملک بھی ان بدترین ممالک کی فہرست میں بارہویں مقام پر ہے جو صحافیوں کے قتل کے معاملات حل نہیں کرتے، یعنی یہاں پر صحافیوں کے قتل کے مقدمات حل ہی نہیں کیے جاتے اور قیل و قال سے کام لیا جاتا ہے۔ صحافیوں پر حملوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں ناکامی سے صحافیوں کے خلاف تشدد میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے مجرموں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ صحافیوں پر ہونے والے ان تمام حملوں کا اور خاص طور پر جو صحافی قتل ہوئے ہیں ان کی جامع جانچ کرائے، نہ صرف جامع جانچ ہو بلکہ شفاف اور قابل اعتماد ججوں سے اس کی تحقیقات کرائی جائیں تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جولائی تا 03 اگست 2024